قرآن اور سنت ( حدیث )، اور قرآن اور سنت کی صحابہ اکرام اور تابعین ، تبع تابعین وغیرہ سے کی گئی تفسیر و وضاحت
قرآن 1400 سال قبل سے لے کر رہتی دنیا تک ہدایت کا منبع ہے اور ایک نہایت جامع کتاب ہے، اس کی درست تفہیم ،تفسیر و وضاحت ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی حدیث کی روشنی میں ہ اور صحابہ اکرام کے احوال وغیرہ سے ہی ممکن ہے
جب ایک دنیاوی علم کی کتاب استاد کے بغیر نہیں پڑھی جاتی تو ایک جامع ترین کتاب ، اس کے صحیح ترین جاننے والے کے بغیر کیسے سمجھی جا سکتی ہے؟
قران فہمی کا شاہکار تبصرہ ۔۔۔۔۔۔
سبحان اللہ
وہ سچی کتاب جسے اس کا بھیجنے والا انسانوں کے لیئے ہدایت قرار دے ۔ جس کے بارے اس کا فرمان ہو کہ ہے کوئی اسے یاد کرنے سمجھنے والا کہ قران آسان ہے ۔۔ اپنے حبیب کو فرمائے کہ " ترتیل سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔ اس میں غوروفکر کرو ۔
قرآن مجید کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ یہ ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ اس خطاب میں سوال و جواب ہیں، وعدے وعید ہیں، اوامر و نواہی ہیں۔ پڑھنے والے پر لازم ہے کہ قرآن کے پوچھے جانے سوالوں کے جواب اپنے ارد گرد سے تلاش کرے چاہے اسے اونٹ کی شکل و صورت بارے ہی کیوں نہ پوچھا جارہا ہو۔۔۔۔۔ اس کتاب کے سمجھانے اور حفاظت کی ذمہ داری اس کے نازل کرنے والی ہستی پر ہے ۔ یہ کسی " عقل انسانی " کی محتاج نہیں ہے ۔ ویسے بھی جو کتاب اپنی وضاحت کے لیئے عقل انسانی کی محتاج ٹھہرے وہ سچی و آسان کتاب کیسے ہو سکتی ہے ۔ یہ دنیاوی کتاب نہیں ہے جو کہ کسی منتشرالخیال مصنف کے قلم سے وجود میں آئی ہو ۔ اور وضاحت کے لیئے اس مصنف کی تشریع کی محتاج ہو ۔
سورت المزمل کی تلاوت کا شرف حاصل کرتے اس میں بیان ہوئے خطاب کو سمجھ لیں تو " وہ اک سجدہ جو ہزار سجدوں سے دیتا ہے نجات " کے مصداق اللہ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے ۔اور پھر قران پاک کا کسی دنیاوی کتاب سے تقابل کرنے کی غلطی سے بچاؤ ہوجاتا ہے ۔۔۔۔
ہماری بدقسمتی کہ " اقرا " خود سے پڑھنے کاحکم ہم بھول گئے ۔ اور ترجموں و تفسیروں میں الجھ " احادیث " کی چھانٹی میں مصروف ہو گئے ۔۔۔
الم ۔۔۔۔ ذالک الکتاب لا ریب فی ھدی للمتقین ۔۔۔۔ اس رکوع پہ ہی غور کرلیاجائے تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے ۔۔
اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو کہ قران پاک خود بیان کرتا ہے ۔ اس پر عمل کرنے والے ہی " متقی " قرار پاتے ہیں ۔
بہت دعائیں ۔