سید ذیشان
محفلین
جنید جمشید کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ
جنید جمشید نے فیس بک پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے طرزِ بیان پر معافی بھی مانگی ہے
کراچی میں پولیس نے عدالتی حکم پرگلوکار اور نعت خواں جنید جمشید کے خلاف پیغمبرِ اسلام اور برگزیدہ مذہبی شخصیات کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
رسالہ تھانے کے ایس ایچ او مدد علی زرداری نے بی بی سی اردو کی حمیرا کنول کو بتایا ہے کہ یہ مقدمہ سنّی تحریک کے رہنما محمد مبین قادری کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مدعی نے مقدمے کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور ڈسٹرکٹ سیشن جج (جنوبی) نےدرخواست گزاروں کے بیانات سننے کے بعد جنید جمشید کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ مقدمہ 298 اے اور 295 سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اگلا مرحلہ ملزم کی گرفتاری کا ہو گا۔
یہ دفعات برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور توہینِ رسالت کے جرائم سے متعلق ہیں۔
اس معاملے پر متعدد کوششوں کے باوجود جنید جمشید سے رابطہ نہیں ہو سکا اور اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت ملک سے باہر ہیں۔
298 اے اور 295 سی
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ مقدمہ 298 اے اور 295 سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اگلا مرحلہ ملزم کی گرفتاری کا ہو گا۔
یہ دفعات برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور توہینِ رسالت کے جرائم سے متعلق ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر جنید جمشید کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ پیغمبرِ اسلام کی ایک اہلیہ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
بعدازاں جنید جمشید نے سوشل میڈیا پر ہی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے طرزِ بیان پر معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ ایسا نادانی، کم علمی اور نادانستگی میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں سے معافی کے طلب گار ہیں۔
مقدمے کے مدعی اور مذہبی جماعت سنی تحریک کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے رُکن محمد مبین قادری نے بی بی سی اردو کے عبداللہ فاروقی کو بتایا کہ اگرچہ جنید جمشید نے اس معاملے پر معافی مانگی ہے مگر ’ہم نے اِس معاملے میں علمائے کِرام سے رابطہ کیا اور اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ معافی پیغمبرِ اسلام کی ذات سے متعلق ہے اور اِس پر شرعی قانون کے تحت ہی معافی دی جا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر جنید جمشید دل آزاری پر معافی مانگتے ہیں تو اُنہیں میں یا کوئی اور شخص اِس طرح معاف نہیں کر سکتا۔ اُس کی ایک سزا ہے اور اُسے بھگتنے کے بعد شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں۔‘
مبین قادری نے کہا کہ ’ہم نے اِسی لیے قانون کا دروازہ کھٹکھنایا ہے کہ اگر کوئی شخص خواہ اُس کا تعلق کسی بھی فقہ یا مذہب سے ہو اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اُس سے قانونی انداز میں نمٹا جائے۔‘
ہم نے اِسی لیے قانون کا دروازہ کھٹکھنایا ہے کہ اگر کوئی شخص خواہ اُس کا تعلق کسی بھی فقہ یا مذہب سے ہو اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اُس سے قانونی انداز میں نمٹا جائے۔
مبین قادری
خیال رہے کہ جنید جمشید ماضی میں پاکستان کے مقبول ترین پاپ گروپوں میں سے شامل وائٹل سائنز کے مرکزی گلوکار تھے اور 1990 کی دہائی میں ان کے گانے ملک میں بہت مقبول تھے۔
تاہم چند برس قبل انھوں نےگلوکاری ترک کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب وہ ٹی وی پر نعت خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ رواں برس پاکستان میں میڈیا اور شو بزنس سے وابستہ شخصیات پر توہینِ مذہب کے مقدمے کا دوسرا واقعہ ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نجی ٹی وی جیو کے ایک پروگرام میں برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے جانے پر چینل کے مالک میر شکیل الرحمٰن، پروگرام کی میزبان شائشتہ لودھی، اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر کو 26، 26 سال قید اور 13 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
جنید جمشید نے فیس بک پر اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے طرزِ بیان پر معافی بھی مانگی ہے
کراچی میں پولیس نے عدالتی حکم پرگلوکار اور نعت خواں جنید جمشید کے خلاف پیغمبرِ اسلام اور برگزیدہ مذہبی شخصیات کی توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
رسالہ تھانے کے ایس ایچ او مدد علی زرداری نے بی بی سی اردو کی حمیرا کنول کو بتایا ہے کہ یہ مقدمہ سنّی تحریک کے رہنما محمد مبین قادری کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مدعی نے مقدمے کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور ڈسٹرکٹ سیشن جج (جنوبی) نےدرخواست گزاروں کے بیانات سننے کے بعد جنید جمشید کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ مقدمہ 298 اے اور 295 سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اگلا مرحلہ ملزم کی گرفتاری کا ہو گا۔
یہ دفعات برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور توہینِ رسالت کے جرائم سے متعلق ہیں۔
اس معاملے پر متعدد کوششوں کے باوجود جنید جمشید سے رابطہ نہیں ہو سکا اور اطلاعات کے مطابق وہ اس وقت ملک سے باہر ہیں۔
298 اے اور 295 سی
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ مقدمہ 298 اے اور 295 سی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اگلا مرحلہ ملزم کی گرفتاری کا ہو گا۔
یہ دفعات برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور توہینِ رسالت کے جرائم سے متعلق ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل سوشل میڈیا پر جنید جمشید کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وہ پیغمبرِ اسلام کی ایک اہلیہ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔
بعدازاں جنید جمشید نے سوشل میڈیا پر ہی اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے طرزِ بیان پر معافی مانگی تھی اور کہا تھا کہ ایسا نادانی، کم علمی اور نادانستگی میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں سے معافی کے طلب گار ہیں۔
مقدمے کے مدعی اور مذہبی جماعت سنی تحریک کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے رُکن محمد مبین قادری نے بی بی سی اردو کے عبداللہ فاروقی کو بتایا کہ اگرچہ جنید جمشید نے اس معاملے پر معافی مانگی ہے مگر ’ہم نے اِس معاملے میں علمائے کِرام سے رابطہ کیا اور اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ یہ معافی پیغمبرِ اسلام کی ذات سے متعلق ہے اور اِس پر شرعی قانون کے تحت ہی معافی دی جا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر جنید جمشید دل آزاری پر معافی مانگتے ہیں تو اُنہیں میں یا کوئی اور شخص اِس طرح معاف نہیں کر سکتا۔ اُس کی ایک سزا ہے اور اُسے بھگتنے کے بعد شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں۔‘
مبین قادری نے کہا کہ ’ہم نے اِسی لیے قانون کا دروازہ کھٹکھنایا ہے کہ اگر کوئی شخص خواہ اُس کا تعلق کسی بھی فقہ یا مذہب سے ہو اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اُس سے قانونی انداز میں نمٹا جائے۔‘
ہم نے اِسی لیے قانون کا دروازہ کھٹکھنایا ہے کہ اگر کوئی شخص خواہ اُس کا تعلق کسی بھی فقہ یا مذہب سے ہو اگر وہ کوئی ایسی بات کرتا ہے تو اُس سے قانونی انداز میں نمٹا جائے۔
مبین قادری
خیال رہے کہ جنید جمشید ماضی میں پاکستان کے مقبول ترین پاپ گروپوں میں سے شامل وائٹل سائنز کے مرکزی گلوکار تھے اور 1990 کی دہائی میں ان کے گانے ملک میں بہت مقبول تھے۔
تاہم چند برس قبل انھوں نےگلوکاری ترک کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب وہ ٹی وی پر نعت خوانی کرتے نظر آتے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ رواں برس پاکستان میں میڈیا اور شو بزنس سے وابستہ شخصیات پر توہینِ مذہب کے مقدمے کا دوسرا واقعہ ہے۔
حال ہی میں گلگت بلتستان کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نجی ٹی وی جیو کے ایک پروگرام میں برگزیدہ مذہبی شخصیات کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہے جانے پر چینل کے مالک میر شکیل الرحمٰن، پروگرام کی میزبان شائشتہ لودھی، اداکارہ وینا ملک اور ان کے شوہر کو 26، 26 سال قید اور 13 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔