جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے
دل مضطر وطن میں اب تجھے کیسے قرار آئے
خزاں کو حکم ہے داخل نہ طیبہ گلیوں میں
اجازت ہے نسیم آئے صبا آئے بہار آئے
وہ بستی اہل دل کی اور دیوانوں کی بستی ہے
گئے جتنے خرد نازاں وہ دامن تار تار آئے
جبیں ہو آستاں پر ہاتھ میں روزے کی جالی ہو
یہ لمحہ زندگی میں اے خدا پھر بار بار آئے
تعین مسجد و محراب کا طیبہ میں کیا ہوتا
جہاں نقش قدم دیکھے وہی سجدے گزار آئے
قلم جب سے ہوا خم نعت احمد ؐ میں ادیب اپنا
بہت رنگیں ہوئے مضموں بڑے نقش و نگار آئے
ادیب رائے پوری