فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
فلوجہ ميں معذور بچوں کی پيدائش کا الزام
يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ امريکی حکومت اور فوج کے خلاف اس قسم کا الزام لگايا گيا ہے۔ ليکن اس طرح کے الزامات کا آپ جب بھی تنقیدی جائزہ ليں اور ان رپورٹس پر تحقيق کريں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان کی بنياد غلط تاثرات، ناقابل اعتبار ذرائع اور ايسے اعداد وشمار پر مبنی ہوتی ہے جسے غیر جانب دار حوالوں سے تحقيق اور تفتيش کے عمل سے نہيں گزارا جاتا۔ يہی وجہ ہے کہ کسی بھی آزاد اور غیر جانب دار اتھارٹی بشمول اقوام متحدہ اور خود عراق کی اپنی حکومت نے ان الزامات پر کوئ توجہ نہيں۔ بلکہ عراق ميں صحت سے متعلق حکام نے تو اعداد وشمار کی مفصل تحقيق کے بعد ان کہانيوں کو غلط قرار ديا ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ انٹرنيٹ پر اس حوالے سے بچوں کی کئ دردناک اور ہولناک تصويريں بھی پوسٹ کی جاتی ہيں۔ ميں نے ايسی تصاوير ديکھی ہیں جن کا مقصد غیر انسانی طريقوں اور غلط معلومات کے ذريعے لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر ايک مخصوص سياسی ايجنڈے کی تشہير کرنا ہوتا ہے۔ مردہ بچوں کی ہيبت ناک تصاوير جن ميں وہ پيدائشی بيماريوں ميں مبتلا ہوں شائع کر کے يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ يہ بچے عراق ميں پيدا ہوئے ہیں۔ ان تصاوير کے بعد الزامات کی ايک لسٹ ہوتی ہے جن ميں يہ باور کروايا جاتا ہے کہ ان بچوں کی بيماری کا ذمہ دار امريکہ ہے جس نے مبينہ طور پر عراق میں کيمياوی ہتھياروں کا استعمال کيا۔
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ ان تصاوير سے آپ مذکورہ ذرائع، درست تاريخ اور اصل واقعات کا تعين نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان تصاوير کو پوسٹ کرنے والے اس حوالے سے کوئ مستند معلومات فراہم کرتے ہیں۔ دوسری بات يہ ہے کہ يہ تصاوير ايک ايسی بیماری کے حوالے سے ہوتی ہيں جو پوری دنيا ميں پائ جاتی ہے اور اسے "کونجينیٹل انامليز" يا "برتھ ڈی فيکٹس" کا نام ديا جاتا ہے۔ يہ بيماری خاصی پرانی ہے اور دنيا کے بے شمار ممالک ميں اس کی مثالیں نہ صرف حاليہ بلکہ ماضی بعيد میں بھی موجود ہیں۔
عراق خاص طور پر فلوجہ کے علاقے ميں اس بيماری کے وجود سے انکار ممکن نہيں ہے کيونکہ يہ ايک عمومی طبی مرض ہے۔ ليکن اس مخصوص علاقے ميں اس بيماری سے متعلق کيسوں کی تعداد ميں اضافے کو بعض عناصر اپنے مخصوص ايجنڈے کے ليے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہيں کہ صدام حسين نے دانستہ بہت سے عراقی ہسپتالوں ميں ادويات کی فراہمی روک دی تھی تا کہ بے شمار نوزائيدہ بچوں کے اجتماعی جنازوں کے مناظر کے ذريعے اقوام متحدہ کی جانب سے اس وقت لگائے جانے والی پابنديوں کے خلاف عوام کی رائے کو تقويت دی جا سکے۔ ميڈيا کے بے شمار اداروں کی جانب سے يہ رپورٹ کيا گيا تھا کہ صدام نے بغداد کی سڑکوں پر اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں کے بےشمار جعلی جنازوں کا اہتمام کيا تھا۔
"برتھ ڈی فيکٹس" کے کيسز عراق، سعوی عرب، يورپی ممالک اور خود امريکہ ميں بھی موجود ہیں۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ کچھ عوامل ايسے ہو سکتے ہيں جن کی بنياد پر کسی ايک علاقے يا ملک ميں ايسے کيسوں کی تعداد دوسرے علاقے کی نسبت کم يا زيادہ ہو سکتی ہے ليکن اس ضمن ميں کسی ايک مخصوص وجہ کا تعين نہيں کيا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ہم عراق ميں ان وجوہات کا تعين کرنا چاہیں تو اس ضمن ميں صحت عامہ کے ناقص انتظامات، ادويات کے غلط استعمال، سيوريج کا بوسيدہ اور ناکارہ نظام اور پينے کے پانی کے نظام ميں نقائص اور ديگر کئ عوامل شامل ہيں۔ يہ اور ديگر کئ جینيٹکس پر مبنی عوامل ہيں جن کی وجہ سے "برتھ ڈی فيکٹس" کے کيسز سامنے آ سکتے ہیں۔
اصل حقیقت يہ ہے کہ اس قسم کے اداريے لکھنے والے اور رائے دينے والے لکھاری ايسا کوئ ثبوت فراہم نہیں کرتے جس سے يہ ثابت ہو کہ امريکہ اس بيماری کے حوالے سے قصوروار ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
فلوجہ ميں معذور بچوں کی پيدائش کا الزام
يہ کوئ پہلا موقع نہيں ہے کہ امريکی حکومت اور فوج کے خلاف اس قسم کا الزام لگايا گيا ہے۔ ليکن اس طرح کے الزامات کا آپ جب بھی تنقیدی جائزہ ليں اور ان رپورٹس پر تحقيق کريں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ ان کی بنياد غلط تاثرات، ناقابل اعتبار ذرائع اور ايسے اعداد وشمار پر مبنی ہوتی ہے جسے غیر جانب دار حوالوں سے تحقيق اور تفتيش کے عمل سے نہيں گزارا جاتا۔ يہی وجہ ہے کہ کسی بھی آزاد اور غیر جانب دار اتھارٹی بشمول اقوام متحدہ اور خود عراق کی اپنی حکومت نے ان الزامات پر کوئ توجہ نہيں۔ بلکہ عراق ميں صحت سے متعلق حکام نے تو اعداد وشمار کی مفصل تحقيق کے بعد ان کہانيوں کو غلط قرار ديا ہے۔
اس ميں کوئ شک نہيں کہ انٹرنيٹ پر اس حوالے سے بچوں کی کئ دردناک اور ہولناک تصويريں بھی پوسٹ کی جاتی ہيں۔ ميں نے ايسی تصاوير ديکھی ہیں جن کا مقصد غیر انسانی طريقوں اور غلط معلومات کے ذريعے لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر ايک مخصوص سياسی ايجنڈے کی تشہير کرنا ہوتا ہے۔ مردہ بچوں کی ہيبت ناک تصاوير جن ميں وہ پيدائشی بيماريوں ميں مبتلا ہوں شائع کر کے يہ تاثر ديا جاتا ہے کہ يہ بچے عراق ميں پيدا ہوئے ہیں۔ ان تصاوير کے بعد الزامات کی ايک لسٹ ہوتی ہے جن ميں يہ باور کروايا جاتا ہے کہ ان بچوں کی بيماری کا ذمہ دار امريکہ ہے جس نے مبينہ طور پر عراق میں کيمياوی ہتھياروں کا استعمال کيا۔
سب سے پہلی بات تو يہ ہے کہ ان تصاوير سے آپ مذکورہ ذرائع، درست تاريخ اور اصل واقعات کا تعين نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان تصاوير کو پوسٹ کرنے والے اس حوالے سے کوئ مستند معلومات فراہم کرتے ہیں۔ دوسری بات يہ ہے کہ يہ تصاوير ايک ايسی بیماری کے حوالے سے ہوتی ہيں جو پوری دنيا ميں پائ جاتی ہے اور اسے "کونجينیٹل انامليز" يا "برتھ ڈی فيکٹس" کا نام ديا جاتا ہے۔ يہ بيماری خاصی پرانی ہے اور دنيا کے بے شمار ممالک ميں اس کی مثالیں نہ صرف حاليہ بلکہ ماضی بعيد میں بھی موجود ہیں۔
عراق خاص طور پر فلوجہ کے علاقے ميں اس بيماری کے وجود سے انکار ممکن نہيں ہے کيونکہ يہ ايک عمومی طبی مرض ہے۔ ليکن اس مخصوص علاقے ميں اس بيماری سے متعلق کيسوں کی تعداد ميں اضافے کو بعض عناصر اپنے مخصوص ايجنڈے کے ليے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہيں کہ صدام حسين نے دانستہ بہت سے عراقی ہسپتالوں ميں ادويات کی فراہمی روک دی تھی تا کہ بے شمار نوزائيدہ بچوں کے اجتماعی جنازوں کے مناظر کے ذريعے اقوام متحدہ کی جانب سے اس وقت لگائے جانے والی پابنديوں کے خلاف عوام کی رائے کو تقويت دی جا سکے۔ ميڈيا کے بے شمار اداروں کی جانب سے يہ رپورٹ کيا گيا تھا کہ صدام نے بغداد کی سڑکوں پر اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں کے بےشمار جعلی جنازوں کا اہتمام کيا تھا۔
"برتھ ڈی فيکٹس" کے کيسز عراق، سعوی عرب، يورپی ممالک اور خود امريکہ ميں بھی موجود ہیں۔ اس میں کوئ شک نہیں کہ کچھ عوامل ايسے ہو سکتے ہيں جن کی بنياد پر کسی ايک علاقے يا ملک ميں ايسے کيسوں کی تعداد دوسرے علاقے کی نسبت کم يا زيادہ ہو سکتی ہے ليکن اس ضمن ميں کسی ايک مخصوص وجہ کا تعين نہيں کيا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ہم عراق ميں ان وجوہات کا تعين کرنا چاہیں تو اس ضمن ميں صحت عامہ کے ناقص انتظامات، ادويات کے غلط استعمال، سيوريج کا بوسيدہ اور ناکارہ نظام اور پينے کے پانی کے نظام ميں نقائص اور ديگر کئ عوامل شامل ہيں۔ يہ اور ديگر کئ جینيٹکس پر مبنی عوامل ہيں جن کی وجہ سے "برتھ ڈی فيکٹس" کے کيسز سامنے آ سکتے ہیں۔
اصل حقیقت يہ ہے کہ اس قسم کے اداريے لکھنے والے اور رائے دينے والے لکھاری ايسا کوئ ثبوت فراہم نہیں کرتے جس سے يہ ثابت ہو کہ امريکہ اس بيماری کے حوالے سے قصوروار ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall