الشفاء

لائبریرین
ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ابلیس کی سازش کا پردہ ان الفاظ میں چاک کیا تھا کہ

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو

اغیار ایک زمانے سے شیطان کی اس ناپاک خواہش کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کوشش میں وہ کیا کچھ نہیں کر بیٹھے لیکن امت محمدی کے بدن سے روح محمد کو نکالنے کا یہ خواب ، خواب ہی رہا اور وہ اس میں قیامت تک کامیاب نہیں ہو سکیں گے ان شاءاللہ عزوجل۔ دشمنوں کی اس ناکامی کی بنیادی وجہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی وہ محبت ہے جو اس امت کی گُھٹی میں ڈال دی گئی ہے۔ اور چونکہ ذکر سے محبت پیدا ہوتی ہے تو لائق صد تحسین و مبارک باد ہیں وہ لوگ کہ جو آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے لے کر اب تک اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ان شاءاللہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا کیونکہ اس کو "ورفعنا لک ذکرک" کی خدائی تائید حاصل ہے۔۔۔

اگرچہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ذکر مبارک اور آپ سے جُڑے حالات و واقعات پر ہمارے پاس متقدمین اور متاخرین علماء کرام کی تحریروں کا ایک بحر ذخار موجود ہے لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کے پاس مطالعہ کتب کے لیے وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص طور پر اس موضوع پر کتب بینی تو کافی عدم توجہی کا شکار ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مطالعہ کتب کے دوران جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا ذکر خیر ہماری آنکھوں کو طراوٹ اور دل کو ٹھنڈک و فرحت عطا کرے تو ان اقتباسات کو اس دھاگے کے ذریعے آپ احباب کے ساتھ شیئر کر کے آپ کو بھی ان رحمتوں اور برکتوں میں حصہ دار بنایا جائے کہ جب عندالذکرالصالحین تنزل الرحمۃ (جہاں صالحین کا ذکر ہوتا ہے وہاں اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے) کی خوشخبری موجود ہے تو جہاں ذکر سیدالمرسلین و رحمۃ للعالمین کا ہو گا وہاں رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا عالم کیا ہو گا۔ اور کشتگان جمال مصطفٰے ﷺ کے نزدیک تو معاملہ یوں ہے کہ
جس میں ہو ترا ذکر وہی بزم ہے رنگیں
جس میں ہو ترا نام وہی بات حسیں ہے
۔۔۔

(س سلسلے کا آغاز امام عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ سے کرنے کا ارادہ ہے۔۔۔ وباللہ التوفیق۔)
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسالتمآب علیہ افضل الصلوٰۃ کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ میرے پاس ایک چھوٹی سی بکری تھی جو اچھی موٹی تازی تھی ، میں نے سوچا کہ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہم اس کو ذبح کر کے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کریں۔
میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر میں جو تھوڑے بہت جو پڑے ہیں ان کو پیس کر روٹیاں تیار کرے ۔ چنانچہ اس نے روٹیاں تیار کیں اور میں نے اس بکری کو ذبح کیا اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھُونا۔ جب شام ہوئی اور سید عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر لوٹنے کا ارادہ فرمایا اور ہمارا معمول یہی تھا کہ دن کو خندق کھودتے اور شام ہوتی تو گھروں کو لوٹتے۔ الغرض میں نے اس وقت نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ، یا رسول اللہ! میں نے آپ کے لیے ایک چھوٹی سی بکری ذبح کر کے اس کا سالن تیار کیا ہے اور تھوڑے جو تھے جن کی روٹی بھی پکائی ہے۔ لہٰذا اس امر کا متمنی اور آرزو مند ہوں کہ رسول خدا علیہ التحیۃ والثنا میرے ہاں قدم رنجہ فرمائیں اور دل میں خیال یہی تھا کہ آپ اکیلے تشریف لائیں ۔ بہرحال آپ نے میری درخواست قبول فرما لی اور تشریف آوری کا وعدہ فرما لیا۔ پھر ایک شخص کو حکم دیا کہ بلند آواز سے اعلان کرے کہ تمام لوگ حضرت جابر کے گھر رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلیں ۔ میں نے وہ اعلان سنا تو کہا ، انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔
تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان تشریف لائے اور آپ بیٹھ گئے تو جو کچھ پکا تھا حاضر خدمت کر دیا گیا۔ آپ نے دعائے برکت فرمائی، بسم اللہ پڑھی اور تناول فرمایا اور دوسرے حضرات گروہ در گروہ آتے گئے ۔ جب ایک جماعت فارغ ہو جاتی تو دوسری جماعت آ جاتی حتٰی کہ سب اہل خندق کھا کر اور سیر ہو کر وہاں سے لوٹے۔۔۔
(الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
مسجد نبوی کا ستون۔۔۔

حبیب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی شریف میں جمعہ کے دن کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب لوگ زیادہ ہو گئے تو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ اس امر کو پسند فرمائیں گے کہ آپ کے لیے ایک منبر تیار کیا جائے جس پر جمعہ کے دن آپ خطبہ دیں تاکہ سبھی حاضرین آپ کے دیدار سے مشرف ہو سکیں اور آپ کا خطبہ سنیں۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی تو آپ کے لیے تین درجات پر مشتمل منبر تیار کر کے مسجد نبوی شریف میں نصب کیا گیا۔ جب رحمت عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر شریف پر کھڑے ہونے کا اراداہ فرمایا اور جونہی آپ منبر کی طرف چلے تو کھجور کے اس تنے نے جس پر پہلے آپ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے اس زور سے رونا اور چلانا شروع کیا کہ قریب تھا کہ فرط غم و اندوہ سے پھٹ جائے گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خود مسجد میں موجود تھا، میں نے لکڑی کے اس تنے سے ایسی آہ و زاری سنی جیسے کوئی محبت میں والہ و شیدا ہو اور فراق محبوب کی وجہ سے درد و غم کا اظہار کر رہا ہو۔ وہ ستون اسی طرح آہ و بکا میں مصروف رہا یہاں تک کہ محبوب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو اپنی بغل مبارک میں لے لیا تب اس کو سکون و قرار نصیب ہوا۔ ابن بریدہ نے اپنے والد گرامی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستون کے رونے اور چیخنے چلانے کی آواز سنی تو اس کی طرف رجوع فرمایا اور اس پر دست کرم رکھ کر کہا کہ دو باتوں میں سے جو چاہے اختیار کر لے ، یا تو میں تجھے اسی جگہ لگا دوں جہاں تو پہلے تھا اور تو اسی طرح سرسبز و شاداب ہو جائے جیسے کہ پہلے تھا، یا چاہے تو تجھے جنت میں لگا دوں تاکہ تو اس کی نہروں سے سیراب ہو اور اس کے جانفزا چشموں سے تیری نشو و نما عمدہ ہو جائے اور تو پھل دار ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے لوگ تیرا پھل کھائیں۔ حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : نعم قد فعلت، مرتین۔ کہ ہاں میں نے کر دیا، ہاں میں نے کر دیا۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ کے ارشاد کا اس تنے نے کیا جواب دیا اور کون سا امر اختیار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس نے جنت میں کاشت کیے جانے کو پسند کیا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو رو دیتے اور پھر فرماتے کہ اے اللہ کے بندو! ایک خشک لکڑی اپنے شوق و ذوق اور محبت و عقیدت کا اس انداز میں اظہار کرے اور اُن کے قرب خداوندی اور منصب محبوبیت کی قدر کرے تو تم لوگ اس امر کے زیادہ حقدار ہو کہ حضور کی ملاقات سے مشرف ہونے اور آپ کے جمال جہاں آراء کے دیکھنے کی تمنا کرو اور اگر قسمت یاوری نہ کرے اور بخت مدد نہ کرے تو اس حسرت میں آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہاؤ۔۔۔

(الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
آہ و بکاء۔۔۔

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شفقت کے تحت بیان کیا ہے کہ آپ نے امت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور روئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں ضرور آپ کو امت کے معاملے میں راضی کروں گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پاک پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت میں کیسے پڑھنے کی لیاقت رکھتا ہوں حالانکہ وہ آپ پر نازل ہوا (اور جیسے قراءت و تجوید کا حق ہے وہ آپ ہی ادا فرما سکتے ہیں) آپ نے فرمایا ، ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ میں دوسروں کی زبانی (حدیث محبوب) اور تلاوت کلام پاک سنوں۔ میں نے سورۃ نساء تلاوت کی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچا: فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علیٰ ھٰؤلاء شھیدا۔ یعنی وہ کیسا منظر ہوگا اور کیسی حالت ہو گی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ (نبی امت) لائیں گے اور آپ کو ان سب پر شہید اور گواہ بنائیں گے۔ تو آپ نے فرمایا بس کافی ہےتجھے۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر اور عبید بن عمیر رضی اللہ عنہم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضرت عبداللہ نے عرض کیا اے ام المؤمنین مجھے وہ عجیب ترین امر بتلائیں جو آپ نے رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دیکھا ہو۔ تو آپ رو پڑیں اور فرمایا کہ آپ کے جملہ امور و افعال اور اعمال و اخلاق عجیب تھے۔ آپ ایک رات میرے ہاں تشریف لائے یہاں تک کہ جب میرے ساتھ لحاف میں لیٹے اور آپ کا جسد اطہر میرے جسم سے مس ہوا تا فرمایا، اے عائشہ! کیا مجھے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہو، تو میں نے عرض کیا ، مجھے آپ کا قرب خدا وندی پسند ہے اور جو آپ کو پسند ہے وہی مجھے بھی پسند اور محبوب ہے۔
آپ گھر میں پڑے ایک مشکیزہ کی طرف متوجہ ہوئے (اور وضو فرمایا) مگر زیادہ پانی استعمال نہ فرمایا۔ پھر کھڑے ہو کر قرآن مجید کی تلاوت فرمانے لگے اور رونے لگے حتٰی کہ آنسو مبارک اس فراوانی سے بہنے لگے کہ آپ کے ۔۔۔۔ کو تر فرما دیا۔ پھر آپ نے دائیں پہلو اور جانب کا سہارا لیا اور دایاں ہاتھ مبارک دائیں رخسار کے نیچے رکھا اور روتے رہے حتٰی کہ آپ کے آنسوؤں زمین تر ہو گئی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تاکہ نماز کے وقت اور جماعت کے متعلق عرض کریں۔ آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا ، آپ رو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب سے پہلوں اور پچھلوں کے گناہ کی مغفرت کا دنیا میں اعلان فرما دیا ہے اور بخشش کی خوشخبری سنا دی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (اور جتنا اس کا احسان عظیم مجھ پر ہے اس کے مطابق شکر ادا نہ کروں)۔۔۔

(الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
ہرنی ، بارگاہ رسالت میں۔۔۔

ایک دن رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کسی کام کے لیے تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک ہرنی پر پڑی جو ایک قوم کی قیام گاہ میں بندھی ہوئی تھی۔ اس نے آپ کو دیکھا تو پکارا: یا رسول اللہ! آپ ٹھہر گئے اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے ، مجھے کیوں پکارا ہے۔ ہرنی نے عرض کیا کہ میرے دو شیر خوار بچے ہیں جو کہ بھوکے ہیں۔ آپ مجھے کھول دیں تاکہ میں ان کو دودھ پلا آؤں ، پھر حاضر ہو جاؤں گی اور آپ مجھے اسی طرح یہاں باندھ دینا۔ آپ نے فرمایا ، کیا واقعی تو لوٹ آئے گی۔ اس نے عرض کیا کہ ضرور لوٹ آؤں گی اور اگر نہ لوٹوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب میں مبتلا کرے جس میں عشار یعنی جبراً لوگوں سے عشر وصول کرنے والے کو مبتلا کرے گا۔
نبی کریم رؤف رحیم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے اس کو کھول دیا اور آپ اسی جگہ بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی گزری تھی کہ وہ ہرنی لوٹ کر آ گئی اور اس کے پستان دودھ سے خالی ہو چکے تھے۔نبی رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل اقدس اس ہرنی کے لیے پسیج گیا اور آپ کو اس پر ترس آیا۔ اتنے میں وہ اعرابی جس نے اسے قید کر رکھا تھا بیدار ہو گیا۔ آپ کو وہاں تشریف فرما دیکھ کر عرض کیا ، یا رسول اللہ! کوئی کام ہو تو حکم فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں کام یہ ہے کہ اس ہرنی کو آزاد کر دے۔ اس نے ہرنی کی رسی کھول دی اور وہ چوکڑیاں بھرتی جا رہی تھی اور کہتی جاتی تھی!
اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسول اللہ
میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔​

(الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
سیدالمرسلین کا گھریلو سامان۔۔۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا ، نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم چارپائی پر آرام فرما تھے جو کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی پٹی سے بُنی ہوئی تھی۔ آپ کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی جالی سے بھرا ہوا تھا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت جن میں حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے ، حاضر خدمت ہوئے تو حضور نے ذرا پہلو بدلا تو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ کے پہلوؤں اور کھجور کی پٹی کے درمیان کوئی بچھونا وغیرہ حائل نہیں ہے اور کھجور کی پٹی کے نشانات پہلوئے اقدس پر نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔ حضرت عمر فاروق یہ منظر دیکھ کر رو پڑے۔ آپ نے دریافت فرمایا ، تمہیں کس امر نے رُلا دیا۔ انہوں نے عرض کیا بخدا میں صرف اس لیے رو رہا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں قیصر و کسریٰ سے بہت عزت و کرامت والے ہیں اور دنیا کے اندر جس حال میں زندگی گزار رہے ہیں وہ ہر ایک کو معلوم ہے، اور آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس حال میں ہیں جو میرے سامنے ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، اے ابن خطاب کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ دنیا ان کے لیے ہو اور آخرت صرف ہمارے لیے۔ عرض کیا کیوں نہیں، تو آپ نے فرمایا یقیناً حقیقت اسی طرح ہے۔
سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا سامان حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاں ایک کمرے میں رکھا ہوا تھا جس کی وہ ہر دن زیارت کیا کرتے تھے۔ اور جب قریش ان کے ہاں جمع ہوتے تو انہیں اس مکان میں لے جاتے اور اس سازوسامان کی طرف رخ کر کے فرماتے ، یہ میراث ہے اس ہستئ مقدس کی جن کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمہیں کرامت و عزت سے مشرف فرمایا ہے۔
عمرو بن مہاجر فرماتے ہیں کہ اس سامان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک چارپائی تھی جو کھجور کی پٹی سے بُنی ہوئی تھی اور ایک چمڑے کا تکیہ تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ ایک پیالہ اور کپڑا، چکی، ترکش جس میں چند تیر تھے اور کمبل مبارک تھا جس میں اطیّب الطیبین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس کے پسینہ اقدس کے قطرات لگے تھے، جن کی بدولت وہ کستوری کو بھی شرمندہ کرتا تھا۔ ایک شخص بیمار ہوا اور قریب المرگ ہو گیا۔ لوگوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے مطالبہ کیا کہ پسینہ اقدس والی جگہ کو تھوڑا سا بھگو کر نچوڑنے اور اس کی ناک میں ڈالنے کی اجازت دیں ۔ انہوں نے اجازت دے دی اور اس کی ناک میں وہ قطرات ڈالے گئے تو وہ فوراً تندرست ہو گیا۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
سید الانبیاء طائف میں ۔۔۔

سرور دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابو طالب کی وفات کے بعد طائف کی طرف تشریف لے گئے۔ اعلان نبوت کا دسواں سال شروع تھا اور شوال کی صرف چند راتیں باقی تھیں۔ آپ کے ساتھ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔۔۔ جب رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم طائف تشریف لے گئے تو ثقیف کے سادات و رؤساء کی جماعت میں سے ہر ایک کے پاس گئے ۔ جو تین بھائی عبدیا لیل، مسعود اور حبیب اولاد عمرو بن عمیر تھے۔ ہر ایک کو اللہ رب العزت کی طرف دعوت دی۔ ان کے ساتھ اس مقصد پر بھی گفتگو کی جس کے لیے آپ یہاں تشریف لائے تھے یعنی نصرت اسلام اور اعداء و مخالفین کے خلاف مدد و اعانت ، مگر ان کے مقدر میں یہ سعادت کہاں تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا ، اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں کعبہ کے غلاف اور پردے اتار لوں گا اور اس کی ہتک عزت کروں گا (نعوذباللہ)۔ دوسرا بولا، کیا اللہ تعالیٰ کو آپ کے سوا اور کوئی شخص رسالت کے لیے میسر نہیں آ سکتا تھا۔ تیسرے نے کہا کہ میں تو اس بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، اگر آپ واقعی رسول ہیں جیسے کہ آپ کا دعویٰ ہے تو پھر آپ کا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ میں آپ کو جواب دوں اور رائے زنی کروں اور اگر آپ اللہ تعالیٰ پر دعویٰ رسالت میں ٍغلط بیانی سے (نعوذباللہ) کام لے رہے ہیں تو پھر بھی میں کلام کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ جب آپ ثقیف کی خیر اور بھلائی اور رشد و ہدایت سے ناامید ہوئے تو وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں نے اپنے غلاموں اور اوباشوں کو سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اکسایا۔ انہوں نے آپ کی شان میں گستاخانہ لب ولہجہ اختیار کیا اور آپ پر آوازے کسنے لگے۔۔۔ انہوں نے آپ کو پتھر مارنے شروع کر دیے حتیٰ کہ آپ کے قدم مبارک لہو لہان ہو گئے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنی جان کو آپ کے لیے ڈھال بنائے ہوئے تھے، ان کے سر اقدس میں بھی کئی زخم آ گئے۔۔۔ سبھی لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے اور آپ کو عتبہ اور شیبہ اولاد ربیعہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ وہ دونوں بھائی اس وقت باغ میں موجود تھے۔ چنانچہ وہاں پہنچنے کے بعد وہ سارے اوباش اور دوسرے لوگ منتشر ہو گئے۔ آپ انگور کے درخت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے۔ ربیعہ کے بیٹے عتبہ اور شیبہ آپ کو دیکھتے رہے اور جو کچھ آپ کو سفہائے ثقیف سے تکلیف و ایذء پہنچی اسے بھی دیکھا۔
جب آپ کو اطمینان و سکون حاصل ہو گیا تو آپ نے بارگاہ خدا وندی میں یہ التجا و دعا کی ، یا اللہ ! میں تیری بارگاہ میں اپنے ضعف و ناتوانی اور وسائل و حیل کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں بے قدری کی شکایت کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین، تو ضعیفوں اور ناتوانوں کا رب ہے اور میرا رب تو ہی ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کرتا ہے اور کس کی پناہ میں دیتا ہے؟ ایسے شخص کی طرف جو ایمان و اسلام سے دور ہے (اور رحمت و انعام خداوندی سے دور ہے)۔ جو منھ بسورے ہوئے اور ماتھے پر بل ڈالے ہوئے مجھ سے پیش آتا ہے۔ یا ایسے دشمن کی طرف جس کو تو نے میرے معاملات کا مالک بنا دیا ہے۔ اگر تو مجھ پر غضبناک اور ناراض نہیں ہے تو پھر مجھے ان مصائب و شدائد کی کوئی پروا نہیں ہے لیکن تیرا عفو و کرم اور عافیت و در گزر میرے لیے بہت وسیع ہے۔ میں تیرے نور ذات کے واسطہ و وسیلہ سے جس کی بدولت ظلمات اور تاریکیاں چھٹ گئیں بلکہ نور و ضیاء سے تبدیل ہو گئیں اور اسی پر دنیا و عقبیٰ کے جملہ امور کی اصلاح و بہتری کا دارومدار ہے، اس امر سے پناہ مانگتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا میں تیری ناراضی کا نشانہ بنوں ۔ تو ہی مالک ہے رضا کا، مجھ سے راضی ہو۔ جب تک تیری توفیق و تائید شامل حال نہ ہو ، نہ معصیت سے رجوع اور دوری کی ہمت ہے اور نہ طاعت و عبادت کی سکت۔
جب عتبہ اور شیبہ نے حضور کی تکلیف و پریشانی کو دیکھا تو اپنے نصرانی غلام کو بلایا جس کو عدرس کہا جاتا تھا اور اسے کہا کہ ان انگوروں کا ایک گچھا تھال میں رکھ کر اس شخص کی خدمت میں لے جا کر پیش کر اور عرض کر کہ اسے تناول فرمائیں۔ عدرس نے انگور لیے، تھال میں رکھے اور سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی اور پھر انگور کھائے۔ عدرس آپ کے چہرہ انور کی طرف دیکھنے لگا اور عرض کیا ، بخدا اس شہر والے تو یہ کلام زبان پر نہیں لاتے ۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تو کس شہر سے تعلق رکھتا ہے اور تیراد ین کیا ہے۔ اس نے عرض کیا میں نصرانی ہوں اور اہل نینوا سے ہوں۔ تو آپ نے فرمایا اللہ کے نیک بندے حضرت یونس بن متیٰ کے شہر سے۔ تو اس نے مجسمہ حیرت بن کر پوچھا ، آپ کو یونس بن متیٰ کا پتا کیسے چل گیا؟ آپ نے فرمایا، (مجھے ان کو پتا کیوں کر نہ ہو) وہ میرے بھائی ہیں ، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ عدرس نے جوں ہی آپ کا جواب سنا تو ادب و نیاز سے جھک کر آپ کے سر اقدس پر بوسہ دیا ، پھر دست اقدس چومے اور بعد ازاں قدموں کو بوسہ دیا۔ ربیعہ کے بیٹوں نے یہ منظر دیکھا تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تیرے غلام کو اب تیرے کام کا نہیں چھوڑا۔ جب عدرس ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا ، تیرلے لیے افسوس ہے تجھے کیا ہو گیا، تو اس شخص کے سر کو چومنے لگ گیا اور اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے بوسے لینے گا۔ اس نے کہا اے میرے سردار، اس ہستی سے بڑھ کر دنیا میں کوئی شخص نہیں ہے ۔ انہوں نے مجھے ایسے امر کی خبر دی ہے جس کو صرف نبی ہی جانتا ہے۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
حلیمہ میں تیرے مقدراں توں صدقے۔۔۔

حضرت حلیمہ سعد بن بکر کے قبیلہ سے تھیں۔ فرماتی ہیں ، میں اور میرا خاوند رضاع (دودھ پلانے ) کے لیے بچے حاصل کرنے والی عورتوں کی جماعت کے ساتھ گھر سے نکلے۔ میری سواری دراز گوش تھی جس کا رنگ سبزی مائل تھا اور وہ انتہائی لاغر اور نحیف و نزار تھی اور باقی سواریوں سے پیچھے رہ گئی۔ اس سال سخت قحط تھا اور اس نے کوئی شے باقی نہیں چھوڑی تھی۔ ہمارے ساتھ ایک عمرہ رسیدہ اونٹنی بھی تھی لیکن بخدا وہ ایک قطرہ دودھ کا بھی نہیں دیتی تھی۔ میرا بچہ بھوک سے چیختا چلاتا رہتا اور اس کے رونے سے ہم رات بھر سو بھی نہیں سکتے تھے۔ نہ تو میرے پستانوں میں اتنا دودھ تھا جو اس کو کفایت کر سکے اور نہ ہی اونٹنی دودھ دیتی تھی جو اس کی غذا بن سکے۔ مگر ہم رحمت خداوندی سے نا امید نہیں تھے اور یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ ضرور باران رحمت ہو گی اور ہماری زبوں حالی خوشحالی سے بدل جائے گی۔
جب ہم سب سے آخر میں مکہ مکرمہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ جتنے بچے قابل رضاعت تھے وہ دوسری عورتوں نے لے لیے ہیں اور صرف ایک بچہ باقی رہ گیا ہے اور ایک میں باقی رہ گئی ہوں۔ اور وہ بچہ ایسا ہے جس کو ہر عورت نے دیکھا مگر یہ معلوم کر کے کہ وہ یتیم ہیں اور دودھ پلانے کا صلہ و انعام تو والد نے دینا ہوتا ہے ، ماں کیا دے سکتی ہے، ان کو دودھ پلانے پر کیا ملے گا۔ لہٰذا ہر عورت نے اس خیال فاسد کی بنا پر اپنی محرومی مول لی اور دوسرے بچے اٹھائے۔ میں نے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جاؤں، یہ ٹھیک نہیں۔ تو خاوند سے کہا کہ بخدا میں تو اسی یتیم کو لے کر واپس جاؤں گی۔
میں ان کے گھر حاضر ہوئی، انہیں اٹھایا اور چھاتی سے لگائے ہوئے اپنے مقام پر واپس آئی۔ خاوند نے دریافت کیا، انہیں لائی ہو تو میں نے کہا ہاں اور جو نہیں ملا تو یہی سہی۔ اس نے کہا تونے بہت اچھا کیا۔ امید ہے اللہ تعالیٰ ان کے صدقے ہمیں خیروبرکت عطا فرمائے گا۔
حلیمہ فرماتی ہیں جوں ہی میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے سینے کےساتھ لگایا تو پستان دودھ سے بھرپور معلوم ہوئے حتیٰ کہ آپ نے سیراب ہو کر پیا اور آپ کے رضاعی بھائی نے بھی (جو پہلے اکیلا سیراب نہیں ہو سکتا تھا اور رو رو کر بے حال ہو جاتا تھا۔ اور جب میرا خاوند بوڑھی مریل اونٹنی کی طرف رات کو دیکھ بھال کے لیے اٹھا تو اس کا دودھ خود بخود پستانوں سے باہر آ رہا تھا۔ حارث نے اس سے اتنا دودھ نکالا جتنا کہ ہمیں درکار تھا حتیٰ کہ اس نے اور میں نے پیٹ بھر کر پیا۔ فرماتی ہیں ہمارے لیے وہ رات بڑی خیروبرکت والی تھی جس میں ہم پیٹ بھر کر اور سیراب ہو کر سوئے۔ میرا خاوند حارث بولا، اے حلیمہ میرے عقیدہ و نظریہ کے مطابق تو نے بڑے مقدس و مبارک فرزند کو حاصل کر لیا ہے۔ ہمارے بچے بھی آج میٹھی نیند سوئے اور ہمیں بھی سیرابی کا منھ دیکھنا نصیب ہوا۔
جب واپس ہوئے تو میری درازگوش اونٹنی سب سواریوں اور سواروں سے آگے نکل گئی اور بخدا اس تیزی سے اس نے سب کو کاٹا اور پیچھے چھوڑا کہ ان میں سے کوئی سواری پھر آگے نکلنا تو کجا اس کو مل بھی نہ سکی۔ قافلہ والے پکار اٹھے اے حلیمہ۔۔۔۔ ہمیں دوڑا دوڑا کر نہ تھکا، ہمیں اس مشکل سے چھٹکارا دلا ، ذرا اپنی سواری کو آہستہ کر اور یہ تو بتا کہ یہ وہی دراز گوش ہے جس پر تو گھر سے روانہ ہوئی تھی (اور سب اہل قافلہ سے پیچھے رہ گئی تھی) حلیمہ نے کہا ، ہاں خدا کی قسم سواری تو وہی ہے (مگر سوار بدل گیا ہے اور اب اس کی قسمت بھی بدل گئی ہے)۔ سب نے بیک زبان کہا کہ اب تو واقعی اس کی شان عجیب ہے اور اس کی حالت پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہے۔ اس طرح ہم اس مسافت کو طے کرتے ہوئے بنی سعد بن بکر کی آبادی میں اپنے گھروں تک پہنچے۔
گھر آئے تو خشک سالی اور قحط سالی، سرسبزی و شادابی اور خوش بختی و خوشحالی سے تبدیل ہو چکی تھی اور زمین سبزہ کے ساتھ لہلہا رہی تھی۔ مگر یہ سعادت اور بخت آوری صرف ہمارے مقدر میں تھی۔ اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں حلیمہ کی جان ہے ہم اور دیگر اہل دیہہ اکٹھے اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے بھیجتے مگر ہماری بھیڑ بکریاں پیٹ بھر کر واپس لوٹتیں اور پستان بھی دودھ سے بھرے ہوتے اور جب ان کے جانور واپس ہوتے تو ان کے پیٹ بھی خالی ہوتے اور پستانوں میں ایک گھونٹ دودھ کا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم تو جتنا چاہتے دودھ پیتے مگر ہماری ساری آبادی والے ایک ایک قطرہ شیر کے لیے ترستے رہتے، پینا تو کجا دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے چرواہوں سے کہتے ، تمہارے لیے ہلاکت ہو تم اس چراگاہ میں انہیں کیوں نہیں لے جاتے جہاں حلیمہ کے جانور چرتے ہیں ۔ پھر وہ بھی اپنے مال مویشی لے آتے اور چراتے مگر واپسی پر وہی حالت ہوتی، ان کے جانور خالی پیٹ اور خالی پستان ہوتے مگر ہمارے جانور سیر ہو کر نکلتے اور دودھ سے بھرپور ہوتے۔
خود رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت اقدس جو وہاں دیکھنے میں آئی، یہ تھی کہ آپ ایک دن میں اتنے بڑھ جاتے جتنے دوسرے بچے مہینہ میں بڑے ہوتے ہیں اور مہینہ میں اس سے بھی بڑے ہو جاتے جتنے کہ دوسرے بچے سال میں۔ جب اس مقدس ہستی کی عمر مبارک دو سال کو پہنچی تو عام بچوں کے برعکس وہ اچھے خاصے مضبوط اور توانا ہو گئے۔ فرماتی ہیں ہم انہیں حضرت آمنہ کی خدمت میں لے آئے (تاکہ وہ زیارت کر لیں اور مطمئن ہو جائیں) لیکن ہم دونوں نے ان سے عرض کیا کہ ہمیں یہ لاڈلا واپس لے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں کیونکہ مکہ کی وبا سے ہمیں ڈر لگتا ہے (کہیں ان کو تکلیف نہ پہنچے)۔ انہوں نے فرمایا ہم یہ سماحت و سخاوت نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے برکات اور فیوضات کو دیکھ کر ان کے معاملے میں بہت بخیل ہو گئے۔ ہم اسی طرح منت و سماجت کرتے رہے حتیٰ کہ آپ نے ہماری درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا انہیں اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔
فرماتی ہیں آپ ہمارے پاس دو ماہ تک رہے ۔ ایک دن آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھر کی پچھلی جانب کو نکلے تو اچانک ان کا بھائی دوڑتا ہوا آیا اور مجھے اور اپنے باپ سے کہا کہ فوراً اٹھو اور میرے قریشی بھائی کی خبر لو کیونکہ دو آدمیوں نے آکر ان کو پکڑا اور زمین پر لٹا کر ان کا پیٹ چاک کر دیا ہے۔ حلیمہ فرماتی ہیں کہ میں اور میرا خاوند دوڑتے ہوئے اس طرف گئے۔ جب ہم پہنچے تو آپ لیٹے ہوئے تھے اور رنگ مبارک زردی مائل تھا۔ ہم نے باری باری ان کو سینہ سے لگایا اور پوچھا، اے بیٹے کیا ہوا۔
آپ نے فرمایا، دو شخص میرے پاس آئے جن کے کپڑے سفید تھے۔ انہوں نے مجھے لٹایا ، سینہ اور پیٹ چاک کیا، آگے معلوم نہیں انہوں نے کیا کیا۔
فرماتی ہیں ، ہم آپ کو اٹھا کر واپس لے آئے۔ میرے خاوند نے مجھے کہا، اے حلیمہ بخدا اس بچے کو کوئی آسیب وغیرہ کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے لہٰذا چلو ان کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے کر دیں قبل اس کے کہ جس امر کا ہمیں اندیشہ ہے وہ ان میں ظاہر ہونے پائے۔
جب ہم ان کو واپس لے گئے تو انہوں نے دریافت کیا، کیا ہوا فوراً واپس لائے ہو حالانکہ تم تو ان کے متعلق بہت حرص ظاہر کر رہے تھے۔ ہم نے کہا نہیں اب ہم ان کو نہیں رکھتے کیونکہ ہم نے ان کی کفالت کی اور جو خدمت کر سکتے تھے ، وہ پوری طرح کر دی ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ انہیں ہمارے پاس ہوتے ہوئے کچھ عوارض نہ لاحق ہو جائیں، لہٰذا اب ان کا اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہنا ہی بہتر ہے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، بات یہ نہیں ہے ، مجھے سچ سچ بتلاؤ کہ تمہارے اور ان کےدرمیان کیا واقعہ پیش آیا، آپ کا اصرار جاری رہا حتٰی کہ ہم نے حقیقت حال عرض کر دی۔ انہوں نے کہا کیا تم ان کے متعلق خوفزدہ ہو ، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میرے اس بیٹے کی شان عظیم ہے اور حال عجیب۔ کیا میں تمہیں ان کے متعلق بتلاؤں کہ جب میں ان کے ساتھ حاملہ ہوئی تو مجھے معلوم نہیں کہ کسی ماں کا حمل و جنین اتنا خفیف و لطیف ہو اور اتنا عظیم برکتوں والا۔ جب میں نے ان کو جنم دیا تو یہ اس طرح زمین پر نہ آئے جس طرح کہ بچے گرتے ہیں ، بلکہ آپ اپنے ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے تھے اور سر اقدس آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔ اچھا تو اب انہیں میرے پاس ہی رہنے دیں اور آپ اپنا کام کریں۔

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​
(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

سیما علی

لائبریرین
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام​
(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)

ہمارے نزدیک رسول آخر الزماں ﷺ کی حرمت، ان کے والدین اولاد ہر قسم کی دولت و جائیداد سے زیادہ ہے،اور یہ محض عقیدہ نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا حکم اور قرآن میں ارشاد ہے،فرمایا”تم میں سے کوئی اگر اپنے والدین،اولاد،کھیتی باڑی،باغات،دولت جائیداد سے زیادہ اللہ ،اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے محبت نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں “ہمارے ۔کے نزدیک رسول آخر الزماں کی حرمت، ہمارے والدین اولاد ہر قسم کی دولت و جائیداد سے زیادہ ہے،اور یہ محض عقیدہ نہیں بلکہ اللہ رب العزت کاحکم اور قرآن میں ارشاد ہے،فرمایا”تم میں سے کوئی اگر اپنے والدین،اولاد،کھیتی باڑی،باغات،دولت جائیداد سے زیادہ اللہ ،اس کے رسولﷺ
اور اس کی راہ میں جہاد سے محبت نہیں کرتا تو وہ مومن
نہیں “۔


نور عالم کو ہے دیتا طیبہ کا چاند
جلوہ بخشی میں ہے یکتا طیبہ کا چاند
کیا وہ لمحہ تھا جب نکلا طیبہ کا چاند
”جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام“

نور افشاں ہوا جب وہ بطحا کا چاند
دیکھنے آئے سب روئے طیبہ کا چاند
آسماں پر پڑا ماند دنیا کا چاند
”جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام“

آسمانِ دنیٰ و تدلّیٰ کا چاند
رشکِ خورشید چرخِ فَاَوحیٰ کا چاند
وہ شب سعد و پرنور اسریٰ کا چاند
”جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اُس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم وُضو کرنے لگے اور آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم نے اپنے موزے اُتار کر ایک جانب رکھ دئیے اِن میں سے ایک موزہ میں ایک سانپ چلا گیا، جب آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم وُضو فرما چکے اور موزوں کو پہننے لگے تو ایک باز، نمودار ہوا اور اس نے وہ موزہ جس میں سانپ تھا وہ آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم کے نعلین مبارک سے چھین لیا اور لے اُڑا۔
پھر اس نے فضا میں جا کر وہ موزہ کھول دیا اور اس میں موجود سانپ زمین پر گِر پڑا۔
وہ باز، موزہ لے کر آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ۔
مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم کی حفاظت پر مامور فرمایا تھا، ورنہ میں ایسی گُستاخی ہر گز نہ کرتا، اور اگر میں ایسا نہ کرتا تو خدشہ تھا کہ وہ سانپ آپ صلی اللّٰہ عليه وسلم کو نقصان پہنچا سکتا تھا ۔
حضور نبی کریم صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم نے باز، کی بات سنی تو دریافت فرمایا
تجھے موزہ میں موجود سانپ نظر کیسے آیا؟
باز بولا
اس میں میرا کوئی کمال نہیں اور جب میں مسجد نبوی صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم کے اوپر سے گُذرا تو اس وقت آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم سے ایک نورانی شُعاع نکل رہی تھی اور وہ آسمان کی جانب بُلند تھی اس نور، کی روشنی میں ہی مجھے موزہ کے اندر موجود وہ سانپ دکھائی دیا"
مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں :
حضور نبی کریم صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم سراجُ مُنیر ہیں اور اگر کوئی دل کا اندھا ہے تو یہ اس کا قصور ہے اور تاریکی کا عکس بھی تاریک ہی ہوتا ہے ۔۔۔
آپ صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم نے حُکم دیا کہ جب بھی تُم موزہ پہننے لگو تو اسے جھاڑ کر پہنا کرو،
مولانا رومی فرماتے ہیں یہ واقعہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ پرندے بھی حضور اکرم صلی اللّٰہ عليه وآلہ وسلم کے تابع فرمان ہیں
(کتاب،،، حکایاتِ رومی)
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ایک نظر آ سمان پہ ڈال مر حبا
چمکا ماہ نور کا ہلال ۔۔۔۔مرحبا
 

الشفاء

لائبریرین
ہمارے نزدیک رسول آخر الزماں ﷺ کی حرمت، ان کے والدین اولاد ہر قسم کی دولت و جائیداد سے زیادہ ہے،اور یہ محض عقیدہ نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا حکم اور قرآن میں ارشاد ہے،فرمایا”تم میں سے کوئی اگر اپنے والدین،اولاد،کھیتی باڑی،باغات،دولت جائیداد سے زیادہ اللہ ،اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے محبت نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں “۔کے نزدیک رسول آخر الزماں کی حرمت، ان کے والدین اولاد ہر قسم کی دولت و جائیداد سے زیادہ ہے،اور یہ محض عقیدہ نہیں بلکہ اللہ رب العزت کاحکم اور قرآن میں ارشاد ہے،فرمایا”تم میں سے کوئی اگر اپنے والدین،اولاد،کھیتی باڑی،باغات،دولت جائیداد سے زیادہ اللہ ،اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے محبت نہیں کرتا تو وہ مومن نہیں “۔
ذکر کردہ آیت مبارکہ یوں ہے۔
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔
سورۃ التوبۃ، آیت نمبر 24​
 

سیما علی

لائبریرین
مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔
بے شک بے شک

حقیقتِ محبت اور محبتِ رسول ﷺکا معنی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

(آل عمران، 3: 31)

’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ایک مومن کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا معیار اور پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟ اس امر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ارشاداتِ عالیہ کی روشنی میں واضح فرمادیا ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ.

(صحیح البخاری ، کتاب الایمان، باب حُبُّ الرَّسُولِ ﷺ مِنَ الإِیمَانِ، ج: 1: 14، الرقم: 15)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔

یعنی والدین، اولاد، میاں بیوی، بھائیوں، بہنوں، عزیز و اقارب، دوست احباب، خونی رشتوں، خاندانوں، مناصب اور دنیا کی کسی بھی شے کی محبت جو انسان کے دل کو مرغوب اور محبوب ہوتی ہے، جس کی طلب، رغبت اور محبت کی طرف انسان کا میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے، ان سارے میلانات اور رجحانات سے بڑھ کر حضور سے محبت کرنا ایمان ہے۔ گویا جب تک کسی مسلمان کے دل میں کائنات اور عالمِ خلق کی ساری محبتوں سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نہ ہو تو وہ مومن نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی تحریر سے اقتباس
 

الشفاء

لائبریرین
امام الانبیاء ، ام معبد کے خیمہ پر۔۔۔

جب رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عامر بن فہیرہ کی ہمراہی میں اور عبداللہ بن اریقط کی راہنمائی میں ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ سے چلتے ہوئے ام معبد خزاعیہ کے خیموں پر گزرے جو کہ ایک بہادر اور دلیر عورت تھی اور خیموں سے باہر کھلی جگہ میں بیٹھی گزرنے والوں کو کھانے پینے کا سامان مہیا کرتی تھی۔ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کھجوروں اور گوشت وغیرہ کے متعلق دریافت فرمایا تاکہ خرید لیں۔ مگر اس کے ہاں کوئی چیز دستیاب نہ ہو سکی کیونکہ وہ قحط سالی کا شکار تھے اور مسکین و فقیر ہو چکے تھے۔ اس نے عرض کیا، بخدا ہمارے پاس اگر کوئی شے ہوتی تو مہمان نوازی میں پس و پیش نہ کرتی اور آپ سے کوئی چیز بچا کر نہ رکھتی۔
سید انس و جان علیہ الصلاۃ والسلام نے خیمہ کے گوشہ میں ایک بکری دیکھی تو دریافت فرمایا ، اے ام معبد یہ کیسی بکری ہے۔ اس نے عرض کیا، یہ تو انتہائی لاغر اور کمزور بکری ہے جو ضعف و ناتوانی کی وجہ سے دوسری بکریوں کے ہمراہ نہیں جا سکی۔ آپ نے فرمایا تو اس کا دودھ نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا ، یہ تو دودھ دینے سے رہی،(اس کی ہڈیوں میں مغز بھی نہیں اور بدن پر گوشت نام کو نہیں ، دودھ کیسے دے)۔ آپ نے فرمایا ، مجھے اجازت ہے کہ میں اس کو دوہ لوں اور اس کا دودھ نکال لوں۔ انہوں نے عرض کیا ، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں اگر آپ کو دودھ نظر آتا ہے تو نکال لیں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔
امام الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء نے بکری کو اپنے پاس منگوا لیا اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کے پستانوں پر ہاتھ پھیرا اور دعا فرمائی، اے اللہ ام معبد کے لیے اس کی بکری میں برکت عطا فرما۔ ام معبد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، بکری نے فوراً جگالی شروع کر دی۔ پاؤں چوڑے کر لیے اور دودھ سے پستان بھر لیے۔ آپ نے اتنا بڑا برتن طلب فرمایا جو ایک جماعت کو کفایت کر سکے۔ چنانچہ اس میں اس قدر قوت و طاقت سے دودھ دوہا کہ جھاگ برتن کے منھ تک چڑھ آئی۔ پہلے پہل آپ نے حضرت ام معبد کو دودھ عطا فرمایا۔ جب وہ اچھی طرح سیراب ہو گئیں تو پھر دوسرے ساتھیوں کو پلایا۔ سب سے آخر میں نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے دودھ نوش فرمایا اور دوسرے ساتھیوں کو دوبارہ پلایا حتیٰ کہ اور پینے کی گنجائش باقی نہ رہی۔
دوبارہ پھر اس برتن میں دودھ دوہا اور اسے ام معبد کے ہاں چھوڑ کر آپ نے وہاں سے کوچ فرمایا۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کا خاوند ابو معبد بوڑھی ، کمزور اور بدحال بکریاں ہانکتے ہوئے آ پہنچا جو کہ ضعف اور لاغری کی وجہ سے آہستہ آہستہ چلتی تھیں، جن کی ہڈیوں میں مغز قلیل بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب اس نے گھر میں دودھ دیکھا تو حیران ہو گیا اور پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آ گیا ہے؟ جو بکری گھر میں تھی وہ تو ریوڑ سے (لاغری کی وجہ سے) پیچھے رہ جانے والی تھی اور کوئی دودھ دینے والا جانور تھا نہیں۔ ام معبد نے کہا ، نہیں نہیں، بخدا یہ ہماری اسی لاغر اور ضعیف و نزار بکری کا دودھ ہے۔ ایک مبارک ہستی کا گزر یہاں سے ہوا جن کی صفت و کیفیت ایسی ایسی تھی (انہوں نے اپنے شان اعجازی اور خدا داد قدرت کا کرشمہ دکھاتے ہوئے ہمیں دودھ نکال کر دیا ہے)۔ اس نے کہا کہ مجھے تو یہ وہی ہستی معلوم ہوتی ہے جن کے تعاقب میں قریش دوڑ رہے ہیں۔ ذرا مجھ سے ان کا حلیہ اور وضع قطع تو بیان کیجئے۔
جاری ہے۔۔۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
(گزشتہ سے پیوستہ)

ام معبد نے کہا کہ میں نے جس ہستی کا شرف دیدار حاصل کیا، ان کی چمک دمک نمایاں تھی اور چہرہ انور کشادہ اور روشن۔ جسم کے اعضاء میں مکمل تناسب تھا اور موزونیت کاملہ۔ نہ ان کو پیٹ کے بڑھ جانے کا عیب لاحق تھا اور نہ سر اور گردن کے چھوٹا ہونے کا نقص۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھے، ان کی آنکھیں سیاہ اور موٹی تھیں، اور پلکیں گھنی اور دراز۔ آواز بلند گرجدار، رنگت سفید، آنکھیں سرمگیں، بھویں باریک اور باہم ملی ہوئی، بال بہت سیاہ، گردن مبارک میں طول اور لمبائی، داڑھی مبارک گھنی۔ جب سکوت اور خاموشی اختیار کریں تو شان و وقار نمایاں اور جب گفتگو کا آغاز کریں تو سر اقدس اور ہاتھ بلند فرماتے اور چہرہ اقدس پر رونق و بہار نظر آتی۔ ان کی گفتار یوں معلوم ہوتی جیسے موتی پروئے ہوئے ہوں جو ایک ایک کر کے نیچے گر رہے ہوں۔ باتوں میں شہد کی سی مٹھاس اور کلام مقصد پر دلالت میں واضح اور غیر ملتبس، نہ بالکل مختصر اور نہ بہت طویل کہ بے مقصد اور موجب ملال۔ دور سے دیکھیں تو سب سے بلند قامت اور خوبصورت اور قریب سے دیکھیں تو سب سے شیریں اور حسین ترین۔ ایسے درمیانہ قد کہ نہ تو دیکھنے والی آنکھ ان کو درازی قامت کی وجہ سے عیب لگائے اور نہ کوتاہ قامتی کی وجہ سے آنکھ ان کوحقیر جانے، گویا وہ دو نرم و نازک شاخوں کے درمیان ایک ایسی شاخ ہیں جو ان دونوں سے دیکھنے میں خوش منظر اور قدو قامت میں حسین ترین۔ ان کے رفقاء سفر میں یوں ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے جیسے چاند کے گرد ہالہ، جب آپ بات کرتے تو رفقاء مجسم کان بن جاتے اور جب حکم دیتے اطاعت و امتثال کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ وہ مخدوم ہیں اور مطاع جن کی خدمت میں لوگ ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ نہ ترش رو اور تیوری چڑھانے والے اور نہ لوگوں کی طرف سے کم عقلی اور نا سمجھی کا طعنہ سہنے والے۔
ابو معبد نے کہا کہ بخدا یہ وہی قریش کی عداوت اور دشمنی کا نشانہ بننے والی ہستی ہیں جن کو اپنا مقام اللہ رب العزت کی طرف بتلا دیا گیا اور مرتبہ (نبوت) واضح کر دیا گیا ہے۔ اگر میں آپ کو پا لیتا تو اپنے ساتھ رکھنے کی ان سے التماس کرتا، اور مجھے جب بھی موقع ملے گا ضرور ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔
(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)

جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبین سعادت پہ لاکھوں سلام

نیچی آنکھوں کی شرم و حیا پر درود
اونچی بینی کی رفعت پہ لاکھوں سلام

پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام

اس کی پیاری فصاحت پہ بے حد درود
اس کی دلکش بلاغت پہ لاکھوں سلام

جس سے تاریک دل جگمگانے لگے
اس چمک والی رنگت پہ لاکھوں سلام
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
ملک شام کا سفر تجارت۔۔۔

جب رسول خدا علیہ التحیۃ والثناء کی عمر مبارک پچیس سال کو پہنچی تو ابو طالب صاحب نے آپ سے عرض کیا کہ میرے پاس مال و دولت نہیں ہے اور یہ دن ہمارے لیے ذرا دشواری و تنگی کے ہیں۔ قریش کا قافلہ تجارت شام کو جانے والا ہے اور خدیجہ بنت خویلد قوم قریش سے بہت سے آدمی اپنے اپنے قافلوں میں بغرض تجارت بھیجتی رہتی ہیں، اگر تم آمادگی ظاہر کرو اور ان سے مال تجارت لے جانے کے متعلق کہو تو وہ فوراً رضا مند ہو جائیں گی۔ ادھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بھی ابو طالب صاحب اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی باہمی گفتگو کا علم ہوا تو انہوں نے خود ہی پیش کش کی کہ میں آپ کو دوسرے لوگوں کی نسبت دوگنا مال پیش کروں گی۔ تو ابو طالب صاحب بولے کہ یہ رزق اور مال محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی تمہارے حصے میں آیا ہے۔
آپ حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ کے ساتھ شام کے لیے نکلے اور آپ کے چچا اہل قافلہ کو آپ کے متعلق وصیت کرنے لگے۔ یہ قافلہ چلتا ہوا بصریٰ میں پہنچا اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام ایک درخت کے نیچے اترے تو نسطورا راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے سوائے نبی کے اور کوئی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس نے میسرہ سے حضور کے بارے دریافت کیا کہ ان کی آنکھوں میں جو باریک سرخ دھاریاں ہیں وہ کبھی جدا نہیں ہوتی ہیں اور نہ ختم ہوتی ہیں؟ تو اس نے کہا ،ہاں۔ نسطورا نے کہا کہ یہ نبی آخرالزمان اور خاتم الانبیاء ہیں۔
پھر سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام میں سامان تجارت فروخت کیا۔ ایک شخص نے خصومت و منازعت کرتے ہوئے کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے کبھی ان کی قسم نہیں کھائی جبکہ مجھے بارہا اس بات کا اقربا کی طرف سے مشورہ بلکہ حکم دیا جاتا رہا ہے لیکن میں نے کبھی اس طرف التفات نہیں کیا۔ اس شخص نے کہا کہ تمہاری بات درست ہے۔ پھر میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ بخدا یہ نبی ہیں اور ہمارے احبار و علماء آپ کی صفات و علامات کو اپنی کتابوں میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ اور میسرہ دیکھتا کہ جب گرمی دوپہر کے وقت اپنے عروج پر ہوتی تو دو فرشتے آپ پر سایہ فگن رہتے اور دھوپ سے تحفظ کرتے۔ میسرہ نے یہ سارے عجائب و خوارق یاد رکھے (اور واپسی پر حضرت خدیجہ سے عرض کیے)۔ الغرض حضور علیہ الصلاۃ والسلام اور اہل قافلہ نے اپنے اپنے سامان تجارت کو فروخت کیا اور پہلے کی نسبت (حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے) دوگنا نفع کمایا۔
جب مکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو دوپہر کا وقت تھا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے بالا خانہ پر تشریف فرما تھیں۔ سرور عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اونٹ پر سوار ہیں اور دو فرشتے آپ پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ پیارا منظر گھر میں موجود دوسری عورتوں کو بھی دکھلایا تو سب حیران رہ گئیں۔
حبیب پاک صاحب لولاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان کے پاس پہنچے اور انہیں سفر میں حاصل ہونے والے نفع کی تفصیلات بیان کیں تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ جب میسرہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کو حضرت خدیجہ نے فرشتوں کا آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ فگن ہونا بیان کیا تو میسرہ نے کہا کہ یہ صورت تو میں اس وقت سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں جب سے آپ شام سے مراجعت فرما ہوئے، اور نسطورا راہب نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان کیا اور شام میں جس شخص نے نزاع و خصومت کی اور پھر آپ کی صداقت و امانت کا معترف ہو گیا اور نبوت و رسالت کے متعلق گواہی دی، وہ ساری تفصیل بھی بیان کی۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 

الشفاء

لائبریرین
فخر آدم و بنی آدم کی تعمیر کعبہ میں شرکت۔۔۔

بیت اللہ کی پہلی بنیاد اس طرح رکھی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور کو جو کہ یاقوت سرخ تھا نازل فرما کر کعبہ کی جگہ رکھوایا۔ پھر اس کو آسمان پر اٹھایا گیا اور اس جگہ حضرت آدم علیہ السلام نے مکان تیار کیا اور ان کے بعد ان کی اولاد نے گارے اور پتھر سے اسے تعمیر کیا۔ طوفان نوح علیہ السلام میں وہ مکان غرق ہو گیا اور اس جگہ صرف ایک ٹیلہ رہ گیا جس پر بارش و سیلاب وغیرہ کا پانی نہیں چڑھتا تھا۔ بعد ازاں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام نے اسے تعمیر کیا ۔ اس کے بعد عمالقہ اور پھر جرہم نے سعادت تعمیر حاصل کی اور آخر میں قریش نے اس کو ازسر نو تعمیر کیا۔
سرور کائنات فخر موجودات علیہ افضل الصلوٰت والتسلیمات پینتیس سال کی عمر کو پہنچے تو قریش نے کعبہ مبارکہ کو شہید کر کے نئے سرے سے تعمیر کرنا شروع کیا، کیونکہ اس کی دیواریں سیلاب و طغیانی کی وجہ سے کمزور پڑ گئی تھیں۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام بھی ان کے ہمراہ پتھر لاتے رہے اور تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔ جب دیواریں حجر اسود کی بلندی تک پہنچیں اور اس کے نصب کرنے کا مرحلہ آیا تو باہم جھگڑا پیدا ہوا (ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ اسے اپنی جگہ نصب کرنے کی سعادت صرف ہمیں نصیب ہو) حتیٰ کہ جنگ و جدال اور قتل کی دھمکیاں دی جانے لگیں۔
چند دن اسی طرح گزرے پھر باہم مشورہ کیا تاکہ کوئی حل تلاش کیا جائے۔ ابو امیہ بن المغیرہ نے جو قریش کا سردار تھا ، کہا کہ جو شخص پہلے پہل مسجد حرام کے دروازہ سے اندر آئے اس کو اپنا حکم اور فیصلہ کرنے والا تسلیم کر لو۔ چنانچہ سب سے پہلے جو ہستی مسجد حرام میں داخل ہوئی وہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے ، یہ امین ہیں ہم ان کے فیصلہ پر راضی ہیں (اور قریش آپ کو نزول وحی اور دعویٰ نبوت سے قبل امین کہہ کر پکارتے تھے)۔ جب آپ پہنچے اور انہوں نے اپنے مشورہ اور فیصلہ کا آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، ایک کپڑا لے آؤ۔ جب وہ لایا گیا تو آپ نے حجر اسود کو اٹھاکر اس چادر پر رکھا۔ پھر فرمایا کہ ہر قبیلہ کپڑے کا ایک کنارہ پکڑ کر اسے اٹھائے۔ جب حجر اسود کے نصب کرنے والی جگہ کے قریب تک اٹھایا گیا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اس کو اپنی جگہ پر نصب کر دیا اور پھر باقی تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچی (اور اس طرح رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے جنگ و جدال سے امن نصیب ہوا)۔

(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
 
Top