اب میں آپ کی انجمن سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے پہلے چار مضمونوں میں سے کس کس پر بحث ہوئی؟ اگر آپ کو اس میں معنی نظر نہیں آئے تو میں یہ پوچھوں گا کہ کیا استادوں کے کلام میں آپ معنی ڈھونڈتے ہیں؟ یہ چار آتشہ مرکب جو میں نے پیش کیا ہے' آبِ حیات" کے ایک قصے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک دفعہ امیر خسرو کا گزر ایک کنوئیں کے پاس سے ہُوا جہاں چار عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ انہوں نے ان سے پینے کے لئے پانی مانگا۔ ان عورتوں کو معلوم تھا خسرو شاعر ہیں۔ انہوں نے کہا پانی اس وقت دیں گے جب کوئی شعر سناؤ۔ انہوں نے پوچھا کیسا شعر سناؤں۔ ایک نے کہا۔ ایسا شعر سناؤ جس میں کھیر کا ذکر آئے۔ دوسری نے کہا نہیں چرخے کا ذکر آئے، تیسری نے کہا کُتے کا ذکر آئے۔ چوتھی نے کہا ڈھول کا ذکر آئے۔ خسرو نے برجستہ کہا:
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔لا پانی لا
میری یہ انمل بے جوڑ کہانی سُن کر آپ ڈھول بجانے پر تیار ہوں ، میں پانچویں مضمون کا بھی ذکر کر دوں یعنی پاکستان کس طرف Whither Pakistan۔ اُردو ترجمہ "کدھر پاکستان" زیادہ برجستہ ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جدھر پاکستان ادھر ہم۔ "مگر پاکستان کس طرف" کی بات ہو تو میرا خیال ہے کہ پاکستان اب پنچایتوں کی طرف جا رہا ہے۔ اس لئے آپ بھی جائیں اور میں یہیں بیٹھ جاتا ہوں۔
افکارِ پریشاں۔ باب بے ادبی۔ آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا۔ افکارِ پریشاں (قسط اول) سے اقتباس