لیں جی ہم پورا دھاگہ پڑھ آئے.............لیکن یہ مکتب تو کب کا بند ہو چکا خاں صاحب........اگر عید کے بعد اسے باقاعدہ شروع کیا جائے.........اور محترم استاذہ جیہ خاتون اس سلسلہ میں حامی بھریں، تو یہ فقیر دلاوروں کی اس بولی کو سمجھنے کا مدت مدید سے شائق ہے.............
میرے بہت سے پٹھان شاگرد ہیں.........درہ آدم خیل اور وزیرستان سے.........لیکن وہ میٹرک ایف ایس سی کے بچے ہوتے تھے...........سکھانا تو ان کے بس کی بات نہ تھی.........بس چند جملے شوقیہ سیکھے تھے....................
جواب یہ آ رہا ہے.............app is currently unreachable۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لیں جی میں نے آپ کی اور دوسرے پشتو سیکھنے کے خواہشمند خواتین و حضرات کی سہولت کے لیے گوگل ڈرائیو پر ایک مکمل فولڈر اپلوڈ کر دیا ہے۔ امید ہے کہ آپ اور دوسرے لوگ اس سے استفادہ فرمائیں گے۔ شکریہ -
امید ہے کہ آپ اور دوسرے لوگ اس سے استفادہ فرمائیں گے اور میرے لیے انفرادی طور پر یا با جماعت ایک نیلی، سبز یا سرمئی آنکھوں والی پختون بیگم و بے غم کے حصول کے لیے گڑگڑا کے دعا فرمائیں گے۔ شکریہ و آمین -
جواب یہ آ رہا ہے.............app is currently unreachable۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
بار بار نیلی، سبز اور سرمئی آنکھوں کی بیگم کی طلب، بھوری آنکھوں والی خواتین کے خلاف ڈسکریمینشن کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اتنی ساری خواتین کو offend کرنے کے نتائج سے شائد آپ بے خبر ہیں۔
زیر استعمال تو chromeھی ہے........شاید پشتو سے ڈر گیا ہے سسٹم ابھی سےمیں نے ابھی ابھی گوکل کروم، فائر فاکس اور انٹرنیٹ ایکسپلورر پر پڑتال کر کے دیکھا ہے لیکن مجھے اس قسم کا کوئی پیغام نہیں ملا۔ آپ گوگل کروم کو استعمال کرکے دیکھیں شاید کچھ افاقہ ہو ۔
زیر استعمال تو chromeھی ہے........شاید پشتو سے ڈر گیا ہے سسٹم ابھی سے
زیر استعمال تو chromeھی ہے........شاید پشتو سے ڈر گیا ہے سسٹم ابھی سے
جو خواتین دل پہ لیتی ہیں وہ میرے پیغام کو سنجیدگی سے نہیں لیں گی۔
یہ گوگل میں سائن اِن کرنے سے تو نہیں ہوگا؟میرے پاس تو کروم میں کھل رہا ہے۔
یہ گوگل میں سائن اِن کرنے سے تو نہیں ہوگا؟
ہم کہاں ڈرتے ہیں خان صاحب.............یہ کیا بات ہوئی۔ آپ پشتو سیکھنا بھی چاہتے ہیں اور خود آپ اور آپ کا کروم پشتو سے ڈرتا بھی ہے۔
مرد محبت میں کم ہمدردی میں زیادہ ماراجاتا ہے - دوبوندیں آنسوؤں کی اسے دردبدرکردیتی ہیں
ایک بات اور بھی فاتح صاحب۔۔۔ آپ نے تو براہ راست عمیرہ احمد پر تنقید کی ہے، میں اس پوری برادری کے بارے میں تشکیک کا شکار ہوں جسے ہم ناول نگار یا رائٹر کا نام دیتے ہیں۔۔۔ سب نہیں، ان میں بہت سے اچھا لکھنے والے بھی ہیں جو بات کو سمجھتے اور سمجھاتے ہیں ۔۔۔ سبق آموز اقتباسات بھی ہوتے ہیں، اثر آفرینی بھی پائی جاتی ہے اور معقولیت سے بھی نہیں ہٹتے، تاہم ڈراموں میں اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معاف کرنے کی ترغیب نہیں پائی جاتی۔۔ ناولوں میں بھی یہی مسئلہ ہے۔۔۔ ایک شخص بیس سال بعد اپنی اولاد اور بیوی سے ملتا ہے اور ان سے معافی کا خواستگار ہوتا ہے تو سوچئے ڈائیلاگ کیا ہوں گے؟اس عمیرہ احمد نامی عورت کا لکھا ہوا ایک ڈراما دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا اور اس سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا وہ یہ تھا کہ یہ عورت سائکو ہے۔
مصنفہ نے اپنے قاری ہر عورت و مرد کے سامنے اک سادہ سا سوال رکھا ہے ۔زندگی میں جن چیزوں کو ایک عورت کبھی سمجھ نہیں پاتی اس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مرد جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو، آپ سے چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے کرتا ہو، وہ اچانک کسی اور کی محبت میں گرفتار کیسے ہو جاتا ہے....... کیسے ہو سکتا ہے؟ اخلاقیات نام کے ڈھیر میں سے کوئی ایک بھی اس کے لیے رکاوٹ کیوں نہیں بنتی۔
(اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "عکس" سے)
بشکریہ فیسبک ۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ویسے یہ شاید مرد بھی سمجھ نہیں پاتے کہ ایک دم سے جیسے وہ حور چاند اور جانے کون کون سے القابات سے نوازتے ہیں اور کن کن چیزوں سے تشبیہ دیتے ہیں وہ کسی دوسری عورت کے زندگی میں آنے سے ڈائن چڑیل اور جانے کیا کیا بن جاتی ہے۔ اس کے سارے عیب ساری خوبیوں کو کور کر دیتے ہیں۔ آنکھیں ہوتے بھی اندھا کیسے ہوجاتا ہے۔ جھوٹا کیسے بن جاتا ہے۔؟؟ یاں شاید مرد سمجھ پاتے ہیں ؟؟
مردوں کی برائی نہیں کر رہا ویسے یہ سوال تو ذہن میں آتا ہی ہوگا سب کے ۔۔۔ کیوں ؟؟
میں اپنی وہی بات یہاں دہرانا چاہوں گا۔۔۔ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔۔۔ ایک لاٹھی سے سب کو ہانکنا ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ سب خواتین اچھی نہیں ہیں، سب مرد برے اور ہرجائی نہیں ہیں۔۔۔ دین دار لوگ اور دنیا دار برابر نہیں ۔۔۔۔مرد اگر عورت کی شخصیت میں بہت کچھ پانا چاہتا ہے تو عورت کی بھی خواہشات ہیں ۔۔۔ آپ فرماتے ہیں عورت کی چاہے جانے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور وہ ذرا سی تعریف سے پگھل جاتی ہے۔۔۔ بندہ خدا ذرا سی تعریف کیا، عورتیں تو ایک نظر محبت سے دیکھ لینے پر بھی اسیر ہوسکتی ہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیجئے اور اثر ندارد۔۔۔ رتی بھر بھی یقین نہیں کریں گی آپ کی کسی بات کا۔۔۔ بس جو ذہن میں آگیا ہے، کرکے رہنا ہے۔۔۔ نہ سب عورتیں بے وقوف ہیں ، نہ سب مرد عقلمند ۔۔۔ مرد بھی عورت کے ہاتھوں بے وقوف بن سکتا ہے اور ہر روز بنتا ہے۔۔۔ ہاں یہ کہیے کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے اور چونکہ طاقت اور اختیار عورت کے ہاتھ میں نہیں ہے لہٰذا زیادہ تر اس کی بات مانی نہیں جاتی۔۔۔ اپنی من مانی کرکے اسے اذیت دی جاتی ہے اور اپنے ہی گھر میں بیٹے، شوہر اور بھائی کنیز بنا کر رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔ نہیں ہونا چاہئے۔۔۔مصنفہ نے اپنے قاری ہر عورت و مرد کے سامنے اک سادہ سا سوال رکھا ہے ۔
اور یہ سوال ہر دو اصناف کو اپنی شخصیت پر نگران ہونے پر مجبور کرتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔
آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کے باعث ہمیں چاہنے ہم پر جان دینے کا دعوی کرنے والی ہستی یکدم ہم سے متنفر ہوکر کسی دورے کی جانب متوجہ ہوجاتی ہے ۔ ؟
ہم کہاں کس مقام پر اپنے چاہنے والے کے معیار پر پورا اترنے سے ناکام رہے ۔۔۔ ؟
عورت مرد کی نسبت کہیں زیادہ چاہے جانے کی خواہش رکھتی ہے ۔ اور ذرا سی تعریف سے پگھل جاتی ہے ۔ اعتبار میں الجھ جاتی ہے ۔ یقین رکھتی ہے کہ اس کا مرد اس کی سیرت کا اسیر ہے ۔۔۔ ۔اور یہی سوچ اسے اپنی صورت کے بنانے سنوارنے سے غافل کر دیتی ہے ۔ اور مرد تو مرد ہے ۔ سیرت کے ساتھ ساتھ صورت پر بھی مکمل دھیان رکھتا ہے ۔ اور عورت کبھی یہ سوچ بھی نہیں پاتی کہ میرا ہر پل دم بھرنے والا کسی پل مجھ سے متنفر ہو کسی دوسری عورت کو اپنی حور اپنا چاند بنا بیٹھا ہے ۔۔۔ ۔۔
مصنفہ نے خواتین کواپنی ہستی باری سوچنے پر مجبور کیا ہے اس سوال سے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
مرد عورت کی شخصیت میں کیا کیا پانا چاہتا ہے ۔۔۔ اس کی تفصیل محترم منصور آفاق بھائی کی تازہ غزل میں موجود ہے ۔۔۔