جاسم محمد
محفلین
۱۹۹۰ کا الیکشن تو سپریم کورٹ سے ثابت شدہ ہے کہ آئی ایس آئی نے مینج کیا تھا۔ ۱۹۷۷ کے الیکشن میں بھٹو نے خود مانا کہ جن ۴۰ سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ہے ہم وہاں دوبارہ الیکشن کروا دیتے ہیں لیکن اپنے امیدوار کھڑے ہی نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے یہ دھاندلی ان کی اپنی انتظامیہ نے کی تھی۔اور یِہ دھاندلی سیاست دانوں نے فوج کی مدد کے بغیر کر کے دھاک بٹھائی، پُوری بات بتاؤ مِیاں!
۲۰۱۳ کے الیکشن کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کنٹرول کر رہے تھے۔ اسی لئے اس میں ہونے والی دھاندلی یا بے ضابطگیوں کو آر اوز کا الیکشن کہا گیا۔ اس الیکشن میں ۲۲ جماعتوں نے عدالتی کمیشن کے سامنے جا کر کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
۲۰۱۸ کے الیکشن پر الزام ہے کہ محکمہ زراعت نے الیکٹ ایبلز توڑ کر تحریک انصاف کی جھولی میں ڈالے اور یوں ان کو ۱۲۰ سیٹیں دلوائی گئی۔ یہی الیکٹ ایبلز ماضی میں ن لیگ اور پی پی کا بھی حصہ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت یہ سیاسی لوٹے عین جمہوریت کی نشانی تھے۔ آجکل یہ محکمہ زراعت کے ایجنٹ ہیں۔