جو وفا کا ارادہ تھا کیا اب نہیں؟ (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

نوید ناظم

محفلین
جو وفا کا ارادہ تھا کیا اب نہیں؟
وہ جو آنے کا وعدہ تھا کیا اب نہیں؟

تجھ کو ہر ایک پر اعتبار آتا تھا
دل! کبھی تُو بھی سادہ تھا کیا اب نہیں؟

ایک وہ دور تھا ہجر کا دکھ اُسے
دوست! مجھ سے زیادہ تھا کیا اب نہیں؟

ہو گی کوئی خوشی عمر کی ناؤ میں
یہ بھی سامان لادا تھا کیا اب نہیں؟

دوستو جس جگہ پھول کِھلتے ہیں اب
اس جگہ دشت زادہ تھا کیا اب نہیں؟
 

نوید ناظم

محفلین
باقی تو درست ہے۔ آخری شعر گلے سے نہیں اترا!!!
بہت شکریہ سر،
اس شعر میں تو یہ کہا تھا کہ آج جس جگہ پر پھول کھل رہے ہیں کل یہاں ایک دشت زادہ رہتا تھا، گویا یہ بھی ایک صحرا تھا۔ جو دشت میں رہنے والے ہی کی وجہ سے آباد ہو گیا، بہاریں آگئیں۔ تو جس کی وجہ سے یہاں پھول کھل رہے ہیں۔ جس نے صحرا کو آباد کیا تھا کیا وہ ہی اب یہاں پر نہیں ہے؟
معنوی مطلب یہ بھی تھا کہ جیسے ایک باپ دن رات محنت کر کے، اپنی زندگی کی خوشیاں قربان کر دیتا ہے مگراپنی اولاد کی زندگی کو کامیاب بناتا ہے، جب وہ اولاد کامیاب ہو جائے اور باپ بوڑھا ہو جائے تو وہ اس کا خیال نہیں رکھ پاتے، جو شخص صحرا کو گلشن کرتا ہے جب وہاں پھول کھلنے لگتے ہیں تو وہی شخص وہاں نظر نہیں آتا۔ اولڈ ہومز کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اور مطالب بھی تھے، کیا یہ شعرقبول نہ ہو گا؟
 

الف عین

لائبریرین
اس شعر کے ساتھ تم ہر جگہ جا سکو اور اس کی تشریح کرنے کے لیے موجود رہو تو قبول ہی نہیں بلکہ قابلِ داد ہے یہ شعر!!!!
 
Top