جی ہاں فلوجہ میں یہ جنگ 2004 ہی میں ہوئی۔ اگر یادداشت پر زور دیں تو اس تباہی پر دنیا بھر میں ایک تشویش پیدا ہوئی تھی۔ انتہائی مہلک کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کی گیا تھا۔ جیسا کہ
Pakistani کا کہنا کہ دونوں اطراف سے ان ہتھیاروں کا استعمال ہوا ۔ یہ بات یوں ہے کہ امریکہ کو وہاں عراقی عوام کی مزاحمت کا سامنا تھا کیوں کہ اس جنگ کے شروع ہونے سے کم وبیش 12 سال قبل سے ہی عراق پر فضائی پابندیاں تھیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے نو فلائی زون بنا دئیے تھے خود عراقی فورسز کے طیارے اپنے ہی ملک میں پرواز نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ WMD کی برآمدگی کا آپریشن بھی اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں پورے عراق میں چلتا رہا ۔ جتنی بھی ٹیمیں معائنے پر وہاں گئیں انہیں پورے عراق میں وسیع تباہی کے کوئی ہتھیار نہ مل سکے۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والے انسپکٹر ہانس بلکس نے اقوام متحدہ کو جو رپورٹ پیش کی اس میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ عراق میں WMD نہیں ہیں اور نہ ہی عراق کے پاس اس کو بنانے کی تکنیکی صلاحیت۔ اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود ایک کمزور مسلم ملک جو ڈیڑھ دہائی سے پابندیوں کی وجہ سے مفلوج ہو چکا تھا ، پر امریکی جارحیت مسلط کر دی گئی۔ جس ملک کا کونا کونا چھان کر بھی کیمیائی ہتھیار نہ مل سکے اس کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ جنگ کے دوران دونوں اطراف سے ایسے ہتھیار استعمال کئے گئے ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ کیمیائی ہتھیار صرف امریکہ کی طرف سے استعمال کئے گئے جبکہ عراقی مزاحمت کاروں کے پاس روایتی ہتھیار تھے۔ پہلے تو امریکہ نے حسب عادت جھوٹ بولا کہ اس نے وہاں کوئی کیمیائی اسلحہ استعمال نہیں کیا۔ لیکن بین الاقوامی برادری کو عراقی ہلاک شدگان اور زخمیوں کے معائنے سے معلوم ہوتا گیا لوگوں پر براہِ راست وہائٹ فاسفورس (کیمیائی اسلحے) کا استعما ل کیا گیا اور نیپام بم استعمال کئے گئے۔
اٹلی اور ترکی کے پریس نے اس کے باقاعدہ ثبوت بھی پیش کئے۔
برطانوی پریس نے بھی رپورٹس شائع کیں کہ امریکی فورسز نے عراق میں کیمیائی اسلحہ استعمال کیا لیکن اس کے بارے میں دنیا سے جھوٹ بولا ، خود امریکی فوجیوں نے اس کا اعتراف کیا کہ انہوں نے عراقیوں پر کیمیائی اور تباہ کن اسلحہ برسایا جن میں نیپام بم بھی تھے۔
اس جنگ میں خوفناک تباہی ہوئی لیکن عراق سے WMD امریکی افواج کو بھی نہ مل سکے۔ اس جنگ کے جواز کا پروپیگنڈہ کرنے میں برطانیہ امریکہ کے شانہ بشانہ تھا۔ اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئر نے اپنی کابینہ سے عراق کے متعلق جھوٹ بولا۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے بشپ اور نوبل انعام یافتہ سوشل رائٹس کے سرگرم کارکن
ڈیسمنڈ ٹُوٹُو نے کہا کہ عراق جنگ سے متعلق جھوٹ بولنے پر ٹونی بلئر اور جاج بُش کو ہیگ میں واقع انٹر نیشنل کرمنل کورٹ میں پیش کیا جائے۔وہ ایک سیمینار سے اس لئے اٹھ کر چلے گئے کہ وہاں ٹونی بلئر کو بھی بلایا گیا تھا اور انہوں نے کہا کہ میں
ایک جھوٹے کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔
اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل
کوفی عنان نے کہا کہ ٹونی بلئر عراق جنگ رکوا سکتے تھے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ تاریخی جھوٹوں کے سہارے یہ جنگ عراق پر مسلط کی گئی اور اب اس میں استعمال ہونے والے کیمیائی ہتھیاروں کے نتائج بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔
ساجد نے ایک اخبار سے لی گئی تصویر پر اس لئے زیادہ توجہ نہیں دی کہ جو رپورٹ اس کے ساتھ منسلک تھی اس سے انکار ممکن نہیں تھا۔ اور کسی کو شک ہو تو وہ کیمیائی ہتھیاروں کے مابعد اثرات پر ذرا ریسرچ کر لے۔ لہذا اس تصویر کو
قیصرانی بھائی نے بھی ایک لائٹ سے مزاح کی شکل میں اس کی طرف توجہ دلائی ۔ اور میں نے بھی اپنی غفلت تسلیم کر لی لیکن اس امریکی و برطانوی جنگی جُرم کے جو ثبوت ، واقعات اور نتائج اظہر من الشمس ہیں ان سے آنکھیں چرانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں۔