عدیل عبد الباسط
محفلین
سب خواتین و حضرات نے بہت عمدہ تجاویز دی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کسی نے بھی اس مسئلے کا حل جنسی آزادی کو نہیں گردانا، جیسا کہ آج کل کچھ نام نہاد لبرلز کہہ دیتے ہیں۔ ان تجاویز کو دیکھ کر فورم پر موجود افراد کی حقیقت پسندی سے دل بہت خوش ہوا۔
اس تحریر کا اصل مقصد آپ حضرات کی تجاویز کی روشنی میں کچھ مزید تجاویز کی آمیزش کے ساتھ مسئلے کا ملخص و مرتب حل پیش کرنا ہے، کمی بیشی میں معاونت فرمائیے گا تاکہ کوئی جامع نتیجہ برآمد ہو سکے۔
پہلا مرحلہ : سن شعور سے پہلے
عمل ۱: بچوں کو ایسی گفتگو اور سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے جن کی وجہ سے جنسی معاملات سے متعلق بچوں میں دلچسپی پیدا ہو۔
عمل ۲: روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی فراہمی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونے کا احساس دلا کر غیر محسوس انداز میں بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت بٹھانا۔
دوسرا مرحلہ: سن شعور میں (بلوغت سے پہلے)
عمل ۳: گزشتہ دو سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچے کی موبائل فون، ٹیلی ویژن اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔
عمل ۴: بچوں کی مثبت سرگرمیوں کو (جن میں تعلیمی اور مثتب تفریحی سرگرمیاں بھی شامل ہوں) اعتدال کے ساتھ اس حد تک بڑھا دینا کہ بچے کو منفی امور کی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہ ملے۔
عمل ۵: ہلکے پھلے اور مثبت انداز میں بچوں کو ’’دیکھنے اور سننے‘‘ سے متعلق صحیح اور غلط کے فرق سے آگاہ کرنا۔
تیسرا مرحلہ: بلوغت کے وقت
عمل ۵: ماں بیٹیوں کو اور باپ بیٹوں کو (ورنہ مخلص ترین متعلقین کے ذریعے بچوں کو) مناسب الفاظ میں جنسی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے افکار و خواہشات میں برپا ہونے والے انقلابات سے روشناس کرنا۔
عمل ۶: بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ان کے والدین (مخلص ترین متعلقین) اس معاملے میں ان کے افکار، مشاہدات اور تجربات کو دوستانہ ماحول میں سننے اور ان سے متعلق مسائل حل کرنے کے لئے مشاورت (کاؤنسلنگ) پر ہمہ وقت تیار ہیں۔
چوتھا مرحلہ: بلوغت کے بعد
عمل ۷: اولین کوشش اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہی ہونی چاہئے کہ جلد از جلد بچوں کی شادی کی جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسوم و رواج کے بہت سے بت توڑنا ہوں گے۔ بیٹے کے خود مختار ہونے تک، بہو کو بیٹی سمجھ کر اس کے اخراجات بھی لڑکے کا والد پورے کرنے کی کوشش کرے۔ بالخصوص اپنی بیٹیوں کی طرح بہو کے تعلیمی اخراجات کو بھی بوجھ نہ سمجھے۔ لڑکے کی والدہ بہو کو بیٹی سمجھے (کاش ایسا ہو جائے) اور کام کاج کا بوجھ اس پر اس حد تک ہی ڈالے جتنا ناگزیر ہو۔ بیٹیوں کی شادی بھی ایسے خاندان میں کرنے کی کوشش کریں جو بہو کے تعلیمی اور گھریلوں اخراجات کو بیٹیوں کے اخراجات کی طرح لیں۔
عمل ۸: جنسی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات، ان پر عمل درآمد کے دنیوی اور اخروی فوائد اور ترک عمل کے دنیوی اور اخروی نقصانات واضح طور پر اولاد کو سمجھا دئے جائیں۔
عمل ۹: اس عمر میں بچوں کے کسی غیر اخلاقی عمل میں مبتلا ہونے پر اگر دوستانہ اصلاح اثر نہ کرے تو مناسب الفاظ و انداز میں اظہارِ برہمی اور تادیبی کارروائی بھی مفید ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ جس دوستانہ تعلق اور مشاورت و کاؤنسلنگ کی بنیاد سابقہ مرحلے میں ڈالی گئی تھی، تادیبی کارروائی کی وجہ سے وہ بنیاد شگاف زدہ نہ ہوجائے۔
ان نو تجاویز میں کوئی کمی بیشی، تغیر و تبدل ضروری محسوس ہو تو ضرور فرمائیے تاکہ مضمون واقعتا مفید بن سکے۔ ان تجاویز کے بعد کچھ باتیں نوٹ کے طور پر لکھنا چاہوں گا۔
نوٹ۱: جب تک بچے صحیح اور غلط کو اچھی طرح سمجھ کر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں اس وقت تک حتی الامکان تنکیر کے بجائے تغییر پر عمل کرنا چاہئے۔ یعنی بچوں کو یوں کہنے کے بجائے کہ یہ کام مت کرو، غیر محسوس انداز میں بچے کو کسی دوسرے مثبت کام کی طرف لگا دیا جائے۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی برائے سے روکنے کے سلسلے میں ’’فلیغیرہ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی اس عمل کو تبدیل کر دیا جائے اور غلط سے ہٹا کر صحیح کی طرف لگا دیا جائے۔
نوٹ۲: بچوں کے ذہنی طور پر شادی کے جلد قابل ہونے کا معاملہ والدین کے رویے پر منحصر ہے۔ ’’ابھی تو بچہ ہے‘‘ کا جملہ مار پیٹ، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ نہ کرنے کا عذر تو ہو سکتا ہے، سنجیدگی اور عملی مزاج پیدا کرنے کے معاملے میں مفید نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سلسلے میں یہ جملہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ بچے جیسے ہی سمجھ بوجھ کے حامل ہونے لگیں ان کے مزاج میں ایک حد تک سنجیدگی پیدا کرنے اور انہیں عملی طور پر ذمہ دارانہ مزاج کا حامل بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے بچے محمد بن قاسم تب ہی بن سکتے ہیں جب بچپن سے ہی احساسِ ذمہ داری اور سنجیدہ ماحول ملے۔ سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویہ صرف مالی طور پر کمزور افراد کی مجبوریاں نہیں ہیں، بلکہ یہ مالدار اور طاقتور افراد پر زیادہ بڑی ذمہ داریوں کے طور پر عائد ہوتے ہیں۔ کیونکہ مالداری اور طاقت کے ساتھ عدمِ سنجیدگی اور غیر ذمہ داری معاشرے میں اصل بگاڑ پیدا کرتی ہے۔
نوٹ ۳: والدین کا بچپن جیسا بھی ہو، اپنی اولاد کے لئے انہیں چاہئے کہ صحیح اور غلط کے بارے میں مستند اور ضروری معلومات کا ذخیرہ مہیا کریں اور اولاد کی خاطر اپنے عمل کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ پہلے رول ماڈلز ہی درست نہ ملنے کی صورت میں بچے کے افکار و نظریات، خواہشات و رجحانات، عمل اور کوشش، سب کچھ منفی رخ اختیار کر سکتا ہے۔
اس تحریر کا اصل مقصد آپ حضرات کی تجاویز کی روشنی میں کچھ مزید تجاویز کی آمیزش کے ساتھ مسئلے کا ملخص و مرتب حل پیش کرنا ہے، کمی بیشی میں معاونت فرمائیے گا تاکہ کوئی جامع نتیجہ برآمد ہو سکے۔
پہلا مرحلہ : سن شعور سے پہلے
عمل ۱: بچوں کو ایسی گفتگو اور سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے جن کی وجہ سے جنسی معاملات سے متعلق بچوں میں دلچسپی پیدا ہو۔
عمل ۲: روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی فراہمی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونے کا احساس دلا کر غیر محسوس انداز میں بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت بٹھانا۔
دوسرا مرحلہ: سن شعور میں (بلوغت سے پہلے)
عمل ۳: گزشتہ دو سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچے کی موبائل فون، ٹیلی ویژن اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔
عمل ۴: بچوں کی مثبت سرگرمیوں کو (جن میں تعلیمی اور مثتب تفریحی سرگرمیاں بھی شامل ہوں) اعتدال کے ساتھ اس حد تک بڑھا دینا کہ بچے کو منفی امور کی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہ ملے۔
عمل ۵: ہلکے پھلے اور مثبت انداز میں بچوں کو ’’دیکھنے اور سننے‘‘ سے متعلق صحیح اور غلط کے فرق سے آگاہ کرنا۔
تیسرا مرحلہ: بلوغت کے وقت
عمل ۵: ماں بیٹیوں کو اور باپ بیٹوں کو (ورنہ مخلص ترین متعلقین کے ذریعے بچوں کو) مناسب الفاظ میں جنسی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے افکار و خواہشات میں برپا ہونے والے انقلابات سے روشناس کرنا۔
عمل ۶: بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ان کے والدین (مخلص ترین متعلقین) اس معاملے میں ان کے افکار، مشاہدات اور تجربات کو دوستانہ ماحول میں سننے اور ان سے متعلق مسائل حل کرنے کے لئے مشاورت (کاؤنسلنگ) پر ہمہ وقت تیار ہیں۔
چوتھا مرحلہ: بلوغت کے بعد
عمل ۷: اولین کوشش اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہی ہونی چاہئے کہ جلد از جلد بچوں کی شادی کی جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسوم و رواج کے بہت سے بت توڑنا ہوں گے۔ بیٹے کے خود مختار ہونے تک، بہو کو بیٹی سمجھ کر اس کے اخراجات بھی لڑکے کا والد پورے کرنے کی کوشش کرے۔ بالخصوص اپنی بیٹیوں کی طرح بہو کے تعلیمی اخراجات کو بھی بوجھ نہ سمجھے۔ لڑکے کی والدہ بہو کو بیٹی سمجھے (کاش ایسا ہو جائے) اور کام کاج کا بوجھ اس پر اس حد تک ہی ڈالے جتنا ناگزیر ہو۔ بیٹیوں کی شادی بھی ایسے خاندان میں کرنے کی کوشش کریں جو بہو کے تعلیمی اور گھریلوں اخراجات کو بیٹیوں کے اخراجات کی طرح لیں۔
عمل ۸: جنسی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات، ان پر عمل درآمد کے دنیوی اور اخروی فوائد اور ترک عمل کے دنیوی اور اخروی نقصانات واضح طور پر اولاد کو سمجھا دئے جائیں۔
عمل ۹: اس عمر میں بچوں کے کسی غیر اخلاقی عمل میں مبتلا ہونے پر اگر دوستانہ اصلاح اثر نہ کرے تو مناسب الفاظ و انداز میں اظہارِ برہمی اور تادیبی کارروائی بھی مفید ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ جس دوستانہ تعلق اور مشاورت و کاؤنسلنگ کی بنیاد سابقہ مرحلے میں ڈالی گئی تھی، تادیبی کارروائی کی وجہ سے وہ بنیاد شگاف زدہ نہ ہوجائے۔
ان نو تجاویز میں کوئی کمی بیشی، تغیر و تبدل ضروری محسوس ہو تو ضرور فرمائیے تاکہ مضمون واقعتا مفید بن سکے۔ ان تجاویز کے بعد کچھ باتیں نوٹ کے طور پر لکھنا چاہوں گا۔
نوٹ۱: جب تک بچے صحیح اور غلط کو اچھی طرح سمجھ کر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں اس وقت تک حتی الامکان تنکیر کے بجائے تغییر پر عمل کرنا چاہئے۔ یعنی بچوں کو یوں کہنے کے بجائے کہ یہ کام مت کرو، غیر محسوس انداز میں بچے کو کسی دوسرے مثبت کام کی طرف لگا دیا جائے۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی برائے سے روکنے کے سلسلے میں ’’فلیغیرہ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی اس عمل کو تبدیل کر دیا جائے اور غلط سے ہٹا کر صحیح کی طرف لگا دیا جائے۔
نوٹ۲: بچوں کے ذہنی طور پر شادی کے جلد قابل ہونے کا معاملہ والدین کے رویے پر منحصر ہے۔ ’’ابھی تو بچہ ہے‘‘ کا جملہ مار پیٹ، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ نہ کرنے کا عذر تو ہو سکتا ہے، سنجیدگی اور عملی مزاج پیدا کرنے کے معاملے میں مفید نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سلسلے میں یہ جملہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ بچے جیسے ہی سمجھ بوجھ کے حامل ہونے لگیں ان کے مزاج میں ایک حد تک سنجیدگی پیدا کرنے اور انہیں عملی طور پر ذمہ دارانہ مزاج کا حامل بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے بچے محمد بن قاسم تب ہی بن سکتے ہیں جب بچپن سے ہی احساسِ ذمہ داری اور سنجیدہ ماحول ملے۔ سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویہ صرف مالی طور پر کمزور افراد کی مجبوریاں نہیں ہیں، بلکہ یہ مالدار اور طاقتور افراد پر زیادہ بڑی ذمہ داریوں کے طور پر عائد ہوتے ہیں۔ کیونکہ مالداری اور طاقت کے ساتھ عدمِ سنجیدگی اور غیر ذمہ داری معاشرے میں اصل بگاڑ پیدا کرتی ہے۔
نوٹ ۳: والدین کا بچپن جیسا بھی ہو، اپنی اولاد کے لئے انہیں چاہئے کہ صحیح اور غلط کے بارے میں مستند اور ضروری معلومات کا ذخیرہ مہیا کریں اور اولاد کی خاطر اپنے عمل کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ پہلے رول ماڈلز ہی درست نہ ملنے کی صورت میں بچے کے افکار و نظریات، خواہشات و رجحانات، عمل اور کوشش، سب کچھ منفی رخ اختیار کر سکتا ہے۔
آخری تدوین: