جنرل ظہیر دونوں شریفوں کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، مشاہد اللہ کا دعویٰ

جنرل ظہیر دونوں شریفوں کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، مشاہد اللہ کا دعویٰ
جمعہ , 14 اگست , 2015

اسلام آباد: پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی مشاہداللہ خان نے دعویٰ کیا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹینٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاوس پر قبضہ کرنا ہے۔ مشاہد اللہ خان نے اس دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔ وفاقی وزیر نے کہا جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انہوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام کو میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔ یہ ٹیپ اور اس کے علاوہ بھی حکومت کو جو اطلاعات مل رہی تھیں وہ بہت خوفناک تھیں اور اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بہت تباہی ہونی تھی۔ جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔ سازش کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اتنی خلیج اور اختلافات پیدا کر دیئے جائیں کہ نواز شریف کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ جنرل راحیل کے خلاف کوئی ایکشن لیں اور جب وہ ایکشن لیں تو اس وقت کچھ لوگ اس وقت حرکت میں آئیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں۔ اس سوال پر کہ جب اسلام آباد میں اتنی سنگین سازش تیار ہو رہی تھی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی عین اس وقت وزیراعظم نواز شریف اچانک وزیراعظم ہاوس چھوڑ کر اپنے اہل خانہ سمیت لاہور کیوں چلے گئے؟ مشاہد اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کو ایوان وزیراعظم سے باہر نکالنے کا فیصلہ بھی ایک سازش سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ 31 اگست کے روز انٹیلی جنس بیورو اور بعض دیگر ذرائع سے حکومت کو خبر ملی کہ اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاوس کی طرف آ رہی ہیں۔ اس وقت تک پی ٹی وی پر قبضہ ہو چکا تھا اور لوگ سیکرٹریٹ اور وزیراعظم ہاﺅس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وزیراعظم کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوج ہی کے ایک افسر نے دو گاڑیوں کو پکڑا جو وزیراعظم ہاﺅس جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان گاڑیوں میں پچیس پچیس کلاشنکوف تھیں۔ انہیں بتایا گیا کہ ان کے کچھ لوگ وزیراعظم ہاوس پہنچ چکے تھے جنہوں نے ان کلاشنکوفوں کو استعمال کرنا تھا۔ بس یہ اسلحہ اندر لانے کی دیر تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف آپ بعض فوجی جرنیلوں پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا رہے ہیں اور دوسری طرف وزیراعظم ہاو¿س اور دیگر اہم عمارات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی فوج ہی کو دے دی گئی، مشاہد اللہ نے کہا کہ فوج بطور ادارہ حکومت کے خلاف اس سازش میں شامل نہیں تھی۔ بعض بہت موثر اور سینیئر جرنیل اس سازش میں ملوث تھے، جن میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام بھی شامل ہیں لیکن جنرل راحیل اور پاکستانی فوج ایک ادارے کے طور پر اس سازش میں شامل نہیں تھی۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ اگر جنرل راحیل حکومت ختم کرنے کی خواہش رکھتے تو پھر دھرنوں وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں پیش آنی تھی۔ اس سوال پر کہ حکومت کو اس دھرنے کی آڑ میں ہونے والی اس مبینہ سازش کا علم کب ہوا، تو مشاہداللہ خان نے کہا کہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی کے کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا کہ کس نے لاہور سے کب چلنا ہے، کہاں پہنچنا ہے، کیا کرنا ہے۔ حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرنی کیونکہ بعض طاقتیں یہی چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہو جائے۔ اس مبینہ سازش میں ملوث ہونے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ ظہیر اسلام عباسی کے خلاف کارروائی کے امکانات کے بارے میں ایک سوال پر مشاہد اللہ نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ اس طرح کی کارروائی کر سکے۔
- See more at: http://www.dannka.com/aham-treen/31889#sthash.jisDKIsq.dpuf
 
وزیراعظم ہاﺅس نے مشاہد اللہ خان سے وضاحت طلب کرلی


اسلام آباد: وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان نے کہا ہے کہ مشاہد اللہ خان نے جس آڈیو ٹیپ کا ذکر کیا ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے، مشاہد اللہ سے اس معاملے کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔ ترجمان وزیراعظم ہاﺅس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جس آڈیو ٹیپ کا ذکر مشاہد اللہ خان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران کیا ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے، وزیراعظم نے مشاہد اللہ سے کہا ہے کہ اس حوالے سے فوری وضاحت دیں کہ انہوں نے ایسا بیان کیوں دیا ہے۔ واضح رہے کہ مشاہد اللہ خان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ظہیر الاسلام عباسی فوجی سربراہ اور وزیراعظم کو ہٹاکر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، ان کے پاس ایسی ایک آڈیو ٹیپ تھی جو آرمی چیف کو سنوائی گئی جس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، نہ ہی کوئی ایسی ٹیپ بنی نہ ہی سنائی گئی، اس بیان کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ واقعہ من گھڑت ہے، مشاہد اللہ خان کے بیان کی مذمت کرتا ہوں اور پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ یہ واقعہ درست نہیں، دھرنے کے دنوں میں ہونے والے تمام واقعات سے اچھی طرح سے واقف ہوں، اس ٹیپ کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، جو کچھ ترجمان وزیراعظم ہائوس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ سو فیصد درست ہے۔
- See more at: http://www.dannka.com/tazatareen/31911#sthash.FDH21Lh3.dpuf
 
بی بی سی کو متنازعہ انٹرویو:مشاہداللہ خان کی برطرفی کا فیصلہ
جمعہ , 14 اگست , 2015


بی بی سی کو متنازعہ انٹرویو:مشاہداللہ خان کی برطرفی کا فیصلہ
اسلام آباد(ڈنکہ رپورٹ)وفاقی وزیر برائے ماحولیات مشاہداللہ خان جنہوں نے حال میں آئ ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) ظہیرالااسلام کے بارے میں بی بی سی کو ایک متنازعہ انٹرویو دیا تھا حکومت نے انکی برطرفی کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے جبکہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاہداللہ خود ہی کسی بھی وقت استعفی دیدیں گے. تاھم کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پر فوج کا دباؤ ہے تو وزیراعظم نواز شریف انہیں برطرف کرنے پر مجبور ھونگے۔واضح رہے کہ وزیر ماحولیات نے برطانوی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) ظہیرالااسلام نواز حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے جسکی آڈیو ٹیپ نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو دیدی تھی. یہ بات قابل ذکر رہے کہ مشاہداللہ نواز شریف کے قریب ترین ساتھیوں میں تصورہوتے ہیں جو 1999 میں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی سے لیکر جلاوطنی تک انکے ساتھ ساتھ رہے. تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انکی برطرفی یا استعفی سے یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو جائے گی کہ جمہوریت کتنی کمزور اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کس قدر طاقتور ہے کہ اگر فوج کو پسند نہیں تو کوئی خواہ نواز شریف کا کتنا ہی چہیتا کیوں نہ ہو اسکی قربانی دینا انکی مجبوری ہوگی
- See more at: http://www.dannka.com/aham-treen/31916#sthash.h7Svmw1k.dpuf
 
آڈیو ٹیپ سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
جمعہ , 14 اگست , 2015


اسلام آباد : (ڈنکا ڈاٹ کام) ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ آڈیو ٹیپ کے متعلق خبریں بے بنیاد اور حقیقت سے دور ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پیغام کے ذریعے عاصم باجوہ نے صاف الفاظ میں یہ کہا کہ آڈیو ٹیپ کے متعلق کوئی بھی خبر سچی نہیں ہے اور یہ سب جھوٹ پر مبنی کہانی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی آڈیو ٹیپ کے متعلق باتیں کی ہیں اس نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے کیونکہ ان باتوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آرعاصم باجوہ نے سوشل میڈیا پر ٹوئیٹر اکاﺅنٹ کے ذریعے آڈیو ٹیپ جیسی افواہوں کی تردید کر دی ہے۔
- See more at: http://www.dannka.com/tazatareen/31930#sthash.XY7FVgFq.dpuf
 
مشاہد اللہ خان نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ کچھ دن پہلے بھی اس طرح کی باتیں میڈیا میں آئی تھیں اور چودھری نثار نے ان کی تردید کی تھی اور انہیں نامناسب قرار دیا تھا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سارا قصور اکیسویں آئین ساز امینڈمنٹ کا ہے باقی سب میڈیا کی ''ییلو جرنلزم '' ہے ۔ افواہوں کا بازار گرم۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت ہی نکمے نکلے یہ محترم ظہیر الاسلام صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی مشہور و معروف " سپیشل ایجنسی " کے سربراہ اور اپنی سازش کے تانے بانے اک عام فون پر بنتے رہے جسے عام " انٹیلی جنس بیورو " نے ٹیپ کر لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سیاست ہے گندی سیاست ۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی دنوں میں سب سامنے آ جائے گا ۔ " سانپ کو سانپ لڑے یا شریف کو شریف " جو جیتا وہی سکندر کہلائے گا ،۔۔۔۔

بہت دعائیں
 
میرے خیال می آڈیو موجود ہے۔ فو ج کو ذرا پرے رکھنے کے لیے مشاہد سے کام کروایا گیا ہے
بازی اب شریف کے ہاتھ ہی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عین 14 اگست والے دن جب سب پاکستانی متحد تھے۔ جب بلوچستان اور شمالی وزیرستان تک میں قومی ترانے پڑھے جا رہے تھے۔ بلوچستان میں کتنے باغی لوگ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔ ایسے اچھے دن اس قسم کا بیان دے کر یا دلوا کر ن لیگ کیا حاصل کرنا چاہ رہی ہے؟
 
عین 14 اگست والے دن جب سب پاکستانی متحد تھے۔ جب بلوچستان اور شمالی وزیرستان تک میں قومی ترانے پڑھے جا رہے تھے۔ بلوچستان میں کتنے باغی لوگ ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوئے۔ ایسے اچھے دن اس قسم کا بیان دے کر یا دلوا کر ن لیگ کیا حاصل کرنا چاہ رہی ہے؟
ٹوٹل کنٹرول
 

محمداحمد

لائبریرین
مشاہد اللہ خان نے کوئی نئی بات نہیں کی۔

تو پھر 14 اگست کے دن گڑے مردے کیوں اُکھاڑے گئے۔ پھر اتنی ہمت بھی نہیں کہ اس بات کو 'اون' کر سکیں۔

کچھ دن پہلے بھی اس طرح کی باتیں میڈیا میں آئی تھیں اور چودھری نثار نے ان کی تردید کی تھی

تردید کی تھی؟
کیا یہ بات غلط تھی؟
اگر غلط تھی تو دوبارہ کیوں نکالی گئی۔
اگر صحیح تھی تو تردید کیوں کی گئی۔
یہ دو رُخی کب تک رہے گی؟

اور انہیں نامناسب قرار دیا تھا۔

نا مناسب سے کیا مُراد ہے؟
 
مشاہداللہ خان نے انٹرویو کی وضاحت کی ہے۔ ایک بات تو ظاہر ہوئی کہ میڈیا جیسا چاہے ویسا تاثر کم از کم ایک بار ضرور قائم ہو جاتا ہے اور یہ تو بی بی سی ہے جس نے لاہور پر قبضے کی خبر بھی نشر کر دی تھی
۔۔

1103014747-2.gif
 

محمداحمد

لائبریرین
مشاہداللہ خان نے انٹرویو کی وضاحت کی ہے۔ ایک بات تو ظاہر ہوئی کہ میڈیا جیسا چاہے ویسا تاثر کم از کم ایک بار ضرور قائم ہو جاتا ہے اور یہ تو بی بی سی ہے جس نے لاہور پر قبضے کی خبر بھی نشر کر دی تھی
۔۔

1103014747-2.gif

یعنی بی بی سی والے جھوٹے ہیں؟ :)
 
یعنی بی بی سی والے جھوٹے ہیں؟ :)
مکمل جھوٹے نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کسی بھی بیان کو ایسے انداز سے نشر کرنا کہ بات کچھ سے کچھ ہو جائے اور غلط فہمیاں جنم لیں۔

بچپن میں سنی ایک کہانی کا اختتامی جملہ کچھ یوں ہوتا تھا۔
'روکو مت جانے دو'
ہم سوچتے ہی رہتے تھے کہ کہ وقف کہاں پر ہے۔ 'روکو' کے بعد وقف کرنے سے مطلب کچھ اور بنتا ہے اور 'روکو مت' کے بعد بلکل ہی الٹ
 

محمداحمد

لائبریرین
مکمل جھوٹے نہیں کہہ سکتے۔ لیکن کسی بھی بیان کو ایسے انداز سے نشر کرنا کہ بات کچھ سے کچھ ہو جائے اور غلط فہمیاں جنم لیں۔

بچپن میں سنی ایک کہانی کا اختتامی جملہ کچھ یوں ہوتا تھا۔
'روکو مت جانے دو'
ہم سوچتے ہی رہتے تھے کہ کہ وقف کہاں پر ہے۔ 'روکو' کے بعد وقف کرنے سے مطلب کچھ اور بنتا ہے اور 'روکو مت' کے بعد بلکل ہی الٹ

یہ بات ایسی ہرگز نہیں کہ وقف کرنے یا نہ کرنے سے مفہوم تبدیل ہوا ہو۔ خبر میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ :

"وفاقی وزیر نے کہا: ’جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہا۔‘"

اب یا تو مشاہداللہ جھوٹ بول رہے ہیں یا بی بی سی والے۔ دونوں کو "روکو مت جانے دو" کی ڈھال سے نہیں بچایا جا سکتا۔
 
Top