ابن رضا بھائی جو حدیث جنید نے پڑھی ہے اسکی روشنی میں آپ بتا سکتے ہیں کہ جنید نے کیا گستاخی کی ہے ؟
محترمہ و عزیزہ، کسی بھی بات کو بیان کرنے کا انداز بھی معنی خیز ہوتا ہے۔ جیسے اگر ہمارے دروازے پر کوئی دستک دے اور پوچھے کہ آپ کے والدِ گرامی گھر پر ہیں؟ اب اسی بات کو اگر وہ اس انداز سے کرے کہ کہاں ہے تیری ماں کا خاوند۔ اب دوسرا انداز اشتعال انگیز ہے تاہم بات ایک ہی۔
علاوہ ازیں ، میری رائے میں، اوپر جو حدیث آپ نے بیان کی ہے اس میں کہیں نہیں ہے کہ عورت ٹیڑی پسلی کی پیداوار ہے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی ۔ اس حدیث کو کم علمی کے سبب غلط سیاق و سباق اور پس منظر میں جوڑا گیا ہے۔ اور غلط انداز سے بیان کیا گیا ہے۔جس کا واعظ نے اعتراف کیا اور معذرت چاہی۔ میاں بیوی کی باہمی لطافت اور توجہ چاہنے کے حیلوں بہانوں کو فطری پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔
اسی فطری محبت کے حوالے سے ایک حدیث بھی سن رکھی ہے حوالہ
صحیح بخاری
کتاب النکاح
حدیث نمبر : 5228
کہ
ہم سے عبید بن اسما عیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ہشام نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا
میں خوب پہچانتا ہوں کہ کب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کب تم مجھ پر ناراض ہو جاتی ہو۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات کس طرح سمجھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو نہیں ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم! بیان کیا کہ میں نے عرض کیا ہاں اللہ کی قسم یا رسول اللہ! (غصے میں) صرف آپ کا نام زبان سے نہیں لیتی۔
واللہ اعلم