ماشاء اللہ ہزارویں گیند پہ چھکا!!!!
شوکت پرویز نے درست گرفت کی ہے۔ لیکن ’تیری‘ کی جگہ ’تری‘ کر دینا کافی ہے
جس کی بھی نظر گنبدِ خضریٰ پہ پڑی ہے
اقبال بلند اُس کا ہے، عزت بھی بڑی ہے
÷÷درست۔ الحمدللہ۔۔۔
اے چشمئہ رحمت تُو مدینے کی گھٹا بھیج
تپتا ہوا صحرا ہے یہاں، دُھوپ کڑی ہے
÷÷دوسرے مصرع میں یوں تبدیلی کی جا سکتی ہے
تپتا ہوا صحرا ہے یہاں، دُھوپ کڑی ہے۔ تبدیلی کر دی ہے۔
بہہ اٹھا ہے اک چشمئہ شوق آنکھ سے میری
جس دم بھی نظر روضئہ اطہر پہ پڑی ہے
÷÷واہ واہ۔ آداب عرض ہے سر۔۔۔
بیٹھا ہوا "محفل" میں ہے گو جسم ہمارا
پر روح ہماری تری چوکھٹ پہ کھڑی ہے
÷÷تری چوکھٹ‘ کر دیں۔ کر دی۔۔۔
یا رب ! اِس امتِ عاصی پہ نظر کر
رمضان کی پہلی ہے ، بخشش کی گھڑی ہے
÷÷پہلی رمضان بخشش کی گھڑی؟ ایسی کوئی روایت میں نے تو نہیں سنی۔ بحر و اوزان کی درستی بعد میں؎
مجوزہ اصلاح کے بعد اس کو یوں کر دیتے ہیں کہ
یا رب تُو اب اس امت عاصی پہ نظر کر
رمضان ہے آیا لگی رحمت کی جھڑی ہے۔
میں کیا ہوں؟ مرا حسنِ بیاں! کچھ نہیں آقا
کمزور سی نسبت ہے جو مشکل سے جُڑی ہے
÷÷قافیہ غلط ہے۔ شوکت کہہ چکے ہیں۔
بجا ہے۔ چونکہ قافیہ شاعرانہ اصول کے منافی ہے اس لئے اس کو بحیثیت الگ شعر ہی رکھتے ہیں جب تک کہ قافیہ درست نہیں ہو جاتا۔لیکن بہرحال اس نسبت کو توڑنے کو دل نہیں چاہ رہا کہ پہلے ہی کمزور سی ہے۔۔۔
سب اہلِ محبت نے جوابات ہیں پائے !
میری بھی تو چِٹّھی تیرے بُوہے پہ پڑی ہے
÷÷ بوہے کیا لفظ ہے میں واقف نہیں۔ ویسے یہ شعر اس طرح بہتر ہو۔
سب اہلِ محبت کو جوابات ملے ہیں
میری بھی تو چِٹّھی ترے بُوہے پہ پڑی ہے
جی ٹھیک ہے سر۔ ویسے ان احباب کی توجہ کے لئے بھی مشکور ہوں جنہوں نے بُوہے کو چوکھٹ سے اس لئے تبدیل کرنے کا مشورہ دیا ہے کہ بُوہا پنجابی کا لفظ ہے۔ لیکن یہ کوئی عذر نہیں ہے کہ بہت سا کلام مختلف زبانوں کے الفاظ کے امتزاج سے بھرا پڑا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس شعر میں لفظ بُوہے سے کیفیت ملتی ہے۔۔۔
اس شعر پر محترم
محمد یعقوب آسی صاحب کی رائے جان کر دلی خوشی ہو گی کہ ان کو پنجابی پر بھی دسترس حاصل ہے۔۔۔
میں چھوٹا ، بہت چھوٹا ، بہت چھوٹا ہوں آقا
تُو خود بھی بڑا ہے تری مدحت بھی بڑی ہے
۔۔تری مدحت بھی بڑی ۔۔ کر دو۔ جی کر دی۔۔۔
اے رحمتِ کونین شفا کو بھی شفا دے
روح اس کی ترے ہجر میں بیمار بڑی ہے
درست۔ آداب عرض ہے سر۔۔۔