جرمنی: خلائی رصدگاہ کے قریب پراسرار دائرے

جرمنی: خلائی رصدگاہ کے قریب پراسرار دائرے
0,,17821641_403,00.jpg

آج کل جرمن صوبے باویریا میں قائم ایک خلائی رصد گاہ کے قریب بنے ہوئے پُراسرار دائرے ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ انتہائی ترتیب سے بنے یہ جیومیٹریکل دائرے ڈھائی سو فٹ پر محیط ہیں۔
جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے شہر وائلہائم کے قریب گندم کے کھیت میں بنے ان پر اسرار دائروں کے بارے میں خبر اس وقت عام ہوئی جب گزشتہ ہفتے گرم ہوا کے غبارے میں اڑنے والے ایک شخص نے بلندی سے ایک خلائی رصدگاہ کے قریب ایک کھیت میں ان خوبصورت دائروں کا مشاہدہ کیا۔ اس شخص نے ان دائروں کی تصویر جیسے ہی سوشل میڈیا پر شائع کی تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان دائروں کو دیکھنے کے لیے وائلہائم کے قریب واقع اس مقام پر پہنچنا شروع ہو گئے۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں۔ اسی باعث اس مقام پر پہنچنے والے بہت سے لوگ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ 75 میٹر کے دائروی رقبے میں انتہائی درستگی سے بنا یہ ڈیزائن انسانی کارنامہ ہے یا کسی غیر ارضی مخلوق کا۔
گندم کے کھیت میں نمودار ہونے والے یہ دائرے ’ریسٹنگ سیٹلائٹ ارتھ اسٹیشن کمیونیکیشن فیسلٹی‘ کے قریب نمودار ہوئے ہیں
ایسے ہی ایک شخص کا ایک جرمن اخبار ’دی لوکل‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں ہم نے اب تک مہارت حاصل نہیں کی۔‘‘ اس شخص نے خیال ظاہر کیا کہ شاید یہ کسی خلائی مخلوق کا کارنامہ ہو سکتا ہے، ’’وہ ہمیں دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں ہیں اور آپ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں یہاں پہنچنے والے لوگ نہ صرف گندم کے کھیت میں بنے اس جیومیٹریکل ڈیزائن کو دیکھ رہے ہیں، اسے اپنے کیمروں میں محفوظ کر رہے ہیں بلکہ وہ یہاں ناچ گا بھی رہے ہیں۔
اس کھیت کے مالک کرسٹوف ہٹنر نے کہا کہ یہ دائرے اُس نے نہیں بنائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس طرح کا دائروی ڈیزائن بنانا بہت مشکل ہے اور یہ بہت خوبصورتی کے ساتھ بنا ہوا ہے... مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیسے بنے۔ کھیت میں کسی قسم کے ٹائروں کے بھی کوئی نشان نہیں ہیں اور نہ ہی اسی طرح کا کوئی اور نشان۔‘‘ کرسٹوف ہٹنر کے بقول ان دائروں کی بدولت اس کی جو گندم ضائع ہوئی ہے، اس کی قیمت چند سو یورو بنتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چونکہ آج کل گرمی کی چھٹیاں ہیں، اس لیے شاید یہ طلبہ کے کسی گروپ کا کارنامہ بھی ہو سکتا ہے۔
 
شاید یہ کسی سائنسی تجربے کا نتیجہ ہو۔
جو گندم غائب ہوئی ہے وہاں کی زمین کے تجزئیے سے بہتر نتیجہ نکل سکتا ہے کہ یہ دائرے کیسے بنے؟ وہ گندم جلائی گئی یا کاٹی گئی؟ یا آگ لگے بغیر کسی کیمیکل سے ضائع ہوئی؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
سائنسی تجربہ ایسی نفاست سے دائرہ کیسے بنا پائے گا۔ یہ دائرے پہلے بھی بے شمار جگہ نمودار ہوتے رہے ہیں۔ بے شمار لوگوں کا خیال یہی ہے کہ یہ کسی خلائی مخلوق کے کارنامے ہیں لیکن بہت دفعہ متاثرہ علاقے کے مکینوں نے یہ دائرے خود بھی بنا کر دکھائے ہیں۔ ان بیشتر دائروں میں فصل کاٹی نہیں بلکہ ایک ترتیب سے بچھا دی جاتی ہے جیسا کہ آپ کی شیئر کردہ تصویر کو بھی بغور دیکھنے سے اندازہ ہو جائے گا۔
 
سائنسی تجربہ ایسی نفاست سے دائرہ کیسے بنا پائے گا۔ یہ دائرے پہلے بھی بے شمار جگہ نمودار ہوتے رہے ہیں۔ بے شمار لوگوں کا خیال یہی ہے کہ یہ کسی خلائی مخلوق کے کارنامے ہیں لیکن بہت دفعہ متاثرہ علاقے کے مکینوں نے یہ دائرے خود بھی بنا کر دکھائے ہیں۔ ان بیشتر دائروں میں فصل کاٹی نہیں بلکہ ایک ترتیب سے بچھا دی جاتی ہے جیسا کہ آپ کی شیئر کردہ تصویر کو بھی بغور دیکھنے سے اندازہ ہو جائے گا۔
یہ تو سائنسی تجربے پر منحصر ہے کہ ایسے دائرے کیسے بنیں گے :)
لیکن کھیت کے مالک کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ دائرے کیسے بنے۔
ایسے کسی اور دائرے کے بارے میں آپ کے پاس تفصیل ہے تو ضرور شریک کریں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ تو سائنسی تجربے پر منحصر ہے کہ ایسے دائرے کیسے بنیں گے :)
لیکن کھیت کے مالک کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ یہ دائرے کیسے بنے۔
ایسے کسی اور دائرے کے بارے میں آپ کے پاس تفصیل ہے تو ضرور شریک کریں۔
میں ایک ایسی ہی کتاب کے ایک حصے کا ترجمہ کر کے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
Bill Bryson کی کتاب A short history of nearly everything سے اقتباس

اگر پلوٹو ایک سیارہ ہے بھی تو بہت عجیب سیارہ ہے۔ اس کا حجم انتہائی مختصر ہے۔ اس کی کمیت زمین کے ایک فیصد کا بھی چوتھائی ہے۔ اگر آپ پلوٹو کو نقشے پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر رکھ دیں تو محض نچلی نصف ریاستیں بھی نہیں چھپ پائیں گی۔ اسی وجہ سے بھی پلوٹو انتہائی عجیب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی میں سورج کے قریب چار سیارے چٹانوں سے بنے ہیں اور باہر والے چار سیارے گیسی دیو اور پھر ایک برفانی بونا سیارہ پلوٹو۔ اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ پلوٹو کے آس پاس کے علاقے سے ہمیں اسی حجم یا اس سے بھی بڑے مزید اجرام فلکی ملنا شروع ہو جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو مسائل بڑھنے لگ جائیں گے۔ جب کرسٹی نے پلوٹو کے چاند کو دریافت کیا تو فلکیات دانوں نے اس حصے پر توجہ مرکوز کر لی اور 2002 کے اوائل تک دریافت ہونے والے ٹرانس نیپچونین یا پلوٹونین اجسام کی تعداد 600 سے زیادہ ہے۔ ان میں سے ایک جس کا نام ورونا ہے، پلوٹو کے چاند جتنا بڑا ہے۔ فلکیات دانوں کے خیال میں اس جگہ ایسے اربوں اجسام موجود ہو سکتے ہیں۔ انہیں تلاش کرنے میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ یہ بہت تاریک ہیں۔ عام طور پر ان کی روشنی کو منعکس کرنے کی صلاحیت محض چار فیصد ہوتی ہے جو کوئلے کے برابر ہے۔ تاہم کوئلے کے یہ ڈھیر ہم سے تقریباً 4 ارب میل دور ہیں۔
اب یہ چار ارب میل کتنا طویل فاصلہ ہے، شاید ہمارے گمان سے بھی باہر ہو۔ خلاء انتہائی وسیع ہے۔ اپنی سہولت کے لئے چلیں، فرض کر لیتے ہیں کہ ہم راکٹ پر سوار ہو کر سیر کرنے نکلتے ہیں۔ ہم نے زیادہ دور نہیں جانا، بس اپنے نظامِ شمسی کے کنارے تک جائیں گے۔
سب سے پہلے ایک بری خبر۔ ہماری واپسی اتنی جلدی نہیں ہو سکے گی۔ روشنی کی رفتار سے چلتے ہوئے بھی ہمیں پلوٹو تک پہنچنے میں 7 گھنٹے لگیں گے۔ ظاہر ہے کہ ہم راکٹ پر بیٹھ کر روشنی جتنی رفتار سے تو سفر کرنے سے رہے۔ آج تک انسانی بنائی ہوئی کسی بھی مشین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 35000 میل فی گھنٹہ ہے جو وائجر اول اور وائجر دوم کی ہے۔
اگست اور ستمبر 1977 کو دونوں وائجروں کے روانہ کرنے کے پیچھے یہ امر تھا کہ ہر 175 سال بعد مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون ایک ہی قطار میں آ جاتے ہیں۔ گریوٹی اسسٹ نامی تکنیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلائی جہازوں کی رفتار بہت زیادہ حد تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان خلائی جہازوں کو یورینس تک پہنچنے میں 9 اور پلوٹو کے مدار کو عبور کرنے میں 12 سال لگ گئے۔ 2006 میں ناسا کا خلائی مشن "نیو ہورائزنز" بھیجا جائے گا جو اجرام فلکی کے مقامات اور کچھ نئی تکنیکوں کی بدولت پلوٹو تک محض 10 سال کے عرصے میں پہنچ جائے گا۔ تاہم واپسی کا سفر اسے کہیں زیادہ طویل ہوگا۔
یہ بات یاد رکھیئے کہ خلاء میں مقامات کے نام بے شمار ہیں لیکن حقیقت میں کچھ خاص نہیں ہوتا۔ کھربہا میل تک ہمارا نظامِ شمسی شاید واحد نظام ہو۔ تاہم دکھائی دینے والے تمام اجسام بشمول سورج، سیارے، چاند، دمدار ستارے، شہابیئے اور دیگر تمام اجسام مل ملا کر بھی اس سارے رقبے کے ایک کھربویں حصے سے بھی کم جگہ گھیرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی سمجھ آئے گی کہ کلاس رومز میں دکھائے جانے والے نقشے انتہائی حد تک غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ ان نقشوں میں آپ کو سیارے ایک کے بعد ایک قریب قریب دکھائے جاتے ہیں۔ گیسی دیو تو اتنے قریب ہوتے ہیں کہ ان کا سایہ ایک دوسرے پر پڑ رہا ہوتا ہے۔ تاہم یہ سب محض ایک دھوکا ہے یا آپ اسے مصلحت پسندی سمجھ لیں تاکہ سارے سیارے ایک ہی کاغذ پر دکھائے جا سکیں۔ نیپچون دراصل مشتری کے فوراً بعد نہیں بلکہ اتنا دور ہے کہ یہ فاصلہ زمین اور مشتری کے درمیانی فاصلے سے پانچ گنا زیادہ بڑا ہے۔ یہ اتنا دور ہے کہ اسے مشتری کی نسبت سورج کی روشنی کا محض تین فیصد حصہ ملتا ہے۔
اب اتنے بڑے فاصلے کو آپ جب نقشے پر دکھانا چاہیں تو ظاہر ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ چاہے اس کے لئے آپ اضافی صفحات استعمال کریں یا پھر ایک بہت لمبے صفحے کو تہہ در تہہ لگائیں۔ اگر آپ حقیقت پر مبنی نظامِ شمسی کا نقشہ بنانا چاہیں تو فرض کریں کہ زمین مٹر کے دانے کے برابر ہو تو مشتری ایک ہزار فٹ دور ہوگا جبکہ پلوٹو زمین سے ڈیڑھ میل دور ہوگا اور اس کا حجم محض ایک بیکٹیریا جتنا ہوگا اور دیکھنے کے لئے خوردبین استعمال کرنی ہوگی۔ اسی پیمانے کے مطابق ہمارا نزدیک ترین ستارہ یعنی قنطورس اول زمین سے تقریباً10،000 میل دور ہوگا۔ اگر ہم مشتری کو ایک چھوٹے نقطے کے برابر سمجھ لیں تو پلوٹو کا سائز ایک مالیکیول جتنا رہ جائے گا جو زمین سے 35 فٹ دور ہوگا۔
آپ کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ نظامِ شمسی کتنا وسیع ہے۔ جب ہم پلوٹو تک پہنچیں گے تو ہم سورج سے اتنا دور پہنچ چکے ہوں گے کہ سورج ایک نقطہ دکھائی دے گا۔ یعنی عام روشن ستاروں سے ذرا سا بڑا۔ اب آپ کو اندازہ ہوگا کہ پلوٹو کے چاند جیسی اہم چیز کو دریافت کرنے میں اتنا وقت کیسے لگ گیا۔ اس معاملے میں پلوٹو واحد مثال نہیں۔ وائجر سے قبل فلکیات دانوں کے خیال میں نیپچون کے دو چاند تھے۔ وائجر نے چھ مزید دریافت کیے۔ جب میں بچہ تھا تو ہمارے نظامِ شمسی میں کل 30 معلوم چاند تھے اور آج یہ تعداد کم از کم 90 تک جا پہنچی ہے اور تقریباً ایک تہائی چاند تو پچھلی دہائی میں ہی دریافت ہوئے ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب ہم کائنات کے مشاہدے کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی میں کیا موجود ہے۔
پلوٹو کے پاس سے گذرتے ہوئے آپ کو بس یہی محسوس ہوگا کہ آپ انتہائی تیزی سے پلوٹو کے پاس سے گذر رہے ہیں۔اگر آپ اپنی منزل یعنی نظامِ شمسی کے اختتام تک جانا چاہتے ہیں تو ابھی اس کو بہت دیر ہے۔ ہمارے سکول کے نقشوں کے مطابق پلوٹو ہمارے نظامِ شمسی کا آخری سیارہ سہی لیکن نظام ِ شمسی یہاں ختم نہیں ہو رہا۔ جب تک ہم آوارہ پھرتے ہوئے دمدار ستاروں سے بھرے اوورت بادل تک نہیں پہنچتے، تب تک ہم نظامِ شمسی کے سرے سے بہت دور ہیں۔ سکول کے نقشوں کے برعکس سورج سے پلوٹو کا فاصلہ، نظامِ شمسی کے کنارے کے فاصلے کے ایک فیصد کا بھی 50،000 واں حصہ ہے۔
ظاہر ہے کہ اتنا لمبا سفر فرض کرنا بھی ممکن نہیں۔ 2،40،000 میل کا چاند کا سفر آج بھی ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر بش نے جب مریخ پر انسان بردار مشن بھیجنے کا منصوبہ ظاہر کیا تو پتہ چلا کہ اس سارے مشن پر 450 ارب ڈالر کا خرچہ ہوگا اور عین ممکن ہے کہ سارا عملہ شدید تابکاری (شمسی تابکاری کی وجہ سے ان کا ڈی این اے تباہ ہوگا کیونکہ اس سے بچاؤ ممکن نہیں تھا) کی وجہ سے راستے میں ہی مر جائے۔ یوں یہ منصوبہ چپ چاپ دفن کر دیا گیا۔
ہمارے موجودہ علم اور عقل کے مطابق کسی انسان کے لئے نظامِ شمسی کے کنارے کا سفر ممکن ہی نہیں ہے۔ ہبل خلائی دوربین کی مدد سے بھی ہم اوورت بادل کو نہیں دیکھ سکتے۔ یہ محض ایک سائنسی نظریہ ہے کہ یہ بادل وہاں موجود ہے۔
ہمیں محض اتنا علم ہے کہ اوورت بادل پلوٹو کے بعد کسی جگہ سے شروع ہوتا ہے اور دو نوری میل جتنے فاصلے تک پھیلا ہوا ہے۔ نظامِ شمسی میں فاصلے کی پیمائش کے لئے ہم فلکیاتی اکائی یا آسٹرانومیکل یونٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک فلکیاتی اکائی سورج سے زمین کا فاصلہ ظاہر کرتی ہے۔ پلوٹو ہم سے 40 فلکیاتی اکائی دور ہے جبکہ اوورت بادل کا مرکز ہم سے 50،000 فلکیاتی اکائی دور ہے، یعنی بہت زیادہ دور۔
کچھ دیر کو فرض کر لیں کہ ہم اوورت بادل تک پہنچ گئے ہیں۔ پہلی چیز جو آپ محسوس کریں گےیہاں بہت سکون ہے۔ ہمارا سورج اب آسمان پر چمکتا سب سے روشن ستارہ نہیں رہا۔ تاہم اتنا دور واقع یہ روشنی کا چھوٹا سا نقطہ اتنی کشش رکھتا ہے کہ اس نے سارے نظامِ شمسی بشمول ستاروں کو اپنے گرد مداروں میں جمع کر رکھا ہے۔ تاہم یہ کوئی بہت زیادہ طاقتور کشش نہیں اس لئے دمدار ستارے یہاں محض 220 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ ہلکا سا بھی خلل جو کسی پاس سے گذرنےو الے ستارے سے پیدا ہو، ان دمدار ستاروں کو ان کے مدار سے نکال دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ دمدار ستارے نظامِ شمسی سے باہر اور بعض اوقات نظامِ شمسی کے وسط کا رخ کر تے ہیں۔ ہر سال تین یا چار ایسے دمدار ستارے نظامِ شمسی کے مرکز سے گذرتے ہیں۔ انہیں لانگ ٹرم یا طویل المدتی دمدار ستارے بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے بھی کوئی کوئی دمدار ستارہ کسی ٹھوس جسم مثلاً زمین سے آن ٹکراتا ہے۔ تاہم اوورت بادل سے نظامِ شمسی کے وسط تک پہنچنے میں انہیں 30 سے 40 لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔
ہمارے نظامِ شمسی سے پرے کیا ہے؟ بہت کچھ یا کچھ بھی نہیں۔
مختصراً، کچھ بھی نہیں۔ انسان کی بنائی ہوئی بہترین خلاء بھی اتنی خالص نہیں جتنی کہ ستاروں کے درمیان موجود خلاء ہے۔ انتہائی طویل فاصلے تک کچھ بھی نہیں اور پھر جا کر کچھ دکھائی دے گا۔ پوری کائنات میں ہم سے نزدیک ترین بیرونی ستارہ قنطورس اول ہے جو تین ستاروں کے جھرمٹ الفا سنچوری میں واقع ہے۔ اس کا فاصلہ زمین سے 4.3 نوری سال ہے جو کائناتی پیمانے پر انتہائی معمولی فاصلہ ہے۔ تاہم یہ فاصلہ زمین سے چاند کے درمیانی فاصلے سے تقریباً 10 کروڑ گنا زیادہ ہے۔ خلائی جہاز پر جاتے ہوئے ہمیں 25000 سال لگیں گے اور پھر بھی ہم محض تنہا تین ستاروں کے جھرمٹ تک جا پہنچیں گے۔ اگلے ستارے سیرئیس تک پہنچنے میں ہمیں مزید 4.6 نوری سال لگیں گے۔ اسی طرح ستاروں سے ہوتے ہوئے ہماری کہکشاں کے مرکز تک کا فاصلہ اس سے کہیں زیادہ وقت میں طے ہوگا جتنے وقت بنی نوع انسان کو اس زمین پر آئے ہوئے ہوا ہے۔
بات کو دہراتا ہوں کہ خلاء انتہائی وسیع ہے۔ ستاروں کے درمیان اوسط فاصلہ 2000 کھرب میل ہے۔ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے بھی یہ فاصلے انتہائی طویل ہیں۔ اب یہ بات ممکن تو ہے کہ اربوں میل دور سے خلائی مخلوق زمین پر کراپ سرکل بنانے آئے یا کسی سنسان جگہ پر کسی اکیلے انسان کو اغوا کر لے (ظاہر ہے کہ خلائی مخلوق میں بھی شریر بچے ہوتے ہوں گے) لیکن اس کو عقل نہیں مانتی۔
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
مجھے زیادہ حیرانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ پاکستان میں یو ٹیوب بلاک ہے لیکن پھر بھی میں یہ وڈیو دیکھ پایا ہوں۔ دوسری ٹیب میں یوٹیوب اوپن کرنے پر ایکسیس ڈینائیڈ ہی لکھا آ رہا ہے۔ یہ کیا گورکھ دھندہ ہے o_O
 
مجھے زیادہ حیرانی اس بات پر ہو رہی ہے کہ پاکستان میں یو ٹیوب بلاک ہے لیکن پھر بھی میں یہ وڈیو دیکھ پایا ہوں۔ دوسری ٹیب میں یوٹیوب اوپن کرنے پر ایکسیس ڈینائیڈ ہی لکھا آ رہا ہے۔ یہ کیا گورکھ دھندہ ہے o_O
جو سرکاری سرور جو یوٹیوب کو بلاک کر رہا ہے اس کی پروگرامنگ میں کمزوری ہے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
جو سرکاری سرور جو یوٹیوب کو بلاک کر رہا ہے اس کی پروگرامنگ میں کمزوری ہے۔
قیصرانی برادر کی شیئر کی گئی یو ٹیوب ویڈیو میں نیچے کی جانب دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا یوٹیوب کا آئیکون نظر آ رہا ہے جو کرسر اوپر لانے پر کلرفل ہو جاتا ہے۔ اس پر کلک کریں تو ویڈیو ایک نئی ٹیب میں اوپن ہو جاتی ہے اور چلنے لگ جاتی ہے لیکن جب میں کروم کی ایڈریس بار میں یوٹیوب ڈاٹ کام لکھ کر اینٹر کرتا ہوں تو ایکسیس ڈینائڈ آ جاتا ہے۔ آپ کے مطابق اگر یہ سرور کی خرابی ہے اور مستقل ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔۔
 

اوشو

لائبریرین
فصلوں میں بننے والی یہ دائروی اشکال سالوں سے ایک معمہ ہیں۔ اس کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں جیسا کہ حاتم راجپوت جی نے کہا۔ کچھ اسے خلائی مخلوق کی کارستانی مانتے ہیں جبکہ کچھ کچھ اسے منچلوں کی شرارت جب کہ کچھ سائنسی تجربے۔۔۔۔
ان پر ایک فلم بھی تھی شاید بروس ولس کی سکستھ سینس ۔
ان کے ڈیزائن بہت زبردست ہوتے ہیں۔ جیومیٹریکل ڈیزائننگ کی ایک عمدہ مثال زیادہ تر دائروی شکل میں۔
میں نے اپنے کئی ڈیزائنز کی انسپائریشن ان سے لی ہے :p
کچھ تصاویر میری طرف سے بھی

Crop-Circles-08.jpg


Crop-Circles-03.jpg


cropcircleoimrgierjgijiw4gj04g_thumb.jpg


Crop_circles_oil_painting_15.jpg


Crop-circle-at-Northdowns-007.jpg


specsavers-crop-circles.jpg


Crop_circles_Swirl.jpg
 

اوشو

لائبریرین
قیصرانی جی !
آپ کا مراسلہ حالانکہ اس موضوع سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتا۔ لیکن بہت زبردست اور معلوماتی مراسلہ ہے۔ ایسی زبردست چیزیں شیئر کرتے رہا کریں۔
میں منتظر رہوں گا۔
ممکن ہو تو ویڈیو کا کوئی اور لنک لگا دیں تاکہ ہمارے جیسے نمانے جو یوٹیوب کے فوائد سے بہرہ مند ہونے سے قاصر ہیں انہیں بھی کچھ افاقہ ہو :)
خوش رہیں۔ :)
 

اوشو

لائبریرین
قیصرانی برادر کی شیئر کی گئی یو ٹیوب ویڈیو میں نیچے کی جانب دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا یوٹیوب کا آئیکون نظر آ رہا ہے جو کرسر اوپر لانے پر کلرفل ہو جاتا ہے۔ اس پر کلک کریں تو ویڈیو ایک نئی ٹیب میں اوپن ہو جاتی ہے اور چلنے لگ جاتی ہے لیکن جب میں کروم کی ایڈریس بار میں یوٹیوب ڈاٹ کام لکھ کر اینٹر کرتا ہوں تو ایکسیس ڈینائڈ آ جاتا ہے۔ آپ کے مطابق اگر یہ سرور کی خرابی ہے اور مستقل ہے تو اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔۔

مجھے تو آئی کون نظر نہیں آ رہا :(
 
فصلوں میں بننے والی یہ دائروی اشکال سالوں سے ایک معمہ ہیں۔ اس کے بارے میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں جیسا کہ حاتم راجپوت جی نے کہا۔ کچھ اسے خلائی مخلوق کی کارستانی مانتے ہیں جبکہ کچھ کچھ اسے منچلوں کی شرارت جب کہ کچھ سائنسی تجربے۔۔۔۔
ان پر ایک فلم بھی تھی شاید بروس ولس کی سکستھ سینس ۔
ان کے ڈیزائن بہت زبردست ہوتے ہیں۔ جیومیٹریکل ڈیزائننگ کی ایک عمدہ مثال زیادہ تر دائروی شکل میں۔
میں نے اپنے کئی ڈیزائنز کی انسپائریشن ان سے لی ہے :p
کچھ تصاویر میری طرف سے بھی

Crop-Circles-08.jpg


Crop-Circles-03.jpg


cropcircleoimrgierjgijiw4gj04g_thumb.jpg


Crop_circles_oil_painting_15.jpg


Crop-circle-at-Northdowns-007.jpg


specsavers-crop-circles.jpg


Crop_circles_Swirl.jpg

اوشو جی زبردست تصاویر ہیں۔:thumbsup:
ہو سکتا ہے یہ دائرے نما نشانات خلائی مخلوق کی فوڈ کمپنیوں کے لوگو ہوں ، کیونکہ زیادہ تر فصلوں پر پر ہی ابھرتے ہیں۔۔ :cool2:
ویسے فصلوں کے علاوہ بھی کبھی کسی جگہ پرنمودار ہوئے ہیں ؟
 
Top