جمہوریت اسلامی یا شیطانی نظام حکومت

[ayah]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔[/ayah]
[ayah]السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔[/ayah]
جمہوریت اسلامی یا شیطانی نظام حکومت

مسلمانوں کے ملک میں غیر اسلامی حکومت بھی ایک طرح کا طاغوت ہے-
بات یہ نہیں کہ طاغوت کس کس کو کہتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ کیا طاغوت صرف غیر مسلم ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
اور طاغوتی حکومت اور طاغوتی حکمرانوں کے لیے اسلام میں کیا گنجائش ہے۔۔۔۔؟
طاغوت کو کفر اور شیطان سے بھی مشابہت دی گئی ہے۔۔۔۔اور یہ اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا فیصلہ ہے کہ طاغوت ایک کفر ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔۔۔۔
ہمارے ذھن میں ایک بات ہر وقت آتی رہتی ہے کہ کیا ایک مسلمان حکمران جو نماز بھی پڑھتا ہو اور وہ کفر کی حکومت چلاتا ہو اور اللہ تعالی کے احکام کے بجاء شیطان کے احکام بجا لائے تو اس کے لیے شریعت میں کیا حکم ہے۔۔۔؟؟؟
آج جب میں نے اللہ تعالی کی کتاب مبارک، اللہ تعالی کے قانون کی بابرکت کتاب کو کھولا تو مجھے ڈھونڈنے میں کوئی دیر نہ لگی اور اللہ رب العزت کا حکم میرے سامنے آگیا:

"اور (ہم تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا اسی کے مطابق فیصلہ کرنا اور ان کی خواھشوں کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا۔۔۔۔۔۔۔" (المائدہ 8 4 )

اب ہمارے سامنے اللہ کا حکم وہ بھی تاکید کے ساتھ آيا ہے کہ جو بھی فیصلہ کرو وہ صرف اور صرف اللہ کے احکامات کے مطابق ہونا چاہیے-
اور یہ جو غیر اسلامی عدالتیں بنی ہیں جن میں اللہ کے قانون کے علاوہ فیصلہ آتا ہے ان کی اسلما میں کیا حیثیت ہے وہ بھی ملاحظہ کریں:

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیھکا جو دعوای تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) آپ پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) آپ سے پہلے نازل ہوئيں ان سب پر ایمان رکھتے ہیۂ اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ کسی غیر اللہ کی طرف لے جاکر فیصلہ کرائيں- حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ شیطان (طاغوت) کا انکار کریں۔۔۔" (النساء:60)
اس سے ہی اندازہ لگائيں کہ غیر اسلامی عدالتوں کا قیام اور ان کےپاس اپنے فیصلے لے کر جانے والا طاغوت ہی ہے-
اب یہ 2 باتیں تو سمجھ میں آگئيں کہ غیر شرعی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر جانے والا طاغوت ہے اور جو ان کا فیصلہ اللہ کے نازل کیے ہوئے احکامات کے برعکس کرے وہ بھی طاغوت ہے۔۔۔۔
اب بات آتی ہے جمہوریت کی۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو یہ بات سوچنا چاہیے کہ جمہورت اسلامی کیسے ہوسکتی ہے۔۔۔۔جس میں اللہ کے قانون کے بجاء شیطان کے قانون کا نفاذ ہو جس میں انسانوں کی پارلیامنٹ کو اللہ کا درجہ دیا گیا ہو کہ وہ جب چاہے اللہ کے قانون کو تبدیل کردے۔۔۔۔کیا اس کو اسلام کہتے ہیں۔۔۔۔۔
قراں و حدیث میں ایسا کوئی بھی لفظ نہیں ہے کہ جسے ہم آج کل کے دور میں استعمال کريں
"جمہوریت"۔۔۔۔۔
ہمارے ملک کا نام بھی انوکھا ہے۔۔۔(اسلامی جمہوریہ پاکستان)۔۔۔۔۔۔
جہاں اسلام ہو وہاں جمہوریت نہیں۔۔۔۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کے قانون کے ساتھ شیطان کا قانون بھی ساتھ ساتھ چل رہے ہوں۔۔۔۔!!؟؟
اب سب سے پہلے تو اللہ نے ان حکمرانوں کو حکم دیا ہےجو مسلمانوں کی جان و مال کے ذمیوار ہیں اور ان پر حکومت کرتے ہیں کہ:
"اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ ان میں فیصلہ کیا کر، لوگوں کی مرضی پر نہ چل" (المائدہ:49)

جو لوگ اللہ کے حکم کے مطابق حکومت نہ چلائيں اللہ تعالی نے ان کو 3 قسم کے لوگوں میں تقسیم کیا ہے:

1/ "جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ کافر ہے" (المائدہ:44)

2/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ ظالم ہے" (المائدہ:45)

3/ " جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے ساتھ حکومت نہ کرے وہ فاسق ہے" (المائدہ: 47)


اب ان تینوں آیات کے مطابق ہمارے ملک کے حکمران کس زمرے میں شمار کیے جائیں گے ۔آپ ہی فیصلہ کریں

اب بات آتی ہے ملوکیت کی۔۔۔۔۔
ہمارے کچھ سادہ لوح یا یہ کہیں یہ مغرب پرست لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملوکیت غیر اسلامی ہے تو یہ ان کے جہل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔ان سے پوچھیں کہ بھلا یہ تو بتائيں کہ اسلام میں کہاں ہے کہ ملوکیت غیر شرعی ہے۔۔۔؟؟؟
ہاں جمہوریت نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ شیطان کا قانون ہے۔۔۔۔۔
جمہوریت اسلامی کیسے ہوسکتی ہے؟؟؟
اصل بات یہ ہے کہ پہلے مسلمانوں میں جمہوریت تھی ہی نہیں وہ اس نام سے سرے سے ہی نا واقف تھے، یہ پیداور ہی مغرب کی ہے، اور مغرب کی ذھنی غلامی کے صلہ میں مسلمانوں کو ملی-
برصغیر پاک و ہند میں الیکشن کہاں تھے؟ کون جانتا تھا کہ جمہوریت کس بلا کا نام ہے؟
مسلمانوں میں نظام حکومت کے دو ہی تصور تھے: 1- خلافت 2- ملوکیت -
مغرب کے غلبہ سے پہلے مسلمان اس تیسرے تصور کو جانتے ہی نہ تھے-
ادھر میں اللہ کے رسول ۖ کی حدیث پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو خلافت اور ملوکیت کا تصور اسلامی ملے گا۔ ان شاءاللہ
"پہلے نبوت ہوگی، جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر خلافت منہاح نبوت کا دور ہوگا یہ بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گی، پھر جبرو استبداد والی ملوکیت کا دور ہوگا یہ دھر بھی جب تک اللہ چاہے گا رہے گا- آخر میں خلافت علی المنہاج نبوت کا دور ہوگا- پھر آپ خاموش ہوگئے- یعنی اس خلافت پر دنیا کا خاتمہ ہوگا-"
[ سلسلہ احادیث صحیحہ1/8 رقم 5، مسند احمد 4/273، رقم 17939]

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ خلافت کے بعد ملوکیت کا دور رہے گا، اب دور میں دو پہلو ہوتے ہیں، اس میں بادشاہ نیک بھی ہوتے ہیں جس طرح کچھ اسلامی بادشاہوں نے خلافت کی یاد تازہ کردی تھی اور کجھ بادشاہ طالم بھی ہوتے ہیں- ملوکیت اگرچہ اسلام کی آئیڈیل نظام نہیں مگر نیک بادشاہ اسلامی خلافت کی یاد تازہ کرسکتا ہے اور اس میں خیر بھی ہے اور شر بھی ہے مکر جمہوریت میں تو شر ہی شر ہے-
اب آپ سعودی عرب میں دیکھے وہاں خلافت نہیں ہے مگر ملوکیت ہے اور کچھ حد تک صحیح ہے یہ اور بات ہے کہ وہ ملوکیت اسلام کے صحیح نمائدگی نہیں کرتی مگر جمہوریت جیسے شیطانی شر سے تو کہیں درجہ بہتر ہے اور اگر بادشاہ صحیح اسلامی اقدار قائم کرے تو بادشاہ اور خلیفہ میں کوئی فرق نہیں ہوتا-۔ الحمد اللہ
جمہوریت مغرب کا ایک ایسا ہتھیار ہے جسے استعمال کرکے یہ لوگ اسلامی مملکتوں کو ٹکرے ٹکرے کرتے ہیں-
جیسے اسی جمہوریت نے پاکستان کے دو ٹکرے کردیے اور اب الیکشن کے ذریعے جمہوریت قائم کرکے 4 قومی نطریہ کے تحت خود مختیاری کا نعرہ دے کر اس ملک عظیم کے 4 ٹکڑے کردینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔
جمہوریت اسلامی کیسے ہوسکتی ہے:

1/ کیا یہ جمہوریت ہے کہ حضرت ابوبکر رض نے رسول ۖ کی یہ حدیث:

" الائمۃ من قريش"
(بخاری: کتاب الاحکام، باب الائمۃ من قریش، رقم: 7139)
سنائي تو انصار نے خلافت کا خیال ہے دل سے نکال دیا؟

2/ کیا یہ جمہوریت ہے کہ ایک عمر رض کی بعیت نے ابوبکر رض کو اور قیس بن عبادہ کی بعیت نے حسن رض کو خلیفہ بنایا؟

3/ کیا یہ جمہوریت ہے کہ ابوکر رض نے عمر رض کو اپنی زندگی میں ہی خلیفہ نامزد کردیا تھا اور اگر کسی نے کوئی اعتراض کیا بھی تو اس کو مثبت جواب دیا؟

4/ کیا یہ جمہوریت ہے کہ عثمان رض نے اپنی زندگی میں ہی عبدالرحمن بن عوف کو خلیفہ نامزد کیا تھا لیکن جب وہ ان کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تو انہوں نے زبیر رض کے نامزد کرنے کا اردہ کیا تھا؟

5/ کیا یہ جمہوریت ہے کہ خلفاء راشدین میں سے ہر خلیفہ زندگی بھر خلیفہ رہا اور کسی کو بھی الیکشن کرانے کا خیال نہیں آیا؟

مسلمانوں کی تاریخ میں ابوبکر رض کے دور سے لے کر آخر تک نامزدگی اور ولی عہد کا ہی راج رہا اور اگر اسلام میں جمہوریت ہوتی تو نامزدگی کا یہ غیر جمہوری عمل کبھی جائز نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمہوریت وہ نظام ہے جس میں حاکمیت عوام کی ہوتی ہے- عوام جس کو چاہتے ہیں منتخب کرتے ہیں، جو چاہتے ہیں ملک کا دستور بناتے ہیں، یہاں تک کہ قرآن وحدیث کا کوئی قانون ملکی قانون نہیں بن سکتا- جب تک عوام کی نمائندہ اسمبلی اس کی منظوری نہ دے-
جمہوریت میں اسمبلی جب تک قانون نہ بنائے نماز جیسا اہم رکن بھی کسی مسلمان پر فرض نہیں ہوتا- اس لیے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نماز کا انکار یا اس کا نہ پڑھنا کوئی جرم نہیں- جمہوریت میں ملک کی ساری گاڑی عوام کی مرضی پر چلتی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں شرک و کفر عام ہے-
شرک اس لیے کہ حاکمیت اللہ کی خاص صفت ہے- زمین اس کی، آسامن اس کا، اس کا خلق ورازق وہ، مالک وہ، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں- لیکن جمہوریت اللہ کی خاص صفت میں عوام کو شریک ٹھراتی ہے-
اللہ نے فرمایا ہے کہ:
1/ " أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ" (الاعراف: 54)

2/ " إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّہ " (الانعام: 57)

3/ " أَلاَ لَہُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ" (الانعام: 62)

4/ " وَلاَ يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا " ( الکہف: 26)

یہ آیات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالی جیسے معبود ہونے میں یکتا ہے، اسی طرح حاکمیت میں بھی یکتا ہے-
- وہ عبادت میں غیر اللہ کو شریک ٹھراتا ہے- یہ حاکمیت میں عوام کو شریک بناتا ہے-


سوال یہ ہے کہ اگر[arabic] لا الہ الا اللہ [/arabic] پڑھ کر شرک کرے تو کیا شرک نہیں ہوتا؟ جیسے شرک کرنے والے کو [arabic]لا الہ الا اللہ [/arabic]پڑھنا کوئی فائدہ نہیں دیتا- اسی طرح پاکستانی دستور مں یہ لکھنا کہ حقیقی حاکم اللہ روب العالیمن ہے- اس کا کوئی فائدہ نہیں- کہنا یہ ہے کہ حقیقی حاکم اللہ تعالی ہے اور چلانا نظام جمہوریت، یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی پڑھے لا الہ الا اللہ اور کرے شرک-[arabic] لا الہ الا اللہ[/arabic] پڑھنے سے شرک توحید نہیں بن جاتا جیسا کہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنے سے حلال حرام نہیں بن جاتا- شرک شرک ہی رہتا ہے خواہ لا الہ الا للہ کتنا پڑھے، اور حرام حرام رہتا ہے خواہ بسم اللہ بار بار پڑھے-
تو حید شرک کو مٹانے سے آتی ہے، صرف زبان سے [arabic] لا الہ الا اللہ [/arabic] پڑھنے سے نہیں آتی- جب عملا عوام کی حاکمیت موجود ہے تو اللہ رب العزت کو حقیقی حاکم لکھنے سےجمہوریت کی حقیقیت نہیں بدلتی- جمہوریت " غیر اسلامی " ہی رہتی ہے-
جمہوریت کی حقیقیت "ان الحکم الا لشعب" ہے- یعنی چلے گی عوام کی-
اور اسلام کہتا ہے "ان الحکم الا اللہ" یعنی چلے گی صرف اللہ کی-
 

فاروقی

معطل
ماشااللہ بھائی مون لائیٹ آفریدی آپ نے اچھی اور سچی باتیں پیش کیں .....
جمہوریت انگریز کا چھوڑا ہوا ایک ایسا فتنہ ہے....جس نے آج تک ہمیں سمبھلنے کا موقع نہیں دیا......
..
 

امکانات

محفلین
آج کل دنیا مین جمہوریت کہیں نہیں رہی یہ اکثریت کی امریت ہے جمہور یعنی سب اتفاق یہ ناممکن ہے یہ صرف ڈرامہ ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
بے شک جمہوریت کی اساس جن اصولوں پر ہیں ان میں الحاد کو بڑا عمل دخل حاصل ہے کیونکہ ہمارے ہاں جو جمہوری سسٹم رائج ہے وہ بنیادی طور پر مغرب سے درآمد شدہ ہے لہذا یہ امر بدیہی ہے کہ اس مغربی نظام جمہوریت میں فطرتی طور پر الحادی نظریات بھی شامل ہوں جب ہم تاریخی اعتبار سے فلسفہ الحاد پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فکری اور نظریاتی میدان میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ الحاد اسلام کے مقابلے میں ناکام رہا البتہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی میدانوں میں الحاد کو مغربی اور مسلم دنیا میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ۔
سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔ پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔ سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے اور دین اور دنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کردیا جائے اور یوں محض انسانی عقل کو برؤے کار لاتے ہوئے اور محض اسی(عقل) پر اکتفا کرتے ہوئے دین کے دائرہ کار کو نہایت ہی محدود کردیا جائے اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کے سپرد کردیا جائے کہ جس میں دینی تعلیمات کا کوئی بھی حصہ نہ ہو۔
مغربی دنیا نے تو سیکولر ازم کو پوری طرح قبول کر لیا اور اب اس کی حیثیت ان کے ہاں ایک مسلمہ نظریے کی ہے۔ انہوں نے اپنے مذہب کو گرجے کے اندر محدود کرکے کاروبار حیات کو مکمل طور پر سیکولر کر لیا ہے۔ اور اسی سیکولرازم سے مسلمانوں کا بھی ایک اچھا خاصہ طبقہ ہمیشہ سے ذہنی طور پر متاثر رہا ہے اس لئے ان میں سے بھی بہت سے ممالک نے سیکولر ازم کو بطور نظام حکومت کے قبول کرلیا۔ بعض ممالک جیسے ترکی اور تیونس نے تو اسے کھلم کھلا اپنانے کا اعلان کیا لیکن مسلم ممالک کی اکثریت نے سیکولر ازم اور اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کرنے کی کوشش کی جس میں بالعموم غالب عنصر سیکولر ازم کا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ سیکولر نظام کو مغربی فلسفہ جمہوریت سے فروغ حاصل ہوا ۔ اگرچہ جمہوریت عملی اعتبار سے اسلام کے مخالف نہیں کیونکہ اسلام میں بھی آزادی رائے اور شوریٰ کی بڑی اہمیت ہے، لیکن جمہوریت جن نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے وہ خالصتاً ملحدانہ ہے۔ جمہوریت کی بنیاد حاکمیت جمہور کے نظریے پر قائم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عوام کی اکثریت خدا کی مرضی کے خلاف فیصلہ دے دے تو ملک کا قانون بنا کر اس فیصلے کو نافذ کر دیا جائے۔ کیونکہ مغربی جمہوریت کا بنیادی فلسفہ ہی اس تعریف پر مبنی ہے کہ عوام کے لیے عوام کی رائے سے عوامی حکومت قائم کرنا۔اسلام نظریاتی طور پر جمہوریت کے اقتدار اعلیٰ کے نظریے کا شدید مخالف ہے۔ اسلام کے مطابق حاکمیت اعلیٰ جمہور کا حق نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کرنا شرک ہے۔ سب سے بڑا اقتدار (Sovereignty) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے برعکس جہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی ہدایت نہیں دی، وہاں عوام کی اکثریتی رائے اور مشورے سے فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ اکثریت کی مرضی کے خلاف اس پر اقلیتی رائے کو مسلط کرنا اسلام میں درست نہیں۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہر معاملہ مشورے سے طے کریں۔ کیونکہ بنیادی طور پر ان معاملات میں کہ جن میں براہراست قرآن و سنت سے راہنمائی نہیں ملتی یا ایسے بہت سے معاملات جو کہ اللہ پاک نے بندوں کی صوابدید پر چھوڑ رکھے ہیں ان تمام معاملات میں اسلام کے ہاں نظریہ جمہور کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا شروع سے یہ مؤقف رہا ہے کہ جب تک پاکستان میں کلھم اسلامی نظام قائم نہیں ہوجاتا تب تک مغرب سے درآمد شدہ اس نظام جمہوریت میں ضروری ترامیم و اضافہ جات کرکے اس کو اسلامی لحاظ سے قابل عمل بنایا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں تمام مکاتب فکر کے علماء پر مبنی ایک مجلس شورٰی کا قیام عمل میں لایا جائے جو کہ اس نظام کو اسلامی اصولوں کے تحت قابل عمل بنانے کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرئے ۔اورپھر ان سفارشات کی روشنی میں فی الفور اس نو مرتب شدہ نظام کو رائج کردیا جائے جہان تک بات ہے موجودہ نظام حق رائے دہی کی تو ہمارے ناقص مطالعے کے مطابق اس کی بھی اصل اسلامی تاریخ میں ملتی ہے اگر آپ تاریخ کا بنظر غائر جائزہ لیں تو آپ پر یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ چاروں خلفائے راشدین کے انتخاب کا طریقہ کار ایک دوسرے سے جدا تھا ۔ ۔ ۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ ثابت ہے کہ حق رائے دہی کے استعمال کی اسلام میں مطلقا کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ موجودہ نظام حق رائے دہی پر ایک دلیل یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو انھوں نے اپنے بعد خلیفہ بننے کے لیے اس وقت امت کے چھ بہترین افراد کا انتخاب کیا اور ان پر مبنی ایک کمیٹی قائم کردی کہ جس زمہ داری خلیفہ کا انتخاب تھا اور اس کمیٹی میں حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت عبدالرحمان بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل تھے ۔ جب ان میں سے حضرت طلحہ حضرت عثمان کے حق میں اور حضرت زبیر حضرت علی کہ حق میں اورحضرت سعد حضرت عبدالرحمان کے حق میں دستبردار ہوگئے تو بعض روایات کے مطابق حضرت عبدالرحمان اور حضرت سعد بن ابی وقاص نے مدینہ شریف میں گھر گھر جاکر عام عوام کے ساتھ ساتھ عوتوں سے بھی رائے طلب کی حتٰی کے ان لوگوں نے راہ جاتے قافلوں میں سے بھی جب کوئی قافلہ ملتا تو اس ے بھی رائے طلب کی اور جب کثرت رائے حضرت عثمان کے حق میں آئی تو پھر حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں بیعت کرلی اور یہ دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی آپکی بیعت کرلی اور پھر لوگ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

خرم

محفلین
آبی ٹو کول بھائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہوں‌گا کہ نظام کوئی بھی غیر اسلامی یا اسلامی نہیں ہوتا اس کو اسلامی یا غیر اسلامی بنا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یا نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا اصحاب نے کسی ایک نظام کا امت کو مکلف نہیں کیا۔ ہر وہ نظام حکومت جس میں آپ اپنے عوام کو تمام شرعی آزادیاں عطا کرتے ہیں وہ اسلامی ہے اور جس میں آپ شریعت کے خلاف جاتے ہیں وہ غیر اسلامی۔ جمہوریت کی اصل تو اسلام میں ہی ہے کہ ایک عام شخص بھی خلیفہ وقت سے پوچھ کر سکتا ہے اور عوام کی اکثریت نے خلیفہ اول کاچناؤ کیا۔ بدقسمتی سے سینکڑوں برس کی بادشاہت نے محکومی کی ایسی عادت ڈال دی ہے کہ ملوکیت کے سوا سب کچھ غیر اسلامی لگتا ہے دوستوں کو۔ جمہوریت مکلف بناتی ہے حکمرانوں کو عوام کو جوابدہی کا اور ایک گروہ یا شخص کو غیر معینہ مدت کے لئے حکومت نہیں سونپتی۔ ایک مخصوص مدت کے بعد پابند کرتی ہے حکمرانوں کو کہ وہ اپنے عوام کے اعتماد کی تجدید کریں اور اس طرح ممکنہ خانہ جنگی و باہمی بد اعتمادی کا سد باب ہو سکے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اسلام میں کہیں پر بھی ممانعت نہیں ہے ان اقدامات کی اور اگر ہے تو ہماری جہالت کو دور کیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
کمال ہے؟ خلیفہ سے جواب دہی؟ بھائی خرم : خلیفہ تو پوی زندگی، مرتے دم تک کیلئے چنا جاتا تھا، اور انکی باقائدہ تمام مسلمان بیعت کرتے تھے۔ کیا آپنے بھی امریکی صدر بش کی کہیں‌ بیعت تو نہیں کی؟:grin:
 

خرم

محفلین
بھیا تمام عمر کے لئے خلیفہ کا چُنا جانا تو کہیں پر بھی لکھا ہوا نہیں۔ اتفاق تھا کہ خلفاء تمام عمر اپنی ذمہ داریاں‌نبھاتے رہے۔ اسی طرح بیعت کبھی بھی تمام عمر کے لئے نہیں ہوتی اور توڑی بھی جاسکتی ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ پر خلافت چھوڑنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا اور بدقسمتی سے یہ تنازع ان کی شہادت پر ختم ہوا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ خلیفہ کا چناؤ تمام عمر کے لئے نہیں‌کیا جاتا تھا۔
ہم نے بُش کی نہیں‌کسی اور کی بیعت کی ہوئی ہے عارف بھیا۔ بُش تو ہمارا ہم وطن بھی نہیں ہاں ہم اس کے ملک میں ضرور رہتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
بھائی خلیفہ تو اللہ کا ہر انسان ہوتا ہے۔ انی جاعل فی الارض خلیفہ۔ تو ہر وہ حکومت جو اللہ کے بتائے ہوئے قوانین کے اندر ہو وہ خلافت ہے۔ یہ نام کو ایک خاص اصطلاح سے موسوم کرنا تو بہت بعد کی بات ہے وگرنہ یا تو آپ حکومت کریں گے اللہ کے احکامات کے اندر اور یا اس کے باہر۔ ایک صورت میں خلافت ہوگی اور دوسری میں ملوکیت۔ باقی سب تو لوگوں کو کنفیوژ کرکے اپنا مقصد حاصل کرنے کے بہانے ہیں شائد۔
 
Top