حلیمہ میں تیرے مقدراں توں صدقے۔۔۔
حضرت حلیمہ سعد بن بکر کے قبیلہ سے تھیں۔ فرماتی ہیں ، میں اور میرا خاوند رضاع (دودھ پلانے ) کے لیے بچے حاصل کرنے والی عورتوں کی جماعت کے ساتھ گھر سے نکلے۔ میری سواری دراز گوش تھی جس کا رنگ سبزی مائل تھا اور وہ انتہائی لاغر اور نحیف و نزار تھی اور باقی سواریوں سے پیچھے رہ گئی۔ اس سال سخت قحط تھا اور اس نے کوئی شے باقی نہیں چھوڑی تھی۔ ہمارے ساتھ ایک عمرہ رسیدہ اونٹنی بھی تھی لیکن بخدا وہ ایک قطرہ دودھ کا بھی نہیں دیتی تھی۔ میرا بچہ بھوک سے چیختا چلاتا رہتا اور اس کے رونے سے ہم رات بھر سو بھی نہیں سکتے تھے۔ نہ تو میرے پستانوں میں اتنا دودھ تھا جو اس کو کفایت کر سکے اور نہ ہی اونٹنی دودھ دیتی تھی جو اس کی غذا بن سکے۔ مگر ہم رحمت خداوندی سے نا امید نہیں تھے اور یہ آس لگائے ہوئے تھے کہ ضرور باران رحمت ہو گی اور ہماری زبوں حالی خوشحالی سے بدل جائے گی۔
جب ہم سب سے آخر میں مکہ مکرمہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ جتنے بچے قابل رضاعت تھے وہ دوسری عورتوں نے لے لیے ہیں اور صرف ایک بچہ باقی رہ گیا ہے اور ایک میں باقی رہ گئی ہوں۔ اور وہ بچہ ایسا ہے جس کو ہر عورت نے دیکھا مگر یہ معلوم کر کے کہ وہ یتیم ہیں اور دودھ پلانے کا صلہ و انعام تو والد نے دینا ہوتا ہے ، ماں کیا دے سکتی ہے، ان کو دودھ پلانے پر کیا ملے گا۔ لہٰذا ہر عورت نے اس خیال فاسد کی بنا پر اپنی محرومی مول لی اور دوسرے بچے اٹھائے۔ میں نے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جاؤں، یہ ٹھیک نہیں۔ تو خاوند سے کہا کہ بخدا میں تو اسی یتیم کو لے کر واپس جاؤں گی۔
میں ان کے گھر حاضر ہوئی، انہیں اٹھایا اور چھاتی سے لگائے ہوئے اپنے مقام پر واپس آئی۔ خاوند نے دریافت کیا، انہیں لائی ہو تو میں نے کہا ہاں اور جو نہیں ملا تو یہی سہی۔ اس نے کہا تونے بہت اچھا کیا۔ امید ہے اللہ تعالیٰ ان کے صدقے ہمیں خیروبرکت عطا فرمائے گا۔
حلیمہ فرماتی ہیں جوں ہی میں نے آپ کو دودھ پلانے کے لیے سینے کےساتھ لگایا تو پستان دودھ سے بھرپور معلوم ہوئے حتیٰ کہ آپ نے سیراب ہو کر پیا اور آپ کے رضاعی بھائی نے بھی (جو پہلے اکیلا سیراب نہیں ہو سکتا تھا اور رو رو کر بے حال ہو جاتا تھا۔ اور جب میرا خاوند بوڑھی مریل اونٹنی کی طرف رات کو دیکھ بھال کے لیے اٹھا تو اس کا دودھ خود بخود پستانوں سے باہر آ رہا تھا۔ حارث نے اس سے اتنا دودھ نکالا جتنا کہ ہمیں درکار تھا حتیٰ کہ اس نے اور میں نے پیٹ بھر کر پیا۔ فرماتی ہیں ہمارے لیے وہ رات بڑی خیروبرکت والی تھی جس میں ہم پیٹ بھر کر اور سیراب ہو کر سوئے۔ میرا خاوند حارث بولا، اے حلیمہ میرے عقیدہ و نظریہ کے مطابق تو نے بڑے مقدس و مبارک فرزند کو حاصل کر لیا ہے۔ ہمارے بچے بھی آج میٹھی نیند سوئے اور ہمیں بھی سیرابی کا منھ دیکھنا نصیب ہوا۔
جب واپس ہوئے تو میری درازگوش اونٹنی سب سواریوں اور سواروں سے آگے نکل گئی اور بخدا اس تیزی سے اس نے سب کو کاٹا اور پیچھے چھوڑا کہ ان میں سے کوئی سواری پھر آگے نکلنا تو کجا اس کو مل بھی نہ سکی۔ قافلہ والے پکار اٹھے اے حلیمہ۔۔۔۔ ہمیں دوڑا دوڑا کر نہ تھکا، ہمیں اس مشکل سے چھٹکارا دلا ، ذرا اپنی سواری کو آہستہ کر اور یہ تو بتا کہ یہ وہی دراز گوش ہے جس پر تو گھر سے روانہ ہوئی تھی (اور سب اہل قافلہ سے پیچھے رہ گئی تھی) حلیمہ نے کہا ، ہاں خدا کی قسم سواری تو وہی ہے (مگر سوار بدل گیا ہے اور اب اس کی قسمت بھی بدل گئی ہے)۔ سب نے بیک زبان کہا کہ اب تو واقعی اس کی شان عجیب ہے اور اس کی حالت پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہے۔ اس طرح ہم اس مسافت کو طے کرتے ہوئے بنی سعد بن بکر کی آبادی میں اپنے گھروں تک پہنچے۔
گھر آئے تو خشک سالی اور قحط سالی، سرسبزی و شادابی اور خوش بختی و خوشحالی سے تبدیل ہو چکی تھی اور زمین سبزہ کے ساتھ لہلہا رہی تھی۔ مگر یہ سعادت اور بخت آوری صرف ہمارے مقدر میں تھی۔ اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں حلیمہ کی جان ہے ہم اور دیگر اہل دیہہ اکٹھے اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے بھیجتے مگر ہماری بھیڑ بکریاں پیٹ بھر کر واپس لوٹتیں اور پستان بھی دودھ سے بھرے ہوتے اور جب ان کے جانور واپس ہوتے تو ان کے پیٹ بھی خالی ہوتے اور پستانوں میں ایک گھونٹ دودھ کا بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہم تو جتنا چاہتے دودھ پیتے مگر ہماری ساری آبادی والے ایک ایک قطرہ شیر کے لیے ترستے رہتے، پینا تو کجا دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنے چرواہوں سے کہتے ، تمہارے لیے ہلاکت ہو تم اس چراگاہ میں انہیں کیوں نہیں لے جاتے جہاں حلیمہ کے جانور چرتے ہیں ۔ پھر وہ بھی اپنے مال مویشی لے آتے اور چراتے مگر واپسی پر وہی حالت ہوتی، ان کے جانور خالی پیٹ اور خالی پستان ہوتے مگر ہمارے جانور سیر ہو کر نکلتے اور دودھ سے بھرپور ہوتے۔
خود رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حالت اقدس جو وہاں دیکھنے میں آئی، یہ تھی کہ آپ ایک دن میں اتنے بڑھ جاتے جتنے دوسرے بچے مہینہ میں بڑے ہوتے ہیں اور مہینہ میں اس سے بھی بڑے ہو جاتے جتنے کہ دوسرے بچے سال میں۔ جب اس مقدس ہستی کی عمر مبارک دو سال کو پہنچی تو عام بچوں کے برعکس وہ اچھے خاصے مضبوط اور توانا ہو گئے۔ فرماتی ہیں ہم انہیں حضرت آمنہ کی خدمت میں لے آئے (تاکہ وہ زیارت کر لیں اور مطمئن ہو جائیں) لیکن ہم دونوں نے ان سے عرض کیا کہ ہمیں یہ لاڈلا واپس لے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں کیونکہ مکہ کی وبا سے ہمیں ڈر لگتا ہے (کہیں ان کو تکلیف نہ پہنچے)۔ انہوں نے فرمایا ہم یہ سماحت و سخاوت نہیں کر سکتے۔ ہم ان کے برکات اور فیوضات کو دیکھ کر ان کے معاملے میں بہت بخیل ہو گئے۔ ہم اسی طرح منت و سماجت کرتے رہے حتیٰ کہ آپ نے ہماری درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا انہیں اپنے ساتھ لے جا سکتے ہو۔
فرماتی ہیں آپ ہمارے پاس دو ماہ تک رہے ۔ ایک دن آپ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھر کی پچھلی جانب کو نکلے تو اچانک ان کا بھائی دوڑتا ہوا آیا اور مجھے اور اپنے باپ سے کہا کہ فوراً اٹھو اور میرے قریشی بھائی کی خبر لو کیونکہ دو آدمیوں نے آکر ان کو پکڑا اور زمین پر لٹا کر ان کا پیٹ چاک کر دیا ہے۔ حلیمہ فرماتی ہیں کہ میں اور میرا خاوند دوڑتے ہوئے اس طرف گئے۔ جب ہم پہنچے تو آپ لیٹے ہوئے تھے اور رنگ مبارک زردی مائل تھا۔ ہم نے باری باری ان کو سینہ سے لگایا اور پوچھا، اے بیٹے کیا ہوا۔
آپ نے فرمایا، دو شخص میرے پاس آئے جن کے کپڑے سفید تھے۔ انہوں نے مجھے لٹایا ، سینہ اور پیٹ چاک کیا، آگے معلوم نہیں انہوں نے کیا کیا۔
فرماتی ہیں ، ہم آپ کو اٹھا کر واپس لے آئے۔ میرے خاوند نے مجھے کہا، اے حلیمہ بخدا اس بچے کو کوئی آسیب وغیرہ کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے لہٰذا چلو ان کو ان کی والدہ ماجدہ کے حوالے کر دیں قبل اس کے کہ جس امر کا ہمیں اندیشہ ہے وہ ان میں ظاہر ہونے پائے۔
جب ہم ان کو واپس لے گئے تو انہوں نے دریافت کیا، کیا ہوا فوراً واپس لائے ہو حالانکہ تم تو ان کے متعلق بہت حرص ظاہر کر رہے تھے۔ ہم نے کہا نہیں اب ہم ان کو نہیں رکھتے کیونکہ ہم نے ان کی کفالت کی اور جو خدمت کر سکتے تھے ، وہ پوری طرح کر دی ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ انہیں ہمارے پاس ہوتے ہوئے کچھ عوارض نہ لاحق ہو جائیں، لہٰذا اب ان کا اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہنا ہی بہتر ہے۔
حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، بات یہ نہیں ہے ، مجھے سچ سچ بتلاؤ کہ تمہارے اور ان کےدرمیان کیا واقعہ پیش آیا، آپ کا اصرار جاری رہا حتٰی کہ ہم نے حقیقت حال عرض کر دی۔ انہوں نے کہا کیا تم ان کے متعلق خوفزدہ ہو ، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میرے اس بیٹے کی شان عظیم ہے اور حال عجیب۔ کیا میں تمہیں ان کے متعلق بتلاؤں کہ جب میں ان کے ساتھ حاملہ ہوئی تو مجھے معلوم نہیں کہ کسی ماں کا حمل و جنین اتنا خفیف و لطیف ہو اور اتنا عظیم برکتوں والا۔ جب میں نے ان کو جنم دیا تو یہ اس طرح زمین پر نہ آئے جس طرح کہ بچے گرتے ہیں ، بلکہ آپ اپنے ہاتھ زمین پر رکھے ہوئے تھے اور سر اقدس آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔ اچھا تو اب انہیں میرے پاس ہی رہنے دیں اور آپ اپنا کام کریں۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
(الوفا باحوال المصطفےٰ ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)