سید فصیح احمد
لائبریرین
۔
یہ ان پرانی غزلوں میں سے ہے جو محفل پر ارسال ہونے سے رہ گئی ہیں ورنہ قلم کی روشنائی اگر نہیں بھی سوکھی تو اس دور سے ضرور گزر رہا ہوں جسے شعرا قلمی بانجھ پن کہتے ہیں اور یہ دور کتنا طویل یا مختصر ہو گا کسی کو نہیں معلوم۔
زخم بھی، آہ بھی، شکایت بھی
حشر کیا کیا مجھے دبانا ہے
بجا کہتے ہیں۔بلا شبہ قلمی سفر میں اکثر دوست اس خلا کا شکار ہو جاتے ہیں، اور بہت مشکل دور ہوتا ہے یہ۔
درست کہا۔ امید تو ہے کہ ختم ہو جائے گا۔بالکل ٹھیک کہا فاتح بھائی ۔ یہ ’’ رائٹرز بلاک‘‘ ہر لکھنے والے پر ضرورآتا ہے ، بلکہ گاہے بگاہے آتا رہتا ہے ۔ ہزار کوشش کے باوجود ایک سطر یا مصرع نہیں لکھا جاتا ۔
میرا خیال ہے کہ اس کا کچھ تعلق عدم تحریک سے بھی ہے ۔ انشاءاللہ یہ بانجھ پن زیادہ عرصہ نہیں رہے گا ۔
شکریہ جناب۔خوب کہا فاتح
زخم دبانے کی ترکیب کچھ نئی لگی لیکن شعر بہت پسند آیا
ایک غزل آپ احباب کی بصارتوں کی نذر
جشن تیرہ شبی منانا ہے
خون کو خاک میں ملانا ہے
کھا گیا جاں کو آس کا آسیب
وحشتوں کا دیا بجھانا ہے
اپنی نظروں سے گر گیا ہوں میں
اور کتنا مجھے گرانا ہے
میں نے تقویم ڈال دی پسِ پشت
تیرے آگے ابھی زمانہ ہے
زخم بھی، آہ بھی، شکایت بھی
حشر کیا کیا مجھے دبانا ہے
یاوہ گوئی ہے ہجر کا قصہ
ہاں کہانی سہی، کہا نا ہے
قیس کو بالکا سمجھتا ہے
چار حرف اس پہ بھی، دوانہ ہے
زندگی نے ہمیں گزار لیا
خاک ہم نے اسے بِتانا ہے
چاہیے اختیار موجوں پر
پار سوہنی کو بس لگانا ہے
ہم بھی قارون سے کہاں کم ہیں
فاقہ مستی بڑا خزانہ ہے
کھو گئی آرزوئے خواہش تک
کیا بچا ہے کہ اب گنوانا ہے
(فاتح الدین فاتحؔ)
شکریہ۔ جی بالکل وہی ہے۔حضور غالباََ آپ کی زبانی یہی غزل سنی تھی، حجاز کی معیت میں۔ خوبصورت ہے۔ سبحان اللہ۔ deja vu کے لیے شکریہ۔۔۔
بہت شکریہ۔ محبت ہے آپ کی۔ماشاء اللہ بہت بڑی بڑی باتیں آپ نے چھوٹے چھوٹے اشعار میں بند کر دی بہت خوب جنابِ والا۔
" بھائی "
بھی ہی لکھا تھا ۔۔" بھائی "
اس صورت میں مابدولت برادرم عمر سیف سے معذرت کے خواستگار ہیں ۔بھی ہی لکھا تھا ۔۔
ہم بھی قارون سے کہاں کم ہیں
فاقہ مستی بڑا خزانہ ہے
بہت شکریہ حمیرا بہن۔واہ فاتح بھائی بہت عمدہ لاجواب غزل ہے
بہت شکریہواہ واہ بہت ہی خوب سر
ظالم نے تاک کر وہ مارا تیر کہ ہائے ہائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی نے ہمیں گزار لیا
خاک ہم نے اسے بِتانا ہے
چاہیے اختیار موجوں پر
پار سوہنی کو بس لگانا ہے
میں نے تقویم ڈال دی پسِ پشت
تیرے آگے ابھی زمانہ ہے
زندگی نے ہمیں گزار لیا
خاک ہم نے اسے بِتانا ہے
ہم بھی قارون سے کہاں کم ہیں
فاقہ مستی بڑا خزانہ ہے
کھو گئی آرزوئے خواہش تک
کیا بچا ہے کہ اب گنوانا ہے