سیدہ شگفتہ
لائبریرین
جرعہ جرعہ
اردو لائبریری ایک تعارف
۱
اگر رات کو اچانک آنکھ کھل جائے جیسے میری ابھی کھل گئی ہے تو میں یہ سب لکھنے بیٹھ گئی ہوں لیکن ممکن ہےآپ کا لکھنے کو دل ہی نہ کرے بلکہ کوئی کتاب پڑھنے کو دل چاہے اور آپ کے پاس کتاب ہی نہ ہو بلکہ کمپیوٹر ہو اور آپ چاہیں کہ کمپیوٹر پر ہی کوئی کتاب مل جائے ۔ ۔ ۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کسی علمی موضوع پر تحقیق کر رہے ہوں اور کوئی خاص حوالہ درکار ہو اور کہیں سے دستیاب نہ ہو رہا ہو ۔ ۔ ۔
فکشن ہی پسند ہو کچھ اور پڑھنے کو دل نہیں ۔ ۔ ۔
یہ جاننا ہو کہ اُردو کی ابتدائی شکل کیا تھی اور وقت کے ساتھ ارتقاء جیسی اصطلاح نے اردو کے ساتھ کب کیا کیا کُچھ کیا اور کون کون سے رُوپ اسے عطا کیے ۔ ۔ ۔
سنجیدگی سے بیزاری ہے کچھ طنز و مزاح کا پیرایہ چاہیے ۔ ۔ ۔
نام کی پرواہ کیے بغیر چند افراد کو کسی ایک جگہ بے لوث کام کرتے دیکھنا ہو ۔ ۔ ۔
تاریخی حوالوں میں کوئی سرا دھندلا ہو واضح نہیں ہو رہا ہو ۔ ۔ ۔
زندگی کے متنوع موضوعات پر اردو زبان میں متن کا منبع ۔ ۔ ۔
بچوں کو اردو نے کیا دیا ، یا خواتین کی نمائندگی میں کچھ کر دار ادا کیا کہ نہیں ۔ ۔ ۔
علمی و تحقیقی و تاریخی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اردو نمائندہ متون ،
یا پھر کلاسیکل ادب چاہیے
اور شعراء میں صرف غالب کی تلاش ہو
آنے والے وقت میں اردو ڈیجیٹل لائبریری ایسے بہت سے امور کا احاطہ کرے گی ۔
کیسے ۔ ۔ ۔
دیکھیں ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ سوچیں ذرا آپ غالب کے دیوانے ہیں اور غالب سے ملنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن اس دور میں غالب سے آپ ملیں گے کیسے ۔ ۔ ۔ حضرت غالب کو تو بہت جلدی تھی سو وہ دنیا مین آ کے چلے بھی گئے۔ اپنے پیچھے اپنی نشانیاں چھوڑ کر ۔ ۔ ۔ اب ہم آپ بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔ ۔ ۔ پر۔ ۔ ۔ غالب تو گئے۔ ۔ ۔ لیکن غالب بھی کم ہشیار نہیں تھے غالب کو یہ علم غیب ضرور تھا کہ آنے والے وقتوں میں ان کے کیسے کیسے دیوانے آنے ہیں۔ شعراء تو اور بھی بہت ہیں کہ آج تک نام کمایا لیکن غالب کی حساسیت اور ذہانت نے آج تک غالب کو باقی سب سے جدا رکھا ہے ۔ غالب کی خاصیت تھی کہ اس دور میں بھی رسل و رسائل کے ذرایع کو یوں استعمال کیا جیسے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ۔ ۔ ۔ بلکہ غالب کی کمیونیکیشن آج کے دور سے بھی کہیں بہتر تھی۔ جب تک زندہ رہے اپنے اندر تنہائی کا ہجوم پالا ، باہر کی دنیا میں جہان گہما گہمی تخلیق کیے رکھا اور دنیا سے رخصت ہو کے بھی رخصت نہ ہوئے،غالب کے غم بھی نرالے تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ زندگی میں کیا چیز ہو سکتی ہے ، لوگوں کے ہجوم میں اپنی سوچ میں تنہا ہونا اور خدا یہ غم ہر کسی کو دیتا بھی نہیں اور جسے دیتا ہے دل کھول کے دیتا پھر۔۔۔ غم کے ساتھ مکمل زندہ دلی سے جینا غالب کا کام تھا سو غالب نے کیا۔ ۔ ۔ مجھے تو لگتا ہے غالب کو اپنے متنوع رہنے کی بڑی فکر رہی ہوگی کہ مختلف زاویوں سے اردو زبان کو کئی جہات عطا کر دیں تبھی تو عشاقان غالب نے جہاں سے جو بھی غالب کے نام پر دستیاب ہوا محفوظ کرنے پر تُل گئے ۔ ۔ ۔ جس کے ہاتھ میں دیکھیں کوئی نہ کوئی نسخہ غالب کے نام پر لیے کھڑا ہے اب ایک وقت میں کتنے نسخے سنبھالے جائیں۔ ۔۔خاص طور پر اس افراتفری کے دور میں اور ہم اردو لائبریری کے لوگ سب ٹھہرے سہل پسند کہ ایک وقت میں ایک ہی نسخہ ہو جس میں سب کچھ ہو ۔ ۔ ۔ سو طے پایا کہ اردو ویب نسخہ خود ترتیب دے جو دراصل ہو گا تو غالب کا ہی لیکن ذرا سب پہ بھاری کہ سب کچھ اس میں سما جائے۔ یہ رستہ دکھانے کا قصور اعجاز اختر انکل کا تھا اس محاذ پر کمر بستہ ہونے والوں میں اعجاز اختر ، نبیل نقوی ، شمشاد ،شعیب افتخار ، محب علوی ، رضوان اور سیدہ شگفتہ شامل تھے، پھر جویریہ مسعود کا نزول اور ہم سب کو سکون حاصل ہو گیا کہ جویریہ کا کام ہے سو جویریہ کو ہی ساجھے۔ جویریہ سے کوئی پوچھے ، خاتون، آپ کا عقیدہ کیا ہے تو عین ممکن ہے آگے سے فرما دیں ۔ ۔ ۔ غالب
اب بھلے عقیدہ ہو کہ عقیدت کام تو کر ہی ڈالا ہے ، خدا کی قدرت کہ رہتی بھی ایسی جگہ ہیں کہ جہاں ایکو سسٹم بر قرار رکھنے اور درجہ حرارت میں متوازن اتار چڑھاو کے لیے بم دھماکوں کا استعمال عام ہو چلا ہے سو بغیر بتائے منظر سے غائب ہو جاتی ہیں اور مہینوں بعد ابھرتی ہیں تو غالب پر ایک نئی اپڈیٹ ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ۔ ۔ اب نہیں معلوم غالب پر کیا کیا کچھ کر ڈالا ہے۔ ۔ ۔ بہتر ہے اس کی تفصیل خود جویریہ ہی کی زبانی کچھ تو یہاں سے معلوم کر لی جائے ۔ ۔ ۔ اصل مسودہ ابھی ممکن ہے مزید مراحل سے بھی گذرے لیکن جلد ہی لائبریری سائٹ پر جگمگائے گا ۔
وقفہ ۔ ۔ ۔ اگلی قسط آنے تک