جسٹس قاضی فائز نے شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے

ابن آدم

محفلین
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےگزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایک اور جواب جمع کرایا جس میں سوال کیا گیا کہ شہزاد اکبر کو کس نے ملازمت پر رکھا؟ کیا ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کے عہدے کا اشتہار دیا گیا ؟ کیا اثاثہ ریکوری کے چیئرمین کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں، کیا شہزاد اکبر کا انتخاب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ ان تین چار سوالات کے جواب منفی میں ہیں توکیسے ملازمت پر رکھا گیا؟ شہزاد اکبر کی ملازمت کی شرائط اور ضوابط کیا ہیں ؟ کیا شہزاد اکبر پاکستانی ہیں؟ غیر ملکی ہیں یا دوہری شہریت رکھتے ہیں؟ اثاثہ ریکوری یونٹ قانونی نہ ہونے پر خرچ کی جانے والی رقم عوام کے پیسے کی چوری ہے؟

انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ کے جج اور اہل خانہ کے بارے میں معلومات غیر قانونی طور پر اکٹھا کیں، شہزاد اکبر نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ ظاہر کیوں نہیں کیا؟ ان کا اِنکم ٹیکس اور ویلتھ اسٹیٹس کیا ہے؟ شہزاد اکبر نے کب اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن داخل کرانا شروع کیے؟ انہوں نے اپنی جائیداد، اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھائے کہ شہزاد اکبر نے اپنی بیوی اور بچوں کے نام کیوں ظاہر نہیں کیے؟ ان کی بیوی اور بچےکس ملک کی شہریت رکھتے ہیں؟ کیا شہزاد اکبر کی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں پاکستان میں ہیں یا بیرون ملک؟ کیا انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں اپنے گوشواروں میں ظاہر کیں؟ عدالتی توہین کے پیچھے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان ، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر مرزا کی تکون ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے
 

جاسم محمد

محفلین
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےگزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایک اور جواب جمع کرایا جس میں سوال کیا گیا کہ شہزاد اکبر کو کس نے ملازمت پر رکھا؟ کیا ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کے عہدے کا اشتہار دیا گیا ؟ کیا اثاثہ ریکوری کے چیئرمین کے لیے درخواستیں طلب کی گئیں، کیا شہزاد اکبر کا انتخاب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ ان تین چار سوالات کے جواب منفی میں ہیں توکیسے ملازمت پر رکھا گیا؟ شہزاد اکبر کی ملازمت کی شرائط اور ضوابط کیا ہیں ؟ کیا شہزاد اکبر پاکستانی ہیں؟ غیر ملکی ہیں یا دوہری شہریت رکھتے ہیں؟ اثاثہ ریکوری یونٹ قانونی نہ ہونے پر خرچ کی جانے والی رقم عوام کے پیسے کی چوری ہے؟

انہوں نے مزید سوال اٹھایا کہ شہزاد اکبر نے سپریم کورٹ کے جج اور اہل خانہ کے بارے میں معلومات غیر قانونی طور پر اکٹھا کیں، شہزاد اکبر نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ ظاہر کیوں نہیں کیا؟ ان کا اِنکم ٹیکس اور ویلتھ اسٹیٹس کیا ہے؟ شہزاد اکبر نے کب اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن داخل کرانا شروع کیے؟ انہوں نے اپنی جائیداد، اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے بارے میں کیوں نہیں بتایا؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھائے کہ شہزاد اکبر نے اپنی بیوی اور بچوں کے نام کیوں ظاہر نہیں کیے؟ ان کی بیوی اور بچےکس ملک کی شہریت رکھتے ہیں؟ کیا شہزاد اکبر کی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں پاکستان میں ہیں یا بیرون ملک؟ کیا انہوں نے اپنی بیوی اور بچوں کی جائیدادیں اپنے گوشواروں میں ظاہر کیں؟ عدالتی توہین کے پیچھے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان ، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم اور شہزاد اکبر مرزا کی تکون ہے۔

جسٹس قاضی فائز نے شہزاد اکبر سے متعلق 15 سوالات اٹھادیے
احتساب کے معاملہ میں جسٹس فائز عیسی اور ن لیگ ایک پیج کیا ایک سطر پر ہیں۔ شریف خاندان کو بھی جب پاناما کیس میں احتساب کیلئے بلوایا جاتا تھا تھا تو وہ پیشی کے بعد باہر نکل کر سارا غصہ نیب افسران پر نکالتے تھے۔ ایک دن تو مریم نواز نے یہاں تک کہہ دیا کہ نیب نے ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیا :)
 

ابن آدم

محفلین
شہزاد اکبر کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے سوالات کے جواب دینے سے انکار
اسلام آباد:

شہزاد اکبر نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے سوالات کے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی ملزم ہیں وہ مجھ سے سوال نہیں کرسکتے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس کی سماعت کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر سپریم کورٹ پہنچے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسٰی اس کیس میں ملزم ہے، ملزم کسی دوسرے سے کیسے سوال کر سکتا ہے، کٹہرے میں کھڑے ملزم کو جواب نہیں دیا جاتا۔

شہزاد اکبرکا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے مجھ سے سوالات کیے ہیں، عدالت نے ان کے الزمات پر مجھ سے پوچھا تو عدالت میں جواب دوں گا۔

واضح رہے کہ جسٹس فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کیخلاف کیس میں متفرق درخواست جمع کرائی ہے جس میں انہوں نے شہزاد اکبر کی تعیناتی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ شہزاد اکبر کی بطور چیئرمین اثاثہ جات ریکوری یونٹ تعیناتی غیرقانونی ہے، یہ یونٹ کس نے بنایا اور چیئرمین کس نے تعینات کیا؟ کیا چیئرمین کی تعیناتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوئی؟ کیا شہزاد اکبر نے اپنے اثاثے اور اہلخانہ کی شہریت ظاہر کی؟۔

شہزاد اکبر کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے سوالات کے جواب دینے سے انکار - ایکسپریس اردو
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز کیس؛ سپریم کورٹ کے وفاقی حکومت سے 4 سوال
ویب ڈیسک منگل 2 جون 2020
2046836-supremecourt-1591087668-503-640x480.jpg

جسٹس قاضی فائز کیخلاف شکایت صدر یا جوڈیشل کونسل کی بجائے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی، سپریم کورٹ

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے 4 سوال کے جواب مانگ لیے۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ سابق وزیر قانون فروغ نسیم، وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر اور سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملائکہ بخاری سپریم کورٹ میں حاضر ہوئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے فروغ نسیم پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ ایک مقدمے میں واضح کرچکی، سرکار کی طرف سے پرائیویٹ وکیل پیش ہوکر دلائل نہیں دے سکتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاقی حکومت کو نمائندگی کا مکمل حق حاصل ہے، ایک اٹارنی جنرل انور منصور ریٹائرڈ ہوئے دوسرے اٹارنی جنرل نے مقدمے کی پیروی سے معذرت کرلی، اب عدالت کی معاونت کیلئے وفاقی حکومت نے وکیل تو کرنا ہے، اعتراض مناسب نہیں ہے، ہم آپ کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ لندن کی تین جائیدادیں معزز جج کے بچوں اور اہلیہ کے نام پر ہیں، اصل سوال یہ ہے کہ جائیدادیں کن ذرائع سے خریدی گئی، پاکستان سے جائیدادیں خریدنے کے لیے پیسہ باہر کیسے گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی منی ٹریل نہیں دیتے تو یہ مس کنڈکٹ ہے۔

جسٹس قاضی امین نے کہا کہ وفاق کو ججز کی جائیدادوں سے کیا مسئلہ ہے، کیا ججز پر بغیر شواہد اور شکایت کے سوال اٹھایا جا سکتا ہے؟ ٹھوس شواہد نہیں ہیں تو ججز کی ساکھ پر سوال کیوں اٹھایا جاتا ہے، کیا حکومتی اقدام ججز اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں؟۔

سپریم کورٹ نے فروغ نسیم سے 4 سوالات پر جواب اور دلائل طلب کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف مواد غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کیا گیا، آپ نے مواد کو قانونی اکھٹا کرنے پر دلائل دینے ہیں، شکایت اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو کیوں بھیجی گئی اور صدر مملکت یا جوڈیشل کونسل کو کیوں نہیں بھیجی گئی؟۔

جسٹس مقبول باقرنے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کس حیثیت سے معلومات اکٹھی کی؟۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت کو وحید ڈوگر کی شکایت کی کاپی درخواست گزار جج کو فراہم کرنی چاہیے تھی، وحید ڈوگر کی شکایت کی دستاویزات کا دس مرتبہ عدالت نے پوچھا ، میڈیا پر کئی بار دستاویزات دکھائی گئیں لیکن عدالت کو نہیں دی گئیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کیا ہے پہلے یہ بتائیں، شکایت یونٹ تک کیسے پہنچی اور اس یونٹ کا آرٹیکل 209 کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا عدالت کہہ سکتی ہے کہ جنابِ صدر آپ نے ہمیں غلط ریفرنس بھیجا، ججز کا فروغ نسیم سے سوال

اسد علی طور
جون 3, 2020

آج 11 بج کر 35 منٹ پر فل کورٹ کے دس ججز کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو آ جسٹس فیصل عرب کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی N-95 ماسک پہن رکھا تھا جب کہ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے نشست پر بیٹھتے ہی ماسک اتار کر سامنے رکھ دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان روسٹرم تک چھوڑنے آئے۔ جب کہ کورٹ روم نمبر ون میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر اور حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایم این اے ملیکا بخاری بھی موجود تھیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے شکایت کنندہ وحید ڈوگر کی شکایت کے بعد ہونے والی کارروائی کی تفصیلات پڑھنی شروع کر دیں۔ ججز نے تقریباً پانچ منٹ تک ان کو خاموشی سے سنا اور پھر جسٹس منصور علی شاہ نے مداخلت کرتے ہوئے سوال کیا کہ جائیدادوں کی تفصیلات کیسے تلاش کی گئیں؟ جسٹس منصور علی شاہ کے سوال میں ہی جسٹس مقبول باقر نے اپنا سوال شامل کر دیا کہ یہ جائیدادوں کی تصدیق میں کتنا وقت لگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ایک اور سوال بھی پوچھ لیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کو یہ معلومات اکٹھی کرنے کی اجازت کس نے دی اور اے آر یو کے پاس کس قانون کے تحت یہ اختیار ہے کہ وہ یہ تحقیقات کر سکے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آپ نے بہترین سوالات کیے ہیں اور میرے پاس ان کے جواب ہیں لیکن پہلے یہ بتا دوں کہ 1998 سے برطانیہ میں جائیدادیں ایک اوپن ریکارڈ ہیں اور کوئی بھی دو یا تین پاونڈ خرچ کر کے تفصیلات لے سکتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ ان جائیدادوں کی تصدیق ایک ماہ کی مدت میں مکمل کی گئی جب کہ اس تصدیق کے لئے ایسٹ ریکوری یونٹ کو مکمل قانونی معاونت حاصل تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے یہ تفصیل بتائے بغیر کہ کیا قانونی معاونت حاصل تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے نکات پڑھنے شروع کر دیے اور بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 کے ٹیکس ریٹرن میں 9285 روپے آمدن ظاہر کی۔ فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ 2011 اور 2013 میں جب یہ جائیدادیں خریدی گئیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے ابھی جوان نہیں ہوئے تھے اور یا تو وہ طالبعلم تھے یا اسی سال تعلیم ختم کی تھی تو ان کی آمدن کیا تھی؟ اور وہ بغیر کسی مورگیج کے کیسے جائیدادیں خرید سکتے تھے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے 2004 میں خریدی گئی ایک جائیداد کے بارے میں کہا کہ اس وقت تو بچے شاید شیر خوار ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو اپنی بہن کہتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ان کے ذرائع آمدن آخر کیا ہیں؟ ٹھیک ہے وہ بہت کامیاب بزنس مین اور زمیندار گھرانے سے ہیں لیکن یہ سب آمدن کی منی ٹریل تو دیں۔ ٹیکس حکام نے 2014 میں ان کو خط بھی لکھا۔

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال پوچھا کہ جب ایف بی آر نے کاروائی شروع کی تو کیا ہوا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف بی آر حکام ڈر گئے تھے کہ جج کی اہلیہ ہیں کل کو ان کو کٹہرے میں کھڑا کروا دیں گی، اس لئے انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم نے آپ کو بتا دیا ہے، اب آپ خود دیکھ لیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کے اس جواب پر سوال پوچھا کہ کیا کوئی ایسا قانون ہے کہ اگر ایف بی آر کے افسران کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیں تو ایگزیکٹو خود کارروائی شروع کر دے؟

دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی سوال شامل کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی قانون موجود ہے جو بیرون ملک چھپائی جائیدادوں سے متعلق ہو؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں آج تک کسی نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا اور ریفرنس کی بنیاد صرف یہ ہے کہ جج کی اہلیہ کی بیرون ملک جائیداد کو جج صاحب نے ظاہر نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس عمر عطا بندیال کے سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ جج کے بیوی، بچے اس کے زیرِ کفالت تھے بھی یا نہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ وہ یہ سوالات اس لئے پوچھ رہے ہیں تاکہ ہر پہلو کی اچھی طرح چھان پھٹک کر کے دیکھ لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے بھی دونوں سینئر ججز کے سوالات میں اپنا سوال شامل کرتے ہوئے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیے آپ کو یا شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اصلی نام کا کیسے پتہ تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے توجیہ دی کہ مائی لارڈ وحید ڈوگر ایک صحافی ہے اور جب بھی آپ کسی صحافی سے پوچھیں کہ معلومات کہاں سے آئی ہیں تو وہ کہتا ہے میرے ذرائع ہیں اور میں سورس نہیں بتاؤں گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کی یہ دلیل مجھ جیسے صحافی کے لئے بہت ہی حیرت انگیز تھی کیونکہ وحید ڈوگر خبر فائل نہیں کر رہا تھا کہ اس سے سورس نہ پوچھی جا سکتی ہو۔ وہ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کے خلاف شکایت درج کروا رہا تھا تو لازم تھا کہ وہ اپنے ذرائع معلومات بتاتا۔

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے قدرے بلند آواز میں پوچھا کہ وحید ڈوگر کا خط پڑھیں، اس نے تو عیسیٰ کے سپیلنگ تک ٹھیک نہیں لکھے ہوئے، وہ جائیدادوں کو کیسے سرچ کر سکتا ہے۔ اردو سپیکنگ فیملی سے تعلق رکھنے والے اور ججز کالونی میں زیادہ تر گھر کے اندر ہی رہنے والے جسٹس مقبول باقر نے طنزیہ انداز میں بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے سوال پوچھا کہ آخر یہ وحید ڈوگر کون ہے، جس کو حکومت نے اتنا سنجیدہ لیا کہ اس کی شکایت پر پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ گئی؟

سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس مقبول باقر نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی وحید ڈوگر کی سند قابلیت کیا ہے؟ کس ادارہ کے لئے رپورٹ کرتے ہیں یا کوئی فری لانسر ہیں؟ جسٹس مقبول باقر نے معنی خیز انداز میں پوچھا کہ وحید ڈوگر ماضی میں کیا خبریں دیتے رہے ہیں؟ کیا آسمان سے معلومات الہام کے طور پر ان پر اترتی ہیں؟

اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی گہری چوٹ لگاتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اس ملک میں بہت سے کام آسمان سے اترے ہوئے لوگ کرتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس کا اختتام اس سوال پر کیا کہ اے آر یو کی قانونی حیثیت بھی بتا دیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کے بولنے سے پہلے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی ایک سوال پوچھ لیا کہ 10 مئی سے 20 مئی کے دوران کیا ہوا، وہ بھی بتا دیں اور اے آر یو نے حکومت کو کوئی معلومات اور سمری بھجوائی ہوگی، وہ کہاں ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ یہ دستاویزات منگوا لیں تاکہ سیاق و سباق مکمل رہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر ججز کے اٹھائے سوالات کو بہت اہم اور جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ دستاویزات منگوا لیتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کے سوالات کے جواب دینے کی بجائے دوبارہ سے ریفرنس کی دستاویزت پڑھنی شروع کر دیں اور فل کورٹ کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2011 سے آج تک جتنے بھی ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائیں، ان میں بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ ریفرنس ملنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو بلا کر چار سوالات پوچھے اور جوابات ملنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس بھیجا۔

اس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انتہائی اہم آبزرویشن دی کہ آپ کو سن کر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صرف ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے جو آرٹیکل 209 کی حدود میں نہیں آتا کیونکہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ دیتا ہے تاکہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات لے کر کسی جج کے خلاف استعمال نہ کر سکیں اور ایسی صورت میں بالواسطہ آپ عدلیہ کے ادارے کو زخمی کر سکتے ہیں۔

سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود اور اگلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اس موقع پر کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سالانہ آمدن 37 کروڑ 72 لاکھ روپے تھی، سالانہ آمدن کا جائزہ لیں تو یہ بیرون ملک جائیداد خریدنے کے لئے کافی ہے۔ 2004 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کامیاب وکیل تھے۔ وہ یہ جائیدادیں باآسانی خرید سکتے تھے۔ وہ کرپٹ نہیں ہیں اور آج تک ان کی ذات پر ایسا کوئی الزام نہیں لگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی جائیدادیں چھپانی ہوتیں تو وہ دیگر لوگوں کی طرح کسی ٹرسٹ کے پیچھے چھپاتے جب کہ یہ جائیدادیں ان کے بیوی بچوں کے نام پر ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا رہے ہیں۔

جواب میں بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر یہ پیسہ بینکنگ چینل کے ذریعے گیا ہے تو جج صاحب دکھا دیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بیوی بچے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِ کفالت تھے اور یہ پیسے ناجائز ذرائع سے حاصل کیے گئے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ یہ بتائیں کہ کیا کسی منی لانڈرنگ قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال پوچھا کہ یہ بھی بتا دیں کہ صدر کے سامنے کیا معلومات تھیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ یہ بھی دکھائیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا کبھی اپنے بیوی بچوں کو اپنے زیرِ کفالت لکھا؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کے سوالات نظر انداز کرتے ہوئے پھر دہرایا کہ جج صاحب اپنی منی ٹریل دکھائیں۔ اب جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال پوچھا کہ وہ قانون دکھائیں جو جج کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کا جواب دینے کا بھی پابند ہے کیونکہ جج کا مؤقف تو بہت سادہ ہے کہ میں کیوں جواب دوں، آپ کو جواب چاہیے تو آپ جا کر میرے بیوی بچوں سے سوال کریں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت دی کہ وہ ایف بی آر سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا کوئی قانون ہے جو بیرون ملک جائیداد ظاہر کرنے سے متعلق ہو؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 2018 میں ایمنسٹی سکیم لائی گئی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ ایمنسٹی سکیم کا اس کیس سے کیا تعلق؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج اور اس کے اہلخانہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں لے سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے اہلخانہ نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے رجوع کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس منصور علی شاہ جھنجھلا کر بولے کہ پھر ایمنسٹی سکیم کی مثال کیوں دے رہے ہیں؟

بیرسٹر فروغ نسیم بیرون ملک جائیدادوں پر کوئی بھی قانون پیش کرنے میں ناکام رہے تو تنگ آ کر فل کورٹ کے سربراہ نے خود قانون نکال کر پڑھنا شروع کر دیا جو ایک لحاظ سے وفاق کے وکیل کے لئے شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کہ ان کی تیاری کی یہ حالت تھی کہ ججز نے خود قانون نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے قانون سے پڑھ کر سنایا کہ ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیرون ملک جائیداد ظاہر کرے۔ اب فل کورٹ کے سربراہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال کیا کہ اب وہ کوئی ایسا قانون بتائیں جو بیوی بچوں کی جائیدادیں ظاہر کرنے کا شوہر کو پابند بناتا ہو۔

بیرسٹر فروغ نے اب بھی جواب دینے کی بجائے جسٹس عمر عطا بندیال سے درخواست کی کہ سر میں بالکل بتاتا ہوں لیکن پہلے یہ ریفرنس کی جو دستاویزات تھوڑی سی رہ گئی ہیں وہ ختم کر لوں اور دوباری دستاویزات پڑھنی شروع کر دیں۔ دس منٹ تک جب بیرسٹر فروغ نسیم یہ دستاویزات پڑھتے رہے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے مداخلت کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ سکتی ہے کہ جناب صدر آپ نے ہمیں غیر قانونی ریفرنس بھیجا؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بالکل، سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ سکتی لیکن اس کی حیثیت صرف ایک آبزرویشن جتنی ہوگی کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کوئی عدالت نہیں جس کے قانونی اثرات ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس جواب پر سوال پوچھا کہ کیا یہ فل کورٹ ایسا کرے تو اس کے قانونی اثرات ہوں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی ہاں، بالکل، یہ عدالت تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔

سماعت اپنے وقت سے 25 منٹ اوپر جا چکی تھی اور 1 بج کر 25 منٹ ہو رہے تھے۔ ججز نے پوچھا کہ آج جو سوال ہم نے پوچھے، کیا کل آپ ان کے جواب لے آئیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ کل بھی ریفرنس پڑھنے کے لئے ان کو دیے گئے وقت میں تھوڑی توسیع کر دیں جس کے بعد وہ جواب دیں گے۔

ہم سب صحافی سوچ رہے تھے کہ اس کا مطلب ہے کل بھی جواب نہیں دیں گے۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ کورٹ رپورٹنگ کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہمیشہ درخواست گزار کے وکلا قانونی نکات اٹھاتے ہیں اور ججز کے ذہنوں میں سوالات چھوڑ جاتے ہیں جس کے جواب وہ دوسری طرف سے لیتے ہیں لیکن پچھلے دو روز کی سماعت میں بیرسٹر فروغ نسیم فل کورٹ کے ساتھ بالکل وہی کر رہے ہیں جو سابق اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان کر رہے تھے یعنی کہ کوئی تیاری نہیں اور سوال گندم جواب چنا۔

بہرحال ابھی تک وہ اپنی حکمت عملی میں شاید اس لئے کامیاب ہیں کہ وہ سابق اٹارنی جنرل کی طرح تلخ نہیں ہوتے بلکہ ہر سوال پر ججز کے لئے تعریفی جملے کہتے ہیں اور پھر جواب دیے بغیر بات بدل دیتے ہیں۔ بہرحال پچھلی سماعت پر لکھوائے گئے چار سوالات کے جواب تو بیرسٹر فروغ نسیم نے آج نہیں دیے اور نہ ہی آج پوچھے کسی سوال کا جواب دیا لیکن فل کورٹ نے کل کے لئے مزید تین سوالات بیرسٹر فروغ نسیم کو لکھوا دیے۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ آپ کل وہ قانون لے کر آئیں جو جج کو بیوی بچوں سے منسلک کرے۔ دوسرا سوال تھا کہ اگر ریفرنس میں وقعت ہے لیکن معلومات میں کوتاہی تو کیا سپریم جوڈیشل کونسل اس کو ریفرنس مان سکتی ہے؟ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ بھی ایک سوال لکھوایا جس پر ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر ہڑبڑا کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، اور اپنی نوٹ بک نکال لی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ کل فل کورٹ کو بتائیں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے پاس اب تک کتنی شکایات عام شہریوں نے جمع کروائی ہیں اور اس پر ایسٹ ریکوری یونٹ نے کیا کارروائی کی۔ اس کے بعد فل کورٹ کے ججز سماعت کل دن ساڑھے 11 تک ملتوی کر کے اٹھ گئے۔
 
گویا آج اسٹیبلشمنٹ کے لفافی وزیر کی بہترین کلاس لی گئی۔

یہ موصوف ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں۔ جب ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی تو صرف خالد مقبول صدیقی علیحدہ ہوئے۔ یہ صاحب حکومت میں بیٹھے رہے۔ اب باربار اسٹیبلشمنٹ کے کام سے علیحدہ ہوتے ہیں اور کام مکمل ہوتے ہی دوبارہ نوکری پر رکھ لیے جاتے ہیں۔ سیلیکٹڈ کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرسکے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
گویا آج اسٹیبلشمنٹ کے لفافی وزیر کی بہترین کلاس لی گئی۔
یہ اعلیٰ عدالتیں ایسے ڈرامے ہی کرتی ہیں۔ جو بھی فیصلہ دینا ہوتا ہے وہ پہلے ہی کر لیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو ٹف ٹائم دینے کیلئے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن معطل کر دی تھی۔ اور پھر انہی لفافہ وزیر کو عدالت میں بلوا کر کافی کان کھینچے تھے۔ بعد میں حسب منشا ایکسٹینشن کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ موصوف ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن ان کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں۔ جب ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی تو صرف خالد مقبول صدیقی علیحدہ ہوئے۔ یہ صاحب حکومت میں بیٹھے رہے۔ اب باربار اسٹیبلشمنٹ کے کام سے علیحدہ ہوتے ہیں اور کام مکمل ہوتے ہی دوبارہ نوکری پر رکھ لیے جاتے ہیں۔ سیلیکٹڈ کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرسکے۔
پاکستان میں ایک ایسا وزیر تھا جو بطور وزیر ایسے الٹے فیصلے کرتا تھا کہ جن کے عدالت میں دفاع کے لئیے کوئی وکیل بھی تیار نہ ہوتا تھا- اس وزیر کو ہر بار استعفی دے کر اپنے فیصلوں کے دفاع کیلئیے بطور وکیل عدالت میں پیش ہونا پڑتا تھا- ہر بار عدالت بھی اسے بطور وکیل سرکار پیش ہونے دیتی-
منقول
 
پاکستان میں ایک ایسا وزیر تھا جو بطور وزیر ایسے الٹے فیصلے کرتا تھا کہ جن کے عدالت میں دفاع کے لئیے کوئی وکیل بھی تیار نہ ہوتا تھا- اس وزیر کو ہر بار استعفی دے کر اپنے فیصلوں کے دفاع کیلئیے بطور وکیل عدالت میں پیش ہونا پڑتا تھا- ہر بار عدالت بھی اسے بطور وکیل سرکار پیش ہونے دیتی-
منقول

ایک جملہ رہ گیا۔
" اور ملک کا وزیراعظم بیٹھا جھک مارتا"
 

جاسم محمد

محفلین
سیلیکٹڈ کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرسکے۔
" اور ملک کا وزیراعظم بیٹھا جھک مارتا"
یہ بات درست نہیں ہے۔ حکومت نے اس کیس میں اپنا اٹارنی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش کیا تھا مگر ان سب نے معذرت کر لی۔ ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ جسٹس فائز عیسیٰ 2023 میں ملک کے چیف جسٹس بنیں اس لئے یہ کیس ان کا وکیل فروغ نسیم ہی لڑ سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس ملک میں کسی سے بھی منی ٹریل مانگیں تو اپنے آپ کو کلئیر کرنے کی بجائے ہر کوئی یہ کہتا ہے 'کس قانون کے تحت میری جائیدادوں کا پتہ چلایا' :sneaky:
کل کس طرح منصف کرپٹ سیاستدان سے پوچھے گا کہ تمہارے اہل خانہ کے نام جائیدادیں کیسے بنیں۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
لفافیوں کو بڑی خوش فہمی ہے۔ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن معطلی والا کیس اتنی جلدی بھول گئے؟ وہاں بھی عدالت نے فروغ نسیم کی درگت بنا کر فیصلہ جنرل صاحب کے حق میں سنا دیا تھا
 

جاسم محمد

محفلین
آج کی سماعت کا مکمل احوال:

’ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بدنیتی تھی یا نہیں؟‘ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس وینٹی لیٹر پر
اسد علی طور جون 4, 2020

آج 11 بج کر 33 منٹ پر سب سے پہلے بغیر ماسک پہنے جسٹس قاضی محمد امین احمد کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوئے اور ان کے پیچھے دس رکنی فل کورٹ کے بقیہ نو ججز کمرہ عدالت میں داخل ہوئے۔ جسٹس فیصل عرب نے بھی آج سادہ ماسک پہن رکھا تھا۔ فل کورٹ کے سامنے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، بیرسٹر فروغ نسیم، عرفان قادر، خالد رانجھا فرنٹ لائن میں اور ان سے پچھلی لائن میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر اور حکومتی جماعت تحریک انصاف کی ایم این اے ملیکا بخاری بیٹھی تھیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے حسب روایت دلائل کا آغاز ججز کی تعریف کرتے ہوئے کیا کہ میں بینچ کا شکر گزار ہوں کہ میری بہت رہنمائی کی اور آپ کی رہنمائی سے 27 نکات بنا کر لایا ہوں جو آج ابھی پڑھوں گا۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی تصحیح کی کہ 27 پہلو ہوں گے، نکات نہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو مزید ہدایت کی کہ میرے بھائی ججوں نے آپ سے بدنیتی اور ایسٹ ریکوری یونٹ پر سوالات پوچھے تھے، براہِ مہربانی ان کے جواب دے دیں آج۔


27 نکات کی تحریری کاپی تمام ججز کے سامنے عملے نے رکھ دی تو بیرسٹر فروغ نسیم نے صدر کیسے ریفرنس کے مواد پر سوچ بچار کرتا ہے والا نکتہ بیان کرنا شروع کر دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوک کر کہا کہ ریفرنس کا معاملہ اے آر یو سے شروع ہوتا ہے، پہلے اس کا بتائیں تاکہ واقعات کا تسلسل قائم رہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ مائی لارڈ وہ چوتھے نمبر پر ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ کیا صدر نے سوچ بچار اور ذہن استعمال کر کے نتیجے پر پہنچنے کے لئے کیسے فیصلہ کیا کہ یہ اہل اور قابل بھروسہ معلومات ہیں؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آپ سوچتے ہوں گے کہ صدر ڈاکٹر اور وزیر اعظم سابق کرکٹر اور سیاستدان ہے تو وہ اتنے پیچیدہ ٹیکس قوانین کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے وضاحت کی کہ ایسا کرنے کے لئے صدر اور وزیر اعظم ریاست کے اداروں کا استعمال کرتے ہیں۔ وزارت قانون، سیکرٹری، اٹارنی جنرل، ایف بی آر حکام اور وزیر قانون سے مشاورت کی جاتی ہے جو سمریوں کی صورت میں ہوتی ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے سوال پوچھا کہ کیا صدر نے پوری دستاویزات کے مطالعہ اور سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ ریفرنس بنتا ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ صدر کابینہ کی رائے کا پابند ہے تو آپ غلط راستے پر جا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے طنزیہ انداز میں بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال پوچھا کہ آپ سے بار بار ایسٹ ریکوری یونٹ کا سوال پوچھ رہے ہیں جس باڈی نے یہ تحقیقات کی ہیں لیکن آپ ہر بار کہتے ہیں کہ بعد میں بتائیں گے۔ اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے سوال پوچھا کہ کیا صدر قانون سے غلط نتیجہ بھی اخذ کر سکتا ہے؟ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صدر کی رائے خودمختار تھی یا کسی اور کی رائے پر انحصار کر رہے تھے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 48 کے تحت اگر صدر کسی سمری سے مطمئن نہ ہو تو وہ اعتراض لگا کر کابینہ کو واپس بھی بھیج سکتا ہے۔

اب بیرسٹر فروغ نسیم نے ایسٹ ریکوری یونٹ کا پس منظر بیان کرنے کے لئے 2018 کا سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا اور بتایا کہ کیسے سپریم کورٹ نے بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس پر تجویز کیا تھا کہ تمام ایجنسیاں مل کر معلومات اکٹھی کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ نے ایسی کوئی باڈی بنانے کی ہدایت دی ہے اس فیصلہ میں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ حکم تو نہیں دیا لیکن ہم نے اس پیراگراف کو ہی بنیاد بنایا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ سوال کیا کہ ایسی کوئی باڈی بنائی جا سکتی ہے جس کے لئے کوئی قانون سازی بھی نہ کی جائے؟ اور اس آرڈر میں ایسٹ ریکوری یونٹ بنانے کا کہیں نہیں کہا گیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا تھا، صرف احساس دلایا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیر اعظم کے رولز آف بزنس پڑھتے ہوئے بتایا کہ ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جس کی سفارش پر ایسٹ ریکوری یونٹ بنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اگر وزیر اعظم کسی باڈی کا سربراہ کسی کو تعینات کرتے ہیں تو ایک پورا پراسیس ہوتا ہے، وہ کیا تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ رولز آف بزنس وزیر اعظم کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات کا مرضی کے مطابق استعمال کر سکیں۔ اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس منصور علی شاہ کی 2013 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا بھی حوالہ دیا کہ انہوں نے بھی رولز آف بزنس کو لاگو کرنا لازم قرار دیا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے فل کورٹ کو آگاہ کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کابینہ ڈویژن کے ماتحت آتا ہے اور یہ ایک مکمل قانونی کارروائی ہے، اس میں کچھ بھی غیرقانونی نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ جیسی کوئی بھی باڈی کسی شہری کو نہیں چھو سکتی جب تک اس کو کسی قانون کے تحت نہ بنایا گیا ہو۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ صرف حکومتی تحقیقاتی ایجنسیوں میں تعاون کا کام کرتا ہے، شہریوں کو کچھ نہیں کہتا۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے بیرون ملک ایک ایجنسی کی خدمات حاصل کیں۔ وہ کس قانون کے تحت ایسا کرسکتا ہے؟ جسٹس فیصل عرب نے سوال پوچھا کہ اگر اے آر یو نہ ہوتا اور یہ شکایت صدر کے پاس آتی تو کیا وہ دیگر ایجنسیوں کی خدمات لیتے؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے اثبات میں جواب دیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانونی ایجنسیوں ایف بی آر اور ایف آئی اے کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو کی جانب سے باڈی حرکت میں لائی گئی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس منصور علی شاہ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے سوال اٹھایا کہ وزارت داخلہ کے ماتحت ایف آئی اے آتی ہے اور ایف آئی اے کے مینڈیٹ میں کرپشن بھی آتی ہے تو ایف آئی کی خدمات لے لیتے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف آئی جج کے معاملات کو نہیں دیکھ سکتی۔ جسٹس مقبول باقر نے چونک کر پوچھا تو کیا ایسٹ ریکوری یونٹ دیکھ سکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر وضاحت کی کہ کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں ہے لیکن تحقیقات قانون کے تحت قیام میں لائے گئے ایف آئی اے اور ایف بی آر جیسے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر مسکراتے ہوئے طنز کیا کہ وہ ایک ہلکی پھلکی بات کہنا چاہتے ہیں کہ بیرسٹر فروغ نسیم ہمارے سوالات سے بہت لطف اٹھاتے ہیں اور ججز کو سراہتے رہتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جھینپ کر کہا کہ میرا مقصد بے جا تعریف نہیں ہوتا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اے آر یو کا مینڈیٹ پڑھتے ہوئے سوال کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے ٹرمز آف ریفرنس کی شق 4 کہتی ہے کہ اگر اس کو ٹیکس چوری سے متعلق کوئی معلومات ملتی ہیں تو وہ ایف بی آر کو آگاہ کرے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی قانون ایسٹ ریکوری یونٹ کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی شہری کے متعلق معلومات اکٹھی کرے۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے ایک بہت ہی اہم نکتہ اٹھایا جس نے آج کی حد تک کم از کم پورے حکومتی ریفرنس کو وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ آپ کہتے ہیں ایسٹ ریکوری یونٹ صرف کوآرڈینیٹ کرتا ہے اور ڈوگر نے اے آر یو کے سربراہ کا دروازہ کھٹکٹایا اور انہوں نے ڈوگر کا پس منظر جانے بغیر تحقیقات شروع کر دیں۔ جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ اے آر یو کو جب یہ پتہ چل بھی گیا کہ یہ ایک ٹیکس کی خلاف ورزی کا معاملہ تھا تو پھر کس نے فیصلہ کیا کہ یہ تو مس کنڈکٹ ہے؟ وہ عقلمند کون تھا جس کو یہ شاندار خیال سوجھا کہ یہ ریفرنس بنتا ہے؟

بیرسٹر فروغ نسیم بولے کہ یہ فیصلہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے انہیں فوری خبردار کیا کہ بیرسٹر فروغ نسیم، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔


جسٹس منیب اختر دوبارہ بولے۔ انہوں نے پوچھا کہ اگر یہ جائیداد 2013 میں خریدی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آمدن سے جائیداد خریدی گئی وہ 2013 سے پہلے کی ہوگی اور کرپشن کا الزام نہیں تو وہ جائز آمدن ہوگی اور 2013 سے پہلے بیرون ملک بھیجی گئی ہوگی؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی بالکل ایسا ہی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ایک دستاویز ہوا میں لہرا کر ریمارکس دیے کہ میرے ہاتھ میں اینٹی منی لانڈرنگ قانون ہے جو 2016 میں بنا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ 2013 میں موجود نہیں تھا، جب یہ جائیداد خریدی گئی تو اس وقت یہ جرم بھی نہیں تھا۔

جسٹس منیب اختر نے دوبارہ سوال پوچھا کہ وہ عقلمند بتائیں جس کے ذہن میں ریفرنس بنانے کا اچھوتا خیال آیا؟ منیب اختر نے اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میں بہت ہی نرم لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے کہوں گا کہ یہاں فیصلہ کرنے میں بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ جواب میں بیرسٹر فروغ نسیم واضح طور پر گھبرائے ہوئے نظر آئے اور ان سے اگر مگر سے زیادہ جواب نہیں بن پا رہا تھا۔

فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال جو جسٹس منیب اختر کے بیرسٹر فروغ نسیم کے ساتھ مکالمے کے دوران قریباً ہنسنا شروع ہو گئے تھے، انہوں نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں آخر یہ شاندار دماغ کس کے پاس ہے، جس نے یہ نہیں سوچا کہ معاملہ ایف بی آر یا ایف آئی اے یا نیب کو نہیں بھیجنا بلکہ ریفرنس بنانا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے وضاحت کی کہ منیر اے ملک سمیت ہم سب متفق ہیں کہ ججز بھی قابلِ احتساب ہیں لیکن احتساب کیا اس انداز میں کیا جائے گا؟ یہ آئیڈیا کس کا تھا؟

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آخر یہ کون ہے جس نے کریز سے باہر نکل کر شاٹ کھیلی ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرٹیکل 209 کے تحت حکومت صرف معلومات دیکھ کر اپنی رائے کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیتی ہے، فیصلہ تو وہاں ہونا ہوتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دی کہ صدر نے رائے بھی قانون کے دائرے میں رہ کر ہی قائم کرنی ہوتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بدنیتی تھی یا نہیں؟

جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک بار پھر ریمارکس دیے کہ یہ کس روشن خیال کا فیصلہ تھا کہ جج کے خلاف ٹیکس کا معاملہ نہیں کھولنا بلکہ ریفرنس دائر کرنا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ سپریم کورٹ کے جج کا عوام میں اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید سوال اٹھایا کہ جب ٹیکس امور فوجداری جرائم میں نہیں آتے تو آخر آپ نے اس کو کرمنل کیسے سمجھ لیا؟

بیرسٹر فروغ نسیم اب مکمل طور پر گھبرا چکے تھے۔ انہوں نے پہلو بدلتے ہوئے ججز سے استدعا کی کہ میں تو آپ کے ایسٹ ریکوری یونٹ پر سوال کا جواب دیا تھا، آپ اس طرف آ گئے ہیں جس کی ابھی تیاری نہیں کی میں نے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے طنز کیا کہ لیکن ایسٹ ریکوری یونٹ پر بھی جو پوچھا تھا، اس کا بھی آپ اب تک جواب نہیں دے سکے کہ کس اختیار کے تحت ایسٹ ریکوری یونٹ نے یہ کارروائی کی؟

جسٹس سجاد علی شاہ نے تقریباً جھنجھلا کر ریمارکس دیے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا کام تو بیرون ملک سے جائیدادیں واپس لانا تھا اور جب جج کہتا ہے کہ میرا ان جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں تو ایسٹ ریکوری یونٹ جائیداد واپس لاتا نہ کہ جج کے پیچھے چلا جاتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم پر طنز کیا کہ آپ نے آج کے تو چھوڑیے، کل کے سوال کا جواب بھی نہیں دیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے اب تک عام شہریوں کی شکایات پر کتنی کارروائیاں کی ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کی حالت دیکھ کر دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت سوموار دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی اور انہیں تمام سوالوں کی تیاری کر کے آنے کی ہدایت کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن قوم نیازی حکومت کی بدنیتی دیکھ رہی ہے۔
جسٹس فائز عیسی منی ٹریل نہیں دیں گے۔ نہ ہی ان کے ساتھی ججز ان سے غیرملکی اثاثہ جات کی منی ٹریل مانگیں گے۔ بلکہ سارا کیس الٹا حکومت و اسٹیبلشمنٹ پر دائر کر دیا جائے کہ کس قانون کے تحت ججوں کی جاسوسی کی اور ان کی غیرملکی املاک پتا لگایا؟
ویسے بھی اگر کسی جج نے ملک سے باہر جائیدادیں بنا لی ہیں تو اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ شریف خاندان سے لے کر زرداری خاندان تک سب کی بیرون ممالک میں اربوں روپے کی جائیدادیں ہیں۔ بڑے بڑے سابق جرنیل، بیروکریٹس اس وقت ملک سے باہر قیمتی جائیدادوں میں قیام پذیر ہیں۔ یہ ملک جیسا ہے ویسے ہی چلنے دیا جائے۔ کسی سے پوچھ گچھ نہ کی جائے کہ تم نے یہ اثاثے کیسے بنائے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کا کلچر قائم رکھا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ضرور پوچھا جائے لیکن ۔۔ صرف وہی دام میں کیوں لائے جاتے ہیں جو اسٹیبلیشمنٹ کی دم پر پاؤں رکھتے ؟
کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ملک کی خیرخواہ نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی اجارہ داری چیلنج کرنے والوں کو احتساب کے ذریعہ راستے سے ہٹانے کا گر جانتی ہے۔ حالانکہ جتنی کرپشن یہ کرنل جرنل کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں۔ یہی احتساب ان سب کا ہونے لگے تو ملک کے سارے کور کمانڈرز فارغ ہو جائیں۔
 
فیصلہ کچھ بھی ہو لیکن قوم نیازی حکومت کی بدنیتی دیکھ رہی ہے۔
میں اسے بد نیتی بھی مانوں گا لیکن بیچارے مجبور محض ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا اصل جرم تو نکے دے ابے کے کالے کرتوتوں پر بات کرنا ہے۔

جسٹس افتخار کو جب پی پی والے بحال نہیں کر رہے تھے تو ان دنوں ایک نہایت قریبی عزیز کا ٹھکانہ اسلام آباد میں ہوتا تھا۔ جو کچھ انھوں نے دیکھا انھی کی زبانی سنیے۔

پی پی والوں کی صبح و شام میڈیا والے درگت بناتے تھے اور وہ بہت حوصلے سے سنتے اور جواب دیتے رہتے تھے۔ انھی ایام میں جنرل کیانی کے ایک برادر صغیر سے کچھ کاروباری سا تعلق بنا۔ ایک روز وہ ہمارے باس کے پاس بیٹھے خوش گپیاں لگا رہے تھے تو اطلاع ملی کہ زرداری صاحب کے مشیر ڈاکٹر قیوم سومرو کسی اہم پیغام کے ساتھ یہیں تشریف لا رہے۔ پیغام یہ تھا کہ ہمارے بندے جواب دہی سے تھک گئے ہیں اور اب ہاتھ جوڑتے ہیں کہ ہمیں اسے بحال کرنے دیں۔ پیغام اسی رات بوساطت برادر صغیر بادشاہ سلامت کو پہنچ گیا۔ اگلے روز وہ جواب لینے آئے تو حکم دیا گیا کہ سرکس مزید کچھ دن جاری رہنی چاہیئے۔
 
Top