جسٹس ایم آر کیانی ؛ لسان پاکستان

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت پر لطف انتخاب ہے فرحت کیانی۔ امید ہے ہمارے افکار کو آپ مزید پریشاں کرتی رہیں گی۔ :)
بہت شکریہ سخنور! :)
کوشش کروں گی ان شاءاللہ۔
میرے اپنے افکار روزانہ کی بنیاد پر پریشاں ہوتے ہیں کہ کتاب گاڑی میں ہی پڑی ہے۔ جو وقت راستے میں گزرتا ہے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتی ہوں اور یقین جانیئے کہ اس کتاب کا ہر مضمون ایک سا پُرلطف و دلچسپ ہے۔ :)
 

سید زبیر

محفلین
" افکار پریشاں " صفحہ ۵۵ تا ۵۹​
" ۔۔۔۔ شب فراق کے علاوہ اور بھی کئی چیزیں بے پایاں ہیں ان بے پایاں چیزوں میں سب سے پہلی چیز جس پر اقبال کی نظر پڑتی ہے وہ قرآن ہے اس کےنزدیک قرآن کا بڑامقصد یہ ہے کہ انسان میں اس بات کا شعور پیدا کرے کہ اس کے تعلقات ءد اسے ایک طرف اور کائنات سے دوسری طرف کیا ہیں اسلام میں حقیقت اور مجاز دو مخالف طاقتیں نہیں ہیں بلکہ مجاز کی دوامی کو شش یہی رہتی ہے کہ کہ حقیقت پر روشنی ڈالے اور اس کو اپنا حصہ بنالے اور اسی لیے وہ حقیقت کی تلاش مجاز میں کرتا ہے : کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں​
یہ نہیں کہتا کہ اے مجاز حقیقت کی شکل اختیار کر کرے ظاہر ہو اسلام اور عیسائیت میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اگرچہ دونوں انسان کی خودی کی آخری منزل روحانیت میں ڈھونڈتے ہیں اسلام مادی دنیا سے گریز نہیں کرتا بلکہ اس کی تسخیر کرکے کوئی ایسی بنیاد تلاش کرتا ہے جس پر زندگی کی عمارت بادلوں میں نہیں بلکہ زمین پر کھڑی کی جا سکے آپ سمجھیں گے میں الٹی بات کر رہا ہوں کیونکہ مادی دنیا کی تسخیر مسلمان تو نہیں کر رہے اور لوگ کر رہے ہیں یہی بات تو اقبال کو بھی چھبی تھیاسی لیے قرآن کی طرف رجوع کیا تاکہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ان کو فلسفے نے خراب کر دیا ' ۔۔۔۔' " ھم نے زمین اور آسمان کو ایک کھیل کے طور پر نہیں بنایا ،نہ ان چیزوں کو جو ان کے درمیان واقع ہیں ،ہم نے ان کو حق سے پیدا کیا ہے " اقبال نے یہاں حق کا ترجمہ مقصد کیا ھے۔کیونکہ جب آپ کہیں کہ یہ چیز آپ نے کھیل کے لیے نہیں تو کوئی مقصد ہوگا اور یہ تو کئی جگہ کہا ہے اختلاف شب و روز میں ،زمین و آسمان کی پیدائش میں ،رات اور دن کے تسلسل میں سورج چاند کی ایک مقررہ مسافت میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سوچتے ہیں ' ۔۔۔۔' اور آسمان اور زمین کی پیدائش پر فکرکرتے ہیں اور کہتے ہیں رب ہمارے تو نے یہ چیزیں یونہی تو پیدا نہیں کیں ، تو کیا فکر آپ کی یہی ہے کہ اتنا کہہ کر سو جائیں ۔میں ایک کتاب مناجات اور یہ آیت اس میں ضرور رکھوں گا مگر تب تک آپ کو ثواب سے محروم کیوں رکھوں اس لیے واضح ہو کہ جو شخص شب جمعہ کو جب چاند چودھویں کا ہو صاف ستھرے کپڑے ،نائلون کے بنے ہوئے اور بجلی سے استری شدہ پہنے اور اس پر اوڈی کلون چھڑکے اور کوری موٹر میں بیٹھ کر شالامار یا کسی جنگل کا رخ کرے اور ہزار دفعہ کہے کہ اے رب ہمارے ، تو نے شالامار اور نائلون کے کپڑے بے فائدہ تو نہیں پیدا کیے تو اس کو ایک ہزار حج اور ڈیڑھ ہزار عمرےکا ثواب ملے گا اس لیے میں بھی رات کو سوتے وقت حسبنا اللہ و نعم الوکیل پڑھتا ہوں مگر یہ تصدیق کرکے کہ ہمارے لیے خدا ہی کافی ہے دن کو سوچتا رہتا ہوں کہ خدا کے سوا اور تو کوئی مجھ سے ناراض نہیں ،اور خصوصاً ووٹوں کے دنوں میں خداکی وکالت رات تک ہی محدود رہے تو بہتر ہے اقبال کہتا ہے 'اور میں بھی ادب کے ساتھ تائید کرتا ہوں کہ تعلیم قرآن یہ ہے کہ ان چیزوں کی حقیقت فکر کے ذریعے سے معلوم کرو '۔۔۔۔۔' "تمہیں کان اور آنکہ اور دل دیے کانوں سے تو سنتے ہیں یہ ایک ذریعہ ہے تحصیل علم کا ۔آنکھوں سے آپ دیکھتے ہیں یہ ایک اور ذریعہ ہے تحصیل علم کا ۔دل سے آپ کیا کرے ہیں ؟ سوچتے ہیں ،یہ دیکھئیے حواس خمسہ کے علاوہ ایک اور ذریعہ علم کے حاصل کرنے کا پیدا ہوا بلکہ یوں سمجھئیے کہ اس سنگ و خشت سے جن کا علم آنکھ ،کان اور دیگر حواس فراہم کرتے ہیں دل کا معمار کوئی اور کھڑی کر دیتا ہے اور خدا اسی لیے کہتا ہے کہ دل بھی دیا ہے ۔اگر سورج چاند دیکھ کر آپ کو یہی کرنا تھا کہ اللہ کو مبارکباد دیں کہ تو نے بہت اچھا دستور قائم کیا ہے تاکہ وہ خوش ہو کر ایک اور چاند پیدا کردے جو لاہور کی بجلیوں کے خراب ہونے پر کام آئے ' تو پھر ایک غیر جانب دار تماشائی کے مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اللہ کی خودی نے تو خدائی اختیار کر لی مگر آپ کی خودی گدائی کے جذبے سے آگے نہیں بڑھی اور اگر یہی بات تھی تو خدا نے کیوں کہا کہ یہ مخلوق بے کار کھیل کے طور پر پیدا نہیں کی پھر کیوں کہا کہ زمین و آسمان کو آپ کے لیے مسخر کیا گیا ہے ؟زمین کو مسخر کرنے کے یہ معنی بھی تو ہو سکتے ہیں کہ آپ اس میں کھیتی باڑی کریں زمین نہایت فرمانبرداری سے آپ کو فصل دے گی ۔سورج کی تسخیر آپ کس طرح بیٹھے بیٹھے کریں گے ؟یہ تو مطلب ہو نہیں سکتا کہ دسمبر کے مہینے میں جب صبح جب ٹھنڈ ہو تو آپ سورج کی شعاؤں سے اپنے بدن کو گرم کرلیں اگر یہ بات ہوتی تو جس دن بادل ہوتے تو سورج یہ کہہ دیتا کہ آج مجھے بادلوں نے مسخر کر لیا ہے لھذا آپ کی تسخیر کو چھٹی ہے اور ایسی تسخیر ،یعنی دھوپ میں بیٹھنا تو گھوڑے اور گدھے کو بھی میسر ہے مسخر کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ آپ اس کی ساخت پرداخت ،اس کے ذرات ،اس کی شعاؤں ، ، اس کے شبانہ روز اور سالانہ کرشموں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اسی کو سائنس کہتے ہیں گویا سائنس ، مذہب کا حصہ ہے ایک اور جگہ کہا ہے '۔۔۔۔' ، "یقینا ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں بنایا ہے ۔ پھر '۔۔۔۔' پھر اس کو پست سے پست کر دیتے ہیں مگر جو ایمان لاتے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں ان کے لیے اجر لا متناہی ہے اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ پہلے آپ کو خوش اندام بنایا پھر رذیل کر دیا اگر یہ مطلب ہوتا تو زندگی کے ہنگامے شرف کھیل تماشہ ہی ہوتے پھر کوئی اور مطلب سوچئیے جو مقصد حیات کے منافی نہ ہو اقبال کہتا ہے انسان زندگی پر آنکھ کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں میرے ارد گرد مضبوط طاقتیں ہیں مگر میرے پاس ایک سوچنے والا دل ہے اس کے ذریعے سے کیوں نہ ان طاقتوں پر غلبہ پاؤں۔کسی اور نے یہ تشریح کی ہے کہ جب انسان اپنے ذہنی امکانات سے کام نہ لے کر موقعہ ضائع کردیتا ہے تو گویا پست حلات میں رہ جاتا ہے دونوںباتیں ایک ہیں کیونکہ وہ لوگ پست نہیں رہتے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ایمان تو وہی لئے گا جو قدرت کی نشانیاں دیکھے اور ان پر غور کرے اور ان کو مسخر کر کے کوئی نئی دنیا پیدا کرے اور یہ بھی سوچئیے کہ یہ باتیں کیوں بار بار دہرائی گئی ہیں اب اس نظریہ کی تائید میں ان کا کلام سنئیے ۔اس دفعہ میں کم از کم دس شعر پڑھوں گا تاکہ آپ کے آئیندہ دس سال آرام گزریں ۔۔۔۔۔"​
'​
 

سید ذیشان

محفلین
بہت شکریہ زبیر صاحب یہ مضمون شیئر کرنے کے لئے۔ جسٹس کیانی بلا شبہ پاکستان کے باکردار جسٹسس میں سے ایک تھے۔
 

فلک شیر

محفلین
اللہ اللہ................لوگ(pseudo intellectuals) کہتے ہیں قحط الرجال ہم مسلمانوں کا ورثہ بن کے رہ گیا ہے...........کوئی جائے اور اور اِنہیں جسٹس کیانی جیسے ہیرے دکھائے..........اُن کی چند چیزیں نظر سے گزری تھیں، عرصہ ہوا........
inspiration for us..................deep rooted faith.........clear thought............vision.........honesty of ultra grade
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر​
انتہائی محترم سید زبیر صاحب! تہہ دل سے شکر گزار ہوں...............شک نہیں ، کہ کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں تک جاتا رہا ہے...........مگر اس جیسی خوب صورت تحریریں ، جن کے پیچھے صاحب قلم کا ذاتی کردار اور زندگی بھر کی مثال کھڑی ہو.............یقیناً کچھ آئینوں کو جِلا دینے کا وظیفہ ضرور ادا کریں گی........
آپا فرحت کیانی ...........آپ کا بھی شکر گزار ہوں...........بہت
مزید اقتباسات کا انتطار رہے گا...............شدّت سے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ مجھے اور جو کچھ بھی سمجھیں لیکن یہ یقین رکھئے کہ میری نفسیاتی زندگی پند و نصیحت سے دور ہے۔ میری زندگی کے نفسیاتی واقعات ، جن کے متعلق آپ کے سیکرٹری صاحب نے پوچھا ہے ، وہی ہیں جو آپ کو سُنا چکا ہوں اور جو اس قسم کے افکارِ پریشان میں الجھے ہوئے ہیں اور ابھی تک ایسا کوئی بڑا معرکہ سَر نہیں کیا جسے نوادر واقعات میں سے تصور کر کے آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ انہی چھوٹی چھوٹی گھریلو باتوں کو لے کر تاریخ بنائی جا سکتی ہے۔ میرے لئے تو حجامت کا سامان خریدنا بھی ایک نفسیاتی واقعہ بلکہ ایک اچھا خاصا حادثہ بن جاتا ہے۔ پچھلے مہینے میں انارکلی میں شیخ عنایت اللہ اینڈ سنز کی دکان پر گیا کہ حجامت کے پانی کے لئے ایک پیالی خریدوں۔ اس کی ضرورت اس طرح محسوس ہوئی کہ میری پرانی پیالی بہت پرانی ہو چکی تھی جو 1934ء میں خریدی تھی۔ پچھلے سال مئی کے مہینے میں رحمٰن صاحب اور میں کراچی میں ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ رحمٰن صاحب چونکہ میرے دل میں رہتے ہیں ، اس لئے ان کا ذکر زبان پر آ ہی جاتا ہے۔ آپ کو کہیں غلط فہمی نہ ہو ، اس لئے یہ بتا دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تین مشہور رحمانوں میں سے یہ کون سے رحمٰن ہیں۔ ایک رحمٰن جو بہت مشہور ہے آچار مربے کا کام کرتا ہے اور اس کی فیکٹری امرتسر کی سڑک پر واقع ہے۔ دوسرا رحمٰن جو اس سے زیادہ مشہور ہے حجام ہے۔ گورنمنٹ کالج کے زمانے سے ہم اسے جانتے ہیں۔ لڑکے ابھی بستروں میں سوئے ہوتے تھے کہ وہ حجامت کر کے چلا جاتا تھا۔ اب پنشن پر ہے۔اور وہ مجھے کبھی کبھی دمے کے نسخے بتاتا رہتا ہے کیونکہ خود اس کا دمہ کسی طرح ٹھیک نہیں رہتا۔ تیسرے رحمٰن وہ ہیں جو اتنے مشہور نہیں ہو سکے اور جنہوں نے اپنا عہدہ میرے سپرد کرنے کے باوجود اپنی رومانی شاعری میں سے ایک شعر بھی میرے لئے ترکے میں نہیں چھوڑا حالانکہ لوگ اس غلط فہمی میں مجھے ادبی جلسوں کی صدرات کے لئے بلاتے ہیں کہ میں نے ان کا عہدہ سنبھالا ہے تو ان کے اثاثے پر بھی قبضہ کر لیا ہو گا۔
القصہ میں اور رحمٰن صاحب ایک مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ایک روز ان کا ایک دوست آیا اور منہ دھونے غسل خانے گیا۔ وہاں اس نے میری حجامت والی پرانی پیالی دیکھی۔ باہر آ کر رحمٰن صاحب سے پوچھا کہ یہ نائی کی کٹوری آپ نے کس لئے رکھی ہے۔ رحمٰن صاحب نے فوراً کہا یہ میری نہیں ، کیانی صاحب کی ہے۔ منجملہ اور شکایتوں کے ، رحمٰن صاحب سے مجھے یہ بھی شکایت رہی ہے کہ وہ میری پردہ دری کرتے ہیں۔ اب وہ اپنے دوست سے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ کٹوری تو میری ہے مگر کیانی صاحب نے تحفتہً دی ہے اس لئے دل نہیں چاہتا کہ پھینک دوں یا کیانی صاحب ہی کی سہی مگر ان کی شادی میں بیوی نے تحفتہً دی تھی اس لئے بیوی کے خیال سے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ میں جب اس سے اس قسم کی شکایت کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ میں تمہاری شہرت کے لئے یہ باتیں پھیلاتا ہوں اور میں ٹھہرا سیدھا سادا پٹھان۔ ان کی باتوں میں آ جاتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اگر اور کوئی چیز نہ رکھ سکا تو نائی کی کٹوری ہی سہی۔ غرض کٹوری کا قصہ ختم کرنے کے لئے میں شیخ عنایت اللہ کی دکان پر گیا۔ کٹوری تو ان کے پاس نہ ملی مگر جیسے ان کو معلوم ہوا کہ میرا شیونگ برش بھی پرانا ہے اور آئینہ بھی ٹوٹا ہوا ہے، یہ چیزیں میرے سپرد کر دیں۔ ان صاحبان کو یہ سب باتیں خودبخود معلوم ہو جاتی ہیں۔ پھر کہا یہ ایک خاص چیز لیجئے۔ پھٹکڑی کی پنسل۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اگر حجامت کرتے وقت چہرہ کٹ جائے تو یہ پنسل اوپر لگانے سے زخم بند ہو جاتا ہے اور خون رُک جاتا ہے۔ میں کہا اب خون کی کمی کی وجہ سے چہرے نے کٹنا چھوڑ دیا ہے اور چہرہ نہ کٹنے کی وجہ سے خون کا نکلنا بند ہو گیا ہے۔ اب مجھے پھٹکڑی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا ، یا سیفٹی ریزر کا کرنا سمجھئے ، کہ اگلی صبح شیو کرتے ہوئے میرا چہرہ کٹ گیا۔ میں سوچا میری زندگی بھی کیسے نفسیاتی واقعات میں الجھی ہوئی ہے۔ وہاں شیخ عنایت اللہ نے چہرہ کٹنے کا ذکر کیا ، یہاں میرا چہرہ کٹ گیا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ میری ناک کا ذکر نہیں کیا۔

افکارِ پریشاں۔ باب بے ادبی۔ آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا۔ افکارِ پریشاں (قسط اول) سے اقتباس
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اس تقریر کے لکھنے کے بعد کل مجھے معلوم ہوا کہ چودھری نذیر احمد خاں بھی ایبٹ آباد آئے ہوئے ہیں۔ مجھے ایک ایسا واقعہ یاد آیا جس سے کبھی کبھی میرے دل میں ایک کھڑکی سی کُھل جاتی ہے اور پھر میں اسے زور سے بند کر دیتا ہوں۔ 1946ء کی گرمیوں میں شملہ گیا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان بننے سے پہلے کا وہ زمانہ کس طرح ہنگاموں سے پُر تھا۔ قائدِ اعظم بھی کسی کانفرنس کے سلسلے میں وہیں تھے۔ مدت سے میری آرزو تھی کہ قائدِ اعظم سے ملوں۔ چنانچہ میں رکشا میں بیٹھ کر ان کے مکان پر گیا۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ جب میں ان سے ملا تو میں ان کو ایک مفید مشورہ دیا جس پر انہوں نے فرمایا کہ آپ مجھے دو سال پہلے ملے ہوتے تو پاکستان پہلے بن گیا ہوتا۔ تو آپ مان لیں گے اور کئی لوگوں نے آپ سے ایسی باتیں منوائی ہوں کیونکہ قائدِ اعظم تو اب ان کی تردید نہیں کر سکتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جب میں ان سے ملنے گیا تو وہ مجھ سے نہ ملے اور میرے دل میں ان سے ملنے کی حسرت رہ گئی۔ میں نے ان کے سیکرٹری کو بتایا کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے پوچھا کوئی کام ہے؟ میں نے کہا کام تو کچھ نہیں ، صرف تمنائے زیارت کھینچ کر لائی ہے۔ اس نے کہا پھر وہ آپ سے نہیں ملیں گے۔ میں نے کہا آپ میرا کارڈ تو لے جائیں۔ میرا خیال تھا کہ آئی سی ایس دیکھ کر وہ یہ تو سمجھ جائیں کہ محض شاعر نہیں ہوں جو وادیوں اور پہاڑوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ وَ یَقُولُونَ مَا لَا یَفعَلُون (اور جو کہتے ہیں ، وہ کرتے نہیں) مگر کیا پتہ سیکرٹری نے کارڈ دکھایا بھی یا نہیں، اگر نہیں دکھایا تو خدا اسے نہ بخشے۔ واپس آ کر اس نے میرے کارڈ کے ساتھ مجھے بھی واپس کر دیا۔ میں باہر نکل کر ایسا محسوس کرنے لگا جیسے کسی سے کہا جائے کہ تم نوکری سے ڈسمس کر دیے گئے ہو۔ کچھ دیر کھڑا رہا تا کہ سر میں جو چکر کی کیفیت تھی اس پر قابو پا لوں۔ پھر رکشا کی طرف چلا۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ رکشا میں سوار کوئی ان کے گھر سے نکلا۔ میرا یژمردہ چہرہ ایک دم تازہ ہو گیا اور میں نے وفورِ شادمانی میں بڑے اشتیاق سے سلام کیا۔ انہوں نے ایک کشادہ تبسم کے ساتھ میرے سلام کا جواب دیا۔ بس میں سمجھا کہ میری زیارت ہو گئی۔ 1947ء میں جب پاکستان بنا تو ملاقات کی حسرت مٹانے کا پھر ایک موقع آیا۔گورنمنٹ ہاؤس لاہور میں وہ بطور گورنر جنرل قیام پذیر تھے۔ ہم سب کو دعوت نامے آئے اور ساتھ میں ایک کارڈ بھی جس پر اپنا نام لکھنا تھا تا کہ کارڈ کو دیکھ کر گورنر کو تعارف کرانے میں سہولت حاصل ہو۔ میں بڑے شوق سے چلا۔ عبدالعزیز خاں ، جو اب ہمارے ایک جج ہیں ، میرے ساتھ تھے۔ راستے میں ایک مقام پر سڑک کی مرمت ہو رہی تھی۔ موٹر کار کا ایک پہیہ وہاں گر گیا۔ میری موٹر کا پہیہ سال میں ایک دو بار ضرور کسی ایسی ہی جگہ گر جاتا ہے۔ اس چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے ہم قریباً آدھ گھنٹہ دیر سے پہنچے۔ تعارف کی تقریب ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ گویا میں وہاں بھی قائدِ اعظم سے ہاتھ ملانے سے محروم رہا۔ دُور ہی سے دیکھتا رہا۔ گو بہت عقیدت اور فخر سے دیکھتا رہا۔ اس آرزو کی راکھ میں ایک دفعہ پھر گرمی پیدا ہوئی جب کئی سال بعد میں نے محترمہ فاطمہ جناح سے ہاتھ ملایا۔ یہ واقعہ چودھری نذیر احمد خاں مرحوم کے مکان پر ہُوا۔ آدھا ثواب ان کی روح کو ملا۔ مرحوم سے کہیں یہ نہ سمجھئے گا کہ وہ خدانخواستہ سرگباش ہو گئے ہیں۔ وہ بالکل زندہ ہیں بلکہ اس وقت بھی موجود ہیں۔ مرحوم کا مفہوم جو کچھ بھی ہو ، میرا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان پر رحم کرے کیونکہ اب وہ اٹارنی جنرل ہو گئے ہیں۔ اللہ بخشے انہیں ، یعنی جب بخشنے کا وقت آئے۔ بیچارے اچھے آدمی تھی۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے۔ کبھی کبھی شعر بھی سُنا دیتے تھے مگر میری نظر ان کے کسی اور پہلو پر رہتی تھی۔ وہ کبھی کبھی کوئی خطبہ پڑھتے تھے تو اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرتے تھے اور اس کی نقل میرے پاس بھی بھیج دیتے تھے۔ میں پڑھ کر خوش ہوتا تھا مگر خدا ان کی روح کو نہ شرمائے ، اب وہ اٹارنی جنرل ہو گئے ہیں۔


افکارِ پریشاں۔ باب بے ادبی۔ آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا۔ افکارِ پریشاں (قسط اول) سے اقتباس​

 

فرحت کیانی

لائبریرین
اب میں آپ کی انجمن سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے پہلے چار مضمونوں میں سے کس کس پر بحث ہوئی؟ اگر آپ کو اس میں معنی نظر نہیں آئے تو میں یہ پوچھوں گا کہ کیا استادوں کے کلام میں آپ معنی ڈھونڈتے ہیں؟ یہ چار آتشہ مرکب جو میں نے پیش کیا ہے' آبِ حیات" کے ایک قصے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک دفعہ امیر خسرو کا گزر ایک کنوئیں کے پاس سے ہُوا جہاں چار عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔ انہوں نے ان سے پینے کے لئے پانی مانگا۔ ان عورتوں کو معلوم تھا خسرو شاعر ہیں۔ انہوں نے کہا پانی اس وقت دیں گے جب کوئی شعر سناؤ۔ انہوں نے پوچھا کیسا شعر سناؤں۔ ایک نے کہا۔ ایسا شعر سناؤ جس میں کھیر کا ذکر آئے۔ دوسری نے کہا نہیں چرخے کا ذکر آئے، تیسری نے کہا کُتے کا ذکر آئے۔ چوتھی نے کہا ڈھول کا ذکر آئے۔ خسرو نے برجستہ کہا:
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا​
آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا​
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔لا پانی لا​
میری یہ انمل بے جوڑ کہانی سُن کر آپ ڈھول بجانے پر تیار ہوں ، میں پانچویں مضمون کا بھی ذکر کر دوں یعنی پاکستان کس طرف Whither Pakistan۔ اُردو ترجمہ "کدھر پاکستان" زیادہ برجستہ ہے۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جدھر پاکستان ادھر ہم۔ "مگر پاکستان کس طرف" کی بات ہو تو میرا خیال ہے کہ پاکستان اب پنچایتوں کی طرف جا رہا ہے۔ اس لئے آپ بھی جائیں اور میں یہیں بیٹھ جاتا ہوں۔

افکارِ پریشاں۔ باب بے ادبی۔ آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا۔ افکارِ پریشاں (قسط اول) سے اقتباس​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کون سی عدل و انصاف کی راہیں ہیں؟ کچھ تو قانونی رکاوٹیں ہیں ، کچھ رکاوٹیں ہم خود پیدا کر لیتے ہیں۔ جیسے کسی وکیل کو خوش کرنے کے لئے ہم حکمِ امتناعی جاری کر دیتے ہیں۔ ایک دفعہ میں جب میں سینئر جج تھا ، ایک شخص کا مقدمہ زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے خارج ہوا۔ اس نے کہا یہ تو عدالت نہ ہوئی۔ میں نے تلخی سے جواب دیا۔ تلخی میرے دل میں تھی زبان پر نہ تھی اور تلخی کا سبب یہ تھا کہ میں بے اختیار تھا۔ میں نے کہا کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے؟ یہ تو کچہری ہے اور آپ یقین جانئے کہ میری عدالتی زندگی اسی عدالت اور کچہری میں توازن قائم کرنے پر صَرف ہوئی ہے۔ ہائی کورٹ میں جو کو لوگ عدالتِ عالیہ کہتے ہیں اگر کبھی ایسی کوشش میں نے کی۔۔۔۔ مگر خیر ان کوششوں کا ذکر چھوڑیے۔ ہم تو ابھی تک عدل و انصاف کی پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں۔ شاہراہیں تو ملی ہی نہیں۔ شاہراہوں تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اور ہم مل کر کوشش کریں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں دیانت داری سے کام لیں۔ دفتروں میں باتوں سے زیادہ کام کریں۔ ہل چلانا ہو تو زمین کو زیادہ کھودیں۔ لڑکوں کو پڑھانا ہے تو اس طرح پڑھائیں کہ چھٹی کے دن بھی وہ مدرسے کے خواب دیکھا کریں۔
جمعہ بہ مکتب آورد طفلِ گریز پائے را
یا پھر ایک دیوانی عدالت کو لیجئے جس نے محرر کو جمعبندی کے ساتھ طلب کیا ہو۔ محرر پٹواری پہلے تو آتا نہیں۔ جب آتا ہے تو بغیر جمعبندی کے۔ اس موقع پر عدالت تین چار ماہ کی تاریخ نہ دے کیونکہ جمعبندی سامنے ریکارڈ روم میں پڑی ہے اور محرر پٹواری آدھ گھنٹے میں جا کر میں جا کر لا سکتا ہے۔ اور کیا کیا کہوں۔ جس انگریز ڈپٹی کمشنر نے مجھے سروس کے ابتدائی مراحل سے نکالا ، وہ کہا کرتا تھا کہ ہندوستانیوں میں (اس وقت ہندوستان واحد تھا) یہ
بڑا نقص ہے کہ کوئی کام انہماک سے نہیں کرتے۔ ان کی توجہ سطحی اور سرسری ہوتی ہے اور میں اپنے محدود حلقے میں یہی تلقین کرتا رہا ہوں کہ یا تو کام کرو ہی نہیں ، اور اگر کرنا ہے تو اچھی طرح سے کرو۔ جن سعادت مندوں نے میری نصیحت سُنی ہے انہوں نے میری ہدایت کے پہلے حصے پر عمل کرتے ہوئے سرے سے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

افکارِ پریشاں۔ باب بے ادبی۔ آیا کُتا کھا گیا تُو بیٹھی ڈھول بجا۔ افکارِ پریشاں (قسط اول) سے اقتباس
 

تلمیذ

لائبریرین
میں نے کہا کون کہتا ہے کہ یہ عدل و انصاف کی جگہ ہے؟ یہ تو کچہری ہے اور آپ یقین جانئے کہ میری عدالتی زندگی اسی عدالت اور کچہری میں توازن قائم کرنے پر صَرف ہوئی ہے۔ ہم تو ابھی تک عدل و انصاف کی پگڈنڈیوں پر چل رہے ہیں۔ شاہراہیں تو ملی ہی نہیں۔ شاہراہوں تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اور ہم مل کر کوشش کریں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں دیانت داری سے کام لیں۔ دفتروں میں باتوں سے زیادہ کام کریں ۔

ملاحظہ کریں:
نیب کے موجودہ چئیر مین کا تازہ ترین بیان کہ عدلیہ پاکستان کا بد عنوان ترین ادارہ ہے، حالانکہ وہ خود ایک ریٹائرڈ جسٹس ہیں۔

جس انگریز ڈپٹی کمشنر نے مجھے سروس کے ابتدائی مراحل سے نکالا ، وہ کہا کرتا تھا کہ ہندوستانیوں میں (اس وقت ہندوستان واحد تھا) یہ بڑا نقص ہے کہ کوئی کام انہماک سے نہیں کرتے۔ ان کی توجہ سطحی اور سرسری ہوتی ہے اور میں اپنے محدود حلقے میں یہی تلقین کرتا رہا ہوں کہ یا تو کام کرو ہی نہیں ، اور اگر کرنا ہے تو اچھی طرح سے کرو۔ جن سعادت مندوں نے میری نصیحت سُنی ہے انہوں نے میری ہدایت کے پہلے حصے پر عمل کرتے ہوئے سرے سے کام کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔

کیا حقیقت نگاری ہے!!
 

تلمیذ

لائبریرین
سید زبیر نے کہا ہے:
میرا خیال ہے نیب کے موجودہ چئیرمین فصیح بخاری سابقہ نیول چیف ہیں۔
کم علمی کےباعث غلطی کی معافی محترم۔ میں انہیں آج تک ایک سابق جسٹس ہی سمجھتا رہا۔ (پھر تو ان سے عدلیہ کے بارے میں ہر قسم کے بیان کی توقع کی جا سکتی ہے۔):)
 
Top