کیا عدالت کہہ سکتی ہے کہ جنابِ صدر آپ نے ہمیں غلط ریفرنس بھیجا، ججز کا فروغ نسیم سے سوال
اسد علی طور جون 3, 2020
آج 11 بج کر 35 منٹ پر فل کورٹ کے دس ججز کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو آ جسٹس فیصل عرب کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی N-95 ماسک پہن رکھا تھا جب کہ جسٹس قاضی محمد امین احمد نے نشست پر بیٹھتے ہی ماسک اتار کر سامنے رکھ دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان روسٹرم تک چھوڑنے آئے۔ جب کہ کورٹ روم نمبر ون میں ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر اور حکمران جماعت تحریک انصاف کی ایم این اے ملیکا بخاری بھی موجود تھیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے شکایت کنندہ وحید ڈوگر کی شکایت کے بعد ہونے والی کارروائی کی تفصیلات پڑھنی شروع کر دیں۔ ججز نے تقریباً پانچ منٹ تک ان کو خاموشی سے سنا اور پھر جسٹس منصور علی شاہ نے مداخلت کرتے ہوئے سوال کیا کہ جائیدادوں کی تفصیلات کیسے تلاش کی گئیں؟ جسٹس منصور علی شاہ کے سوال میں ہی جسٹس مقبول باقر نے اپنا سوال شامل کر دیا کہ یہ جائیدادوں کی تصدیق میں کتنا وقت لگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اس موقع پر ایک اور سوال بھی پوچھ لیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کو یہ معلومات اکٹھی کرنے کی اجازت کس نے دی اور اے آر یو کے پاس کس قانون کے تحت یہ اختیار ہے کہ وہ یہ تحقیقات کر سکے؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آپ نے بہترین سوالات کیے ہیں اور میرے پاس ان کے جواب ہیں لیکن پہلے یہ بتا دوں کہ 1998 سے برطانیہ میں جائیدادیں ایک اوپن ریکارڈ ہیں اور کوئی بھی دو یا تین پاونڈ خرچ کر کے تفصیلات لے سکتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ ان جائیدادوں کی تصدیق ایک ماہ کی مدت میں مکمل کی گئی جب کہ اس تصدیق کے لئے ایسٹ ریکوری یونٹ کو مکمل قانونی معاونت حاصل تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے یہ تفصیل بتائے بغیر کہ کیا قانونی معاونت حاصل تھی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے نکات پڑھنے شروع کر دیے اور بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے 2014 کے ٹیکس ریٹرن میں 9285 روپے آمدن ظاہر کی۔ فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ 2011 اور 2013 میں جب یہ جائیدادیں خریدی گئیں تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بچے ابھی جوان نہیں ہوئے تھے اور یا تو وہ طالبعلم تھے یا اسی سال تعلیم ختم کی تھی تو ان کی آمدن کیا تھی؟ اور وہ بغیر کسی مورگیج کے کیسے جائیدادیں خرید سکتے تھے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے 2004 میں خریدی گئی ایک جائیداد کے بارے میں کہا کہ اس وقت تو بچے شاید شیر خوار ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو اپنی بہن کہتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ان کے ذرائع آمدن آخر کیا ہیں؟ ٹھیک ہے وہ بہت کامیاب بزنس مین اور زمیندار گھرانے سے ہیں لیکن یہ سب آمدن کی منی ٹریل تو دیں۔ ٹیکس حکام نے 2014 میں ان کو خط بھی لکھا۔
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال پوچھا کہ جب ایف بی آر نے کاروائی شروع کی تو کیا ہوا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف بی آر حکام ڈر گئے تھے کہ جج کی اہلیہ ہیں کل کو ان کو کٹہرے میں کھڑا کروا دیں گی، اس لئے انہوں نے ہمیں کہا کہ ہم نے آپ کو بتا دیا ہے، اب آپ خود دیکھ لیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کے اس جواب پر سوال پوچھا کہ کیا کوئی ایسا قانون ہے کہ اگر ایف بی آر کے افسران کوئی کارروائی کرنے سے انکار کر دیں تو ایگزیکٹو خود کارروائی شروع کر دے؟
دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بھی سوال شامل کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا ایسا کوئی قانون موجود ہے جو بیرون ملک چھپائی جائیدادوں سے متعلق ہو؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں آج تک کسی نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کرپشن کا الزام نہیں لگایا اور ریفرنس کی بنیاد صرف یہ ہے کہ جج کی اہلیہ کی بیرون ملک جائیداد کو جج صاحب نے ظاہر نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس عمر عطا بندیال کے سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ جج کے بیوی، بچے اس کے زیرِ کفالت تھے بھی یا نہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ وہ یہ سوالات اس لئے پوچھ رہے ہیں تاکہ ہر پہلو کی اچھی طرح چھان پھٹک کر کے دیکھ لیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے بھی دونوں سینئر ججز کے سوالات میں اپنا سوال شامل کرتے ہوئے پوچھا کہ پہلے یہ بتائیے آپ کو یا شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اصلی نام کا کیسے پتہ تھا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے توجیہ دی کہ مائی لارڈ وحید ڈوگر ایک صحافی ہے اور جب بھی آپ کسی صحافی سے پوچھیں کہ معلومات کہاں سے آئی ہیں تو وہ کہتا ہے میرے ذرائع ہیں اور میں سورس نہیں بتاؤں گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کی یہ دلیل مجھ جیسے صحافی کے لئے بہت ہی حیرت انگیز تھی کیونکہ وحید ڈوگر خبر فائل نہیں کر رہا تھا کہ اس سے سورس نہ پوچھی جا سکتی ہو۔ وہ سپریم کورٹ کے ایک سینیئر جج کے خلاف شکایت درج کروا رہا تھا تو لازم تھا کہ وہ اپنے ذرائع معلومات بتاتا۔
اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر نے انتہائی اہم ریمارکس دیے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے قدرے بلند آواز میں پوچھا کہ وحید ڈوگر کا خط پڑھیں، اس نے تو عیسیٰ کے سپیلنگ تک ٹھیک نہیں لکھے ہوئے، وہ جائیدادوں کو کیسے سرچ کر سکتا ہے۔ اردو سپیکنگ فیملی سے تعلق رکھنے والے اور ججز کالونی میں زیادہ تر گھر کے اندر ہی رہنے والے جسٹس مقبول باقر نے طنزیہ انداز میں بیرسٹر فروغ نسیم کو مخاطب کرتے سوال پوچھا کہ آخر یہ وحید ڈوگر کون ہے، جس کو حکومت نے اتنا سنجیدہ لیا کہ اس کی شکایت پر پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ گئی؟
سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس مقبول باقر نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی وحید ڈوگر کی سند قابلیت کیا ہے؟ کس ادارہ کے لئے رپورٹ کرتے ہیں یا کوئی فری لانسر ہیں؟ جسٹس مقبول باقر نے معنی خیز انداز میں پوچھا کہ وحید ڈوگر ماضی میں کیا خبریں دیتے رہے ہیں؟ کیا آسمان سے معلومات الہام کے طور پر ان پر اترتی ہیں؟
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے انتہائی گہری چوٹ لگاتے ہوئے کہا کہ ویسے تو اس ملک میں بہت سے کام آسمان سے اترے ہوئے لوگ کرتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنے ریمارکس کا اختتام اس سوال پر کیا کہ اے آر یو کی قانونی حیثیت بھی بتا دیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم کے بولنے سے پہلے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی ایک سوال پوچھ لیا کہ 10 مئی سے 20 مئی کے دوران کیا ہوا، وہ بھی بتا دیں اور اے آر یو نے حکومت کو کوئی معلومات اور سمری بھجوائی ہوگی، وہ کہاں ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ وہ یہ دستاویزات منگوا لیں تاکہ سیاق و سباق مکمل رہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر ججز کے اٹھائے سوالات کو بہت اہم اور جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ یہ دستاویزات منگوا لیتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کے سوالات کے جواب دینے کی بجائے دوبارہ سے ریفرنس کی دستاویزت پڑھنی شروع کر دیں اور فل کورٹ کو بتایا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 2011 سے آج تک جتنے بھی ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ جمع کروائیں، ان میں بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ ریفرنس ملنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل کو بلا کر چار سوالات پوچھے اور جوابات ملنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نوٹس بھیجا۔
اس موقع پر دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انتہائی اہم آبزرویشن دی کہ آپ کو سن کر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ صرف ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے جو آرٹیکل 209 کی حدود میں نہیں آتا کیونکہ آرٹیکل 209 عدلیہ کو تحفظ دیتا ہے تاکہ آپ چھوٹے چھوٹے معاملات لے کر کسی جج کے خلاف استعمال نہ کر سکیں اور ایسی صورت میں بالواسطہ آپ عدلیہ کے ادارے کو زخمی کر سکتے ہیں۔
سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود اور اگلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا اس موقع پر کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سالانہ آمدن 37 کروڑ 72 لاکھ روپے تھی، سالانہ آمدن کا جائزہ لیں تو یہ بیرون ملک جائیداد خریدنے کے لئے کافی ہے۔ 2004 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کامیاب وکیل تھے۔ وہ یہ جائیدادیں باآسانی خرید سکتے تھے۔ وہ کرپٹ نہیں ہیں اور آج تک ان کی ذات پر ایسا کوئی الزام نہیں لگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی جائیدادیں چھپانی ہوتیں تو وہ دیگر لوگوں کی طرح کسی ٹرسٹ کے پیچھے چھپاتے جب کہ یہ جائیدادیں ان کے بیوی بچوں کے نام پر ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا رہے ہیں۔
جواب میں بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر یہ پیسہ بینکنگ چینل کے ذریعے گیا ہے تو جج صاحب دکھا دیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوکتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بیوی بچے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِ کفالت تھے اور یہ پیسے ناجائز ذرائع سے حاصل کیے گئے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ یہ بتائیں کہ کیا کسی منی لانڈرنگ قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال پوچھا کہ یہ بھی بتا دیں کہ صدر کے سامنے کیا معلومات تھیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ یہ بھی دکھائیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیا کبھی اپنے بیوی بچوں کو اپنے زیرِ کفالت لکھا؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کے سوالات نظر انداز کرتے ہوئے پھر دہرایا کہ جج صاحب اپنی منی ٹریل دکھائیں۔ اب جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال پوچھا کہ وہ قانون دکھائیں جو جج کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں کا جواب دینے کا بھی پابند ہے کیونکہ جج کا مؤقف تو بہت سادہ ہے کہ میں کیوں جواب دوں، آپ کو جواب چاہیے تو آپ جا کر میرے بیوی بچوں سے سوال کریں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت دی کہ وہ ایف بی آر سے پوچھ کر بتائیں کہ کیا کوئی قانون ہے جو بیرون ملک جائیداد ظاہر کرنے سے متعلق ہو؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ 2018 میں ایمنسٹی سکیم لائی گئی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے پوچھا کہ ایمنسٹی سکیم کا اس کیس سے کیا تعلق؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج اور اس کے اہلخانہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں لے سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے اہلخانہ نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے رجوع کیا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس منصور علی شاہ جھنجھلا کر بولے کہ پھر ایمنسٹی سکیم کی مثال کیوں دے رہے ہیں؟
بیرسٹر فروغ نسیم بیرون ملک جائیدادوں پر کوئی بھی قانون پیش کرنے میں ناکام رہے تو تنگ آ کر فل کورٹ کے سربراہ نے خود قانون نکال کر پڑھنا شروع کر دیا جو ایک لحاظ سے وفاق کے وکیل کے لئے شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کہ ان کی تیاری کی یہ حالت تھی کہ ججز نے خود قانون نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے قانون سے پڑھ کر سنایا کہ ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ اپنی بیرون ملک جائیداد ظاہر کرے۔ اب فل کورٹ کے سربراہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال کیا کہ اب وہ کوئی ایسا قانون بتائیں جو بیوی بچوں کی جائیدادیں ظاہر کرنے کا شوہر کو پابند بناتا ہو۔
بیرسٹر فروغ نے اب بھی جواب دینے کی بجائے جسٹس عمر عطا بندیال سے درخواست کی کہ سر میں بالکل بتاتا ہوں لیکن پہلے یہ ریفرنس کی جو دستاویزات تھوڑی سی رہ گئی ہیں وہ ختم کر لوں اور دوباری دستاویزات پڑھنی شروع کر دیں۔ دس منٹ تک جب بیرسٹر فروغ نسیم یہ دستاویزات پڑھتے رہے تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے مداخلت کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ سکتی ہے کہ جناب صدر آپ نے ہمیں غیر قانونی ریفرنس بھیجا؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بالکل، سپریم جوڈیشل کونسل یہ کہہ سکتی لیکن اس کی حیثیت صرف ایک آبزرویشن جتنی ہوگی کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کوئی عدالت نہیں جس کے قانونی اثرات ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس جواب پر سوال پوچھا کہ کیا یہ فل کورٹ ایسا کرے تو اس کے قانونی اثرات ہوں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جی ہاں، بالکل، یہ عدالت تو کچھ بھی کر سکتی ہے۔
سماعت اپنے وقت سے 25 منٹ اوپر جا چکی تھی اور 1 بج کر 25 منٹ ہو رہے تھے۔ ججز نے پوچھا کہ آج جو سوال ہم نے پوچھے، کیا کل آپ ان کے جواب لے آئیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ کل بھی ریفرنس پڑھنے کے لئے ان کو دیے گئے وقت میں تھوڑی توسیع کر دیں جس کے بعد وہ جواب دیں گے۔
ہم سب صحافی سوچ رہے تھے کہ اس کا مطلب ہے کل بھی جواب نہیں دیں گے۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ کورٹ رپورٹنگ کے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ہمیشہ درخواست گزار کے وکلا قانونی نکات اٹھاتے ہیں اور ججز کے ذہنوں میں سوالات چھوڑ جاتے ہیں جس کے جواب وہ دوسری طرف سے لیتے ہیں لیکن پچھلے دو روز کی سماعت میں بیرسٹر فروغ نسیم فل کورٹ کے ساتھ بالکل وہی کر رہے ہیں جو سابق اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان کر رہے تھے یعنی کہ کوئی تیاری نہیں اور سوال گندم جواب چنا۔
بہرحال ابھی تک وہ اپنی حکمت عملی میں شاید اس لئے کامیاب ہیں کہ وہ سابق اٹارنی جنرل کی طرح تلخ نہیں ہوتے بلکہ ہر سوال پر ججز کے لئے تعریفی جملے کہتے ہیں اور پھر جواب دیے بغیر بات بدل دیتے ہیں۔ بہرحال پچھلی سماعت پر لکھوائے گئے چار سوالات کے جواب تو بیرسٹر فروغ نسیم نے آج نہیں دیے اور نہ ہی آج پوچھے کسی سوال کا جواب دیا لیکن فل کورٹ نے کل کے لئے مزید تین سوالات بیرسٹر فروغ نسیم کو لکھوا دیے۔ دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ آپ کل وہ قانون لے کر آئیں جو جج کو بیوی بچوں سے منسلک کرے۔ دوسرا سوال تھا کہ اگر ریفرنس میں وقعت ہے لیکن معلومات میں کوتاہی تو کیا سپریم جوڈیشل کونسل اس کو ریفرنس مان سکتی ہے؟ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ بھی ایک سوال لکھوایا جس پر ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر ہڑبڑا کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، اور اپنی نوٹ بک نکال لی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ہدایت کی کہ کل فل کورٹ کو بتائیں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے پاس اب تک کتنی شکایات عام شہریوں نے جمع کروائی ہیں اور اس پر ایسٹ ریکوری یونٹ نے کیا کارروائی کی۔ اس کے بعد فل کورٹ کے ججز سماعت کل دن ساڑھے 11 تک ملتوی کر کے اٹھ گئے۔