سید زبیر
محفلین
فرحت کیانی ، حسیب نذیر گِل
ا
-
جسٹس ایم آر کیانی ؛ لسان پاکستان
بہت کم لوگوں نے انفرادی حیثیت سے ایسے اقدامات کئے جس نے عدلیہ کی آزادی کے تصور کو جنم دیا اس حوالے سے جسٹس محمد رستم کیانی کا نام سرفہرست ہے۔جسٹس کیانی نے جس منفرد انداز سے ایوب خان کے مارشل لا کی قانونی سطح پر مزاحمت کی اور انسانی حقوق کی حفاظت کی وہ تاریء کا حصہ ہیں
جسٹس رستم کیانی ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۲ کو کوہاٹ کے نواحی علاقے شاہ پور میں پیدا ہوئے والد کا نام خان بہادر عبدالصمد خان تھا اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ سے میٹرک کرنے کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور سے ایف اے کیا جس کے بعد مزید تعلیم کے لی گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی ۱۹۳۰ میں انڈین سول سروس سے منسلک ہوئے آٹھ سال تک انتظامی عہدوں پر رہنے کے بعد ۱۹۳۸ میں عدلیہ میں شامل ہو گئے ۔ آپ پنجاب کے سیکرٹری قانون بھی رہے ۱۹۴۹ میں پنجاب ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے جب ایوب خان نے اکتوبر انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء نافذ کیا تو جسٹس ایم آر(محمد رستم ) کیانی مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔آپ ۱۹۵۸ سے ۱۹۶۲ تک مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ آپ نے اپنے فیصلوں میں ہمیشہ ایوب خاں کی حکومت پر کڑی تنقید کی اسی وجہ سے ان کی سپریم کورٹ میں تقرری کی بجائے ۱۹۶۲ میں ریٹائر کردیا گیا ۔آپ کے برجستہ جملے اور مزاح کے انداز بہت مشہور تھے ان کی تقاریرکے مختلف مجموعے پورا سچ ،آدھا سچ ،جج بھی ہنس سکتا ہے اورافکار پریشاں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ہارون کیانی نے شائع کرائے
۱۹۶۱ میں گورنمنٹ کالج کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا " بحث مباحثہ اچھا ہے مگر پر تکلف کھانا اس سے بہتر مگر سب سے بہترین کتاب ہے اگر آپ اچھا لباس پہنتے ہیں تو آپ کا جسم دلکش نظر آتا ہے مگر جب آپ اچھا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت دل کش بنتی ہے میں آپ کی ریٹائر منٹ کے موقعے پر اہلیان لاہور نے آپ کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا اور آپ کو "لسان پاکستان " { پاکستان کی آواز} کا خطاب دیا ،آپ نے جواب میں کہا کہ ان کے لیے یہ اعزاز نشان پاکستان سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ان کے مزاح کا مقصد قوم کا اس مایوسی کے دور میں مورال بلند رکھنا رہا ہے۔۸ نومبر ۱۹۶۲ میں کراچی کے شہریوں کی جانب سے دئیے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے صدر ایوب کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حکومت قانونی شعبہ میں ایسے اقدامات کرنا چاہ رہی ہے جس سے ہائی کورٹ کی حیثیت ختم ہو جائے وہ اسے سامراجی نظام میں ڈھالنا چاہ رہے ہیں بغیر سامراجی نظام کو سمجھے۔ جسٹس کیانی کے دلیرانہ فیصلوں اور بے داغ کردار کی وجہ سے وہ خواص و عوام میں مقبول تھے
حس مزاح سے قدرت نے انھیں خوب نوازا ، ان کا مزاح حکمرانوں کو بہت چبھتا تھا ۔ ا یوب خان نے اپنے دست راست قدرت اللہ شہاب کو جسٹس کیانی کو کسی طرح قابو کرنے کو کہا قدرت اللہ شہاب نے اگلے ہی دن ایک تعلیمی ادارے میں تقریر کرتے ہوئے جسٹس کیانی کو مخاطب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ عدلیہ کے لبادے میں رہتے ہوئے تنقید کی بجائے بہتر ہوگا کہ چیف جسٹس کیانی اپنے عہدے سے استعفا دے کر سیاست مين ایوب خان کا مقابلہ کریں ۔
سادگی ان کی شخصیت کا اہم جزو تھی باغبانی سے انہیں لگاوتھإٍ ایک دفعہ وہ چیف جسٹس ہاوس کے باہر لگی ہوئی باڑھ کی تراش خراش کر رکہے تھے کہ ایک بیوروکریٹ گاڑی چلاتا ہوا ان کے پاس آیا اور پوچھا " مالی ، کیا تم چیف سیکرٹری کا گھر جانتے ہو " جسٹس کیانی نے بتا دیا بعد میں ایک استقبالیہٍ میں جب ایک دوسرے بیورو کریٹ نے اس سے چیف جسٹس کو متعارف کرایا تو چیف جسٹس نے کہاا میرا خیال ہے ہم پہلے بھی مل چکے ہیں بیورو کریٹ کی شرمندگی کےمارے بہت بری حالت تھی۔
۱۹۶۰ کا ذکرہے جسٹس رستم کیانی چیف جسٹس مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور کے جج کی حیثیت سے لاہور میں تھے۔حسب روائت عید کے موقعہ پر دو عیدوں کا تنازعہ کھڑا ہو گیا ۔حکومت نے جس دن عید کا اعلان کیا تھا مقامی علما نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ عید کی نماز کے لیے رستم کیانی مرحوم پنجاب یونیورسٹی گراونڈ پہنچے تو وہاں بھی لوگ پیش امام صاحب کو نماز پڑھانے کے لیے آمادہ کر نے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ کسی طور راضی نہ ہوئے ۔ رستم کیانی آگے بڑھے نماز پڑھائی اور عید کا خطبہ دی
لاہور میں ٹی وی کے صحافیوں اور انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پریس قوم کا اہم جزو ہوتا ہے آج کی حکومت ایک زہر ہے ۔اس طرح ایک فرد کی خواہش دوسرے کے لیے زہر بن جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیاکہ ہر دوائی پر زہر ا لیبل لگا دیا جائے ۔آزادی صحافت ملک آف میگنیشیا نہیں یہ تو بار ایسوسی ایشن کو میں کہتا ہوں،صحافت تو آرسینک قسم کا ایک ٹانک ہے جسے مناسب مقدار میں دوائی کی طرح لیا جائے تو صحیح ورنہ یہ آزادی زہر بن جاتی ہے ۔ میں پریس کے بارے میں یہ کہوں گا پریس کو پریس نہیں کرنا چاہئیے نہ حکومت پریس کو دباو میں لائے اور نہ پریس حکومت کو دباو میں لائے۔
نومبر ۱۹۶۲ میں ڈھاکہ ، چٹا گانگ ، راجشاہی کی بار ایسوسی ایشنز کی دعوت پر مشرقی پاکستان گئے ۱۵ نومبر ۱۹۶۲ کو راجشاہی کے شہریوں کی جانب سے دئیے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرنا تھا کہ اس سے قبل سرکٹ ہاوس میں آپ کا انتقال ہو گیا ان کی تقریر کا نا مکمل مسودہ آپ کی میز پر پڑا ہوا تھا انتقال سے قبل انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کی تقریر ایک یادگار تقریر ہوگی اس تقریر میں انہوں نے کہنا تھا " اگر جرائم میں اضافہ ہی مارشل لا کا موجب ہے تو نوے فیصد عوام بالکل معصوم اور بے گناہ ہے ان کو کیوں دبایا جارہا ہے ۔اور اگر مارشل لا کا سبب سیاستدانوں کی غلط حرکات ہیں پابند کیے گئے سیاستدانوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے ۔مگر وہ یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ چند افراد کے جرائم کی سزا پوری قوم کو کیوں دی جارہی ہے ۔انتقال کے وقت راجشاہی سرکٹ ہاوس میں ان کے سامان میں ایک سوٹ سوٹ کیس ، ایک شیفرڈ پین ،۲۹ روپے ، اور جہاز کے دو ٹکٹ تھے ۔آپ کا جسدخاکی پی آئی اے کے ذریعے کراچی پہنچی جہاں سے پاک فضائیہ کے طیارے میں میت کوہاٹ لائی گئی ان کوان کے آبائی گاوں شاہ پور میں سپرد خاک کیا گیا ۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔