انٹرویو کا صحیح لطف تب آتا ہے جب سوال پڑھ کر اس نکتے پہ فوکس کیا جائے کہ کیا ہےنہ کہ اس نکتے پر کہ کیا ہونا چاہیے۔کیا ہونا چاہیے تو سائل کو اکثر پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے وہ سوال پوچھ کر اس کا متلاشی ہوتا ہے کہ اگلے میں کیا کیاہے۔
اس پہ ہمارے ایک کولیگ کا واقعہ یاد آیا وہ پہلے لڑکیوں کے اسکول میں پڑھاتے تھے ،کہنے لگے میں نے مختلف کلاسز میں پھر پھر کے سب لڑکیوں سے ان کے اپنے بارے میں اور فیملی کے بارے میں انٹرویو لیے اور آخر میں تنگ آکر ایک تقریر کی جس کا حاصل یہ تھا کہ جب آپ سب لوگ اور آپ کے باپ بھائی، ماں بہن اتنے اچھے ہیں تو معاشرہ بد سے بدتر کیوں ہوتا جا رہا ہے،یہ چوریاں ڈاکے وارداتیں کون لوگ ہیں جو کر رہے ہیں ،یہ گھریلوں نا چاقیاں اور طلاقیں کہاں ہو رہی ہیں ۔
اس لیے چاہیے یہ کہ مراسلوں کی حد تک تو کم از کم میک اپ سے گریز کیا جائے۔مثال کے طور پر ایک سوال کا جواب میں دیے دیتا ہوں۔