جسٹس ایم آر کیانی ؛ لسان پاکستان

سید زبیر

محفلین
فرحت کیانی ، حسیب نذیر گِل
ا​
-​
جسٹس ایم آر کیانی ؛ لسان پاکستان
بہت کم لوگوں نے انفرادی حیثیت سے ایسے اقدامات کئے جس نے عدلیہ کی آزادی کے تصور کو جنم دیا اس حوالے سے جسٹس محمد رستم کیانی کا نام سرفہرست ہے۔جسٹس کیانی نے جس منفرد انداز سے ایوب خان کے مارشل لا کی قانونی سطح پر مزاحمت کی اور انسانی حقوق کی حفاظت کی وہ تاریء کا حصہ ہیں​
جسٹس رستم کیانی ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۲ کو کوہاٹ کے نواحی علاقے شاہ پور میں پیدا ہوئے والد کا نام خان بہادر عبدالصمد خان تھا اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ سے میٹرک کرنے کے بعد ایڈورڈ کالج پشاور سے ایف اے کیا جس کے بعد مزید تعلیم کے لی گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی ۱۹۳۰ میں انڈین سول سروس سے منسلک ہوئے آٹھ سال تک انتظامی عہدوں پر رہنے کے بعد ۱۹۳۸ میں عدلیہ میں شامل ہو گئے ۔ آپ پنجاب کے سیکرٹری قانون بھی رہے ۱۹۴۹ میں پنجاب ہائی کورٹ کے جج تعینات ہوئے جب ایوب خان نے اکتوبر انیس سو اٹھاون میں مارشل لاء نافذ کیا تو جسٹس ایم آر(محمد رستم ) کیانی مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے۔آپ ۱۹۵۸ سے ۱۹۶۲ تک مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ آپ نے اپنے فیصلوں میں ہمیشہ ایوب خاں کی حکومت پر کڑی تنقید کی اسی وجہ سے ان کی سپریم کورٹ میں تقرری کی بجائے ۱۹۶۲ میں ریٹائر کردیا گیا ۔آپ کے برجستہ جملے اور مزاح کے انداز بہت مشہور تھے ان کی تقاریرکے مختلف مجموعے پورا سچ ،آدھا سچ ،جج بھی ہنس سکتا ہے اورافکار پریشاں ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے ہارون کیانی نے شائع کرائے
۱۹۶۱ میں گورنمنٹ کالج کے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا " بحث مباحثہ اچھا ہے مگر پر تکلف کھانا اس سے بہتر مگر سب سے بہترین کتاب ہے اگر آپ اچھا لباس پہنتے ہیں تو آپ کا جسم دلکش نظر آتا ہے مگر جب آپ اچھا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت دل کش بنتی ہے میں آپ کی ریٹائر منٹ کے موقعے پر اہلیان لاہور نے آپ کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا اور آپ کو "لسان پاکستان " { پاکستان کی آواز} کا خطاب دیا ،آپ نے جواب میں کہا کہ ان کے لیے یہ اعزاز نشان پاکستان سے زیادہ عزیز ہے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ان کے مزاح کا مقصد قوم کا اس مایوسی کے دور میں مورال بلند رکھنا رہا ہے۔۸ نومبر ۱۹۶۲ میں کراچی کے شہریوں کی جانب سے دئیے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے صدر ایوب کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ حکومت قانونی شعبہ میں ایسے اقدامات کرنا چاہ رہی ہے جس سے ہائی کورٹ کی حیثیت ختم ہو جائے وہ اسے سامراجی نظام میں ڈھالنا چاہ رہے ہیں بغیر سامراجی نظام کو سمجھے۔ جسٹس کیانی کے دلیرانہ فیصلوں اور بے داغ کردار کی وجہ سے وہ خواص و عوام میں مقبول تھے
حس مزاح سے قدرت نے انھیں خوب نوازا ، ان کا مزاح حکمرانوں کو بہت چبھتا تھا ۔ ا یوب خان نے اپنے دست راست قدرت اللہ شہاب کو جسٹس کیانی کو کسی طرح قابو کرنے کو کہا قدرت اللہ شہاب نے اگلے ہی دن ایک تعلیمی ادارے میں تقریر کرتے ہوئے جسٹس کیانی کو مخاطب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ عدلیہ کے لبادے میں رہتے ہوئے تنقید کی بجائے بہتر ہوگا کہ چیف جسٹس کیانی اپنے عہدے سے استعفا دے کر سیاست مين ایوب خان کا مقابلہ کریں ۔
سادگی ان کی شخصیت کا اہم جزو تھی باغبانی سے انہیں لگاوتھإٍ ایک دفعہ وہ چیف جسٹس ہاوس کے باہر لگی ہوئی باڑھ کی تراش خراش کر رکہے تھے کہ ایک بیوروکریٹ گاڑی چلاتا ہوا ان کے پاس آیا اور پوچھا " مالی ، کیا تم چیف سیکرٹری کا گھر جانتے ہو " جسٹس کیانی نے بتا دیا بعد میں ایک استقبالیہٍ میں جب ایک دوسرے بیورو کریٹ نے اس سے چیف جسٹس کو متعارف کرایا تو چیف جسٹس نے کہاا میرا خیال ہے ہم پہلے بھی مل چکے ہیں بیورو کریٹ کی شرمندگی کےمارے بہت بری حالت تھی۔​
۱۹۶۰ کا ذکرہے جسٹس رستم کیانی چیف جسٹس مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور کے جج کی حیثیت سے لاہور میں تھے۔حسب روائت عید کے موقعہ پر دو عیدوں کا تنازعہ کھڑا ہو گیا ۔حکومت نے جس دن عید کا اعلان کیا تھا مقامی علما نے اس کو ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔ عید کی نماز کے لیے رستم کیانی مرحوم پنجاب یونیورسٹی گراونڈ پہنچے تو وہاں بھی لوگ پیش امام صاحب کو نماز پڑھانے کے لیے آمادہ کر نے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ کسی طور راضی نہ ہوئے ۔ رستم کیانی آگے بڑھے نماز پڑھائی اور عید کا خطبہ دی​
لاہور میں ٹی وی کے صحافیوں اور انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پریس قوم کا اہم جزو ہوتا ہے آج کی حکومت ایک زہر ہے ۔اس طرح ایک فرد کی خواہش دوسرے کے لیے زہر بن جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیاکہ ہر دوائی پر زہر ا لیبل لگا دیا جائے ۔آزادی صحافت ملک آف میگنیشیا نہیں یہ تو بار ایسوسی ایشن کو میں کہتا ہوں،صحافت تو آرسینک قسم کا ایک ٹانک ہے جسے مناسب مقدار میں دوائی کی طرح لیا جائے تو صحیح ورنہ یہ آزادی زہر بن جاتی ہے ۔ میں پریس کے بارے میں یہ کہوں گا پریس کو پریس نہیں کرنا چاہئیے نہ حکومت پریس کو دباو میں لائے اور نہ پریس حکومت کو دباو میں لائے۔​
نومبر ۱۹۶۲ میں ڈھاکہ ، چٹا گانگ ، راجشاہی کی بار ایسوسی ایشنز کی دعوت پر مشرقی پاکستان گئے ۱۵ نومبر ۱۹۶۲ کو راجشاہی کے شہریوں کی جانب سے دئیے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرنا تھا کہ اس سے قبل سرکٹ ہاوس میں آپ کا انتقال ہو گیا ان کی تقریر کا نا مکمل مسودہ آپ کی میز پر پڑا ہوا تھا انتقال سے قبل انہیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کی تقریر ایک یادگار تقریر ہوگی اس تقریر میں انہوں نے کہنا تھا " اگر جرائم میں اضافہ ہی مارشل لا کا موجب ہے تو نوے فیصد عوام بالکل معصوم اور بے گناہ ہے ان کو کیوں دبایا جارہا ہے ۔اور اگر مارشل لا کا سبب سیاستدانوں کی غلط حرکات ہیں پابند کیے گئے سیاستدانوں کی تعداد سو سے بھی کم ہے ۔مگر وہ یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ چند افراد کے جرائم کی سزا پوری قوم کو کیوں دی جارہی ہے ۔انتقال کے وقت راجشاہی سرکٹ ہاوس میں ان کے سامان میں ایک سوٹ سوٹ کیس ، ایک شیفرڈ پین ،۲۹ روپے ، اور جہاز کے دو ٹکٹ تھے ۔آپ کا جسدخاکی پی آئی اے کے ذریعے کراچی پہنچی جہاں سے پاک فضائیہ کے طیارے میں میت کوہاٹ لائی گئی ان کوان کے آبائی گاوں شاہ پور میں سپرد خاک کیا گیا ۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔​
 

عاطف بٹ

محفلین
سر، بہت نوازش کہ آپ نے جسٹس کیانی کے حوالے سے یہ دھاگہ تخلیق کیا۔ کل فرحت کیانی اور میں اس موضوع پر ایک دھاگہ شروع کرنے کے حوالے سے بات کررہے تھے۔
اس کتاب کا اردو میں نام ”ایک جج ہنس بھی سکتا ہے شاید!“ ہے جو A judge may laugh or even cry کا اردو ترجمہ ہے۔
 
بہت خوبصورت شراکت سید زبیر بھائی۔
بہت سال پہلے ہم نے کہیں ان کی ایک تقریر پڑھی تھی جس میں مندرجہ ذیل ہمیں آج بھی یاد ہیں

کہا سرحد چلے جائیں ، کہا سرحد چلے جاؤ
کہا افغان کا ڈر ہے ، کہا افغان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کسی صاحب کو اس بارے میں علم ہو تو شیئر کریں۔
 
اگر آپ اچھا لباس پہنتے ہیں تو آپ کا جسم دلکش نظر آتا ہے مگر جب آپ اچھا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت دل کش بنتی ہے
بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
محفل کے تمام ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کا شکر گزار ہوں ۔انشا اللہ اور بھی کچھ شئیر کر وں گا ۔ آپ کی دعاوں کی ضرورت ہے
 

محمد امین

لائبریرین
بہت خوبصورت شراکت سید زبیر بھائی۔
بہت سال پہلے ہم نے کہیں ان کی ایک تقریر پڑھی تھی جس میں مندرجہ ذیل ہمیں آج بھی یاد ہیں

کہا سرحد چلے جائیں ، کہا سرحد چلے جاؤ
کہا افغان کا ڈر ہے ، کہا افغان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کسی صاحب کو اس بارے میں علم ہو تو شیئر کریں۔

یہ میں نے بھی کہیں پڑھا تھا، یاد نہیں آرہا
 

سید زبیر

محفلین
@محمدامین ، محمد خلیل الرحمٰن شمشادعاطف بٹ@سیدہ شگفتہ حسیب نذیر گِل فرحت کیانی نیرنگ خیال باباجی الف نظامی
جسٹس محمد رستم کیانی کا تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں خطاب سے اقتباس​
" صاحب صدر ؛ آپ نے مسلسل انکار کے باوجود جس زبردستی سے مجھ سے یہاں آنے کا وعدہ لیا تھا اس کے پیش نظر شکریے سے تو عاجز ہوں اور یوں بھی ایسے موقعوں پرشکریہ ادا کرنا ایک رسمی بد رسمی ہو گیا ہے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ان برخورداروں کو جو قومی زندگی کی دہلیز پر ہیں کون سی کام کی بات سنا سکتا ہوں ۔ علی بابا اور چالیس چور کی کہانی یا داستان امیر حمزہ۔یہ قصے تو پہلے ہی سن چکے ہوں گے یہ کہنا بھی بے کار کہ آپ قوم کا بیش قیمت سرمایہ ہیں کیونکہ یہ بات تو وہ پشت در پشت سنتے چلے آئے ہیں یہ بھی سنا ہوگا کہ آپ کو قومی زندگی کی بڑی بڑی ذمہ داریاں اٹھانی پڑیں گی ابھی تھوڑے دن ہوئے کسی بزرگ نے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محنت کر انعام لو۔محنت کرو اکرام لو ۔ہم تو اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں آپ آٹھ گھنٹے ہی کریں کیونکہ آپ ہم سے کچھ سے زیادہ ہی جوان ہیں​
ان سب باتوں کے بعد اتنا ہی کہنا رہ گیا کہ قوم کا بیش بہا سرمایہ ہونے کے باوجود آپ سب کے سب گورنر یا وزیر یا جج نہیں بن سکیں گے {ججوں کو کسر نفسی سے شامل کرتا ہوں}ہر چند کہ تقسیم ہند کے بعد ان عہدوں کے لیے جلد جلد باری آتی ہے پھر بھی آپ میں سے بہت سے معمولی عہدوں کہ حامل ہونگے اس لیے یہ کہنا ضروری ہے کہ​
گر بہ نکبت برسی پست نہ گردی مردی​
یعنی غریبی آئے اور پھر بھی طبیعت میں پستی نہ پیدا ہو تب تو صاحب کردار کہلانے کا مستحق ہے یا اگر خدا زندگی میں دولت و ثروت عطا کرے بھی اور تو مست نہ ہو تب تو صحیح معنی میں مرد ہے {گر بہ دولت برسی مست نگردی مردی}​
آپ سے ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ محنت کرو ، محنت کرو ممکن ہے یہ سن کر آپ پر ہراس کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہو اس لیے میں نعم البدل کے طور پر یہ کہوں گاکہ کچھ کھیلا بھی کرو تا کہ اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکو اور شائد کھیلتے کھیلتے یہ احساس پیدا ہو کہ دنیا تو کھیل کود ہے ذرا کام بھی کریں کیونکہ والد بزرگوار نے اگر کوئی جائداد چھوڑی بھی تو ان کے آٹھ دس بچے اور بھی ہیں ۔اس سوال سے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ ان کو کیوں اپنے گھر میں ایک فٹ بال کی ٹیم کی ضرورت پڑی اور کس لیے اس ٹیم میں ہر تین سال گزرنے کے بعد دو مزید کھلاڑیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے تمھاری والدہ کی صحت ؟ بیٹا عورتوں کی صحت اسی طرح اچھی رہتی ہے اور جب چار پانچ بچوں کے بعد ان کی جوانی بڑھاپے کی نذر ہو جاتی ہےاور والد بزرگوارخود بلا شرکت غیرے جوان رہتے ہیں تو مجبورا اور شادی کرنی پڑتی ہے تاکہ خدا داد درجنوں میں اضافہ ہو۔​
مگر اب تو ابا جان کے لیکچروں سے کوئی فائدہ نہیں اس لیے آپ اپنے پاوں پر کھڑے ہوں ویسے بھی اپنے پاوں اپنے پاوں ہیں اور ابھی تمہارے بھائی کچھ ایسے ہوں گےجو نا بالغ ہیں اور اپنے پاوں پر کھڑے نہیں ہو سکتےاور تمہارا آخری بھائی جب پیدا ہوا تو ابا جان ساڑھے اکیاون سال کے تھے اس وقت تو حفیظ جالندھری کے ساتھ " ابھی تو میں جوان ہوں " پڑھتے ہوں گے ،یہ خیال بھی نہ ہوگا کہ ساڑھے تین سال کے بعد سرکار انہیں بوڑھا قرار دے دے گی اور یہ بچہ کیا اس درجن میں سے چار پانچ ابھی نا بالغ ہوں گے اس لیے میں نے دیکھا ہے کہ پہلے دو تین بچوںکو اچھی تعلیم دے دیتے ہیں مگر بعد میں مالی استعداد کے کم ہونے پر قرآن شریف کی ان آیات کا سہارا لیتے ہیں جو اللہ کے رزاق ہونے کے متعلق ہیں یہ بھولتے ہیں کہ اللہ نے دنیا کو عالم اسباب بنایا ہے اور آپ کو بار بار کہا ہے کہزمین و آسمان کی پیدائش میں اور بارش کے زمین پرپڑنے میں اور اس ی وجہ سے سبزے کی روئیدگی میں نشانیاں پیدا کی ہیں ان پر غور کرو نشانیاں تو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں مگر اور طرح سے یعنی یہ بچہ نپولین بنے گا یا نہیں ۔ اور اگر نہیں بنے گا تو ہو سکتا ہے اگلا ہی نپولین ہو رود نیل بہتا چلا جائے گا مگر یہ نہیں سوچتے کہ نپولین رود نیل پر ہی پہنچ کر ختم ہو گیا تھا اور پھر یہ کیا ضروری ہے کہ نپولین آپ ہی کے گھر پیدا ہو۔۔۔۔۔۔"​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
السلام علیکم زبیر انکل!
پہلے تو بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میری فرمائش پر یہ دھاگہ پوسٹ کیا۔ پڑھ کر بہت خوشی بھی ہوئی، فخر بھی اور خواہش و حسرت کا احساس بھی ہوا۔
پھر انتہائی معذرت کہ میں چاہنے کے باوجود یہاں آپ کا شکریہ جلد ادا نہیں کر سکی۔ اصل میں میں نے پڑھ تو لیا تھا لیکن کمپیوٹر کے علاوہ اردو ٹائپ کرنا بہت مشکل لگتا ہے تو جواب ملتوی ہو گیا۔ پھر میں بھی یہاں کچھ پوسٹ کرنا چاہتی تھی بس اسی انتظار میں دیر ہو گئی۔
ایک بار پھر معذرت و شکریہ۔ مزید کا انتظار رہے گا۔ آپ کے تبصرے کے ساتھ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
افکارِ پریشاں سے ایک اقتباس

کچھ اپنے بارے میں: میں اپنا تعارف خود کرانا مناسب سمجھتا ہوں۔۔۔۔ایک نویں جماعت کے طالب علم نے مجھے خط لکھا کہ جب بھی آپ کی تقریر اخبار میں آتی ہے تو ہمارے گھر میں اس بات پر بحث ہوتی ہے کہ آپ کا اصلی نام کیا ہے؟ یہ ایم آر کیانی تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کبھی ہم محمد رمضان سمجھتے ہیں کبھی ملک رنجیت۔ آپ اپنے ہاتھ سے لکھیں کہ آپ کا اصلی نام کیا ہے؟ تا کہ آئندہ ہمارے گھر میں جھگڑا نہ ہو۔ میں نے جواب دیا کہ یہ خط میں اپنے ہاتھ سے لکھ رہا ہوں اور میرا نام محمد رستم ہے اور جو اس کے بعد شک کرے وہ کافر ہے۔ نیز چونکہ اس کا احتمال ہے کہ اس کے بعد آپ کے گھر میں میرے قد و قامت پر جھگڑا اٹھے تو واضح ہو کہ میں خود تو بال سے زیادہ باریک ہوں مگر میری ہڈیاں تلوار سے زیادہ تیز ہیں جن پر دوغلی باتوں کے ٹرک نہیں گزر سکتے۔
اس لڑکے کی یہ بات کہ محض ایم آر کیانی کچھ معنی نہیں رکھتا ، ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ سچی ثابت ہوئی۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ (who is who) کے نام سے بعض پبلشرز ایک ڈائریکٹری چھاپتے ہیں جس میں بقول ان کے مشہور لوگوں کے نام ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بات مسلمہ ہے کہ وزیر تو مشہور ہوتے ہی ہیں ، جج بھی مشاہیر میں سے ہیں اور اگر وہ تصویر کے ساتھ روپے بھی بھیج دیں تو مزید شہرت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ پچھلے ہفتے اپنی ہسٹری شیٹ کی تصحیح کے لئے میرے پاس انگلستان سے ایک خط آیا۔ ہسٹری شیٹ میں میرا نام ملک الرحمٰن کیانی درج تھا جو میرے بڑے بھائی کا نام ہے۔ وہ بھی ایم آر کیانی ہیں۔ ان کے دو لڑکے بھی ایم آر کیانی ہیں۔ ہسٹری شیٹ میری سیاسی سرگرمیوں کا ذکر تھا اور یہ بھی کہ فلاں سال میں میں صوبہ سرحد میں وزیرِ صحت ہوا جس سے صحت کچھ اچھی ہو گئی مگر 50ء میں وزیرِ مواصلات ہوا اور پھر سارے وسیلے ٹوٹ گئے اور 58ء میں سیاست سے بیزار ہو کر میں چیف جسٹس ہو گیا۔ القصہ سوائے آخری گناہ کے باقی سارے سیاسی گناہ میرے بھائی کے تھے اور اس پر طرہ یہ کہ میرا ایڈریس سپریم کورٹ آف پاکستان لکھا تھا جہاں میرے سائے کا بھی سانس پھولنے لگتا ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ اے وہ لوگو! جو اپنے اچھے بھلے نام کو چھوڑ کر قرآن مجید کی طرح الف لام میم استعمال کرتے ہو، عبرت حاصل کرو ورنہ کسی دن بغیر تنخواہ کے چیف جسٹس یا وزیر بن جاؤ گے۔
دوسرا قصہ زیادہ نازک ہے یعنی میرا نام رستم کیوں رکھا گیا۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ مجھ سے پہلے بھی ایک زنگی کا نام کافور رہ چکا ہے۔ میرے ایک دوست کی بیوی نے اپنے مہمانوں سے میرا تعارف اس طرح کرایا کہ میرے شوہر ان کا ہمیشہ ذکر کرتے تھے۔ مدت کے بعد جب میں نے ان کو پہلی بار دیکھا تو اپنے شوہر سے پوچھا کیا یہی ہیں آپ کے رستم؟ جس سے میں نے قیاس کر لیا کہ ان کے شوہر نے ضرور کوئی رستمی کی بات کی ہو گی۔ (جاری ہے)


ماخذ: افکارِ پریشاں۔ پریشانئ خاطر: کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
بیٹا فرحت کیانی ! بہت دلچسپ اقتباس منتخب کیا ہے ۔ ۔۔ زبردست اردو ٹئپنگ آپ کی بہت اچھی ہے جو امر مشکل لگتا ہو پہلے اس پکڑیں ۔ ۔ ۔جب بچہ پہلی دفعہ چلنا شروع کرتا ہے اس وقت والدین اس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں جب وہ دوڑ جیت کر آتا ہے ۔ ۔ ۔ کل جو کام آپ نہیں کرسکیں آج اس کو ضرور کرنا ہے اللہ آپ کو بے انتہا کامیابیاں اور خوشیاں عنائت فرمائے(آمین ثم آمین)
 
بہت خوبصورت شراکت سید زبیر بھائی۔
بہت سال پہلے ہم نے کہیں ان کی ایک تقریر پڑھی تھی جس میں مندرجہ ذیل ہمیں آج بھی یاد ہیں

کہا سرحد چلے جائیں ، کہا سرحد چلے جاؤ
کہا افغان کا ڈر ہے ، کہا افغان تو ہوگا

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں، کہا تم اونٹ پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کسی صاحب کو اس بارے میں علم ہو تو شیئر کریں۔
 
یہ ایک بہت ہی طویل نظم ہے اور اسکے شاعر کا نام ہے پنڈت ہری چند اختر۔ اسکے اشعار کچھ یوں ہیں۔

کہا میں اونٹ پر بیٹھوں، کہا تم پر بیٹھو
کہا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگا

کہا میں چین کو جائوں، کہا تم چین کو جائو
کہا جاپان کا ڈر ہے، کہا جاپان تو ہوگا

وغیرہ وغیرہ۔

جسٹس کیانی نے غالبآ ا سکی پیروڈی کی ہے اور اسمیں اس شعر کا اضافہ کیا ہے۔
کہا میں سرحد کو جائوں، کہا تم سرحد کو جائو
کہا افغان کا ڈر ہے، کہا افغان تو ہوگا

شکریہ۔ مخلص۔ سید محسن نقوی
 
Top