جنسی گھٹن اور ہماری نوجوان نسل کا المیہ

سب خواتین و حضرات نے بہت عمدہ تجاویز دی ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کسی نے بھی اس مسئلے کا حل جنسی آزادی کو نہیں گردانا، جیسا کہ آج کل کچھ نام نہاد لبرلز کہہ دیتے ہیں۔ ان تجاویز کو دیکھ کر فورم پر موجود افراد کی حقیقت پسندی سے دل بہت خوش ہوا۔
اس تحریر کا اصل مقصد آپ حضرات کی تجاویز کی روشنی میں کچھ مزید تجاویز کی آمیزش کے ساتھ مسئلے کا ملخص و مرتب حل پیش کرنا ہے، کمی بیشی میں معاونت فرمائیے گا تاکہ کوئی جامع نتیجہ برآمد ہو سکے۔

پہلا مرحلہ : سن شعور سے پہلے
عمل ۱: بچوں کو ایسی گفتگو اور سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے جن کی وجہ سے جنسی معاملات سے متعلق بچوں میں دلچسپی پیدا ہو۔
عمل ۲: روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں کی فراہمی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہونے کا احساس دلا کر غیر محسوس انداز میں بچوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت بٹھانا۔

دوسرا مرحلہ: سن شعور میں (بلوغت سے پہلے)
عمل ۳: گزشتہ دو سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بچے کی موبائل فون، ٹیلی ویژن اور دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔
عمل ۴: بچوں کی مثبت سرگرمیوں کو (جن میں تعلیمی اور مثتب تفریحی سرگرمیاں بھی شامل ہوں) اعتدال کے ساتھ اس حد تک بڑھا دینا کہ بچے کو منفی امور کی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہی نہ ملے۔
عمل ۵: ہلکے پھلے اور مثبت انداز میں بچوں کو ’’دیکھنے اور سننے‘‘ سے متعلق صحیح اور غلط کے فرق سے آگاہ کرنا۔

تیسرا مرحلہ: بلوغت کے وقت
عمل ۵: ماں بیٹیوں کو اور باپ بیٹوں کو (ورنہ مخلص ترین متعلقین کے ذریعے بچوں کو) مناسب الفاظ میں جنسی تبدیلیوں اور ان کی وجہ سے افکار و خواہشات میں برپا ہونے والے انقلابات سے روشناس کرنا۔
عمل ۶: بچوں میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ان کے والدین (مخلص ترین متعلقین) اس معاملے میں ان کے افکار، مشاہدات اور تجربات کو دوستانہ ماحول میں سننے اور ان سے متعلق مسائل حل کرنے کے لئے مشاورت (کاؤنسلنگ) پر ہمہ وقت تیار ہیں۔

چوتھا مرحلہ: بلوغت کے بعد
عمل ۷: اولین کوشش اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہی ہونی چاہئے کہ جلد از جلد بچوں کی شادی کی جائے۔ اس سلسلے میں ہمیں رسوم و رواج کے بہت سے بت توڑنا ہوں گے۔ بیٹے کے خود مختار ہونے تک، بہو کو بیٹی سمجھ کر اس کے اخراجات بھی لڑکے کا والد پورے کرنے کی کوشش کرے۔ بالخصوص اپنی بیٹیوں کی طرح بہو کے تعلیمی اخراجات کو بھی بوجھ نہ سمجھے۔ لڑکے کی والدہ بہو کو بیٹی سمجھے (کاش ایسا ہو جائے) اور کام کاج کا بوجھ اس پر اس حد تک ہی ڈالے جتنا ناگزیر ہو۔ بیٹیوں کی شادی بھی ایسے خاندان میں کرنے کی کوشش کریں جو بہو کے تعلیمی اور گھریلوں اخراجات کو بیٹیوں کے اخراجات کی طرح لیں۔
عمل ۸: جنسی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکامات، ان پر عمل درآمد کے دنیوی اور اخروی فوائد اور ترک عمل کے دنیوی اور اخروی نقصانات واضح طور پر اولاد کو سمجھا دئے جائیں۔
عمل ۹: اس عمر میں بچوں کے کسی غیر اخلاقی عمل میں مبتلا ہونے پر اگر دوستانہ اصلاح اثر نہ کرے تو مناسب الفاظ و انداز میں اظہارِ برہمی اور تادیبی کارروائی بھی مفید ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ جس دوستانہ تعلق اور مشاورت و کاؤنسلنگ کی بنیاد سابقہ مرحلے میں ڈالی گئی تھی، تادیبی کارروائی کی وجہ سے وہ بنیاد شگاف زدہ نہ ہوجائے۔

ان نو تجاویز میں کوئی کمی بیشی، تغیر و تبدل ضروری محسوس ہو تو ضرور فرمائیے تاکہ مضمون واقعتا مفید بن سکے۔ ان تجاویز کے بعد کچھ باتیں نوٹ کے طور پر لکھنا چاہوں گا۔

نوٹ۱: جب تک بچے صحیح اور غلط کو اچھی طرح سمجھ کر خود غور و فکر کر کے فیصلہ کرنے کی عمر تک نہ پہنچ جائیں اس وقت تک حتی الامکان تنکیر کے بجائے تغییر پر عمل کرنا چاہئے۔ یعنی بچوں کو یوں کہنے کے بجائے کہ یہ کام مت کرو، غیر محسوس انداز میں بچے کو کسی دوسرے مثبت کام کی طرف لگا دیا جائے۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی برائے سے روکنے کے سلسلے میں ’’فلیغیرہ‘‘ کے الفاظ ہیں، یعنی اس عمل کو تبدیل کر دیا جائے اور غلط سے ہٹا کر صحیح کی طرف لگا دیا جائے۔

نوٹ۲: بچوں کے ذہنی طور پر شادی کے جلد قابل ہونے کا معاملہ والدین کے رویے پر منحصر ہے۔ ’’ابھی تو بچہ ہے‘‘ کا جملہ مار پیٹ، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ نہ کرنے کا عذر تو ہو سکتا ہے، سنجیدگی اور عملی مزاج پیدا کرنے کے معاملے میں مفید نہیں ہوسکتا، بلکہ اس سلسلے میں یہ جملہ انتہائی نقصان دہ ہے۔ بچے جیسے ہی سمجھ بوجھ کے حامل ہونے لگیں ان کے مزاج میں ایک حد تک سنجیدگی پیدا کرنے اور انہیں عملی طور پر ذمہ دارانہ مزاج کا حامل بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمارے بچے محمد بن قاسم تب ہی بن سکتے ہیں جب بچپن سے ہی احساسِ ذمہ داری اور سنجیدہ ماحول ملے۔ سنجیدگی اور ذمہ دارانہ رویہ صرف مالی طور پر کمزور افراد کی مجبوریاں نہیں ہیں، بلکہ یہ مالدار اور طاقتور افراد پر زیادہ بڑی ذمہ داریوں کے طور پر عائد ہوتے ہیں۔ کیونکہ مالداری اور طاقت کے ساتھ عدمِ سنجیدگی اور غیر ذمہ داری معاشرے میں اصل بگاڑ پیدا کرتی ہے۔

نوٹ ۳: والدین کا بچپن جیسا بھی ہو، اپنی اولاد کے لئے انہیں چاہئے کہ صحیح اور غلط کے بارے میں مستند اور ضروری معلومات کا ذخیرہ مہیا کریں اور اولاد کی خاطر اپنے عمل کو بھی تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ پہلے رول ماڈلز ہی درست نہ ملنے کی صورت میں بچے کے افکار و نظریات، خواہشات و رجحانات، عمل اور کوشش، سب کچھ منفی رخ اختیار کر سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ان سب تجاویز کے ساتھ ایسے تحریری مواد تک بھی کوئی راہنمائی فرمائے تو ہم جیسے بہت لوگوں کا بھلا ہو کہ جن کے بچے بڑے ہو رہے ہیں۔۔۔
میں کچھ مدت سے اس کی شدید ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔
بجائے اس کے کہ بچے اپنے دوستوں سے غلط سلط باتیں سیکھیں، ہمیں درست تک ان کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سب سے بڑی بات یہ کہ کسی نے بھی اس مسئلے کا حل جنسی آزادی کو نہیں گردانا
کوئی بھی ذی شعور انسان کم سن بچوں اور نوجوانوں کو جنسی آزادی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ معلوم نہیں عوام نے مغرب کو کیا سمجھ رکھا ہے۔ البتہ ہم جو مغرب میں قیام پذیر ہیں دیکھتے ہیں کہ مغربی والدین بھی اس معاملہ میں بچوں پر بہت سختی کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اولین کوشش اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہی ہونی چاہئے کہ جلد از جلد بچوں کی شادی کی جائے۔
معاشرہ میں تغیر کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا۔ آجکل کا معاشرہ کام کاج میں مضبوط کیریئر کے بغیر شادی کرنا معیوب سمجھتا ہے۔ آپ جس سے بھی رشتہ مانگیں تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے۔ ان حالات میں جنسی بلوغت سے شادی تک کا عرصہ گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ کیونکہ مذہب نے شادی کے باہر جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیا اس سلسلہ میں کوئی کتاب یا کسی اچھی سائٹ پہ کچھ ہدایت موجود ہے؟
اردو زبان میں کم سن بچوں اور نوجوانوں کی جنسی تعلیم کیلئے کوئی مواد نہیں ملا۔ شاید اسے ابھی بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ انگریزی میں یہاں استفادہ کر سکتے ہیں
My Kid Needs to Know What? An Age By Age Guide to Sex Education – And What to Do! (by Cath Hakanson) -
 

جاسم محمد

محفلین
بچوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کی جنسی گھٹن کا ثبوت ہیں
مہناز اختر
ہم وہ قوم ہیں جو جنسی زیادتی اور ہراسانی تو برداشت کرسکتی ہے لیکن جنسی تعلیم و تربیت کا مشورہ ہمیں بے حیائی معلوم ہوتا ہے۔ ہم بچوں اور بالغان کو ان کی ذات اور جنسی تشخص کے حوالے سے شعور اور آگہی دینے کے مطالبے کو مغرب کا ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اگر دس سال کی بچی میں جسمانی بلوغت کے آثار ظاہر ہوجائیں تو اسے “عورت” قرار دے کر شادی اور “ہمبستری” کے لیئے موضوع ترین قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں جنس کا موضوع بہ یک وقت ٹاپو بھی ہے اور پسندیدہ ترین بھی۔ بلاشبہ پاکستانی معاشرہ ایک مہذب، مذہبی اور روایت پسند معاشرہ ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان تین اعلیٰ اوصاف پر مبنی معاشرہ ایک ایسا مثالی معاشرہ بھی ہو جہاں سب کچھ اچھا ہے۔ ہم نے مہذب کو بمعنی مقیّد تصور کرلیا ہے اور خود کو تہذیب کے پنجرے میں بند کرکے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے سنگین معاملے کی جانب سے آنکھیں موند کر بیٹھیں ہیں۔ زینب زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی پاکستان کی پہلی یا آخری بچی نہ تھی لیکن پھر بھی زینب زیادتی قتل کیس پاکستان کا اہم ترین کیس تھا۔ اس کیس کا ٹرائل ریکارڈ مدت میں کیا گیا لیکن کیا اسکے بعد دیگر پاکستانی بچے اور بچیاں جنسی جبر سے محفوظ رہے؟

زینب واقعے کے بعد اس تواتر سے بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی خبریں سامنے آئیں کہ ایک لمحے کو ایسا لگنے لگا کہ شاید اب ہم اخلاقی تباہی کے اس آخری موڑ پر کھڑے ہیں جہاں بس عذاب آنا باقی رہ جاتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں سب سے خوف ناک پہلو یہ تھا کہ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والا شخص کوئی قریبی عزیز یا محلہ دار نکلا اور اس سے بھی گھناؤنی بات یہ تھی کہ کئی کیسوں میں یہ درندے متاثرہ بچی کا والد، ماموں یا سگے بھائی نکلے۔ امسال صرف رمضان کے مہینے میں جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات نے ہمیں چونکا کر رکھ دیا ہے۔ جنسی زیادتی اور قتل کیئے گئے بچوں کی عمریں بتدریج گیارہ سے تین سال کے درمیان ہیں۔ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگتا ہے۔ اس کے برعکس روایت پسند یا مذہبی طبقہ ایسے واقعات کو بے حیائی اور دین سے دوری کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کو دی جانے والی جنسی تعلیم کیا ہے؟

میرا تعلق انتہائی روایت پسند گھرانے سے ہے۔ بچپن میں نانی سے ایک جملہ بار بار سنتی تھی کہ باپ اور بیٹی کے درمیان بھی لحاظ اور حد ہونی چاہیے، چچا یا ماموں سے بھی ایک طرح کا پردہ ہوتا ہے ، یا پھوپھا اور خالو سے بے تکلفی بری بات ہے۔ انکا یہ اصول میری تربیت میں شامل رہا۔ بعض اوقات مجھے نانی انتہائی دقیانوسی لگتی تھیں۔ نانی اکثر “ٹچ” اور غیرضروری طور پر عم زادوں یا دیگر مرد رشتے داروں سے ہاتھ ملانے یا چھونے کے حوالے سے بھی ذہن میں بات ڈالتی رہتی تھیں کہ مرد ہو یا خواتین سب سے مذاق یا بات چیت کی حد ہونی چاہیے۔ کسی کو ہاتھ لگا کر نہ خود بات کرنی ہے اور نہ کسی کو غیر ضروری طور پر خود کو ہاتھ لگانے کی اجازت دینی ہے۔ کوئی رشتے دار یا جاننے والا اکیلے میں کچھ دے یا کہیں جانے کو کہے تو ہرگز نہیں جانا ہے اور اگر کوئی تم سے ایسی ویسی بات کرے تو سب سے پہلے مجھے آکر بتانا۔ تم ایک لڑکی ہو اور ہر لڑکی شہزادی ہوتی ہے۔ کوئی بھی تمہیں اس طرح نہیں چھو سکتا جو تمہیں برا لگے یا جس سے تمہیں رونا آئے۔ میرے خیال سے یہ ایک مؤثر اور روایتی طریقہ تھا لیکن آج ہمارے پاس ایسے ماہرین موجود ہیں جنہوں نے سیکس ایجوکیشن کا باقاعدہ طریقہ کار مرتب کیا ہوا ہے۔ یہی تربیت بچوں کو گھر، اسکول اور مدارس میں دی جانی چاہیے۔ اس بنیادی تعلیم و تربیت کے علاوہ ہمیں بچوں کو انکار اور مزاحمت کرنا بھی سکھانا چاہیے۔

تربیتِ اطفال سے بھی زیادہ اہم کام تربیتِ بالغان ہے۔ بچے جیسے ہی جسمانی بلوغت کو پہنچیں انہیں صرف طہارت کے مسائل نہ سمجھائیں بلکہ انہیں ان کے جنسی تشخص کا احساس دلائیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کے احساس جرم یا ندامت کا شکار ہونے سے محفوظ رہیں۔ تعلیمی اداروں یا ملازمت کی جگہوں پر ہر ماہ ایک تربیتی نشست کا اہتمام کیا جانا چاہیے تاکہ بالغ افراد ماہرین جنسیات اور نفسیات سے اپنے مسائل اور رجحانات کے بارے میں بات کرسکیں۔ ہمارے یہاں جنسی تعلیم وتربیت کی کمی کا خلاء فحش فلمیں، فقہی مسائل کی کتابیں یا نیم حکیم پورا کرتے ہیں اور نتیجہ کچلی ہوئی لاشوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ یہاں بالغان کو جنسی آداب سیکھانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ جس شخص میں جنسی کشش محسوس کریں وہ آپ کو دستیاب بھی ہو یا آپ کسی بھی لڑکے یا لڑکی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جب ہم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اسی ماہ اندرون سندھ سے بازیاب کرائی جانے والی دس سالہ ملوکاں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے جسے ڈھائی لاکھ کے عوض اسکے رشتے داروں نے ایک نام نہاد نکاح کی آڑ میں ایک پہلے سے شادی شدہ پینتالیس سالہ شخص کو فروخت کردیا۔ ملوکاں کو بازیاب کرائے جانے تک اس کا “شوہر” اسے چار مرتبہ ریپ کرچکا تھا۔ ملوکاں واقعے سے چند روز قبل ہی پاکستان میں مذہبی حلقے چائلڈ میرج بل کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے تھے اور اسے غیرشرعی قرار دیا جارہا تھا۔ ایک ایسا ملک جہاں افراد کو کس عمر تک بچہ یا بچی سمجھا جائے، اس بات پر اتفاق موجود نہ ہو وہاں آپ بچوں سے زیادتی یا بچپن کی شادی کے خلاف سخت قانون سازی کیسے کرسکتے ہیں؟ کیا دس سال کی بچی یا بچہ جنسی معاملات کا شعور رکھتے ہیں ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بچوں اور خواتین کو جنسی خود مختاری حاصل ہے؟

اپنی مرضی سے شادی کا حق براہ راست جنسی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ ہر بالغ پاکستانی کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کب اور کس سے شادی کرنا چاہتا یا چاہتی ہے یا رشتہ ازدواج میں منسلک افراد کو بھی جنسی تعلق سے پہلے ایک دوسرے کی رضامندی معلوم کرنا لازمی ہونا چاہیے۔ جو لوگ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی شادی کی حمایت کرتے ہیں وہ ایک دفعہ ملوکاں کو اپنے ذہن میں رکھیں اور بتائیں کہ کیا دس سال کی بچی کو اتنی جنسی خومختاری حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو انکار کرسکے؟

میں ملوکاں کے کیس کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس کی طرح دیکھتی ہوں۔ پاکستان میں تواتر کے ساتھ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آرہے ہیں اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی تواتر کے ساتھ کچھ ناعاقبت اندیش مذہبی علماء کرام لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی ترغیب دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی علماء کرام ہیں جو نکاح کو آسان بنانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن آج کل کے مشکل معاشی اور معاشرتی حالات میں نسبتاً آسان اسلامی میرج کانٹریکٹ نکاحِ مسیار اور نکاحِ متعہ کو فروغ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ وہی علماء کرام ہیں جنہوں نے مشکل معاشی حالات میں رشتہ ازدواج کو مشکل بنانے کے لیئے خاندانی منصوبہ بندی اور مانع حمل ادویات کو بھی حرام قرار دے رکھا ہے۔ جس معاشرے کے افراد خصوصاً مرد جنسی گھٹن یا جنسی دباؤ کا شکار ہوں یا جہاں جنسی تربیت اور آداب کا فقدان ہو وہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات پر حیرانی حیران کن ہے۔ اگر صرف سخت سزاؤں سے ہی ایسے واقعات کا تدارک ہوپاتا تو زینب کے مجرم کے انجام سے ان جنسی درندوں کو سبق ضرور ملا ہوتا اور ہمیں یوں ہر روز کچرے کے ڈھیر اور ویرانوں سے بچوں کی کچلی ہوئی لاشیں نہ مل رہی ہوتیں۔
 

ابن جمال

محفلین
پورے مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ :
میر کیاسادہ ہیں بیمارے ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
کیاجنسی تعلیم سے مغرب معاشرہ جنسی جرائم سے محفوظ ہوگیا،اگر نہیں توپھرجنسی جرائم سے حفاظت کا وہ طریقہ جو خود مغربی معاشرہ میں کامیاب نہیں ہے،یہاں مشرقی معاشرے میں تیربہدف نسخہ بناکر کیوں پیش کیاجارہاہے، حیرت ہمیں ان حضرات پر ہے جو مولویوں کو توعقل سے عاری قراردیتے ہیں لیکن خود ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ مغربی نسخہ اورنظریات کو چھوڑکر خود سے سوچنے کے ذرہ برابرقابلیت نہیں ہے، اگر مغرب کہتاہے کہ جنسی جرائم کی وجہ جنسی تعلیم کی کمی ہے تویہ آمنا وصدقنا کہنے کے لئے تیار رہتے ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ نسخہ خود مغرب میں ناکام ہے اورجنسی جرائم کے گراف سال بہ سال بڑھتے جارہے ہیں۔
جنسی جرائم کا تعلق جنسی تعلیم کی کمی سے ہے، یہ ایسی بات ہے جس پر بہت ہنسنے کو جی چاہتاہے،لیکن ہمارے دانشوران نے بھی اس نظریہ کو قبول کرلیاہے،اس پر رونے کو جی چاہتاہے، اگرخداکسی کو توفیق دے تو وہ اس پر تحقیق کرے کہ جنسی جرائم (واضح رہے کہ مغرب میں زبردستی کا جنسی تعلق جرم ہے اوراسلام میں بغیر شادی کے تعلق جرم ہے،چاہے مرضی سے ہو یازبردستی) میں پڑے لکھے نوجوان کتنے ملوث ہیں اور ان پڑھ اورغیرتعلیم یافتہ کتنے ملوث ہیں؟اورجوپڑے لکھے نوجوان اس میں ملوث ہیں اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجائے گی جنسی تعلیم کا جنسی جرائم دور کا بھی تعلق نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
، اگرخداکسی کو توفیق دے تو وہ اس پر تحقیق کرے کہ جنسی جرائم (واضح رہے کہ مغرب میں زبردستی کا جنسی تعلق جرم ہے اوراسلام میں بغیر شادی کے تعلق جرم ہے
مضمون کا مدعا جنسی گھٹن ہے جس کی وجہ سے جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ مغرب میں جنسی جرائم ہیں لیکن وہ جنسی گھٹن کی وجہ سے نہیں ہیں۔
 
معاشرہ میں تغیر کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا۔ آجکل کا معاشرہ کام کاج میں مضبوط کیریئر کے بغیر شادی کرنا معیوب سمجھتا ہے۔ آپ جس سے بھی رشتہ مانگیں تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے۔ ان حالات میں جنسی بلوغت سے شادی تک کا عرصہ گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ کیونکہ مذہب نے شادی کے باہر جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
جی بالکل! اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ اس سلسلے میں ہمیں رسوم و رواج کے بہت سے بت توڑنا پڑیں گے۔ بہرحال یہ کام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ البتہ جو مسلم گھرانے مذہبی تعلیمات سے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہاں عملی طور پر بے شمار واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ والدین بچوں کی تعلیم کے دوران ہی ان کی شادیاں کروا دیتے ہیں اور بہت کم ہی ایسی کسی شادی کو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ تاہم ایسی مثالیں خالص مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لئے کوشاں گھرانوں میں ہی نظر آتی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسے لوگ جو جہالت کی بنا پر رسوم و رواج پوری کرنے کے لئے لڑکی یا لڑکے کو جلدی بیاہ دیتے ہیں وہاں شادیاں یا تو ناکام ہو جاتی ہیں یا پھر فریقین میں سے کوئی ایک ظلم و زیادتی کے لئے تختۂ مشق بن جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:
کیا اس سلسلہ میں کوئی کتاب یا کسی اچھی سائٹ پہ کچھ ہدایت موجود ہے؟
کسی دور میں لاہور کے ایک ہسپتال نے ایک ویب سائٹ بنائی تھی جس میں اس موضوع پر تفصیلی معلومات دی گئی تھیں جو کہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی تھیں۔ لیکن ان معلومات میں سے کچھ پر مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات آئے تھے اور کچھ معلومات کے بارے میں بہت زیادہ ایڈوانس ہونے کی رائے قائم کی گئی تھی۔ تاہم اس کتاب کو چھانٹ پھٹک کر راہِ اعتدال پر لاتے ہے (اپنے بچوں کی ضرورت کے مطابق کسٹمائز کر کے) استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
کسی دور میں لاہور کے ایک ہسپتال نے ایک ویب سائٹ بنائی تھی جس میں اس موضوع پر تفصیلی معلومات دی گئی تھیں جو کہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی تھیں۔ لیکن ان معلومات میں سے کچھ پر مذہبی حلقوں کی جانب سے اعتراضات آئے تھے اور کچھ معلومات کے بارے میں بہت زیادہ ایڈوانس ہونے کی رائے قائم کی گئی تھی۔ تاہم اس کتاب کو چھانٹ پھٹک کر راہِ اعتدال پر لاتے ہے (اپنے بچوں کی ضرورت کے مطابق کسٹمائز کر کے) استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ویب سائٹ یا کتاب کا نام؟
 

سیما علی

لائبریرین
غریب اور سلجھے ہوئے شریف لڑکے کا رشتہ اس یقین کے ساتھ نہیں قبول کیا جاتا کہ اللہ رازق ہے۔
بالکل درست جاسمن بٹیا جس بیوقوف کو ماں باپ ٹھیک نہیں کرسکتے بیچاری بچیوں کے ناتواں کندھوں پہ ڈال دیتے ہیں کہ وہ سدُھار لے گی اور غریب اور سلجھے شریف لڑکے کو اللّہُ پہ یقین کرکے قبول نہیں کرتے کیونکہ یقین کمزور ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہمیں رسوم و رواج کے بہت سے بت توڑنا پڑیں گے۔ بہرحال یہ کام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ البتہ جو مسلم گھرانے مذہبی تعلیمات سے زیادہ قریب ہوتے ہیں وہاں عملی طور پر بے شمار واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ والدین بچوں کی تعلیم کے دوران ہی ان کی شادیاں کروا دیتے ہیں اور بہت کم ہی ایسی کسی شادی کو ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ تاہم ایسی مثالیں خالص مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لئے کوشاں گھرانوں میں ہی نظر آتی ہیں۔
درست بات ہے ایسی مثالیں خالص مذہبی تعلیمات پہ سختی سے عمل کرنے والوں میں یا توکل کرنے والوں میں نظر آتیں ہیں !!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
مضمون کا مدعا جنسی گھٹن ہے جس کی وجہ سے جنسی جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ مغرب میں جنسی جرائم ہیں لیکن وہ جنسی گھٹن کی وجہ سے نہیں ہیں۔
ہمارا ذاتی خیال ہے کہ یہ گھٹن الثر گھر کے ماحول کی وجہ سے بھی ہوتی ہے ۔کچھ گھرانوں میں بہت انتہائی گھٹن زدہ ماحول ہے !!!!جسکی وجہ سے بچے ماں باپ سے اپنے مسائل شئیر نہیں کرتے اور دوستوں سے کرتے ہیں !!!!!اور پھر وہی دوست اُنکو غلط مشورے دیتے ہیں جو مزید بگاڑ کا باعث ہمارے یہاں دوسری طرف کھٹن نفسیاتی مریضوں کی ہے جنھیں ہم مریض سمجھنے کو تیار نہیں اچھے خاصے پڑھے گھرانوں میں ہمارا مشاہدہ ہے ایسے لوگوں کا علاج ہی نہں کرواتے اور واحد اور بے ہودہ بات تجویز کرتے ہیں کہ اسکی شادی کر دی جائے ٹھیک ہوجائے گا یا ہوجائے گی!!!!!
ایسے لوگ دونوں صورتوں میں معاشرے میں گھمبیر گھٹن زدہ ماحول کا باعث بنتے ہیں ۔۔۔اور مسائل کا انبار کھٹراُ کردیتے ہیں ۔اتنا کچھ اس موضوع پر لکھا جا چکا ہے لیکنُ افسوس صد افسوس تدارک کوئی کرنے کو کو ہی تیار نہیں!!!نفسیاتی ذہنوں کو کھلے عام دندنانے دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
پانی کی کمی ہو تو وضو نہیں تیمم کیا جاتا ہے۔

آجکل کے معاشروں میں ولدالزنا کی کثرت ہے۔ پنجاب کو ہی لیں تو کثیر والد الزنا ملیں گے۔ ہندووں کے یہاں اس بھی زیادہ۔ اور عیسائیوں کے اس بھی بڑھ کر۔ یورپ میں تو ولد الزنا کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ عرب ہند و دیگر علاقوں کے صالحین ایسے میں کیا کریں؟ ظاہر ہے معاش پر صبر و قناعت سے باآسانی یہ اس راہ کو عبور کر لیں گے۔ دین داروں اور صالحین کی صحبت سے بچے نکاح سے قبل جنسی تعلق سے بچ جاتے ہیں۔ مسئلہ مومنین اور صالحین کا نہیں بلکہ فاسق مسلمان گھرانوں کا ہے جو مانند چوپائے ہیں۔

جہاں تک بے عمل فاسق مسلمانوں کا تعلق ہے جہاں نکاح کے لیے معاش نہیں اور لڑکی گزارا نہیں کر سکتی تو متعہ پر راضی ہو جائے تاکہ قلیل مدت تک اپنی پسند کی زندگی گزارے۔ یوں مغربی ممالک کے فاسق مسلمان اور عرب و ہند کے بے عمل فاسق مسلمان زنا سے بچ جائیں گے۔ وہ متعہ کاصغیہ پڑھ کر مباشرت کریں۔ کم از کم یوں زنا نہ ہو گا اور پیدا ہونے والا بچہ بھی ولد الزنا نہ ہو گا۔ جو اس گروہ کے لیے ایک عظیم کامیابی ہے۔
 
Top