جناح پور: تمام الزامات و شواہد آمنے سامنے
جو لوگ متحدہ پر جناح پور سازش کے الزامات لگا رہے ہیں، انکے بیانات میں دو چیزیں ہیں:
- پہلا یہ کہ کچھ ایسے حیرت انگیز دعوے کر رہے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی رونما ہوئے ہوں۔
- اور دوسرا اتفاق یہ ہے کہ یہ سب کی سب حیرت انگیز چیزیں ایک ساتھ صرف جناح پور کے واقعے میں پیش آتی ہیں۔
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، وہ انہی تضاد بیانیوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ آئیے جناح پور کے حوالے سے لگائے جانے والے تمام تر الزامات اور پیش کیے جانے والے تمام تر ثبوتوں کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں۔
1۔ برگیڈیئر (ر) امتیاز
پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ آئی بی [انٹیلیجنس بیورو] کے کسی سربراہ پر وطن غداری کا الزام لگا اور کہا گیا کہ وہ وطن غدار اور انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو جھوٹ بول کر تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب! پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں آج تک ایسا کوئی دوسرا واقعہ پیش نہ آیا۔
یاد رہے برگیڈیئر امتیاز کا متحدہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا، سوائے دو موقعوں کے۔ پہلے موقع پر حمید گل نے انہیں محترم قائد الطاف حسین کے پاس بھیجا کہ ان پر آئی جی آئی میں شامل ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ اور دوسرا موقع وہ جب حمید گل صاحب نے دیکھا کہ محترم الطاف حسین ایجنسیوں کے دباؤ میں آ کر جھکنے والے نہیں، تو پھر انہیں خریدنے کے لیے پیسہ دے کر بھیجا گیا۔ مگر الطاف حسین ایجنسیوں کے آگے جھکتے ہیں اور نہ بکتے، اور یہ ہی انکا وہ قصور تھا جس کی سزا پوری مہاجر قوم کو 15 ہزار لاشوں کی صورت میں دی گئی۔
جب انٹرویو کے دوران اچانک برگیڈیئر صاحب سے جناح پور کے متعلق سوال کیا جاتا ہے، اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق جواب دیتے ہیں کہ جناح پور سازش اخبارات میں آنے کے بعد وہ بطور آئی بی کے سربراہ کے فورا کراچی جاتے ہیں اور چھ سات دن تک کراچی جا کر پورے دن رات اپنے تمام ممکنہ وسائل کو حرکت میں لا کر اس معاملے کی مکمل تحقیق کرتے ہیں، اور اسکے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جناح پور فقط ایک شوشہ ہے جسے متحدہ کو بدنام کروا کر اسکے خلاف آپریشن مزید جاری رکھوانے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔
برگیڈیئر امتیاز کے اس بیان کے فورا بعد متحدہ مخالفین نے ان پر الزام لگایا کہ برگیڈیئر امتیاز کرپشن میں مبتلا رہے ہیں۔ پھر اسی کرپشن کے الزام کو آگے بڑھا کر وہ ان پر وطن غداری کا الزام ڈال دیتے ہیں کہ وہ انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو پیسے لیکر تحفظ مہیا کر رہے ہیں۔
یاد رکھئیے کرپٹ ہونے اور وطن غدار سرگرمیوں میں ملوث ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اور یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ آئی بی کے کسی سربراہ کو براہ راست انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لیکر وطن دشمن قوت کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے [حالانکہ دور دور تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے کہ برگیڈیئر امتیاز نے انڈین را ایجنٹوں سے کوئی پیسہ لیا ہو]
جہاں تک ہمیں برگیڈیئر امتیاز کو سمجھنے کا موقع ملا ہے، تو یہ شخص بطور مجموعی طور پر محب وطن شخص دکھائی دیا ہے۔ ہمیں برگیڈیئر صاحب کو معصوم فرشتہ ثابت نہیں کرنا، مگر جو لوگ انصاف کرنا چاہتے ہیں اور صرف الزامات ہی نہیں سننا چاہتے بلکہ فریق مخالف کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دے کر انصاف کے تقاضے پورا کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ذیل کے دو لنک۔
برگیڈیئر (ر) امتیاز صاحب اپنے پر کرپشن کے لگنے والے الزامات کا جواب دے رہے ہیں کہ سول کورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دیا تھا مگر نیب نے ان پر دوسرے الزامات لگا کر ہاتھ ڈالا۔ فیصلہ اب آپ لوگ لوگ خود کر سکتے ہیں۔
اور اے آر ؤائی پر ڈاکٹر دانش کے ساتھ اس پروگرام میں دیکھئے کہ برگیڈیئر (ر) امتیاز انتہائی محب وطن شخص ہیں جنہوں نے آئی جے آئی اور دیگر غلط سرکاری سرگرمیوں کے اوپر دوران سروس ہی اپنا استعفی پیش کر دیا تھا۔ تو ایسے شخص پر اب بغیر انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لینے کے کسی ثبوت کے یہ الزام لگا دینا کہ اس نے پیسے لیے ہیں، یہ کیسا انصاف ہے؟
حیرت ہے نا کہ متحدہ تو انڈین را کی ایجنٹ نہیں، مگر جب غلام مصطفی کھر کو انہیں برگیڈیئر صاحب نے انڈین را کے ساتھ سازش میں شریک ہونے کی وجہ سے پکڑا، تو اُس وقت تو ان پر کوئی پیسے لینے کا الزام نہیں لگا؟ آپ لوگ اور مصطفی کھر صاحب یہ بتلائیے کہ برگیڈیئر صاحب کی اُن چھ آرمی اور ایئر فورس کے افسران سے کیا دشمنی تھی کہ ان کے کیسز ملٹری کورٹ میں چلے اور کورٹ نے انکا کورٹ مارشل کرتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزائیں سنائیں؟
چنانچہ جب یہ شخص کہتا ہے کہ بطور آئی بی کے سربراہ کے اسکی تحقیقات کے مطابق ایک ثبوت بھی جناح پور کا نہیں ملا، تو پھر اسکی گواہی کو بغیر ثبوت کو کیسے رد کیا جا سکتا ہے؟
یہ بھی یاد رکھئیے کہ برگیڈئر امتیاز پر الزام ہے کہ آج [یعنی اسی سال شاید] انہوں نے انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسے لیے ہیں اور اس لیے اب ان انڈین را کے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے جناح پور کا انکار کر رہے ہیں۔ مگر یہ الزام لگانے والے اُس وقت کو کیا کہیں گے کہ جب 1992 میں بریفنگ کے دوران جنرل نصیر اختر صاحب جب متحدہ کے دیومالائی عقوبت خانے اور ہتھیار دکھا رہے تھے تو یہی برگیڈیئر امتیاز تھے جو اپنی آئی بی کی معلومات کی بنا پر اٹھ کر بھرپور اختلاف کرتے ہیں اور ان ثبوتوں کو 80 فیصد جھوٹا اور گھڑا ہوا قرار دیتے ہیں [یاد رکھیں برگیڈیئر (ر) امتیاز کا متحدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا]۔ اسی وجہ سے یہ شخص جنرل آصف نواز جنجوعہ کی بارگاہ میں باعث عتاب قرار پاتا ہے۔
2۔ میجر جنرل (ر) نصیر اختر [کور کمانڈر سندھ]
اگلا حیرت انگیز دعوی ہے کہ میجر جنرل (ر) نصیر اختر [کور کمانڈر سندھ] بھی انڈین را کے ایجنٹوں سے پیسہ لیکر انڈین را کے ایجنٹوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے۔ یا حیرت! یا تعجب! ایسا پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ کسی کور کمانڈر پر یوں انڈین را کے ایجنٹوں سے روابط اور تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگا ہو۔
نصیر اختر صاحب کا قصور بھی یہ ہے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ بطور کور کمانڈر سندھ، ایک بھی ثبوت ان تک نہیں پہنچا کہ جناح پور کی کوئی سازش ہو رہی ہو۔
اور یاد رکھئیے، یہ جنرل (ر) نصیر اختر صاحب وہ تھے کہ جن کی براہ راست اجازت ملنے پر ہی متحدہ کے خلاف آپریشن کی کاروائیاں ہوتی تھی۔ اس لیے یہ اُس وقت متحدہ کے سب سے بڑے جاری آپریشن کے ماسٹر مائینڈز میں سے ایک تھے۔ ان پر بھی پہلے عام کرپشن کا الزام لگایا گیا، اور پھر اسی الزام کو بڑھا کر انہیں بھی وطن غدار اور انڈین را سے پیسہ کھانے والا بنا دیا گیا۔
وطن غداری کا الزام ان پر میجر (ر) ندیم ڈار نے لگایا کہ انہوں نے صرافہ بازار کے اُن تاجران کو چھوڑ دیا جن کے پاس سے سونا اور انڈین کرنسی نکلی تھی۔ تو پہلی بات یہ کہ انڈیا سے بے تحاشہ چیزیں سمگل ہو کر پاکستان آتی ہیں اور لین دین ہوتا ہے، تو ایسے میں انڈین کرنسی نکلنا کہاں سے ملک غداری کے زمرے میں آ گئی؟ فوج وہاں قاتلوں اور کرمنلز کے خلاف آپریشن کرنے گئی تھی یا سونے کی اسمگلنگ روکنے؟ اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ یہ جنرل نصیر اختر صاحب خود تھے جنہوں نے صرافہ بازار پر آپریشن کی اجازت دی تھی تاکہ قاتلوں اور ڈاکؤوں کو گرفتار کیا جائے، نہ کہ سناروں کو۔
اور یہ یاد رکھئیے کہ جنرل نصیر اختر کو متحدہ کا براہ راست حریف سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ متحدہ کے خلاف سارے آپریشنز کی انہوں نے اجازت دی۔ اس لیے جب پروگرام کے دوران انہوں نے جناح پور کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے متحدہ کو اپنا بھائی کہا تو برگیڈیئر (ر) امتیاز نے سب سے پہلے متحدہ کے حیدر عباس رضوی صاحب کو مبارکباد دی کہ آج جنرل نصیر نے متحدہ کو اپنا بھائی تسلیم کر لیا۔
3۔ جنرل اسد درانی [سربراہ آئی ایس آئی]
اب تیسری گواہی سامنے آتی ہے جنرل اسد درانی صاحب کی جو کہ اُس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ یاد رکھئیے آئی ایس آئی براہ راست کاؤنٹر قوت ہے انڈین را کی۔ اور اگر کسی کے پاس انڈین را کی معلومات ہیں، تو اُن میں سب سے پہلا نام آئی ایس آئی کا ہے۔
مگر آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی کہتے ہیں کہ انکے سامنے ایک ثبوت جناح پور کے حوالے سے نہیں آیا، اور آج 18 سال گذر جانے کے باوجود انہیں جناح پور کے متعلق ایک ثبوت دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔
یا حیرت! یا تعجب! جس چیز کا ڈھنڈورا پورے پاکستان میں چپہ چپہ پر پیٹا جا رہا ہے، اُسکا علم اُسی شخص کو نہیں ہوتا جو اسکا سب سے بڑا ذمہ دار ہے؟ تو یہ چیز بھی پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں کبھی پیش نہیں آئی۔ جنرل (ر) اسد درانی صاحب پر یہ مخالفین ابھی تک کرپشن کا الزام نہیں لگا سکے ہیں، لہذا ان پر صرف یہ الزام لگا ہے کہ جنرل (ر) اسد درانی صاحب "جھوٹ" بول رہے ہیں۔
4۔ میجر (ر) ندیم ڈار
[نوٹ: ندیم ڈار صاحب کا 10 ستمبر کو تازہ بیان آگے آئے گا، اور ذیل میں میجر ندیم ڈار پر اُن سولات کے حوالے سے جرح کی گئی ہے جو ان سے براہ راست گفتگو کے دوران ہوئے، اور اسی کے نتیجے میں انکا 10 ستمبر کو تازہ بیان آیا۔ چنانچہ یہ جرح بہت زیادہ اہم ہے]
ندیم ڈار صاحب دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے نے نقشے کراچی الکرم سکوائر سے برآمد کیے۔
اتفاق سے ہمیں موقع ملا کہ ہم میجر (ر) ندیم ڈار صاحب سے براہ راست ایک بلاک پر اس موضوع پر گفتگو کر سکیں۔[
مکمل گفتگو کے لیے بلاک کا لنک]۔ میجر صاحب کی خدمت میں پہلا سوال یہ تھا:
- یہ بتلائیں کہ آپ نے آپریشن کر کے ہزاروں کی تعداد میں پوسٹرز، پمفلٹ اور نقشے برآمد کیے۔ تو کیا یہ پورا آپریشن آپ اکیلا کر رہے تھے؟ اگر نہیں، تو اسکا مطلب ہے کہ آپکے دیگر ساتھی بھی اس چیز کے چشم دید گواہ ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ آپکے علاوہ کوئی بھی گواہی دینے کے لیے ان 18 سالوں میں سامنے نہیں آیا؟ اور اُس وقت بھی نہیں آیا جب جی ایچ کیو اس جناح پور کے الزام کو واپس لے رہا تھا؟
اس پر میجر صاحب نے جواب دیا:
- نہیں، میں نے یہ آپریشن اکیلا نہیں کیا تھا بلکہ اور بہت سے ساتھی تھے جو کہ اسکے چشم دید گواہ تھے۔ اور ان ساتھیوں کے علاوہ سول مجسٹریٹ بھی ساتھ تھے جو اس واقعے کے عینی گواہ ہیں۔
اور میرے ان عینی گواہ ساتھیوں نے آجتک گواہی اس لیے نہیں دی کیونکہ انہیں اپنی جانوں کا خطرہ ہے۔
یا حیرت! یا تعجب! کیا پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں قوم نے ایسے مجاہد نڈر و بہادر فوجی دیکھے ہیں جو انڈین را کے ان ایجنٹوں کے خوف سے ایسے دبک کر بیٹھے ہیں کہ کوئی آگے بڑھ کر اپنی گواہی نہیں دیتے؟ اب اس واقعے کو 18 سال گذرنے کو آ رہے ہیں اور یہ جری و نڈر قوم کے سپاہی ابھی تک ان انڈین را کے ایجنٹوں کے خوف میں ایسے مبتلا کہ میڈیا میں آ کر اپنی گواہی درج نہیں کرواتے؟
میجر صاحب سے اگلا سوال تھا:
- وہ تاریخ بتلا دیں جس دن آپ نے یہ نقشے و پمفلٹ برآمد کروائے تھے۔
میجر صاحب نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اُنکا کہنا تھا کہ اگر وہ نقشہ برآمد ہونے کی تاریخ بتا دیں گے تو یہ پاکستان کی سیکورٹی کے لیے رسک ہے۔ یا حیرت! یا تعجب! 18 سال گذر جانے کے باوجود نقشہ برآمد ہونے کی تاریخ بتانا سیکورٹی کے لیے رسک کیسے ہوا؟
خیر میجر صاحب نے تو بتلایا نہیں، مگر دوسری خبروں سے علم ہوا کہ الکرم اور 90 پر آپریشن 19 جون کو ہی شروع ہو گیا تھا۔ اور اس سے قبل ہی متحدہ کی پوری قیادت روپوش ہو چکی تھی۔
اب آپریشن ہوتا ہے 19 جون کو، مگر برگیڈیئر ہارون آصف کی پریس کانفرنس ہوتی ہے 17 جولائی کو۔ چنانچہ میجر (ر) ندیم ڈار صاحب نقشے ملنے کی تاریخ اس لیے نہیں بتاتے کیونکہ تقریبا پورا ایک مہینہ گذر جانے کے باوجود جناح پور کے نقشوں کے متعلق کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ اسکا مطلب ہے یہ جناح پور کا شوشہ بعد میں چھوڑا گیا تاکہ متحدہ کے خلاف اس فوجی آپریشن کی پاکستانی عوام کے سامنے کوئی توجیہ پیش کی جا سکے اور اس بہانے کی مدد سے اسے مزید جاری رکھا جا سکے۔
۔۔۔۔ اور جھوٹ کا پول کھلتا ہے ۔۔۔۔
میجر صاحب کیپیٹل ٹالک میں دعوی کرتے ہیں کہ برگیڈیئر امتیاز جھوٹ بول رہے ہیں۔
پھر دعوی کرتے ہیں کہ جنرل نصیر اختر جناح پور کے نقشوں کے متعلق جھوٹ بول رہے ہیں۔
پھر وہ جنرل اسد درانی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگاتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران میجر ندیم ڈار دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے خود یہ تمام نقشے جنرل نصیر اور برگیڈیئر ہارون آصف کے سپرد کیے ہیں۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
- میجر ریٹائرڈ ندیم ڈار نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ شہود ہاشمی ایک دہشت گرد اور قاتل تھا ۔ ندیم ڈار نے کہا کہ میں نے جناح پور کے نقشے نہ صرف آئی ایس پی آر کے بریگیڈئر ہارون بلکہ جنرل نصیر تک بھی پہنچائے۔ [لنک اخبار خبریں]۔
جہاں آپ انکی اپنی زبانی یہ بیان سن سکتے ہیں۔
مگر میجر صاحب، نہ صرف جنرل نصیر اختر، بلکہ بذات خود برگیڈیئر آصف ہارون اس بات کے مکمل انکاری ہیں کہ انہیں کراچی میں ملنے والے ان نقشوں کا کوئی علم تھا۔
، جہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ پریس کانفرنس کے دوران جب صحافیوں نے ان سے جناح پور کا پوچھا تو انہیں ان نقشوں کا کوئی علم نہ تھا۔ بلکہ انکے ذہن میں صرف جنرل لوراب کا ایک بیان تھا جس میں انہوں نے کوٹری سے جناح پور کے نقشے برآمد کروانے کی بات کی تھی۔ اسکے بعد برگیڈیئر ہارون آصف کو جی ایچ کیو سے ثبوت اکھٹے کرنے کا بھی آڈر آتا ہے اور اُس وقت بھی انکے پاس کراچی کا کوئی نقشہ نہیں ہوتا اور بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد انہیں یہ جنرل لوراب سے ہی ملتا ہے۔ اس پورے انٹرویو میں برگیڈیئر ہارون نے ایک مرتبہ بھی کراچی سے ایک مہینہ قبل الکرم سے نقشے برآمد ہونے کا ہلکا سا بھی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی میجر ندیم ڈار کا ذکر کیا، اور نہ ہی نقشے کی کاپی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کبھی میجر ندیم ڈار سے کراچی میں کوئی رابطہ قائم کیا۔
یا حیرت! یا تعجب! ایسا شاید ہی کبھی ہوتا ہو کہ ایک بندے کے حوالے باقاعدہ اتنی بڑی سازش کے پورے ثبوت بمع نقشے فراہم کیے جا رہے ہوں، اور انٹرویو کے دوران وہ بندہ ان سب کو بھول جائے اور خود میجر ندیم ڈار کے ذکر کو مکمل طور پر بھول جائے۔
5۔ برگیڈیئر آصف ہارون
برگیڈیئر آصف ہارون اپنی یہ کہانی کا خلاصہ یوں پیش کرتے ہیں [
]:
- 17 جولائی کو جب پریس کانفرنس میں سوالات کے دوران ان سے جناح پور کا پوچھا گیا، تو اس وقت انہوں نے کوئی جناح پور کے نقشے نہیں دیکھے تھے۔
- انکے ذہن میں جناح پور کی بات یہاں سے آئی کہ 24 جون کو جنرل لوراب نے کوٹری کے مقام پر ایم کیو ایم کے کسی دفتر سے جناح پور کے نقشے ملنے کا ذکر کیا تھا۔
اسکے بعد برگیڈیئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ 18 جولائی کو پنڈی میں جنرل برقی صاحب کا جنازہ تھا جس میں پاکستان کے تقریبا سب بڑے ہائی رینکنگ لوگ جمع ہوئے اور یہ لوگ یہ ہیں:
- اسحق خان (صدر پاکستان)
- نواز شریف (وزیر اعظم پاکستان)
- جنرل آصف نواز جنجوعہ (چیف آف آرمی سٹاف)
- میجر جنرل جمشید ملک (وائس چیف آف جنرل سٹاف۔ یہ جنرل جمشید ملک وہ ہیں جو جی ایچ کیو میں بیٹھ کر کراچی کے اس پورے آپریشن کی کوآرڈینیٹنگ کر رہے تھے)
- جنرل نصیر ملک
برگیڈئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ اسحق خان اور نواز شریف کے ہاتھوں میں اخبار تھا اور وہ جنرل آصّف نواز سے احتجاج کر رہے تھے کہ آپکے آئی ایس پی آر آفیسر یہ کیا میڈیا کو خبر دے رہے ہیں۔ اور جنرل آصف نواز جنجوعہ آگے جنرل جمشید ملک سے پوچھ رہے ہیں کہ اخبارات میں یہ کیا شائع ہو گیا۔ اور جنرل جمشید ملک کو خود کچھ علم نہیں اور وہ جی ایچ کیو آ کر آگے جنرل نصیر سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے۔ اور جنرل نصیر ملک آگے برگیڈیئر آصف ہارون سے پوچھتے ہیں کہ یہ آپ نے کیا کہا۔ اور برگیڈیئر ہارون بجائے یہ کہنے کے میں نے بالکل صحیح کہا اور جنرل لوراب کے ثبوتوں کا حوالہ دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ اخبارات نے خاہ مخواہ میں ہی سنسنی پھیلا دی اور یہ کہ ایک اور پریس کانفرنس کر کے بات کلیئر کر دی جائے۔
یا حیرت! یا تعجب!
میجر ندیم ڈار 19جون کو اور جنرل لوراب 24 جون سے پہلے جناح پور کے یہ ہزاروں کی تعداد میں پوسٹرز اور پمفلٹ اور نقشے برآمد کر لیتے ہیں، مگر اس جون کے مہینے سے لیکر 18 جولائی تک ذیل کے لوگوں کو جناح پور کا کچھ علم نہیں:
- اسحق خان صدر پاکستان
- نواز شریف وزیر اعظم پاکستان
- جنرل آصف نواز جنجوعہ
- پورا جی ایچ کیو اس خبر سے بے خبر ہے جس میں جنرل جمشید ملک سے لیکر جی ایچ کیو کے بقیہ تمام آفیشلز شامل ہیں۔
- جنرل نصیر اختر جو کہ سندھ کے کور کمانڈر ہیں اور پورا آپریشن انکے براہ راست زیر نگرانی ہو رہا ہے۔
- پوری آئی ایس آئی بمع اپنے سربراہ جنرل اسد درانی کے۔
- پوری آئی بی بمع اپنے سربراہ برگیڈیئر (ر) امتیاز صاحب کے
یا حیرت! یا تعجب، کیا کبھی پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں ایسا واقعہ پیش آیا جہاں پاکستان کے یہ سب سے ٹاپ رینکنگ ایجنسیز کے تمام تر سربراہان ایک مہینہ گذر جانے کے باوجود کسی بھی قسم کے جناح پور کے نقشوں سے لاعلم ہیں؟
برگیڈیئر ہارون آگے اپنی کہانی بیان کرتے ہیں کہ انہیں جنرل جمشید ملک حکم دیتے ہیں کہ وہ جناح پور کا نقشہ اور دوسرے ثبوت جمع کریں اور یہ کلیریفیکشن بنا کر انہیں پوسٹ کریں۔ برگیڈیئر ہارون کہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں اور وہ پھر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی اور تین چار اور لوگوں کے ساتھ مل کر یہ کلیریفیکیشن بنانا شروع کرتے ہیں۔ اس موقع پر یہ اہم بات نوٹ کریں کہ برگیڈیئر آصف ہارون کو کراچی سے ندیم ڈار صاحب کے ملنے والے نقشوں کا کچھ علم ہے، نہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی کو اور نہ اُن دیگر دو تین لوگوں کو جو یہ کلیریفیکشن بنانے میں برگیڈیئر آصف ہارون کی مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے اب اس نقشے کے حصول میں یہ حادثات پیش آتے ہیں:
- برگیڈیئر آصف ہارون سب سے پہلے برگیڈیئر ممتاز سے بات کی اور انہوں نے حامی بھر لی کہ ہاں انکے پاس ہیں۔ مگر دو گھنٹےکے بعد برگیڈیئر ممتاز نے معذرت کر لی کہ انکے پاس نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب! انڈین را کے ایجنٹوں کو پکڑنے میں ہماری ایجنسیز کیا ایسے ہی طرز عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں؟
- پھر برگیڈیئر آصف ہارون کور ہیڈ کوارٹر میں برگیڈیئر بلا صاحب سے درخواست کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں انکے پاس نقشے نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب!
- پھر برگیڈیئر آصف ہارون آئی ایس آئی کے ڈیسک سے رابطہ کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ انکے پاس نقشے نہیں ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب!
- پھر فائیو کور سے برگیڈیئر آصف ہارون رابطہ کرتے ہیں مگر وہ بھی انکار کر دیتے ہیں۔ یا حیرت! یا تعجب۔
ان تمام طرف سے مایوس ہو کر برگیڈیئر آصف ہارون جنرل لوراب [/لہراسپ؟ سپیلنگ] سے رابطہ کرتے ہیں، اور پھر حیدر آباد سے انہیں ریفرنس لیٹر لکھوایا جاتا ہے اور پھر انہیں فائیو کور ہیڈ کوارٹر سے آخر کار نقشہ مل جاتا ہے، اور اس نقشے کو یہ جی ایچ کیو بھی بھجوا دیتے ہیں۔
6۔ جی ایچ کیو
اب ان حیرت انگیز چیزوں کی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ برگیڈیئر ہارون کہتے ہیں کہ آخر کار ایک مہینے سے زیادہ عرصے کے وقفے کے بعد آخر کار وہ نقشے اور ثبوت جی ایچ کیو پہنچ جاتے ہیں۔
مگر ان ثبوتوں کے ملنے پر جی ایچ کیو کیا کرتا ہے؟
سب سے پہلے تو جی ایچ کیو ان اسلام آباد سے آئے ہوئے صحافیوں کے سامنے برگیڈیئر آصف ہارون کی جناح پور والا الزام اگلے دن واپس لیتا ہے۔
یا حیرت! یا تعجب! ایسا حیرت انگیز واقعہ پاکستان کی 62 سال کی تاریخ میں کبھی پیش نہیں آیا کہ جی ایچ کیو انڈین را کے ایجنٹوں کے خلاف شواہد مل جانے کے باوجود انکے خلاف اپنے پچھلے الزامات بھی واپس لے رہا ہے۔
کیا جی ایچ کیو بھی برگیڈیئر امتیاز اور جنرل نصیر اختر کی طرح انڈین را سے پیسہ لیکر ان انڈین را کے ایجنٹوں کے تحفظ میں لگ گیا؟
7۔ جناح پور کے الزام واپس لینے کی کہانی
17 جولائی کو برگیڈیئر آصف ہارون پریس کو سوالات کے جوابات دیتے ہوئے جناح پور سازش کی موجودگی کا اقرار کرتے ہیں۔ اور اسکے بعد اگلے دن یہ الزام واپس لے لیا جاتا ہے۔
سوال: یہ الزام کس نے واپس لیا؟
اس سوال کے جواب میں یہ جو کہانیاں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں:
- میجر (ُر) ندیم ڈار دعوی کرتے ہیں کہ یہ الزام جی ایچ کیو نے نہیں بلکہ جنرل نصیر اختر نے واپس لیا کیونکہ وہ کرپٹ تھے اور انڈین را کی ایجنٹ متحدہ کو تحفظ دینا چاہتے تھے۔
- برگیڈیئر آصف ہارون اس کے متعلق خاموش ہیں کہ کس کے کہنے پر بالکل اگلے دن صحافیوں سے اس الزام واپس لینے کو کہا گیا۔
چنانچہ یہ بات ابھی کلیئر نہیں کہ یہ اگلے دن ہونے والی تردید صحافیوں کےسامنے کس نے کی اور کس کے کہنے پر کی۔ صرف یہ کہہ دینا کہ آئی ایس پی آر کے لوگوں نے کی، تو یہ کافی نہیں کیونکہ جبتک یہ پتا نہ چلے کہ کس کے کہنے پر کی، اُس وقت تک شکوک موجود رہیں گے۔
- پھر برگیڈیئر آصف ہارون کلیریفیکیشن کے متعلق بتلاتے ہیں کہ انہوں نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر برگیڈیئر صدیقی اور آئی ایس پی آر کے دیگر دو تین بڑوں کے ساتھ مل کر ایک کلیریفیکیشن تیار کی جس کا براہ راست حکم انہیں جی ایچ کیو سے ملا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ جنرل نصیر نے انہیں یہ کلیریفیکیشن پریس کے سامنے پیش نہ کرنے دی اور دھمکی دی ایسا کیا گیا تو کئی سروں سے ٹوپی اتر جائے گی۔ یا حیرت! یا تعجب! کیا جی ایچ کیو اتنا بے بس تھا کہ اپنے ہی ایک جرنیل کا محاسبہ نہ کر سکا جو انڈین را کی ایجنٹ کی سائیڈ ایسے کھلے انداز میں لیتا ہے، بلکہ دھمکیاں دیتا ہوا لیتا ہے، اور جی ایچ کیو ڈر کے مارے چپ ہو کر نیچے بیٹھ جاتا ہے؟
8۔ چار مہینے بعد جی ایچ کیو کا بالکل صاف اور واضح مؤقف
برگیڈیئر آصف ہارون کی کلیریفیکیشن کے برعکس، 4 ماہ بعد 19 اکتوبر کو جی ایچ کیو وہی بات پیش کرتا ہے جو جنرل نصیر اختر کہہ رہے تھے۔ جی ایچ کیو کے بالکل واضح اور صاف الفاظ یہ تھے:
Army had no evidence concerning the so-called Jinnah Pur Plan. It is clarified that newspaper story in question is baseless. Army has neither handed over to the government any document or map as reported nor is it in possession of any evidence concerning the so-called Jinnah Pur Plan. It is also factually wrong that the matter was discussed at any meeting of the corps commander
ترجمہ:
”فوج کے پاس کسی نام نہاد جناح پور پلان کی کوئی شہادت نہیں ہے۔
(1) وضاحت کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں شائع ہونے والی اخباری خبر بے بنیاد ہے۔
(2) فوج نے نہ تو کوئی دستاویز یا نقشہ حکومت کے حوالے کیا ہے، جیسا کہ خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے
(3) اور نہ ہی فوج کی تحویل میں نام نہاد جناح پور پلان سے متعلق کو ئی شہادت موجود ہے۔
(4) یہ امر بھی خلاف واقعہ ہے کہ یہ معاملہ کسی بھی کور کمانڈرز اجلاس میں زیر بحث آیا تھا۔“
لنک جنگ اخبار
یا حیرت! یا تعجب! بجائے جی ایچ کیو اپنے اس غدار اور انڈین را کی ایجنٹ کو تحفظ دینے والے جنرل نصیر کی چھٹی کرتا، 4 ماہ کے بعد جی ایچ کیو وہی سٹیٹمنٹ دے رہا ہے جو جنرل نصیر اختر نے دی تھی۔
پہلے تو برگیڈیئر آصف ہارون اور میجر ندیم ڈار سارے ملک غداری، جھوٹ بولنے اور کرپشن وغیرہ کے الزامات جنرل نصیر، برگیڈیئر امتیاز اور جنرل درانی پر لگاتے رہے، مگر اب کیا کریں گے جب جی ایچ کیو ہی کہہ رہا کہ انکے پاس جناح پور کا کوئی نقشہ پہنچا اور نہ ہی جناح پور پلان کے متعلق اسکے پاس کوئی شہادت موجود ہے؟
9۔ جی ایچ کیو پر سیاسی دباؤ میں آ کر یہ جھوٹا بیان دینے کا الزام
جب کہیں سے کچھ نہیں بنا، تو ان لوگوں نے یہ الزام لگا دیا کہ جی ایچ کیو نے یہ سیاسی دباؤ میں آ کر انڈین را کی ایجنٹ کے تحفظ کی خاطر یہ جھوٹا بیان دیا ہے کہ انکے پاس کوئی نقشے نہیں پہنچے اور نہ ہی کوئی پلان پہنچا۔ سبحان اللہ۔
اور جب ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ ثبوت کیا ہے کہ جی ایچ کیو نے سیاسی دباؤ میں آ کر یہ جھوٹ بولا اور ان نقشوں اور پلان کی تردید کی، تو ثبوت ندارد۔ جی ہاں، ثبوت ندارد، اور بس قیاس آرائیاں جاری کہ جی ایچ کیو سیاسی دباؤ میں آ کر یہ حرکت کر گیا۔
یا حیرت! یا تعجب! بس خدا کی قدرت ہے کہ ان لوگوں کے لیے انکی یہ قیاس آرائیاں تمام تر ثبوتوں اور گواہیوں پر بھاری۔
برگیڈیئر (ر) صولت رضا کا بیان: متحدہ نے ہیڈکوارٹر سے ڈائریکٹ رابطہ کیا
برگیڈیئر صولت کے بیان پر تفصیلی بحث آگے آ رہی ہے۔ فی الحال انکا یہ متضاد بیان کہ کوئی دباؤ وغیرہ نہیں تھا، بلکہ متحدہ کے لیڈروں نے خود جی ایچ کیو سے رابطہ کیا جس کے بعد جی ایچ کیو نے جناح پور نقشے اور دیگر تمام ثبوت ملنے کی مکمل تردید کر دی۔ انکے الفاظ یہ ہیں:
۔۔۔ تفصیلات کے مطابق صولت مرزا نے بتایا کہ جونہی یہ بات ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں الطاف حسین اور اشتیاق اظہر تک پہنچی کہ اس معاملے میں ایم کیو ایم کوملوث کیا جارہا ہے تو ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ؤں نے براہ راست کور ہیڈ کوارٹر میں رابطہ کیا اور متعلقہ فوجی افسران کو واضح کردیا کہ اِن نقشوں سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
چنانچہ صولت رضا صاحب اس سیاسی دباؤ کی قیاس آرائی کے بالکل برخلاف ایک اور بیان دے رہے ہیں کہ کیوں یہ نقشے واپس لیے گئے۔
10۔ برگیڈیئر(ر) صولت رضا کا بیان
برگیڈیئر صولت آئی ایس پی آر [فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے] میں اُس وقت آفیسر تھے۔
یا۔
برگیڈیئر صولت رضا نے اپنے عہدے کا نہیں بتلایا کہ 1992 میں وہ آئی ایس پی آر میں کون سے رینک پر فائز تھے۔ انکی موجودہ عمر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ اُس وقت سینیئر آفیسر نہیں تھے۔
برگیڈیئر صولت بیان کرتے ہیں کہ:
کراچی (جنگ نیوز) آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کا کہنا تھا کہ 19/جون کو فوج ، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی کارروائی شروع کی تو ایک دفتر جسے ایم کیو ایم کا مرکز کہا جاتا تھا وہاں سے نقشے، جھنڈا ، پمفلٹ اور دیگر چیزوں برآمد ہوئیں جسے اگلے روز بریگیڈیئر آصف ہارون نے صحافیوں سے بات چیت میں بریف کیا [
حوالہ جنگ نیوز پیپر]
افسوس کہ برگیڈیئر صولت صاحب جونیئر آفیسر ہونے کی وجہ سے، یا کسی اور وجہ سے حالات کو بالکل گڈمڈ کر گئے اور واقعے کے بیان میں بہت غلطیاں کر رہے ہیں۔ اسکی وجوہات یہ ہیں کہ:
- پہلا یہ کہ صولت رضا صاحب دعوی کر رہے ہیں کہ فوج نے 19 جون کو ایم کیو ایم کے مرکز سے نقشے، جھنڈے اور پمفلٹ برآمد کر لیے۔
- دوسرا دعوی کر رہے ہیں کہ ان چیزوں کو اگلے روز برگیڈیئر آصف ہارون نے صحافیوں کو پیش کیا۔
یہ دوسری بات بالکل غلط ہے کیونکہ:
- برگیڈیئر آصف ہارون نے اگلے روز 20 جون کو نہیں، بلکہ اگلے مہینے 17 جولائی کو صحافیوں کو جناح پور سازش کی تصدیق کی۔
- دوم یہ کہ برگیڈیئر آصف ہارون نے یہ تصدیق 19 جون کو کراچی میں ملنے والے کسی نقشے وغیرہ کی بنیاد پر ہرگز نہیں کی تھی۔ بلکہ وہ تو میجر ندیم ڈار یا کراچی سے ملنے والے کسی بھی نقشے کے وجود سے بے خبر تھے۔ انہوں نے تو صحافیوں کو یہ بات صرف جنرل لوراب [/لہراسپ؟] کی اس بات پر کہی تھی کہ کوٹری میں جناح پور کے کوئی نقشے برآمد ہوئے تھے۔
چنانچہ برگیڈیئر صولت رضا صاحب کراچی سے نکلنے والے نقشوں اور برگیڈیئر آصف ہارون کے متعلق دعوی کرنے میں بالکل غلطی پر ہیں۔ اب برگیڈیئر (ر) صولت رضا صاحب جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، یا کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ کہہ رہے ہیں، تو یہ بس اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہان میں سے کسی کو کراچی میں ملنے والے نقشوں کا علم نہیں تھا
صولت رضا صاحب کے بیان میں ایک اور بہت بڑا جھول بھی موجود ہے جس سے یہ یقین مکمل طور ہر پختہ ہو جاتا ہے کہ برگیڈیئر صاحب کا دعوی مکمل طور پر غلط ہے۔
صولت رضا صاحب اُس وقت آئی ایس پی آر میں جونیئر آفیسر تھے، اور بہرحال یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہان اور سینیئر آفیسرز میں سے کوئی بھی کراچی سے ملنے والے نقشوں سے واقف نہیں تھا۔
اوپر ہم نے برگیڈیئر آصف ہارون کی کہانی انکی زبانی بیان کی ہے۔ اپنی اس روئیداد میں وہ بتلا رہے ہیں کہ 19 جون کو نہیں بلکہ اسکے تقریبا ایک مہینے کے بعد 17 جولائی کو پریس کانفرنس ہوتی ہے جس میں جناح پور کا ذکر ہوتا ہے۔ اس پر جی ایچ کیو سے جنرل جمشید ملک غصے ہو کر آصف ہارون صاحب کو کہتے ہیں کہ وہ کلیریفیکیشن دیں اور نقشے اور دیگر ثبوت اکھٹے کریں۔
اس پر برگیڈیئر آصف ہارون کہتے ہیں کہ انہوں نے آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینئر افسران کے ساتھ مل کر کلیریفیکشن بنانی چاہی، مگر جب نقشے اور ثبوتوں کی بات آئی تو وہ آئی ایس پی آر کے ان افسران نے انکے حوالے نہیں کی اور نہ ہی انکو ایک لفظ بتلایا کہ کراچی میں ایسے کوئی نقشے ملے ہیں، بلکہ آصف ہارون صاحب مستقل کئی جگہ پر نقشوں کے لیے سر پٹختے رہے اور آخر کار دوبارہ جنرل لوراب [/لہراسپ؟] کے پاس سے یہ نقشے ملے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ صولت رضا صاحب کے بیان کے برعکس، آئی ایس پی آر کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینئر افسران کو کراچی سے ملنے والے ان نقشوں کا دور دور تک کوئی علم نہیں تھا۔ اور یاد رہے، یہ بات 19 جون کی نہیں، بلکہ اسکے ایک مہینے بعد 18 جولائی اور اسکے بعد کی ہے جب برگیڈیئر آصف ہارون کو کلیریفکیشن بنانی تھی۔
صولت صاحب کا بیان کہ ایم کیو ایم کے سینئر رہنماوؤں نے ہیڈ کوارٹر رابطہ کیا
صولت صاحب آگے بیان کرتے ہیں کہ ان کے علم میں یہ بات ہے کہ جونہی یہ بات ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤوں الطاف حسین اور اشتیاق اظہر تک پہنچی کہ متحدہ کو ملوث کیا جا رہا ہے تو انہوں نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے متعلقہ فوجی افسروں کو واضح کر دیا کہ متحدہ کا ان نقشوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
صولت صاحب کا یہ بیان ٹھیک ہو سکتا ہے، مگر پھر بھی یہ واضح نہیں ہے۔ کیونکہ:
- کیا متحدہ کے ان سینئر رہنماؤوں کا فون 19 یا 20 جون کو کراچی میں کسی قسم کے نقشے ملنے کے بعد اس سلسلے میں آیا تھا؟
- یا پھر 19 جون کے ایک مہینے کے بعد 17 جولائی کو جب آصف ہارون صاحب پریس کانفرنس میں جناح پور سازش کو متحدہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، تو اُس وقت اشتیاق اظہر صاحب کراچی ہیڈ کوارٹر میں فون کر کے واضح کرتے ہیں آصف ہارون کا یہ الزام غلط ہے اور انکا جناح پور سے کوئی تعلق نہیں؟ [یاد رہے برگیڈیئر آصف ہارون نے کراچی کے کسی نقشوں کی بنیاد پر یہ بات نہیں کہی تھی اور نہ ہی انہیں اسکا علم تھا]
تو قرائن تو یہی بتاتے ہیں 19 جون سے لیکر 17 جولائی تک متحدہ کو کسی نے بھی جناح پور الزام میں ملوث نہیں کیا۔ بلکہ یہ یہ الزام پہلی مرتبہ 17 جولائی کو لگا اور اسکا کراچی میں نکلنے والے کسی نقشے سے تعلق نہیں تھا، اور اگر برگیڈیئر آصف ہارون کے اس بیان پر متحدہ کے لیڈروں نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے ان الزامات کر تردید کی تو اس سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ کراچی میں کوئی نقشے برآمد ہوئے تھے جس کی وہ تردید کر رہے تھے۔
آخر میں برگیڈیئر صولت رضا کے متعلق ہماری پرسنل Assessment اور ریماکس:
- صولت رضا صاحب 1992 میں آئی ایس پی آر میں جونیئر آفیسر رہے ہونگے [تصدیق کی ضرورت ہے!!!]۔ انکے علم میں صرف ایک بات تھی کہ متحدہ کے اشتیاق اظہر صاحب نے ہیڈ کوارٹر فون کر کے جناح پور کے نقشوں میں متحدہ کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
- مگر صولت رضا صاحب کو وہ تاریخ یاد نہیں جب اشتیاق اظہر صاحب نے یہ فون کیا۔
- اور یہ یقینی بات لگ رہی ہے کہ صولت رضا صاحب کو اُس وقت کراچی سے ملنے والے کسی نقشے کا علم نہیں تھا، بلکہ ہوا یوں ہے کہ پچھلے دنوں جب ندیم ڈار صاحب ٹی وی پر آ کر نقشوں کا دعوی کرتے ہیں، تو وہاں سے یہ بات صولت رضا صاحب نے مستعار لے کر اس پر اپنی کہانی مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر چونکہ یہ سچ نہیں تھا، اس لیے انکی کہانی میں واضح جھول آ گئے۔
- پہلا جھول یہ آیا کہ انہوں نے 19 جون کے اگلے دن آصف ہارون صاحب کی پریس کانفرنس کروا دی۔
- دوسرا جھول یہ آیا کہ انہوں نے دعوی کر دیا کہ برگیڈیئر آصف ہارون نے کراچی سے ملنے والے نقشوں کی بنیاد پر اگلے دن پریس کانفرنس کی، حالانکہ آصف ہارون صاحب نے کراچی سے ملنے والے نقشوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ کوٹری سے ملنے والے کسی نقشوں کے بنیاد پر یہ دعوی کیا تھا اور انہیں دور دور تک کراچی سے ملنے والے کسی نقشوں کا علم نہ تھا۔
- تیسرا سب سے بڑا جھول صولت رضا صاحب کی کہانی میں آیا جب یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آئی ایس پی آر کے اُس وقت کے سربراہ برگیڈیئر صدیقی اور دیگر سینیئر آفیسرز 18 جولائی اور اسکے بعد تک کراچی سے ملنے والے کسی بھی نقشوں سے ناواقف تھے۔
- صولت صاحب کی صرف ایک بات صحیح ہو سکتی ہے، اور وہ ہے اشتیاق اظہر صاحب کا فون کرنا۔ مگر اس کو بھی صولت صاحب نے بالکل غلط طریقے سے ایسے پیش کیا جس سے لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان کا یہ فون کراچی میں ملنے والے نقشوں کی وجہ سے آیا۔ جبکہ قرائن سے یہ بالکل غلط دکھائی دے رہا ہے اور یہ فون برگیڈیئر آصف ہارون کی پریس کانفرنس کے بعد کیا گیا اور اسکی وجہ کراچی سے ملنے والے کوئی نقشے نہیں تھے۔
11۔ رینجرز کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل (ر) صفدر علی خان
جاری ہے۔.....