جرمنی: خلائی رصدگاہ کے قریب پراسرار دائرے
آج کل جرمن صوبے باویریا میں قائم ایک خلائی رصد گاہ کے قریب بنے ہوئے پُراسرار دائرے ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ انتہائی ترتیب سے بنے یہ جیومیٹریکل دائرے ڈھائی سو فٹ پر محیط ہیں۔
جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے شہر وائلہائم کے قریب گندم کے کھیت میں بنے ان پر اسرار دائروں کے بارے میں خبر اس وقت عام ہوئی جب گزشتہ ہفتے گرم ہوا کے غبارے میں اڑنے والے ایک شخص نے بلندی سے ایک خلائی رصدگاہ کے قریب ایک کھیت میں ان خوبصورت دائروں کا مشاہدہ کیا۔ اس شخص نے ان دائروں کی تصویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر شائع کی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان دائروں کو دیکھنے کے لیے وائلہائم کے قریب واقع اس مقام پر پہنچنا شروع ہو گئے۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں۔ اسی باعث اس مقام پر پہنچنے والے بہت سے لوگ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ 75 میٹر کے دائروی رقبے میں انتہائی درستگی سے بنا یہ ڈیزائن انسانی کارنامہ ہے یا کسی غیر ارضی مخلوق کا۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں
ایسے ہی ایک شخص کا ایک جرمن اخبار ’دی لوکل‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں ہم نے اب تک مہارت حاصل نہیں کی۔‘‘ اس شخص نے خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ ہو سکتا ہے، ’’وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں یہاں پہنچنے والے لوگ نہ صرف گندم کے کھیت میں بنے اس جیومیٹریکل ڈیزائن کو دیکھ رہے ہیں، اسے اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے ہیں بلکہ وہ یہاں ناچ گا بھی رہے ہیں۔
اس کھیت کے مالک کرسٹوف ہٹنر نے کہا کہ یہ دائرے اُس نے نہیں بنائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس طرح کا دائروی ڈیزائن بنانا بہت مشکل ہے اور یہ بہت خوبصورتی کے ساتھ بنا ہوا ہے... مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے بنے۔ کھیت میں کسی قسم کے ٹائروں کے بھی کوئی نشان نہیں ہیں اور نہ ہی اسی طرح کا کوئی اور نشان۔‘‘ کرسٹوف ہٹنر کے بقول ان دائروں کی بدولت اس کی جو گندم ضائع ہوئی ہے، اس کی قیمت چند سو یورو بنتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ آج کل گرمی کی چھٹیاں ہیں، اس لیے شاید یہ طلبہ کے کسی گروپ کا کارنامہ بھی ہو سکتا ہے۔
آج کل جرمن صوبے باویریا میں قائم ایک خلائی رصد گاہ کے قریب بنے ہوئے پُراسرار دائرے ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ انتہائی ترتیب سے بنے یہ جیومیٹریکل دائرے ڈھائی سو فٹ پر محیط ہیں۔
جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے شہر وائلہائم کے قریب گندم کے کھیت میں بنے ان پر اسرار دائروں کے بارے میں خبر اس وقت عام ہوئی جب گزشتہ ہفتے گرم ہوا کے غبارے میں اڑنے والے ایک شخص نے بلندی سے ایک خلائی رصدگاہ کے قریب ایک کھیت میں ان خوبصورت دائروں کا مشاہدہ کیا۔ اس شخص نے ان دائروں کی تصویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر شائع کی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان دائروں کو دیکھنے کے لیے وائلہائم کے قریب واقع اس مقام پر پہنچنا شروع ہو گئے۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں۔ اسی باعث اس مقام پر پہنچنے والے بہت سے لوگ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ 75 میٹر کے دائروی رقبے میں انتہائی درستگی سے بنا یہ ڈیزائن انسانی کارنامہ ہے یا کسی غیر ارضی مخلوق کا۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں
ایسے ہی ایک شخص کا ایک جرمن اخبار ’دی لوکل‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں ہم نے اب تک مہارت حاصل نہیں کی۔‘‘ اس شخص نے خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ ہو سکتا ہے، ’’وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں یہاں پہنچنے والے لوگ نہ صرف گندم کے کھیت میں بنے اس جیومیٹریکل ڈیزائن کو دیکھ رہے ہیں، اسے اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے ہیں بلکہ وہ یہاں ناچ گا بھی رہے ہیں۔
اس کھیت کے مالک کرسٹوف ہٹنر نے کہا کہ یہ دائرے اُس نے نہیں بنائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس طرح کا دائروی ڈیزائن بنانا بہت مشکل ہے اور یہ بہت خوبصورتی کے ساتھ بنا ہوا ہے... مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے بنے۔ کھیت میں کسی قسم کے ٹائروں کے بھی کوئی نشان نہیں ہیں اور نہ ہی اسی طرح کا کوئی اور نشان۔‘‘ کرسٹوف ہٹنر کے بقول ان دائروں کی بدولت اس کی جو گندم ضائع ہوئی ہے، اس کی قیمت چند سو یورو بنتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ آج کل گرمی کی چھٹیاں ہیں، اس لیے شاید یہ طلبہ کے کسی گروپ کا کارنامہ بھی ہو سکتا ہے۔