اس لڑی میں ایک یا دو حضرات ہیں جو بات میں سنجیدہ دکھے ہیں ۔ باقی مجھے شغل میلا دکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اب چونکہ مجھے آپ کی بات منطقی لگی ہیں اس لیے سوچا ہے آپ سے بات کی جائے ۔ آپ کے کہنے کے مطابق نسمہ کو قران پاک نے بصورت جن کی تمثیل کی شکل دی ہے ؟ نسمہ کیا جن کی شکل ہے ؟ اور ہماری اوزون لئیر تو پہلے ہی سورج کی مضر شعاعوں کو آنے سے روک دیتی ہے پھر نسمہ انہی مضر شعاعوں کو کیسے ری بیک کرتا ہے ۔
۔
پہلے تو آپ اس بات کا یقین کرلیجئے کہ میں سنجیدہ بندہ ہر گز نہیں ہوں ۔
مجھے یقین ہے کہ محفل کے پرانے اراکین اس بات پر حلف اٹھانے کے لیئے بھی تیار ہوسکتے ہیں ۔
رہی بات منطق کی تو ہر کوئی اپنی منطق کہہ لیتا ہے ۔ اور آپ نے اس محفل پر تو دیکھا ہی ہوگا کہ یہاں کچھ لوگوں کی تو منطق ہی بڑی نرالی ہے ۔
خیر مذاق برطرف ۔۔۔
اصل میں صوفیاء کرام نے جس شے کو نسمہ سے تشبہہ دی ہے ۔ اس کو قرآن میں قرین کا کہا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے تخلیق کا فیصلہ کیا ۔ تخلیق فرشتوں کی بھی ہوئی ہے ۔اور تخلیق جنات اور انسانوں کی بھی ہوئی ہے ۔ تمام تخلیقات میں اللہ کا امر شامل ہے ۔یعنی اللہ نے ایک فیصلہ کیا کہ یہ چیز ہو۔ اس کے بعد اللہ نے اس امرکو صادر کیا ۔ اس امر کی صدور کی کیفیت کیا ہے ۔ہم یہ اہلیت تو نہیں رکھتے کہ اس امر کی حقیقت کو سمجھ سکیں ۔ یعنی ہم اپنے علم کی محدویت کی بناء پر اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہم صرف انہی چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں ۔ جن کے نظائر ہمارے پاس موجود ہوں ۔ اس سے ہم انستباط کرلیتے ہیں ۔ محسوس سے غیر محسوس تک پہنچ جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس نظائر موجود ہوں ۔ ورنہ ہمارلیئے کسی چیز کو گرفت میں لینا مشکل ہوجائے گا ۔ اگر گرفت میں لے بھی لیں گے تو اس کی تشریح کے لیئے الفاظ بھی درکار ہونگے ۔ الفاظ کسی شے کے وجود پر آنے پر ہی بن سکتے ہیں ۔ یا پھر اس شے کا کوئی تصور موجود ہوگا ۔ مگر الفاظ بھی اس درجے میں ہمارے پاس موجود نہیں ہوتے کہ ہم کسی چیز کواس کی صحیح حقیقت کیساتھ دوسروں تک پہنچا سکیں ۔ لہذا ان چیزوں کو کسی تک پہنچانے کے لیئے کیا طریقہ کار ہوگا ۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم دنیا کی چیزوںمیں سے جو چیز قریب ترین ہوسکتی ہے اس سے تشبیہ دیکر اس کو بیان کردیں ۔ مثال کے طور پر آج ہم دوسو سال پہلے جا کر کسی شخص کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ بجلی کے بلب ایجاد ہوجائیں گے ۔ سوال پوچھا چائے گا کہ بجلی کی ہوتی ہے ۔ اور بلب کس بلا کا نام ہے ۔ تو اس کے حاضر علم کے مطابق اس کو سمجھانے کی اس طرح بھی کوشش کی جاسکتی ہے کہ ایسے چراغ بھی جلیں گے جن میں تیل درکار نہیں ہوگا ۔ لہذا ہم اس طرح کی تعبیریں اختیا رکرتے ہیں کہ ہمارے پاس اس چیز کا کوئی متبادل لفظ نہیں ہوتا ۔ تو پھر تشبہہ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔
چنانچہ جب انسان تمام حقیقت کو جھٹلا کر برائی کا ارادہ کرلیتا ہے ۔اور تنبہہ کے باوجود بھی برائی سے باز نہیں آتا تو پھر اللہ کی طرف سے اس کی ہدایت کا سلسلہ بند کردیا جاتا ہے ۔قرآن میں ہے کہ " تو پھر ہم اس پر کسی شیطان کو مسلط کردیتے ہیں " ۔یعنی شیاطینِ جنات کو پوری چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ اس شخص پر حاوی ہوجائیں ۔پھریہ شیطان اس پر مسلط ہوجاتا ہے ۔ اور اپنی ترغیب میں اس کو لے لیتا ہے ۔ اس لیئے کہا گیا ہے کہ وہ شخص شیطان کا ساتھی ہوجاتا ہے ۔ یعنی جو اللہ کی یاد دہانی سے گریز کرتے ہیں ۔ ان کیساتھ شیطان لگ جاتا ہے ۔ یہ کوئی پیدائشی عمل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان اس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔قرآن نے اس کے لیے قریب ترین تشبہہ دیکر" قرین" کا لفظ استعمال کیا ہے ۔بلکل اسی طرح صوفیاء کی کتب میں نسمہ کہا گیا ہے ۔ اور ادب میں لوگ اس کو ہمزاد سے بھی گردانتے ہیں ۔لہذا میں نے نسمہ کی اصطلاح جنات کے لیئے اس تناظر میں استعمال کی تھی ۔تو آپ اب سمجھ سکتیں ہیں کہ نسمہ یا قرین سےکیا مراد ہے ۔ اور یہ کس طرح اور کن بنیادوں پر کام کرتے ہیں ۔
بات وہی جب آپ نے آدم کی تخلیق کی بات کی یا فرشتوں کی توجیہات دیں ۔۔۔۔۔ہم نے کب کسی کو روکا ہے ان پر یقین نہ کریں یا یقین کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہی کسی کے یقین کو نشانہ بنانا کہاں کا انصاف ہے ۔ہم تو کبھی اس کے رد عمل میں یقین دلاتے یا انانیت کے مارے دلائل پر نہیں اترتے کہ ہمیں اپنی ہی بات ہر صورت منوانی ہے ۔۔۔ آپ کے اس انداز نے میری دل میں آپ کی قدر بڑھا دی ہے ۔۔۔۔۔اسی طرح بتاتے رہیے گا۔۔۔۔۔۔
بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔ دراصل ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے کہ ہم دراصل اختلاف کرنے کے شائستہ آداب سے واقف ہی نہیں ہیں ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب تعصب ہے ، عناد ہے ، نفرت ہے ۔ ہم نے کچھ مذہبی فقرے یا گالیاں ایجاد کی ہوئیں ہیں ۔ جب ہم اختلاف کرتے ہیں تو وہ دوسروں کو دینا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ ہم دوسرے کی بات کو تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ویسا اس کو سمجھیں ۔ کم از کم اس سے سوال کرکے پوچھ لیں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں ۔ پھر اس کو مخالف پر تھوپ دیتے ہیں ۔ ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ جیسے کسی کو فاسد قرار دینا ، کسی کو کافر قرار دینا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اصل میں ہمارا مزاج بن چکا ہے ۔ اختلافات تو تحقیق کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ ہم اگر اختلاف کو شائستہ اختلاف تک رکھیں تو وہ ہمارے لیئے تہذہبی راہیں کھولے گا ، علم کے ارتقاء کا باعث بنے گا ۔ اگر اس کو عناد بنا لیں ، مخالفت بنا لیں تو سوائے خجالت اور پستی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
۔آپ کا حاضر علم کا واقعی ہی مادی دنیا سے واسطہ نہیں ہے ۔۔۔۔ آپ کا اس علم پر کس حد تک یقین ہے ۔ کوئی ایسا واقعہ جو آپ بیان کرسکیں تو کریں۔
حاضر علم سے مراد آج کے زمانے میں ہمیں جو کچھ میسر ہے ۔ اس کو سامنے رکھ کر ہم کسی بھی چیز کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے ہیں ۔ مثلاً آج سائنسی علم ہمارا حاضر علم ہے ۔ اس سے ہم دیگر علموں کا تقابلہ کرتے ہیں ۔اور سائنسی علم اپنی ذات میں ایک مادی علم ہے ۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ اس مادی علم کی نوعیت کل کیا ہوگی ۔ مگر اس علم کوسامنے رکھ کر ہم ماضی کے علموں کو پرکھ کر اس رد کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں ۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس علم کی نفی کل کا علم کر رہا ہوگا ۔ تو ہماری تنقید یہ نہیں ہوتی کہ کہ ماضی میں نفسی علم کی کیا بنیاد تھی اور وہ کن اصولوں پر کام کرتا تھا ۔ مگر جب ہم اس کو مادی علم کے مقابلے میں لاتے ہیں تو پھر وہ الف لیلہ کے قصے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ نفسی علم آج بھی زندہ ہے ۔ اور بہت سے لوگ حتی کے مغرب میں بھی اس سے واقف ہیں ۔اس لیئے میں نے کہا تھا کہ 18 صدی کے کسی بھی شخص کو آپ یہ باور نہیں کراسکتے کہ آج ہم ہواؤں میں سفر کرکےہزاروں میل دور گھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں ۔نفسی علم پر میرا اعتقاد صرف اس حد تک ہے کہ میں اس پر اس درجہ یقین رکھتا ہوں کہ یہ بھی دنیا کے دیگر علوم کی طرح ایک علم ہے ۔ اور اس نفسی علم کا ذکر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب " چاک گربیاں " میں کیا ہے
۔ انہوں نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک برصغیر کے ایک عالم کیساتھ سفر میں تھے ۔ راستے میں کسی چیز نے ان کے ہاتھ میں کاٹ لیا ۔ جس سے ان کے ہاتھ میں اسقدر سوزش ہوگئی کہ بازو ہلانا درکنار ہوگیا ۔ عالم نے تکلیف میں دیکھا تو سبب پوچھا تو انہوں نے اپنا بازودکھا دیا ۔ انہوں نے انہوں کچھ پڑھ کر ان پر پھونکا تو سینکڈوں میں نہ سوزش تھی اور نہ ہی درد ۔
۔
۔واہہہہہہہہ ۔۔۔۔۔ لاجواب انداز ہے بتانے کا۔۔۔۔۔۔ کاش کہ اس طرح قران پاک میں بھی پڑھوں
اللہ ہم سب کو قرآن پڑھنے اور خاص کر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ باقی میں بھی آپ اور دیگر احبا ب کی طرح ایک طالبعلم ہوں ۔