انداز سے تو اصغر گونڈوی کا شعر لگ رہا ہے۔ کلیاتِ اصغر مل نہیں رہی ورنہ شاید یہ شعر بھی مل جاتا۔
فرخ بھائی !
کیسے ہیں آپ؟ بہت دنوں بعد آپ کو محفل میں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔
اگر کلیاتِ اصغر مل جائے تو ضرور بتائیے گا۔
بہت شکریہ احمد بھائی! بالکل خیریت سے ہوں۔ آپ کہیے کیسی گزر رہی تھی میرے بغیر؟ بہرحال جیسے ہی کلیات ملتی ہے میں دیکھ کر بتاتا ہوں۔
الحمدللہ، وقت تو گزر ہی جاتا ہے لیکن اچھے دوستوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی
ساغر صدیقی بھی اسی طرح لکھتا تھا۔۔۔
میں ساغر کے اس شعر کو کفریہ سمجھتا ہوں (غلط ہوں تو میری رہنمائی کیجئے )، لیکن یہ اسی بحر میں ہے:
فقط اک ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے یزداں تری عظمت کامینارہ ۔۔۔
ساغر صدیقی بھی اسی طرح لکھتا تھا۔۔۔
میں ساغر کے اس شعر کو کفریہ سمجھتا ہوں (غلط ہوں تو میری رہنمائی کیجئے )، لیکن یہ اسی بحر میں ہے:
فقط اک ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ساغر اٹھانے سے
لرز اٹھا ہے اے یزداں تری عظمت کامینارہ ۔۔۔
اقبال کی تو اور بھی مثالیں ملیں گی۔۔۔ شکوہ میں رقمطراز ہیں:
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں۔۔۔
پھر کہا:
آئے عشاق، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر ۔۔۔
ایسے اشعار فکری طور پر کافی پریشان کن ہیں میرے لیے۔۔ میں ان کا مطلب سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں۔ اگر کوئی اس کی توجیہہ بیان کردے تو احسان ہوگا۔۔
ان اشعار میں کوئی ایسی بات نہیں۔۔۔ ۔! سوائے بے باکی کے۔
اقبال کی نظم "شکوہ" میں اس طرح کے اشعار اُن لوگوں کی سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں کہ جو اپنے ہر مسئلے اور تکلیف کی وجہ قسمت (خدا ) کو گردانتے ہیں اور اپنے اعمال پر نظر نہیں کرتے۔ اس طرح کے لوگ کبھی بلواسطہ اور کبھی بلا واسطہ خدا سے شاکی نظر آتے ہیں۔ اقبال کا شکوہ بحیثیتِ مجموعی ایسے ہی لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو اپنے اعمال اور کوتاہیوں کا ذمہ دار بھی قدرت، قسمت یا خدا کو ٹھہراتے ہیں۔
گو کہ یہ اشعار بے باکی کی ذمرے میں آتے ہیں تاہم اس نظم کی ساخت ایسے ہی اشعار کی متقاضی ہے ۔ اقبال کا مقصد ہماری اُن کوتاہیوں کی نشاندہی ہے جنہیں ہم قسمت اور خدا کا امر گردانتے ہوئے خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
سچی بات تو یہ کہ اسی قسم کے افکار بلکہ اس سے بڑھی ہوئی ناشکری ہمارے ہاں عام زندگی میں باآسانی دیکھنے کو ملتی ہے اور ایسے لوگوں پر کوئی کفر کا فتویٰ بھی نہیں لگاتا۔
متفق۔
اور اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے شکوہ کے شروع میں واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ
جرات آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
بالکل بلال ! اقبال نے ہر ممکن احتیاط کی ہے اور بحیثیت ِ مجموعی اس نظم میں پاسِ ادب کا خیال بھی رکھا گیا ہے۔ تاہم فتویٰ لگانے والوں نے کچھ جلدی کا مظاہرہ کیا۔
لگاتے رہیں فتاویٰ جس جس نے لگانا ہے۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی قدر و منزلت نہ پہلے کم ہوئی تھی اور نہ اب ہو گی بلکہ روز بروز بڑھتی ہی جائے گی۔
کیونکہ
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں وللہ نہیں ہے
خیر میں تو جو شاعری کر رہا ہوں، یہ بھی اقبال ہی کا احسان ہے۔لگاتے رہیں فتاویٰ جس جس نے لگانا ہے۔
اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی قدر و منزلت نہ پہلے کم ہوئی تھی اور نہ اب ہو گی بلکہ روز بروز بڑھتی ہی جائے گی۔
کیونکہ
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں وللہ نہیں ہے
آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن ہمارا طرزِ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اس سلسلے میں عام لوگوں کو جو ابہام ہیں ہم اُنہیں دور کرنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کے اقبال کی عظمت اور لوگوں کے دل میں بھی اُجاگر ہو سکے۔
(کچھ تدوین مزید کی ہے)
خیر میں تو جو شاعری کر رہا ہوں، یہ بھی اقبال ہی کا احسان ہے۔
کونسی تدوین کی ہے؟
میری شاعری میں اگر کہیں پختگی اور وزن ہے تو وہ اقبال سے ملا ہے۔۔ دیگر شعراء کو میں نے پڑھا خوب لیکن فلسفے کے حوالےسے ان سے کبھی کچھ نہٰیں لیا۔احسان؟ کیا مطلب؟