محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
ادیبوں کی قلت ہے امت ہے پیاسی
زبانیں ہوئی جارہیں آج باسی
نگاہوں کی گہرائیاں گم ہوئیں سب
دل اہلِ اردو پہ چھائی اداسی
جو مجھ سے ہیں شاعر وہ یوں شعر کہتے
اکاسی ، بیاسی ، تراسی ، چراسی
اگر داد پالیں تو کہتے ہیں پھر وہ
پچاسی ، چھیاسی ، ستاسی ، اٹھاسی
نہ دادی سے اب سیکھتی کوئی پوتی
نہ نانی سے اب سیکھتی ہے نواسی
بنائی ہے یہ نظم دل کے قلم سے
نہ باتیں قیاسی ، نہ چالیں سیاسی
نہ گھبرانا طولِ تکلم سے میرے
بس اک بات سن لو مری تم ذراسی
الف عین صاحب بھی ہیں شیخِ اردو
تو ہیں دوسرے شیخ یعقوب آسی