یوسف-2
محفلین
(نوٹ: روشنی صرف قرآن اور حدیث میں ملے گی یا پھر ان دونوں کی روشنی سے حاصل ہونے والی حکمت میں ملے گی، باقی سب فکری انتشار ہے، ابہام ہے یا اوہام)
ایک حدیث پاک میں گذشتہ امتوں میں سے ایک امت کے ایک فاسق و فاجر شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، یہ واقعہ دراصل توبہ کی اہمیت اور اللہ کی رحمانیت کو واضح کرتا ہے۔
اس واقعے کا مفہوم یہ ہے، ایک فاسق و فاجر نے ننانوے بے گناہ قتل کر رکھے تھے۔ ایک روز ضمیر نے ملامت پر اس نے توبہ کا ارادہ کیا، لیکن دل میں ڈر بھی تھا کہ اتنے ڈھیر سارے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔ اسی الجھن میں ایک خدا رسیدہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا میری بخشش اور مغفرت کا کوئی امکان ہے؟ میں ننانوے قتل کر چکا ہوں۔ اس بزرگ نے انکار کر دیا اور اسے لعن طعن کی۔ فاسق نے اشتعال میں آ کر اسے بھی قتل کر دیا، یوں سو قتل پورے ہو گئے۔ بعد میں پشیمانی ہوئی تو پھر اپنے اُسی سوال کے جواب کے لیے نکلا ’’کیا میری مغفرت ممکن ہے؟‘‘ کسی نے اسے ایک بزرگ کا پتہ بتایا جو دور دراز رہتے تھے۔ سو بے گناہوں کا قاتل انہیں تلاش کرتا ہوا پہنچا۔ اس بزرگ نے اسے مایوس نہیں کیا، اسے بتایا کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے۔ نجات کی صورت یہ ہے کہ توبہ کر کے اپنی بستی سے نکل جا، کہیں اور ٹھکانہ بنا۔ اس شخص نے توبہ کی اور اپنی بستی سے نکل کر کہیں اور جانے کے لیے چلا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ راستے میں موت آ گئی۔ اب اس کی روح کو ٹھکانہ دینے کے لیے عذاب اور ثواب کے فرشتوں میں بحث ہونے لگی۔ عذاب کے فرشتوں کا دعویٰ تھا کہ سو قتل کرنے والا جہنّمی ہے، اسے ہم لے کر جائیں گے۔ ثواب کے فرشتوں کا استدلال تھا کہ یہ تائب ہو گیا تھا، اسے جہنّم میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پرانی بستی سے لے کر میت تک کے فاصلے، اور میت سے لے کر اس کی نئی منزل تک کے فاصلے کی پیمائش کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے۔ ان فاصلوں کی پیمائش سے پتہ چلا کہ میت دونوں بستیوں کے عین وسط میں ہے، البتہ میت کے پاؤں نجات کی بستی سے قریب اور پرانی بستی سے دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ملاحظہ کریں، اُس نے اِس معمولی سے فرق کی بنیاد پر اس قاتل کو بخش دیا اور ثواب کے فرشتے جیت گئے (حدیث کا حوالہ علما سے معلوم کر کے اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے)۔
(نوٹ: اس حدیث سے ابھرنے والے حسنِ ظن کو ہمیں منور حسن صاحب کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے)
بے شک حکیم اللہ محسود ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں ملوث تھا، اس نے توبہ کی تھی یا نہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، البتہ حکیم اللہ علمائے کرام کی اپیل پر امن مذاکرات پر آمادہ ہو کر اپنی سمت بدل چکا تھا اور یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ امن چاہتا ہے۔ ہم انسان ہیں، بندوں کی نیت نہیں جان سکتے، صرف عمل کو دیکھ سکتے ہیں اور عمل کی بنیاد پر اپنے لیے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ دوسری بات مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نزدیک، پوری زندگی سے بڑھ کر انجام بخیر کی زیادہ اہمیت ہے۔ سیرت نبوی میں ایسے صحابہ کرام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نہ ایک وقت کی نماز ادا کی، نہ روزہ رکھا، صرف جہاد میں شریک ہوئے، شہادت پائی اور جنت کے مستحق ہوئے۔ یہ ہے انجام بخیر کی ایک مثال۔ اللہ ہمیں بھی اپنی عبادتوں پر زعم اور گھمنڈ سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے، آمین۔
حکیم اللہ جس لمحے امن مذاکرات پر آمادہ ہوا وہ اس کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تھا (اور وہ شاید پورے ملک کے لیے بھی مثبت تبدیلی کا آغاز بنتا)۔ پہلے وہ پاکستان کے لیے بوجھ، خسارہ اور فساد تھا، اپنی اس تبدیلی کے بعد وہ پاکستان کے لیے اثاثہ، نفع اور امن کی علامت بننے جا رہا تھا۔ ممکن ہے، مذاکرات کامیاب ہو جاتے۔ بیشتر عوام اور حکومتی حلقے بھی چونکہ امن کے خواہاں تھے اس لیے کامیابی کا امکان زیادہ تھا، لیکن یہاں معاملات میں ایک تیسرا فریق دخل دیتا ہے، حکیم اللہ کو ختم کر کے مذاکرات اور امن کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے۔ یہ فریق امریکہ ہے، وہ پاکستان میں امن نہیں مسلسل شورش، بدامنی اور دہشت گردی چاہتا ہے۔ بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے۔
ملکی سلامتی کے کچھ اور پہلو:
امریکہ اور طالبان گروپوں میں کچھ مماثلتیں ہیں اور کچھ فرق ہیں۔ ان مماثلتوں اور فرق کی بنیاد پر ہمیں نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔
امریکہ کئی سال سے Do more کہہ رہا ہے اور حکومت عمل کر رہی ہے، اس کا کوئی فائدہ پاکستان اور عوام کو نہیں پہنچا، فائدہ صرف ہمارے دشمنوں اور امریکہ کو ہوا۔ پاکستان کو صرف بدامنی اور عدم استحکام ملا۔ ممکن ہے طالبان بھی مذاکرات میں Do for us کہتے اور حکومت مان لیتی۔ امریکہ کے مطالبات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہم ایٹمی پروگرام کی چابیاں اس کے حوالے کر کے خود کو اس کے مکمل رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتے۔ گمان غالب یہ ہے کہ طالبان کے مطالبات اپنے قیدیوں کو چُھڑانے اور کچھ علاقوں کا کنٹرول لینے تک محدود ہوں گے۔ مطالبات اس سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ بھی، لیکن مطالبات تو سامنے آنے ہی نہیں پائے تھے کہ امریکہ نے وار کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ امریکہ کو راضی نہیں کیا جا سکتا، پاکستانی طالبان کو کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اس پورے خطے میں اگلی کئی صدیوں تک کے منصوبے اور عزائم رکھتا ہے، جبکہ طالبان کے عزائم سطحی، عارضی اور علاقائی ہیں۔ پاکستانی طالبان کی بیرونی ڈوریوں کو بھی حکمت عملی کے ساتھ کاٹنا ممکن ہے۔
دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ پاکستان عسکری میدان میں الگ الگ امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ طالبان کو ختم کر سکتا ہے، البتہ سیاسی انداز میں ان دونوں سے نمٹا جا سکتا ہے جس کے لیے پہلے طالبان سے مذاکرات ضروری ہوں گے، لیکن امریکہ سے ڈرون حملے رکوانے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے امریکی ایجنٹوں کو نکیل ڈالنے کا مشکل کام ہی حکومت کے لیے اصل چیلنج ہے۔ طالبان کو آمادہ کرنا ممکن ہے، امریکہ کو ہرگز نہیں۔
امریکہ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے طالبان کو ’نادان دوست‘ کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ’نادان دشمن‘۔ انہیں دانا دوست بنانا ممکن ہو گا۔ امریکہ ’دوست نما دانا دشمن‘ ہے اور رہے گا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے ہمارا ’بازوئے شمشیر زن‘ ہیں، یہ ہماری اولین دفاعی لائن ہیں۔ ہمارے یہ قبائل امریکہ کی طویل مدتی سازشوں کی کامیابی میں اہم رکاوٹ ہیں، اور اسی لیے امریکہ اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے۔ وہ ان قبائل کو ناراض، بدظن اور مشتعل کر کے پاکستان کے خلاف متحرک کرنا چاہتا ہے، خدانخواستہ ایسا ہوا تو پاکستان اپنے حلیفوں سے محروم ہو جائے گا اور امریکہ، افغانستان اور بھارت کا ترنوالہ بن جائے گا۔ امریکہ کی طویل مدتی سازشیں کیا ہیں: پاکستان پر براہ راست حملہ اور کھلی جنگ، یا بالواسطہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے حملہ بھی اس کا ایک منصوبہ ہو سکتا ہے، اور بے پناہ معدنی وسائل سمیت ایٹمی پروگرام پر قبضہ بھی۔ ورنہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شورش، دہشت گردی اور دھماکے تو وہ کر ہی رہا ہے۔ اپنے ناپاک منصوبوں کی مکمل کامیابی کے لیے اُسے پہلے پاکستان کو نہتّا کرنا ہے اور نہتّا کرنے میں اس کو سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش ہے کہ شمالی وزیرستان میں اب تک امن ہے، امریکہ پاکستان سے Do more کے ذریعے یہاں بھی شورش کرانے پر تُلا ہوا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان امریکی دباؤ تسلیم نہ کرنے کی کتنی سکت رکھتا ہے (برطانیہ نے یہاں سے جاتے جاتے مسئلہ کشمیر پیدا کیا، دیکھیے امریکہ جاتے جاتے کیا پیدا کرنا چاہتا ہے)۔
جماعت اسلامی اور طالبان (پاکستانی ہوں یا افغانی) کی بنیاد، سوچ، طرز عمل اور منزل میں بہت فرق ہے، لیکن کچھ مشترکہ امور پائے جاتے ہیں جن میں امریکہ کی جنگ سے نجات اور امن کا قیام اولین نکتہ ہے۔ امریکہ کے عزائم اس کے عین الٹ ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کی ضرورتیں متضاد ہیں چنانچہ ان کا راستہ ایک نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کی سازشیں بہت گہری ہیں، ہاتھ بہت لمبے اور وسائل بے پناہ ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی چال سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور وہ تمام کارخانۂ قدرت کا تنہا مالک ہے۔ بس یہی وہ سہارا ہے جو مسلمانوں کو مایوسی سے بچا سکتا ہے، لیکن اس سہارے کو تھامنے اور تھامے رکھنے کی ضرورت ان لوگوں کو سب سے زیادہ ہے جو سطحی نہیں بلکہ امت کی سطح پر سوچتے ہیں۔ ہم اللہ سے جتنے قریب ہوں گے مایوسی اور بددلی سے اتنے ہی دور ہوں گے، ان شاء اللہ۔
پس تحریر: یہ تحریر مجھے میرے ایک جماعتی دوست نے ای میل کی ہے۔ اس تحریر سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ایک حدیث پاک میں گذشتہ امتوں میں سے ایک امت کے ایک فاسق و فاجر شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، یہ واقعہ دراصل توبہ کی اہمیت اور اللہ کی رحمانیت کو واضح کرتا ہے۔
اس واقعے کا مفہوم یہ ہے، ایک فاسق و فاجر نے ننانوے بے گناہ قتل کر رکھے تھے۔ ایک روز ضمیر نے ملامت پر اس نے توبہ کا ارادہ کیا، لیکن دل میں ڈر بھی تھا کہ اتنے ڈھیر سارے گناہ معاف نہیں ہوں گے۔ اسی الجھن میں ایک خدا رسیدہ بزرگ کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا میری بخشش اور مغفرت کا کوئی امکان ہے؟ میں ننانوے قتل کر چکا ہوں۔ اس بزرگ نے انکار کر دیا اور اسے لعن طعن کی۔ فاسق نے اشتعال میں آ کر اسے بھی قتل کر دیا، یوں سو قتل پورے ہو گئے۔ بعد میں پشیمانی ہوئی تو پھر اپنے اُسی سوال کے جواب کے لیے نکلا ’’کیا میری مغفرت ممکن ہے؟‘‘ کسی نے اسے ایک بزرگ کا پتہ بتایا جو دور دراز رہتے تھے۔ سو بے گناہوں کا قاتل انہیں تلاش کرتا ہوا پہنچا۔ اس بزرگ نے اسے مایوس نہیں کیا، اسے بتایا کہ اللہ کی رحمت بے حد وسیع ہے۔ نجات کی صورت یہ ہے کہ توبہ کر کے اپنی بستی سے نکل جا، کہیں اور ٹھکانہ بنا۔ اس شخص نے توبہ کی اور اپنی بستی سے نکل کر کہیں اور جانے کے لیے چلا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ راستے میں موت آ گئی۔ اب اس کی روح کو ٹھکانہ دینے کے لیے عذاب اور ثواب کے فرشتوں میں بحث ہونے لگی۔ عذاب کے فرشتوں کا دعویٰ تھا کہ سو قتل کرنے والا جہنّمی ہے، اسے ہم لے کر جائیں گے۔ ثواب کے فرشتوں کا استدلال تھا کہ یہ تائب ہو گیا تھا، اسے جہنّم میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے پرانی بستی سے لے کر میت تک کے فاصلے، اور میت سے لے کر اس کی نئی منزل تک کے فاصلے کی پیمائش کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے۔ ان فاصلوں کی پیمائش سے پتہ چلا کہ میت دونوں بستیوں کے عین وسط میں ہے، البتہ میت کے پاؤں نجات کی بستی سے قریب اور پرانی بستی سے دور ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ملاحظہ کریں، اُس نے اِس معمولی سے فرق کی بنیاد پر اس قاتل کو بخش دیا اور ثواب کے فرشتے جیت گئے (حدیث کا حوالہ علما سے معلوم کر کے اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے)۔
(نوٹ: اس حدیث سے ابھرنے والے حسنِ ظن کو ہمیں منور حسن صاحب کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے یاد رکھنا چاہیے)
بے شک حکیم اللہ محسود ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں ملوث تھا، اس نے توبہ کی تھی یا نہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، البتہ حکیم اللہ علمائے کرام کی اپیل پر امن مذاکرات پر آمادہ ہو کر اپنی سمت بدل چکا تھا اور یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ امن چاہتا ہے۔ ہم انسان ہیں، بندوں کی نیت نہیں جان سکتے، صرف عمل کو دیکھ سکتے ہیں اور عمل کی بنیاد پر اپنے لیے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ دوسری بات مذکورہ بالا حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کے نزدیک، پوری زندگی سے بڑھ کر انجام بخیر کی زیادہ اہمیت ہے۔ سیرت نبوی میں ایسے صحابہ کرام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد نہ ایک وقت کی نماز ادا کی، نہ روزہ رکھا، صرف جہاد میں شریک ہوئے، شہادت پائی اور جنت کے مستحق ہوئے۔ یہ ہے انجام بخیر کی ایک مثال۔ اللہ ہمیں بھی اپنی عبادتوں پر زعم اور گھمنڈ سے بچائے اور ایمان پر خاتمہ فرمائے، آمین۔
حکیم اللہ جس لمحے امن مذاکرات پر آمادہ ہوا وہ اس کی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تھا (اور وہ شاید پورے ملک کے لیے بھی مثبت تبدیلی کا آغاز بنتا)۔ پہلے وہ پاکستان کے لیے بوجھ، خسارہ اور فساد تھا، اپنی اس تبدیلی کے بعد وہ پاکستان کے لیے اثاثہ، نفع اور امن کی علامت بننے جا رہا تھا۔ ممکن ہے، مذاکرات کامیاب ہو جاتے۔ بیشتر عوام اور حکومتی حلقے بھی چونکہ امن کے خواہاں تھے اس لیے کامیابی کا امکان زیادہ تھا، لیکن یہاں معاملات میں ایک تیسرا فریق دخل دیتا ہے، حکیم اللہ کو ختم کر کے مذاکرات اور امن کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے۔ یہ فریق امریکہ ہے، وہ پاکستان میں امن نہیں مسلسل شورش، بدامنی اور دہشت گردی چاہتا ہے۔ بارہا یہ ثابت ہو چکا ہے۔
ملکی سلامتی کے کچھ اور پہلو:
امریکہ اور طالبان گروپوں میں کچھ مماثلتیں ہیں اور کچھ فرق ہیں۔ ان مماثلتوں اور فرق کی بنیاد پر ہمیں نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔
امریکہ کئی سال سے Do more کہہ رہا ہے اور حکومت عمل کر رہی ہے، اس کا کوئی فائدہ پاکستان اور عوام کو نہیں پہنچا، فائدہ صرف ہمارے دشمنوں اور امریکہ کو ہوا۔ پاکستان کو صرف بدامنی اور عدم استحکام ملا۔ ممکن ہے طالبان بھی مذاکرات میں Do for us کہتے اور حکومت مان لیتی۔ امریکہ کے مطالبات اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک ہم ایٹمی پروگرام کی چابیاں اس کے حوالے کر کے خود کو اس کے مکمل رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیتے۔ گمان غالب یہ ہے کہ طالبان کے مطالبات اپنے قیدیوں کو چُھڑانے اور کچھ علاقوں کا کنٹرول لینے تک محدود ہوں گے۔ مطالبات اس سے کم بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ بھی، لیکن مطالبات تو سامنے آنے ہی نہیں پائے تھے کہ امریکہ نے وار کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ امریکہ کو راضی نہیں کیا جا سکتا، پاکستانی طالبان کو کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اس پورے خطے میں اگلی کئی صدیوں تک کے منصوبے اور عزائم رکھتا ہے، جبکہ طالبان کے عزائم سطحی، عارضی اور علاقائی ہیں۔ پاکستانی طالبان کی بیرونی ڈوریوں کو بھی حکمت عملی کے ساتھ کاٹنا ممکن ہے۔
دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ پاکستان عسکری میدان میں الگ الگ امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے نہ طالبان کو ختم کر سکتا ہے، البتہ سیاسی انداز میں ان دونوں سے نمٹا جا سکتا ہے جس کے لیے پہلے طالبان سے مذاکرات ضروری ہوں گے، لیکن امریکہ سے ڈرون حملے رکوانے اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے امریکی ایجنٹوں کو نکیل ڈالنے کا مشکل کام ہی حکومت کے لیے اصل چیلنج ہے۔ طالبان کو آمادہ کرنا ممکن ہے، امریکہ کو ہرگز نہیں۔
امریکہ کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے طالبان کو ’نادان دوست‘ کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ’نادان دشمن‘۔ انہیں دانا دوست بنانا ممکن ہو گا۔ امریکہ ’دوست نما دانا دشمن‘ ہے اور رہے گا۔
پاکستان کے قبائلی علاقے ہمارا ’بازوئے شمشیر زن‘ ہیں، یہ ہماری اولین دفاعی لائن ہیں۔ ہمارے یہ قبائل امریکہ کی طویل مدتی سازشوں کی کامیابی میں اہم رکاوٹ ہیں، اور اسی لیے امریکہ اس رکاوٹ کو دور کرنا چاہتا ہے۔ وہ ان قبائل کو ناراض، بدظن اور مشتعل کر کے پاکستان کے خلاف متحرک کرنا چاہتا ہے، خدانخواستہ ایسا ہوا تو پاکستان اپنے حلیفوں سے محروم ہو جائے گا اور امریکہ، افغانستان اور بھارت کا ترنوالہ بن جائے گا۔ امریکہ کی طویل مدتی سازشیں کیا ہیں: پاکستان پر براہ راست حملہ اور کھلی جنگ، یا بالواسطہ بھارت اور افغانستان کے ذریعے حملہ بھی اس کا ایک منصوبہ ہو سکتا ہے، اور بے پناہ معدنی وسائل سمیت ایٹمی پروگرام پر قبضہ بھی۔ ورنہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے شورش، دہشت گردی اور دھماکے تو وہ کر ہی رہا ہے۔ اپنے ناپاک منصوبوں کی مکمل کامیابی کے لیے اُسے پہلے پاکستان کو نہتّا کرنا ہے اور نہتّا کرنے میں اس کو سب سے بڑی رکاوٹ یہی درپیش ہے کہ شمالی وزیرستان میں اب تک امن ہے، امریکہ پاکستان سے Do more کے ذریعے یہاں بھی شورش کرانے پر تُلا ہوا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ پاکستان امریکی دباؤ تسلیم نہ کرنے کی کتنی سکت رکھتا ہے (برطانیہ نے یہاں سے جاتے جاتے مسئلہ کشمیر پیدا کیا، دیکھیے امریکہ جاتے جاتے کیا پیدا کرنا چاہتا ہے)۔
جماعت اسلامی اور طالبان (پاکستانی ہوں یا افغانی) کی بنیاد، سوچ، طرز عمل اور منزل میں بہت فرق ہے، لیکن کچھ مشترکہ امور پائے جاتے ہیں جن میں امریکہ کی جنگ سے نجات اور امن کا قیام اولین نکتہ ہے۔ امریکہ کے عزائم اس کے عین الٹ ہیں۔ پاکستان اور امریکہ کی ضرورتیں متضاد ہیں چنانچہ ان کا راستہ ایک نہیں ہو سکتا۔ امریکہ کی سازشیں بہت گہری ہیں، ہاتھ بہت لمبے اور وسائل بے پناہ ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی چال سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور وہ تمام کارخانۂ قدرت کا تنہا مالک ہے۔ بس یہی وہ سہارا ہے جو مسلمانوں کو مایوسی سے بچا سکتا ہے، لیکن اس سہارے کو تھامنے اور تھامے رکھنے کی ضرورت ان لوگوں کو سب سے زیادہ ہے جو سطحی نہیں بلکہ امت کی سطح پر سوچتے ہیں۔ ہم اللہ سے جتنے قریب ہوں گے مایوسی اور بددلی سے اتنے ہی دور ہوں گے، ان شاء اللہ۔
پس تحریر: یہ تحریر مجھے میرے ایک جماعتی دوست نے ای میل کی ہے۔ اس تحریر سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔