جہاد رحمت یا فساد؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
جہاد رحمت یا فساد؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم





تقریظ
امام المجاہدین حضرت اقدس مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہیدرحمہ اﷲ



سرور جو حق و باطل کے کارزار میں ہے
تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء و علی الہ و اصحابہ الا صفیاء اما بعد۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں انس و جن کو فقط اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
[ARABIC]وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورۂ ذاریات:56)
اور پھر ان کو بندگی کے طور طریقے بتلانے کے لئے دو سلسلے جاری فرمائے۔ ایک سلسلہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کی بعثت کا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد ہے:
[ARABIC]وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورہ الانبیاء:25)
اور دوسرا سلسلہ انزال کتب کا۔ جس کے ذریعے سے ہدایت اور بندگی کے احکام بتائے گئے۔ ہدایت کے یہ دونوں ذریعے قیامت تک کے لیے باقی رہیں گے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی اور آخری کتاب کو نازل کیا۔ اب نہ اس کے بعد کوئی پیغمبر آئے گا اور نہ کوئی کتاب نازل ہو گی۔
[ARABIC]مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَی ٍ عَلِیْمَا۔ [/ARABIC](سورہ الاحزاب:40)
حدیث میں ارشاد ہے:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسّکتم بھما کتاب اللہ وسنتی۔
یعنی اللہ کی کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے جو کتابیں نازل کی تھیں ان کی تعلیم و تفسیر بھی انبیاء علیہم السلام کے ذمہ تھی جن پر وہ کتابیں نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنے اقوال و اعمال کے ذریعے سے اس کی احکام کے تشریح کرتے تھے اور ہر ممکن اور جائز طریقے سے امت کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دیتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابوں کا نزول اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت تھی جس پر دنیا و آخرت کی کامیابی کا مدار تھا اور ہے جیسا کہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ مختلف اوقات میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بندوں کو ان کے حقیقی مولا اور مالک کی اطاعت فرمانبرداری اور بندگی کی دعوت دیں اور اس کی نافرمانی سے بچائیں۔ فرمانبرداروں اور ماننے والوں کو جنت اور ابدی کامیابی و کامرانی کی خوش خبریاں سنائیں اور نا فرمانوں اور نہ ماننے والوں کو جہنم و عذاب سے ڈرائیں۔
بندوں میں جو خوش نصیب اور سعید تھے انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی قدر کی اور دنیا کی آلائشوں اور خواہشات سے کنارہ کشی کر کے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے دامن کو مضبوطی سے تھاما اور اپنے اعمال و افعال اور حرکت اور سکون کو انبیاء علیہم السلام کے اشاروں کا تابع کر دیا اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے حوالے کیا جیسا کہ مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور جو بے وقوف بد نصیب اور بدبخت تھے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر نہیں کی اور دین پر عمل پیرا ہونا ان کے لیے شاق تھا اور حیوانات و چوپایوں کی طرح بے مہار زندگی گزارنا ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرا۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو عار و ذلت جانا اور خواہشات نفسانی و شیطان کی اطاعت کو عزت سمجھا۔
جس طرح مشفق مہربان ماں باپ اپنی نالائق اور نافرمان اولاد کی اصلاح و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے ہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شفقت و اہتمام کے ساتھ حضرت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے اپنے مشفقانہ اور مخلصانہ مواعظ اور نصائح سے امت کے ان نافرمان اور نالائق افراد کی تفہیم و اصلاح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسے حضرت نوح کا ارشاد اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے۔
[ARABIC]قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّنَھَاراًo فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآءِ یْٓ اِلَّافِرَاراًo وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَھُمْ جَعَلُوْآ اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْ اثِیَابَھُمْ وَ اَصَرُّ وْا وَا سْتَکْبَرُو اسْتِکْبَاراًo [/ARABIC]
(سورہ نوح :5،6،7)
جب انبیا علیہم الصلوٰۃ نصیحت کرتے کرتے تھک گئے اور ان سرکشوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر عذاب نازل فرمایا اور مخلصین و مومنین کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور منکرین کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا، کسی کو غرق کیا کسی کو زمین میں دھنسایا اور کسی پر آسمان سے پتھر برسائے، کسی پر زلزلہ بھیجا۔ کسی پر تیز ہوا مسلط کر کے ہلاک کیا اور کسی کو خنزیر و بندر بنایا۔ یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کے مختلف مظاہر تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل عذاب دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالی کے عذاب کا ظہور ہمیشہ کسی حجاب اور واسطے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو بھی اپنے دشمنوں کی ہلاکت کا حکم دیتے ہیں، وہ بے چون و چرا اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے جب دریا کو غرق کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو غرق کر دیتا ہے۔ جب زمین کو دھنسانے کا حکم دیتا ہے تو وہ دھنسادیتی ہے۔ جب ہواؤں کو پارہ پارہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ تعمیل کرتی ہے۔ اگر فرشتوں کو حکم ہوتا ہے تو وہ زمین کو اٹھا کر الٹا کر دیتے ہیں اور سرکشوں اور دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔
زمین میں جب سے سر کشی و بغاوت کا سلسلہ جاری ہے اسی وقت سے باغیوں کی سزا کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے، البتہ اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں یہ کشمکش جاری ہے اور جاری رہے گی بقول اقبال مرحوم۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
کسی ذی شعور سے بھی یہ مخفی نہیں ہے کہ عذاب و ہلاکت کا یہ سلسلہ عین حکمت اور مصلحت ہے پس جس طرح فرشتوں، ہواؤں، دریاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی ہلاکت عین مصلحت اور حکمت ہے جس پر بدبخت اور مجنون کے سوا کوئی معترض نہیں ہو سکتا۔ بعینہ اس طرح انبیا علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے متبعین اور ماننے والوں کے ہاتھوں کفار اور مکذبین و منکرین کی ہلاکت (بذریعہ جہاد) عین حکمت اور مصلحت ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے زمین و مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ کیونکہ جہاد و قتال میں بھی اللہ تعالی کے فرمانبردار بندے تو بطور آلہ کے استعمال ہوتے ہیں۔ اصل عذاب دینے والے اور قتل کرانے والے تو اللہ تعالی ہی ہوتے ہیں۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
قَاتِلُوْ ھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُم۔ (التوبہ آیت 14)
ترجمہ : ’’ان کافروں سے جہاد و قتال کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دیں گے۔‘‘
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ بندوں کے ہاتھوں جہاد و قتال کے ذریعے سے جو عذاب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو دیا جاتا ہے وہ حقیقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے بندے اس عذاب کے لیے صرف واسطہ ہوتے ہیں جس طرح قتل اور مار پیٹ عذاب وغیرہ کبھی فاعل سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے اور کبھی بندوق تلوار یا تیر و تفنگ کے واسطے سے اسی طرح عذاب الٰہی کا ظہور کبھی بلاواسطہ ہوتا ہے اور کبھی انسانوں اور فرشتوں یا دوسری مخلوق کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ارشاد ہے۔
وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال:17)
آپ نے نہیں پھینکی (کنکریاں) جب پھینکی اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھینکی۔ یعنی آپ صرف واسطہ تھے فعل اللہ تعالیٰ کا تھا۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہے:
[ARABIC]وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یّصِۡیبَکُمُ اﷲ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا۔[/ARABIC](سورہ توبہ:52)
یعنی ہم منتظر ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی تم کو براہ راست اپنی طرف سے عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں کے ذریعے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ جہاد و قتال کے ذریعے سے کفار کو جو عذاب دیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے بندوں کے ہاتھ اس میں بندوق و تلوار کی طرح صرف واسطہ ہوتے ہیں۔ سورہ الانفال میں اسی بات کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ۔ (الانفال:17)
یعنی ان کفار کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی نے انہیں قتل کیا۔ اب ان آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو جہاد کو فساد و ہلاکت اور بربادی سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے اس قول کی زد خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس پر پڑتی ہے لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے افعال کو (چاہے وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ) فساد کہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے بلکہ میرے ناقص خیال میں تو یہ آتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی پس و پیش کے توبہ کر کے احتیاطاً تجدید ایمان و نکاح کرنا چاہیے۔
کیونکہ آیات سے معلوم ہوا ہے کہ جہاد میں قتل و قتال اللہ تعالیٰ ہی کراتے ہیں بندہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے واسطہ اور آلہ ہوتا ہے۔ کماقیل۔
فانت حسام الملک واللہ ضارب
وانت لواء الدین واللہ عاقد
آج کے اس نام نہاد مہذب دور میں بھی بلا استثناء دنیا کے تمام ممالک میں حکومت و سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور تمام دساتیر عالم میں اس کی سزا موت ہے اور اس کو کوئی فساد و بربادی ملک سے تعبیر نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو عین حکمت و مصلحت اور حکومت و سلطنت اور ملک کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دشمن اور باغی ہوتے ہیں ان کے ساتھ قتال و تعارض کو فساد کہتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور دین حق کی حفاظت کے حاسے سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔
وہ لوگ جو یورپ زدہ اور مغربی علوم سے مرعوب تھے جیسے سرسید اور ان کے اتباع انہوں نے بھی یکسر جہاد کا انکار نہیں کیا اور نہ اس کو شرو فساد قرار دیا البتہ اقدامی جہاد کا انکار کیا۔ اگرچہ دین میں اقدامی اور دفاعی دونوں طرح کے جہاد ثابت ہیں لیکن آج اگر پوری دنیا پر آپ نظر ڈالیں تو اقدامی جہاد کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی اسے قائم و جاری فرمائے آمین آج کل تو مسلمان مجبور و مقہور ہیں چاہے وہ افغانستان و فلسطین ہو یا کشمیر و برما اور بوسنیا ہو اب تو جہاں بھی مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں صرف اپنی حفاظت کے لیے ہیں جو لوگ اس کو بھی فساد قرار دیتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کس قسم کے مسلمان ہیں اور وہ ہمیں کس رہبانیت و عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شروفتن سے ہمیں محفوظ رکھے۔ (آمین)
قتال فی سبیل اللہ دین کے اعلاء کا واحد ذریعہ ہے جس کے ہم سب مامور ہیں اگر قتال و جہاد کے علاوہ دین کے اعلاء و حفاظت کا اور کوئی ذریعہ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار فرماتے اور صحابہ اس کے مطابق عمل کرتے لیکن جب خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا حکم دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس کو اختیار کیا اور تاقیامت اس کو باقی رکھنے اور رہنے کا حکم اور مژدہ سنایا یہاں تک کہ اس دنیا کے آخری اور سب سے بڑے فتنے دجال کا قلع قمع بھی جہاد ہی کے ذریعے سے ہو گا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ عین حکمت و مصلحت کا ہے کیونکہ اللہ تعالی شرو فساد کو پسند نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالی کے نیک بندے فساد میں حصہ لیتے ہیں اس لیے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو شر و فساد سمجھنا اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اولیاء امت و صلحاء اسلام کو فسادی قرار دینا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص دعوی اسلام و ایمان کے ساتھ اس قسم کی بات کا تصور بھی کر سکتا ہے۔
بندہ نے اخی فی اللہ محبی و محبوبی حضرت مولانا محمد مسعود اظہر صاحب دامت برکاتھم کا رسالہ ’’جہاد رحمت یا فساد‘‘ اول سے آخر تک دیکھا۔ ماشاء اللہ الحمد للہ انہوں نے بہت فاضلانہ اور مجہتدانہ طرز سے اس شُبہے کا ازالہ کیا ہے۔
بندہ مولانا موصوف کے کمالات و اخلاص اور دینی درد کا پہلے سے معتقد تھا لیکن اس رسالے کے دیکھنے سے اس میں دو چند وسہ چند اضافہ ہوا۔ اللھم کثر فینا امثالہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل صحت و جوانی میں برکت عطا فرمائے اور ان کی اس تحریر کو امت کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
نظام الدین شامزی 7 ربیع الثانی 1413ھ

جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تقریظ
حضرت مولانا فضل محمد صاحب مد ظلہ العالی
استاذِ حدیث​
جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نمبر 5

( 1 ) کسی چیز پر فساد یا غیر فساد کاحکم انسان اپنی طرف سے نہیں لگا سکتا ہے۔ انسانی طبائع چونکہ مختلف واقع ہوئی ہیں۔ اس لیے ایک ہی چیز کسی کی طبیعت میں فساد معلوم ہوتی ہے کسی کی طبیعت میں غیر فساد۔
(2) بسا اوقات ایک کام بظاہر فساد معلوم ہوتا ہے اور اس کی ظاہر صورت فساد کی ہوتی ہے لیکن اس کی حقیقت میں عظیم رحمت پنہاں ہوتی ہے۔ لہذا کسی چیز پر فساد یا رحمت کا فیصلہ انسان کی ظاہر بینی یا طبیعت کا کام نہیں ہے۔ بلکہ اس کو آسمانی شریعت پر چھوڑنا لازم ہے۔ ورنہ ظاہر بین انسان بہت ساری چیزوں پر فساد کا حکم لگا کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ مثلا (1) معصوم بچے کا ختنہ بھی بظاہر ایذا رسانی اور فساد ہے، اس کو بھی چھوڑ دو (2) چور کا ہاتھ کاٹنا بھی فساد ہے اس کو بھی ترک کر دو (3) ڈاکو، رہزن کو سولی پر لٹکانا بھی فساد ہے۔ (4) زانی غیر محصن کو کوڑے مارنا اور محصن کو سنگسار کرنا بھی فساد ہے اسے بھی چھوڑ دو۔ (5) زچگی کے وقت اگر بچہ پیدا نہیں ہو سکتا تو فقہاء نے پیٹ کے کاٹنے کا حکم دیا ہے یہ بھی فساد ہے اس کو بھی چھوڑ دو تاکہ زچہ و بچہ دونوں مر جائیں۔ (6) مردہ عورت کے پیٹ میں بچہ تڑپتا ہے تو پیٹ چاک کر کے بچہ نکالنا بھی فساد ہے۔ اس کو بھی ترک کر دو تاکہ بچہ اندر ہی اندر مر جائے۔ (7) معصوم بچی کے کان اور ناک چھیدنا بھی فساد ہے، اسے بھی ترک کر دو۔ (8) سانپ ڈنگ مارنے آ رہا ہے اسے قتل کرنا بھی فساد ہے۔ اس کو بھی چھوڑ دوں کہ جہاں پر چاہے ڈنگ مارے۔ (9) گائے کے ذبح کرنے کو بھی بہت سے لوگ فساد سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی باز آ جاؤ۔ (10) بقر عید میں کثیر تعداد میں جانورو کی جان جاتی ہے یہ بھی فساد ہے اسے بھی چھوڑ دو۔ (11) کوڑے لگا کر عوام کے سامنے رسوا کرنے میں بھی فساد ہے یہ بھی نہ کرو، پاک دامن عورت کو غلیظ گالی بکنے والے اور بہتان باندھنے والے کو 80 کوڑے سرعام لگانا بھی فساد ہے اسے بھی چھوڑ دو۔ اسی طرح مختلف طبائع اور آراء کا لحاظ کر کے دین متین سے چھٹی ہو جائے گی۔ نہیں بھائی یہ ہمارا دین ہے اس دین نے ہم کو کچھ اصول دئیے ہیں اور ہم کو اس کا پابند بنایا ہے۔
من معشر سنت لھم ابائھم، ولکل قوم سنتہ وامامھا
اسی موضوع پر اخونا المحترم العالم الفاضل حضرت مولانا محمد مسعود اظہر صاحب نے ’’جہاد رحمت یا فساد‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب تالیف فرمائی ہے جو انتہائی سلیس عام فہم مضمون، مسلسل مدلل اور علمی نکات پر مشتمل ہے اللہ تعالی اس مرد مجاہد کو اجر جزیل عطا فرمائے اور اس کتاب کو نافع عام و خاص بنائے۔ آمین
فضل محمد عفی عنہ بنوری ٹاون، کراچی نمبر 5
10 ربیع الثانی 1413ھ
*.....*.....*
 

گرو جی

محفلین
بھائی مولانا اظہر مسعود تو ویسے ہی متنازہ شخصیت ہیں‌ جیش محمد کی وجہ سے لہذا ایسے اشخاص کی باتیں‌ مت بیاں‌کریں ورنہ لوگ فوراً ذاتیات پر اتر آہیں‌گے
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم


جہاد رحمت یا فساد؟

ایک شُبہ کا ازالہ​

جہاد کے متعلق ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ جہاد قتل و غارت اور دنگے فساد کا نام ہے، اور بہت سے کافر صرف اسی لیے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے کہ اس میں جہاد کا حکم موجود ہے۔ مستشرقین نے بھی اس بات کو خوب اڑایا ہے کہ اسلام میں جبرو تشدد اور ظلم و ستم بہت زیادہ ہے اور اسلام جبری بھرتی کا قائل ہے۔ مستشرقین کے اس قسم کے اعتراضات سے گھبرا کر مسلمانوں میں سے بعض مصنفین اور سیرت نگار حضرات نے جہاد کے سلسلے میں انتہائی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے اور اسلامی فتوحات، غزوات اور سرایا کو فخر سے بیان کرنے کی بجائے شجاعت و قربانی کی ان داستانوں کو بہت شرمساری اور ندامت کے ساتھ بیان کیا ہے اور جگہ جگہ صفائی پیش کی ہے کہ سخت مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا وگر نہ اسلام میں تلوار و تیر کا کیا دخل؟
جب کہ ہمارے اکابر نے اپنی تصانیف میں اور سیرت کی کتب میں غزاوت و سرایا کو بڑے ہی شاندار انداز میں پیش فرمایا ہے اور صحابہ کرام کی شجاعت اور قربانی کی داستانوں کو تاریخ اسلام کے لیے بطور فخر اور نمونے کے پیش کیا ہے بلکہ بعض اکابر نے تو اس موضوع پر مستقل تصانیف بھی فرمائی ہیں اور عزم و ہمت کے نشانوں کو تاریخ کے تابندہ نقوش بنا دیا ہے ہم ذیل میں شرعی اور عقلی دلائل کے تناظر میں مختصر طور پر اس اہم موضوع پر گفتگو کریں گے۔ اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو جہاد کے اہم اور قطعی فریضے کو زندہ کرنے کی اور اس فریضے کی برکات کو اور رحمتوں کو پوری دنیا میں عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمارا دعوٰی
اہل اسلام کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ جہاد اللہ رب العزت کی طرف سے ایک عظیم الشان رحمت ہے اور اس رحمت کے ذریعے سے اللہ کی زمین اور یہ پورا عالم باقی ہے اور اگر جہاد نہ ہو تو یہ زمین تباہ و برباد ہو جائے اور پورے عالم میں فساد برپا ہو جائے۔ نہ مساجد کا تقدس باقی رہے اور نہ ہی خانقاہیں اور مدرسے تباہی سے بچ سکیں بلکہ ظلم و ستم کا ایسا دور دورہ ہو جائے کہ کسی بھی مذہب کا پیرو کار سکون کی زندی نہ گزار سکے۔
اہل اسلام کا یہ دعوی قرآن مجید کی ان قطعی آیات و دلائل پر مکمل یقین کی بناء پر ہے۔

پہلی دلیل واپس​
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیْعٌ وَّصَلَوٰاتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اﷲِ کَثِیْرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo
(سورہ حج آیت نمبر 40)

ترجمہ: ’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالی ہمیشہ سے لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاتھ سے زور نہ گھٹواتا رہتا یعنی اہل حق کو اہل باطل پر وقتاً فوقتاً غالب نہ کرتا رہتا تو اپنے اپنے زمانوں میں نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی وہ مسجدیں جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے، سب مہندم اور منعدم ہو گئے ہوتے۔‘‘
(معارف القرآن ص 259 ج ۔ 6)
یعنی حق اور باطل کے آپس کے ٹکراؤ ہی کی وجہ سے عبادت گاہیں باقی رہیں اور باقی ہیں۔اگر یہ سلسلہ بند ہو جائے تو پھر اللہ کی زمین پر اللہ کا نام لینے والا بھی نہ رہے اور یہی الفاظ حضور علیہ السلام نے حق و باطل کے پہلے فیصلہ کن معرکے بدر کے دن جنگ شروع ہونے سے قبل دعا میں ارشاد فرمائے کہ یا اللہ اگر یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہو گئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔
یعنی اگر کسی وقت اور کسی حالت میں بھی ایک جماعت کو دوسری جماعت سے جنگ کی اجازت نہ ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے قانون فطرت کی سخت خلاف ورزی ہو گی کیونکہ قانون فطرت ہے کہ ہر کسی کو دوسرے کے مقابلے میں اپنی ہستی برقرار رکھنے کے یے جنگ کرنا پڑتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا اور نیکی کو اللہ تعالیٰ بدی کے مقابلے میں کھڑا نہ کرتا تو نیکی کا نشان باقی نہ رہتا۔ بد دین اور شریر لوگ جن کی ہر زمانہ میں کثرت رہی ہے، تمام مقدس مقامات اور عبادت گاہوں کو مٹا دیتے ۔
دوسری دلیل​
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اﷲ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo (بقرہ آیت نمبر 251)

ترجمہ و خلاصہ تفسیر: اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ تعالیٰ بعض آدمیوں کو جو کہ مفسد ہوں بعضوں کے ذریعے سے (جو کہ مصلح ہوں وقتاً فوقتاً) دفع کرتے رہتے ہیں۔ (یعنی گر مصلحین کو مفسدین پر غالب نہ کرتے رہتے) تو سرزمین (تمام تر) فساد سے پر ہو جاتی لیکن اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں، جہاں والوں پر (اس لیے وقتاً فوقتاً اصلاح فرماتے رہتے ہیں)۔ (بیان القرآن)
اہم نکتہ​
اس آیت کریمہ کے سیاق و سباق اور شان نزول پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے کچھ عرصہ بعد حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کے زمانے میں بنی اسرائیل کی نیت بگڑی تب روئے زمین کا ظالم کافر جالوت نامی بادشاہ ان پر مسلط ہوا، اس ظالم بادشاہ نے قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا تھا، لوگوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیاتھا اور ان کی اولاد کو قید و بند کی صعوبتوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اس وقت کے مظلوم لوگوں نے اس ظلم و فساد سے نجات کے لیے وقت کے نبی حضرت اشموئیل علیہ السلام سے کہا کہ ہمارے لیے کسی امیر کو مقرر فرمائیے تاکہ اس کی قیادت میں ہم ظالم بادشاہ جالوت سے جہاد کریں اور ظلم سے نجات پائیں۔ پیغمبر نے فرمایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر قتال کا حکم نازل فرما دے اور تم لڑنے سے انکار کر دو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم کیسے نہیں لڑیں گے جب کہ ہمیں اپنے گھروں اور بیٹوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ پھر اللہ رب العزت نے ان پر لڑائی کو فرض کیا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے اکثریت نے انکار کر دیا۔ بہرحال ان کے نبی نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنایا ہے، تم ان کی قیادت میں جہاد کا مبارک عمل کر کے ظلم سے نجات پاؤ۔
حضرت طالوت غریب اور محنتی آدمی تھے۔ لوگوں کو ان کی بادشاہت پر اعتراض ہوا کہ ہمارا بادشاہ تو کوئی مالدار اور حسب نسب والا ہونا چاہیے۔ پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ پاک نے طالوت ہی کو بادشاہت کے لیے پسند فرمایا ہے اور انہیں علمی و جسمانی طور بھی تم پر فوقیت دی ہے اور اللہ پاک قادر ہے کہ جسے چاہے امارت کے لیے منتخب فرما دے۔ قصہ طویل ہے۔ المختصر یہ ہے کہ طالوت اپنی فوج کو مختلف آزمائشوں سے گزارتے ہوئے جب جالوت کے ٹڈی دل لشکر کے سامنے لائے تو صرف تین سو تیرہ افراد بچ گئے تھے باقی مختلف امتحانوں میں ناکام ہو کر اور مختلف حالات سے گھبرا کر پیچھے رہ گئے تھے لیکن اللہ رب العزت تو کثرت اور قلت سے بے نیاز ہے۔ وہ تو اپنے بندوں میں کھرے اور کھوٹے کو پہچاننے کے لیے جہاد کے میدان میں آنے کا حکم دیتا ہے اور پھر جتنے لوگ بھی پہنچ جاتے ہیں اللہ رب العزت انہیں فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ حضرت طالوت کا یہ مختصر لشکر جالوت کے طاقتور اور مضبوط لشکر کے مقابلے میں آن کھڑا ہوا۔ مقابلے کے لیے خود جالوت اکڑتا ہوا نکلا، ادھر سے طالوت نے ایک چھوٹے بچے، جو کل نبوت کا تاج پہننے والے تھے یعنی حضرت داؤد کو جالوت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ جالوت یہ کہہ رہا تھا کہ میں اکیلا کافی ہوں تم سب کے لیے مگر حضرت داؤد کے پھینکے ہوئے پتھر نے اس ظالم سرکش کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ظلم سے بنی اسرائیل کو نجات ملی اور اللہ کی زمین پر پھر امن و امان قائم ہو گیا۔
اس واقعہ کے بعد اللہ رب العزت یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر حق و باطل کے ٹکراؤ کا یہ سلسلہ نہ ہوتا تو پھر زمین تباہ ہو جاتی، مگر اللہ رب العزت جہان کے لوگوں پر بہت مہربان ہے اور وہ باطل کے ساتھ حق کو ٹکرا دیتا ہے۔ اور باطل کی نحوست سے پورے عالم کو بچا دیتا ہے اور حق کو غلبہ عطا فرما کر دوسرے لوگوں کے لیے حق پر آنے کی راہ کو ہموار فرما دیتا ہے اور اس وقت یہ ضروری نہیں ہوتا کہ باطل کی دندناتی ہوئی طاقت کے سامنے حق بھی بہت مضبوط اور طاقتور ہو اور باطل کی قوت کے مساوی یا زیادہ قوت اس کے پاس ہو، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ حق والے ہمت کر کے نکلیں اور باطل سے ٹکرانے کا فیصلہ اللہ پاک کے بھروسے پر کر لیں خواہ وہ کتنے ہی تھوڑے اور کمزور کیوں نہ ہوں۔ جیسا کہ طالوت کے ساتھ صرف تین سو تیرہ افراد نکلے اور اللہ رب العزت نے انہیں جالوت کے بے انتہا طاقتور لشکر پر غلبہ دیا اور جالوت جیسے طاقتور کو ایک کمزور بچے حضرت داؤد کے ذریعے سے ہلاک کروا دیا۔
اسی طرح اللہ رب العزت نے بدر کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو جو کہ بہت ہی تھوڑی تعداد اور بغیر تیاری کے تھے قریش مکہ کے مضبوط طاقتور اور بڑے لشکر پر فتح دی اور ابو جہل جیسے فرعون کو دوبچوں کے ہاتھوں تڑپا دیا۔ یہ دو بچے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معوذ رضی اللہ تعالی عنہ تھے اور قریش کے اس متکبر اور جابر سردار کی گردن کاٹنے کا شرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا جو کہ دنیاوی اعتبار سے نہ وجاہت رکھتے تھے اور نہ کسی بڑے خاندانی شرف کے حامل تھے۔ بدر کے میدان میں نہتے مسلمانوں کے ہاتھوں ان مفسدین کو ہلاک کروا دیا جن کی وجہ سے پورا حجاز ظلم و جہالت اور کفر و شرک میں جکڑا ہوا تھا مگر جب یہ ستر کافر مردار ہو گئے تو پھر اسلام کی راہیں کھل گئی اور اسلام کے عادلانہ نظام نے حجاز ہی نہیں بلکہ دنیا کے اکثر حصے پر امن و سکون کی شمعیں فروزاں کر دیں۔
ایک اٹل حقیقت​
ان آیات کے ذیل میں حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں۔
جالوت کا لشکر بھاگا اور مسلمانوں کو فتح ہوئی پھر طالوت نے حضرت داؤد ں سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا اور طالوت کے بعد حضرت داؤد بادشاہ ہوئے اس سے معلوم ہو گیا کہ حکم جہاد ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور اس میں اللہ کی بڑی رحمت اور احسان ہے۔ نادان کہتے ہیں کہ لڑائی نبیوں کا کام نہیں۔ (تفسیر عثمانی ص69)
ایک دلچسپ عقلی نکتہ​
زمین اگر بنجر ہو جائے تو تین کام کیے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے اچھی طرح ہل چلایا جاتا ہے۔ فاضل جڑی بوٹیوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر خوب کھاد ڈالی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر بیج بویا جاتا ہے تو زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے اور خوب پھل پھول اگتے ہیں۔
اسی طرح جب اللہ کی زمین پر کفرو شرک اور ظلم و زیادتی کا فساد برپا ہو جاتا ہے تو پہلے جہاد و قتال کا ہل چلایا جائے پھر کافروں کے غلیظ خون کو بطور کھاد کے زمین میں ڈالا جائے اور یہ تجربے کی بات ہے کہ کھاد جس قدر زہریلی ہو اسی قدر زمین میں قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جس قدر زیادہ خطرناک اوراسلام دشمن کافروں کا خون زمین میں ڈالا جائے گا اسی قدر زمین بہتر ہوگی پھر بطور بیج کے مسلمانوں کا اپنا خون چھڑ کا جائے یعنی شہداء کا مبارک خون اس میں پڑے گا تو اسلام پھیلے گا پھولے گا اور ایمان کا شجر طیب تناور ہوتا چلا جائے گا۔
تیسری دلیل​
زمین پر فساد برپا ہونے کا ایک بڑا سبب وہ فتنے ہیں جن کو قرآن مجید نے قتل سے زیادہ سخت قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ۔
(البقرہ آیت نمبر 217)

’’اور لوگوں کو دین سے بچلانا قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘
قرآن مجید میں جگہ جگہ فتنوں کی مذمت کی گئی ہے اور کافروں کا شیوہ یہ بتلایا گیا ہے کہ وہ فتنے برپا کرتے ہیں۔
اور قرآن مجید نے ان لوگوں کا جن کے دلوں میں کجی اور کھوٹ ہے یہ شیوہ بتلایا ہے کہ وہ قرآنی آیات میں فتنے تلاش کرتے ہیں۔
(آل عمران آیت نمبر 7)
اور یہی فتنے انسانوں کے درمیان افتراق و انتشار کا باعث بنتے ہیں اور ایک ایک فتنے کی وجہ سے علاقوں کے علاقے تباہ ہو جاتے ہیں اور خلق خدا گمراہی کے گڑھوں میں جا گرتی ہے اور جہاد ان تمام فتنوں کا علاج ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ آیت نمبر 193)

ترجمہ : ’’اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد اور حکم رہے اللہ تعالیٰ ہی کا۔‘‘
(ترجمہ حضرت شیخ الہند)
یعنی جہاد کا مقصد ہی یہ ہے کہ ظلم و فساد دور ہو اور کافر کسی کو دین سے گمراہ نہ کرسکیں اوراللہ پاک کا قانون دنیامیں جاری ہو جائے جو کہ قانون فطرت ہے اور دنیا کو اس قانون کی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح کہ بنجر زمین کو پانی کی ضروت پڑتی ہے۔ اسی لیے اگلی آیات میں ارشاد فرمایا کہ اگر یہ لوگ کفر و شرک سے باز آجائیں تو پھر ان پر زیادتی کی گنجائش نہیں۔ جہاد کا عمل صرف اور صرف فتنے فساد اور بدی کو ختم کرنے کے لیے ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا یہ تاریخی جملہ نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں۔
’’ہاں جو فتنے سے باز نہ رہیں ان کو شوق سے قتل کرو۔‘‘ (تفسیر عثمانی ص 51)
تو جہاد کا مقصد کسی قدر عالی اور عظیم الشان ہے۔ اسی طرح سورہ انفال میں ارشاد ربانی ہے۔
وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ
(سورہ الانفال:39)

ترجمہ : ’’اور لڑتے رہو ان سے یہاں تک کہ نہ رہے فساد اورہو جائے حکم سب اللہ کا۔‘‘ (ترجمہ شیخ الہند 314)
تشریح : یہ جہاد کا آخری مقصد ہے کہ کفر کی شوکت نہ رہے، حکم اکیلے خدا کا چلے۔ دین حق سب ادیان پر غالب آجائے۔ (لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ) خواہ دوسرے باطل ادیان کی موجودگی میں جیسے خلفائے راشدین وغیرھم کے عہد میں ہوا، یا سب باطل مذاہب کو ختم کرکے، جیسے نزول مسیح کے وقت ہوگا۔ بہرحال یہ آیت اس کی واضح دلیل ہے کہ جہاد و قتال خواہ اقدامی ہو یا دفاعی، مسلمانوں کے حق میں اس وقت تک برابر مشروع رہے گا۔ جب تک یہ دونوں مقصد حاصل نہ ہو جائیں۔ (تفسیر عثمانی ص 314)
قرآن مجید کو اللہ رب العزت نے شفا اور رحمت بنا کر اتارا ہے۔ قرآن مجید نے فتنوں کا علاج قتال تجویز فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال میں شفاء بھی ہے رحمت بھی رحمت کا تذکرہ تو مذکورہ بالا آیات میں ہوگیا جبکہ قتال کا دلوں کے لیے شفاء ہونا بھی قرآن مجید میں صراحتاً مذکور ہے۔ ملاحظہ فرمایئے ارشاد باری تعالیٰ جس میں قتال کے چھ فائدے مذکور ہیں۔
قَاتِلُوْھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اﷲ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِھِمْ وَ یَنْصُرْکُمْ عَلَیْھِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَo وَیُذْھِبْ غَیْظَ قُلُوْبِھِمْ ط وَ یَتُوْبُ اﷲُ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ ط وَاﷲُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌo
(توبہ، آیت 14،15)

ترجمہ : ’’لڑو ان سے تاکہ عذاب دے اللہ پاک ان کو تمہارے ہاتھوں سے، اور انہیں رسوا کرے، تمہیں ان پر غالب کرے اور ٹھنڈے کرے دل مسلمانوں کے،اور نکالے ان کے دلوں کی جلن اور اللہ پاک جس کو چاہے گا توبہ نصیب کرے گا اور وہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
ایک اہم نکتہ​
قرآن مجید نے قتل و غارت گری سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اس کی سزا دائمی طور پر جہنم کا ٹھکانہ قرار دی ہے۔
وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اﷲ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاعَدَّلَہٗ عَذَاباً عَظِیْماًo
(نساء آیت نمبر 93)

ترجمہ: ’’اور جو کوئی قتل کرے مسلمان کو جان کر تو اس کی سزا جہنم ہے ہمیشہ کے لیے اور اللہ کا اس پر غضب ہو گا اور لعنت۔ اور اس کے واسطے اللہ پاک نے بڑا عذاب تیار کیا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں تو مسلمانوں کے قتل کی وعید ہے جب کہ دوسری آیت میں کسی بھی ناحق جان کو قتل کرنا گویا کہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْساً م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا۔
(سورۃ المائدہ۔ آیت 32)

ترجمہ: ’’جو کہ قتل کرے ایک جان کو بلا عوض جان کے بغیر فساد کرنے کے ملک میں تو گویا قتل کر ڈالا اس نے سب لوگوں کو۔‘‘
تشریح : کیونکہ ایک آدمی کے قتل و غارت گری کرنے سے دوسروں کو بھی یہ راستہ معلوم ہو جاتا ہے اور اس کی ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال قرآن مجید نے سختی کے ساتھ قتل وغیرہ سے منع فرمایا ہے۔ مگر بعض جرائم معاشرے کی تباہی و بربادی میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو خطرناک کینسر جسے نہ کاٹا جائے تو پورا بدن اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسانی معاشرے سے ان جرائم اور خرابیوں کو نہ کاٹا جائے تو پورے معاشرے کی بربادی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے بہت سے فتنوں کا واحد علاج قتال کو قرار دیا۔ تو جب یہ قتال بطورِ علاج کے ہوگا تو اب اس میں قباحت نہیں رہے گی، بلکہ یہ رحمت بن جائے گا کیونکہ اس کی بدولت پوری انسانیت غلیظ اور مہلک امراض سے بچ جائے گی۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ پہلے اس مرض اور فتنے کی قباحت اور شناعت کو بیان کرتا ہے، اس کی خرابیوں اور تباہ کاریوں سے پردہ ہٹاتا ہے پھر قتال کے ذریعہ سے اس کے مکمل خاتمہ کا یا اس حد تک خاتمے کا کہ وہ امن و سلامتی کی راہ میں رکاوٹ نہ رہے، حکم دیتا ہے۔
فتنوں کے خاتمے کے لیے قرآن مجید کی طرف سے قتال کے حکم اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس پر کامیاب عمل کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
 
مشرکین کے ساتھ قتال کاحکم
قرآن مجید نے مشرکین کے ساتھ قتال کا حکم دیاہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ توبہ آیت نمبر36۔ ارشاد ربانی ہے۔
وَقَاتِلُو الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً ط وَاعْلَمُوْٓااَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَo (سورہ توبہ۔ آیت 36)

ترجمہ : ’’اور لڑو سب مشرکوں سے ہر حال میں جیسے وہ لڑتے ہیں تم سب سے ہر حال میں اور جان لو کہ اللہ ساتھ ہے تقوی والوں کے۔‘‘
کفر کے سرداروں کو قتل کرنے کا حکم
اسی طرح قرآن مجید نے کفر کے سرداروں سے قتال کا حکم دیا کیونکہ فتنے کی جڑ یہی کفر کے سردار ہوتے ہیں جبکہ ان کے متبعین ان کی اندھی تقلید کرکے فتنے برپا کرتے ہیں۔ اگر کفر کی جڑ کو ختم کر دیا جائے تو پھر کفر زیادہ دن تک نہیں رہ سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں۔
وَاِنْ نَّکَثُوْآ اَیْمَانَھُمْ مِّنْم بَعْدِ عَہْدِھِمْ وَطَعَنُوْا فِی دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِلااِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَo (سورۃ توبہ آیت 12)

ترجمہ : ’’اگر وہ توڑ دیں اپنی قسمیں عہد کرنے کے بعد اور عیب لگائیں تمہارے دین میں تو لڑو کفر کے سرداروں سے، بیشک ان کی قسمیں کچھ نہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔
اہل کتاب سے قتال کا حکم
قرآن میں اہل کتاب سے جہاد و قتال کا صریح حکم موجود ہے دیکھئے۔
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِااﷲِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا یُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍوَّھُمْ صَاغِرُوْنَo
(سورۃ توبہ۔ آیت 29)

ترجمہ : ’’لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور نہ حرام جانتے ہیں اس کو جس کو حرام کیا اللہ نے اور اس کے رسول نے اور نہ قبول کرتے ہیں سچا دین۔ ان لوگوں میں سے جو اہل کتاب ہیں یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے ذلیل ہو کر۔‘‘
گستاخان رسول سے قتال کا حکم
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرنے والے بدزبانی کرنے والے اور ایذا پہنچانے والے کافروں سے قتال کا حکم دیا۔
مَلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاًo (سورہ احزاب آیت نمبر 61)

ترجمہ : ’’یہ لوگ ملعون ہیں (پھٹکارے ہوئے ہیں) جہاں پائے جائیں پکڑے جائیں اور مارے جائیں جان سے۔
یہ تو کافروں، مشرکوں اور اہل کتاب، گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ سے قتال کے قرآنی احکامات تھے جن کی صرف ایک جھلک پیش کی گئی جس سے یہ اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے کہ قرآن مجید نے فتنوں کے قلع قمع کا بہترین ذریعہ قتال کو قرار دیا ہے۔
ظالموں سے قتال کا حکم
اگر تھوڑا سا اس سے آگے بڑھیں تو قرآن مجید میں ان مسلمانوں سے بھی قتال کا حکم موجود ہے جو دوسرے مسلمانوں کے خلاف خوامخواہ کی بغاوت کر دیں اور ان سے قتال کریں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں لڑائی شروع ہو جائے تو ان میں مصالحت کراؤ لیکن اگر ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے اور ظلم ڈھائے تو پھر اس بغاوت کرنے والی جماعت سے قتال کرو۔ یہاں تک کہ وہ باز آجائے اور اللہ کے احکامات کو مان لے۔ملاحظہ فرمایئے:
وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اﷲ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاط اِنَّ اللہ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo
( سورہ حجرات آیت نمبر 9)

ترجمہ : ’’اگر اہل ایمان کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں میں مصالحت کراؤ، اگر ایک گروہ ان میں سے چڑھائی کر دے دوسرے گروہ پر تو سب لڑو اس چڑھائی والے سے۔ یہاں تک کہ پھر آئے اللہ کے حکم پر پھر اگر لوٹ آیا تو ملاپ کر دو ان میں برابر اور انصاف کرو، بیشک اللہ محبت فرماتے ہیں انصاف کرنے والوں سے۔
تشریح : اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے جہاد کا رحمت ہونا بخوبی سمجھ میں آتا ہے کہ جہاد ہی کی بدولت مسلمانوں میں باہمی امن قائم رہ سکتا ہے اور اگر کبھی کوئی گروہ ظلم و فساد پر آمادہ ہو اور زبانی مصالحت کارگر نہ ہو تو پھر قتال کے ذریعے سے فتنے کی جڑ کاٹ کر مظلوم کو ظالم کے پنجے سے چھڑا کر ہر دو جماعتوں کو بھائی بھائی بنا دیا جائے۔ جیسا کہ اس کے بعد اگلی آیت میں اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کے الفاظ سے اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
 
احادیث مبارکہ میں مختلف فتنوں سے قتال کا حکم
قرآن مجید کے بعد احادیث مبارکہ کا درجہ ہے اور حدیث حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے فتنوں اور آئندہ آنے والے بہت سے فتنوں سے قتال کا حکم دیا اور اپنے زمانے میں خود اپنی نگرانی میں قتال کے ذریعے سے بڑے بڑے فتنوں کا قلع قمع فرمایا اور ائمۃ الکفر یعنی کفرکے سرکردہ سرداروں کو قتل کرنے کا حکم صادر فرما کر انسانیت پر امن و سکون کی راہیں کھول دیں اور ان کینسر صفت لوگوں کے خاتمے سے جو رحمت عام ہوئی اس کا اقرار صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ انصاف پسند کافر بھی کرتے ہیں کہ اگر مکہ مکرمہ سے ابوجہل، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط، عتبہ، شیبہ کا ناسور نہ کاٹا جاتا تو اہل عرب مزید کئی صدیاں جہالت اور ظلم میں ڈوبے رہتے۔ اسی طرح اگر مدینہ منورہ میں کعب بن اشرف حئی بن اخطب وغیرہ کو ختم نہ کیا جاتا تو مدینہ کئی صدیوں تک باہمی خونریزجنگوں کا مرکز بنا رہتا اور یہ ظالم بھیڑیے اوس اور خزرج اور دیگر قبائل کو لڑا لڑا کر تباہ کر دیتے اور مدینہ منورہ میں قحط سالی اور معاشی ظلم کا الو بولتا رہتا مگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیمیا اثر تربیت اور ان بڑے موذیوں کے خاتمے سے مدینہ منورہ رحمت و برکت، امن و سکون کا مرکز بن گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مدینہ منورہ نے معاشی خوشحالی کا وہ دور دیکھا جس میں زکوٰۃ دینے والے گلیوں میں زکوٰۃ لینے والے کو تلاش کرتے پھرتے تھے ، مگر کوئی لینے والا نہیں ملتا تھا۔
دور نبوی میں چند بڑے فتنوں کے خاتمے کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔
(1) رمضان المبارک 2ھ میں غزوہ بدر میں ستر بڑے کافر مارے گئے جن میں عتبہ، شیبہ، ولید، ابوجہل، زمعہ بن اسود، ابوالبختری، امیہ بن خلف، نبیہ، منبہ جیسے مفسد شامل تھے۔
(2) 26 رمضان المبارک 2ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانے اور آپ کی ہجو میں اشعار کہنے والی یہودی عورت عصما یہودیہ کو ایک نابینا صحابی حضرت عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے قتل فرما دیا اور دربار نبوی سے بشارت پائی۔
(3) شوال 2ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ابوعفک یہودی کے قتل کے لیے روانہ فرمایا جنہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے اس خبیث کو قتل کر دیا۔
(4) 15 شوال 2ھ میں یہودیوں پر اجتماعی چوٹ لگائی گئی اور قبیلہ بنی قینقاع کو ان کے جرائم کی پاداش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل محاصرہ کرنے کے بعد جلا وطن فرما دیا۔
(5) 14 ربیع الاول 3ھ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین یہودی دشمن کعب بن اشرف کو حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مبارک سے قتل کر دیا اور اس طرح اسلام کے خلاف سازشوں کا ایک بڑا دروازہ بند ہوگیا۔
(6) جمادی الاخر 3ھ میں مسلمانوں کے خلاف کافروں کو ابھارنے اور ان کی مالی اعانت کرنے والے دشمنِ اسلام ابو رافع عبداللہ بن ابی الحقیق کو حضرت عبداللہ بن عتیک اور ان کے رفقاء نے جناب نبی رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک حکم سے قتل کر دیا۔
(7) 5 محرم الحرام 4ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن انیس انصاری کو خالد بن سفیان ہذلی و لحیانی کے قتل کے لیے روانہ فرمایا۔ خالد بن سفیان ہذلی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے ایک لشکر بنا رہا تھا۔ حضرت عبداللہ بن انیس نے اس موذی کو خاص طریقے سے قتل فرمایا اور بارگاہ نبوت سے ایک عصا بطور انعام وصول کیا۔ جس کے متعلق حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس عصا کو پکڑ کر جنت میں چلنا۔
یہ چند واقعات بطور مشتے نمونہ از خروارے ذکر کیے گئے ہیں۔
بعض فتنوں سے قتال کی بشارت
اب آیئے ان احادیث کریمہ کی طرف جن میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے امت کو بہت سے فتنوں سے قتال کی بشارت سنائی ہے اور بعض فتنہ صف جرائم کی سزا کے طور پر قتل کو متعین فرمایا ہے۔
(1) دیکھئے نسائی شریف ص 63 پر باب غزوۃ الہند (غزوہ ہند کا بیان) اس باب کے ذیل میں امام نسائی رحمہ اللہ نے دو احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
(2) ملاحظہ کیجئے نسائی شریف ص 63 جلد نمبر 2 باب غزوۃ الترک و الحبشۃ (ترک اور حبشہ سے جہاد کا بیان) اس باب کے ذیل میں بھی امام نسائی رحمہ اللہ نے دو احادیث کو ذکر فرمایا ہے۔
(3) مشکوۃ شریف ص 307 پر مسلم شریف کی روایت موجود ہے جس میں حضور علیہ السلام نے اس قوم کو قتل کرنے کاحکم دیا ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگی۔ علماء نے اس سے مراد خوارج لیے ہیں۔
(4) سنن ترمذی شریف ص 308 پر حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے جادوگر کی سزا تلوار سے قتل کرنا مقرر فرمائی۔
(5) سنن ابی داؤد (صفحہ 343 جلد اول) پر باب فضل قتال الروم علی غیرھم من الامم (رومیوں سے قتال کی فضیلت دیگر قوموں سے قتال پر) اس باب کے ذیل میں امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے جس سے اہل کتاب سے جہاد کی افضیلت معلوم ہوتی ہے۔
(6) سنن ابی داؤد (صفحہ 350 جلد اول) باب الغزومع ائمۃ الجور۔
(ظالم امیروں کے خلاف جہاد کا بیان) اس باب کے ذیل میں امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے وہ احادیث نقل فرمائی ہیں جن میں جہاد کے قیامت تک جاری رہنے کا بیان ہے اور دربار نبوت سے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاد ان پر واجب ہے خواہ کسی فاسق امام کی اقتدا ہی میں کرنا پڑے۔ اگرچہ وہ امام کبائر کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔
اس کے علاوہ بے شمار احادیث میں مختلف فتنوں اور گروہوں سے قتال کا صریح حکم موجود ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین کے بڑے فتنوں کا قلع قمع جہاد کے ذریعہ سے فرمایا۔
عجیب نکتہ​
حضور علیہ السلام کے بعد سب سے پہلا فتنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے قتال کے ذریعے سے ختم کیا اور اس دنیا کا سب سے آخری بڑا فتنہ (فتنہ دجال) بھی جہاد ہی کے ذریعے سے ختم ہوگا مگر آج کے مسلمانوں نے فتنوں کو ختم کرنے کا یہ عظیم طریقہ چھوڑ دیا ہے اور اس کی جگہ ہزاروں طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ مگر ان ہزاروں طریقوں کے باوجود فتنے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں، ہائے کاش ان فتنوں کا مقابلہ قتال کے ذریعے سے کیا جاتا تو تمام فتنے سرد پڑ جاتے۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں زنادقہ کو قتل فرما کران کے فتنے کو جڑ سے اکھیڑ دیا۔ (مشکوۃ ص 308)
جبکہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور توقتال فی سبیل اللہ کا سنہری دور تھا جس کی وجہ سے کوئی فتنہ دم نہیں مار سکا۔
بہرحال اس مختصر بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جہاد فتنوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے عظیم الشان رحمت ہے۔
چوتھی دلیل
جہاد اللہ رب العزت کا قرب اور بے شمار دینی مراتب کے حصول اور تکمیل ایمان کا ذریعہ ہے۔
* جہاد ان بندوں کے لیے رحمت ہے جو جہاد کے ذریعے سے قرب خداوندی حاصل کرتے ہیں اور بے شمار درجات پاتے ہیں۔
* جہاد ان بندوں کے لیے رحمت ہے جو اس مبارک عمل کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔
* جہاد ان گناہ گاروں کے لیے رحمت ہے جو اس عظیم عمل کے ذریعے سے اپنے گناہ معاف کراتے ہیں۔
* جہاد ان کافروں کے لیے رحمت ہے جنہیں اس مبارک عمل کی کامیابی کے بعد قریب سے اسلام اور مسلمانوں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے اور وہ دین فطرت کو قبول کرکے ہمیشہ کی آگ سے چھٹکارا پالیتے ہیں۔
* جہاد ان کافروں کے لیے رحمت ہے جو اس مبارک عمل کی بدولت قائم ہونے والی خلافت میں باعزت آزادانہ زندگی گزارتے ہیں اور مسلمان ان کے جان مال اور آبرو کی حفاظت کرتے ہیں۔
* جہاد ان خوش قسمت لوگوں کے لیے عظیم رحمت ہے جو جہاد کے مبارک عمل میں شریک ہو کر شہادت کا تاج پہن لیتے ہیں اور حیات جاودانی کے مستحق قرار دیئے جاتے ہیں۔
* جہاد ان برگزیدہ بندوں کے لیے انمول راحت ہے جو اس عمل میں شریک ہو کر زخموں کے تمغے حاصل کرکے بارگاہ خداوندی میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔
* جہاد اس سرزمین کے لیے رحمت ہے جس پر جہاد کی بدولت اسلام کا عادلانہ، منصفانہ نظام قائم ہوتا ہے۔
* جہاد ان فضاؤں کے لیے رحمت ہے جو جہاد کی بدولت اذانوں اور قرآن کی تلاوت سے گونجتی ہیں۔
* جہاد اس انسانیت کے لیے رحمت ہے جسے جہاد کی وجہ سے امن سکون، چین اور جرائم سے چھٹکارا ملتا ہے اور خوف اور بھوک سے پناہ مل جاتی ہے۔
* جہاد محبت الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ دیکھئے
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌo (سورہ صف آیت :4)
* جہاد تکمیل ایمان کا ذریعہ ہے۔ دیکھئے (سنن داؤد ص 334 ج۔ 1)
حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان والوں میں کون ایمان کے اعتبار سے زیادہ کامل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ آدمی جو اللہ کے راستے میں اپنے جان ومال سے جہاد کرے اور وہ آدمی جو کسی گھاٹی میں عبادت کرے اور لوگ اس کے شر سے بچے رہیں۔
* جہاد بڑے درجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ملاحظہ فرمائے۔
(بخاری شریف صفحہ 391 جلد اول)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’بے شک جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ پاک نے اپنے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے تیار فرمائے ہیں اور دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان جتنی مسافت ہے۔
* بعض اوقات جہاد کافروں کے دین میں داخلے کا ذریعہ بن جاتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔
وہ لوگ جو زنجیروں سے بندھے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے اللہ پاک کو وہ اچھے معلوم ہوں گے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص 546)
بہرحال اس موضوع پر کئی احادیث کریمہ ذکر کی جاسکتی ہیں۔ ہم اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صرف انہی چند فضائل پر اکتفا کرتے ہیں وگرنہ جہاد کے فضائل اس قدر ہیں کہ کئی مستقل ضخیم جلدیں بھی ان فضائل کو جمع کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتیں۔
پانچویں دلیل
جہاد ان وعیدوں سے بچنے کا ذریعہ ہے جو ترک جہاد پر وارد ہوئی ہیں اور یہ وعیدیں اس قدر شدید ہیں کہ انہیں سن کر جہاد کا رحمت ہونا خود بخود سمجھ آجاتا ہے تو جو عمل اللہ رب العزت کی ناراضی اور عذاب الیم اور منافقت کی موت سے بچاتا ہو وہ عمل رحمت ہی ہوگا۔
 
ترک جہاد پر چند وعیدیں ملاحظہ فرمائیں واپس فہرست پر
(1) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَالَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِط اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِجفَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْلٌ o اِلَّاتَنْفِرُوْا ُیعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا5لا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَ کُمْ وَلَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْ ٍ قَدِیْرٌo
(سورۃ توبہ آیت نمبر38،39)

ترجمہ : ’’اے ایمان والو تمہیں کیا ہوگیا، جب تم سے کہا جاتا ہے کہ نکلو اللہ کی راہ میں تو گر جاتے ہو زمین پر۔ کیا آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی میں خوش ہوگئے۔ سو کچھ نہیں دنیا کی زندگی سے نفع اٹھانا آخرت کے مقابلے میں مگر بہت تھوڑا۔ اگر تم نہ نکلو گے تو اللہ پاک تم کو درد ناک عذاب دے گا اور تمہارے سوا اور لوگوں کو بدلے میں لائے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ سب چیزوں پر قادر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ‘‘
(2) وَاَنْفِقُوْا فَیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃٍ ج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
(سورۃ بقرہ آیت نمبر 195)

ترجمہ : ’’اورخرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو بے شک اللہ دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین نے یہی معنی لیے ہیں کہ اگر جان و مال سے جہاد چھوڑ بیٹھو گے توہلاک ہو جاؤ گے۔ (اس آیت کریمہ کی مفصل تشریح ہمارے ایک مستقل رسالے میں آچکی ہے۔)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
جو شخص اس حال پر مرا کہ نہ اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں جہاد کا شوق اور ارادہ ابھرا تو وہ نفاق کے ایک حصے پر مرا۔ (سنن ابی داؤد صفحہ 246 جلد اول)
(4) حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے جہاد نہ کیا اور نہ ہی کسی مجاہد کو (سامان کے اعتبار سے) تیار کیا اور نہ ہی کسی غازی کے پیچھے اس کے گھر والوں کے ساتھ خیر کا معاملہ کیا اللہ پاک اسے کسی مصیبت میں مبتلا کرے گا۔ (ابوداؤد صفحہ 346 جلد اول)
ان پانچ تفصیلی دلائل کے علاوہ اور بہت سے دلائل ہیں جنہیں جہاد کے رحمت ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے بعض دلائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے تاکہ اہل علم میں سے کوئی چاہے تو ان پر تفصیلی کلام کرسکے۔
چھٹی دلیل
جہاد کا حکم قرآن مجید میں ہے اور تمام قرآنی احکامات انسانیت کے لیے رحمت ہی رحمت ہیں۔
ساتویں دلیل
جہاد اسلامی فرائض میں سے ہے اور جو چیز بھی اللہ پاک نے بندوں پر فرض فرمائی ہے وہ بندوں کے لیے رحمت خداوندی کے حصول اور دنیوی و اخروی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔
آٹھویں دلیل
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں جہاد کو دیگر کئی اسلامی احکامات سے افضل قرار دیا گیا ہے اور اعمال میں افضلیت کا دارومدار کثرت ثواب اور کثرت رحمت پر ہے اور بسا اوقات اس میں ضرورت کا بھی اعتبار ہوتا ہے توجب جہاد کا ثواب اور ضرورت ان اعمال سے زیادہ ہوئی جن کا رحمت ہونا مسلّم ہے تو جہاد کا رحمت ہونا بطریق اولیٰ ثابت ہوگیا۔
نویں دلیل
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں اور آپ کی زندگی کے اہم ترین آخری دس سال جہاد، ترغیب جہاد اور تیاری جہاد میں بسر ہوئے یعنی ان دس سالوں میں جہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اہم موضوع رہا۔ تو نبی رحمت کا جہاد میں اس قدر مصروف ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جہاد رحمت ہے۔
دسویں دلیل
دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور کسی دین کو مکمل دین اور کسی شریعت کو مکمل شریعت اس وقت تک نہیں کہا جاسکتا جب تک اس شریعت میں جہاد نہ ہو۔ کیونکہ کسی بھی دین اور شریعت کے نازل ہونے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ دین اور شریعت دنیا میں نافذ ہو اور انسانیت کو کامیابی ملے۔ اب یقینی بات ہے کہ اس دین اور شریعت کے نفاذ میں رکاوٹیں آئیں گی۔ اب اگر اس شریعت میں ایسے احکامات نہ ہوں جو ان رکاوٹوں کو پاش پاش کر سکیں تو یہ شریعت اور دین اپنے نبی کے گھر تک محدود رہے گا یا زیادہ سے زیادہ چند لوگ نبی کے ساتھ اس دین کو قبول کریں گے مگر وہ بھی اس کا برملا اظہار نہیں کرسکیں گے اور اگر کریں گے توزیادہ دیر تک دنیامیں نہیں رہ سکیں گے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کامل ترین دین اورشریعت میں ایسے احکامات ہوں جن پر عمل پیرا ہو کر اس دین کے تشخص، دین کے نفاذ اور اشاعت کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم کیا جاسکے اور دین کو چار دنگ عالم میں پھیلایا جاسکے۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ



اسی نظریے کو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔
’’جاننا چاہیے کہ تمام شرائع میں زیادہ کامل اور تمام وہ شریعت ہے جس میں جہاد کا حکم پایا جائے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص 546)
آگے چل کر حضرت شاہ صاحب ارشاد فرماتے ہیں۔
جہاد کے فضائل کا مرجع چند اصولوں کی طرف ہے ازانجملہ ایک یہ ہے کہ جہاد میں تدبیر الٰہی اور اس کے الہام کے ساتھ اتفاق ہے پس اس کے تمام کرنے میں کوشش کرنا شمول رحمت کا باعث ہے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ ص 547)
آگے ارشاد فرماتے ہیں۔
جہاد کی وجہ سے ملت کی تکمیل اور اس کو عزت دینا ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ ص 548)
تلک عشرۃ کاملۃ
 
جہاد پر اعتراضات اور ان کے جوابات
اب آخر میں جہاد پر عمومی طور پر وارد ہونے والے چند شبہات اور ان کے ازالے کے لیے جوابات ملاحظہ فرمایئے۔
شبہ نمبر (1)
جہاد میں قوت غضبیہ کا استعمال ہوتا ہے جبکہ غضب شیطانی آگ کا نام ہے اور ویسے بھی غصہ حرام ہے۔
جواب : بے شک غصہ دین اسلام میں انتہائی ناپسندیدہ امر ہے اور قرآن مجید میں غصے پر قابو رکھنے کا حکم ہے مگر یہ سب کچھ اس وقت ہے جب غصہ اور اس کا استعمال اپنی ذات اور اپنے نفس کے لیے ہو۔
جبکہ جہاد میں قوت غضبیہ کا استعمال اللہ رب العزت کی رضا اور دینی غیرت و حمیت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے کفر سے نفرت اور کفر کی سرکشی پر غصہ یہ اللہ کے لیے ہے اپنی ذات کے لیے نہیں۔ مسلمان کافروں کی گردنیں اپنے نفس کے تقاضے پر نہیں کاٹتے بلکہ اس جذبے کے تحت کاٹتے ہیں کہ یہ کافر اللہ کا دشمن ہے۔ یہ لوگوں تک دینی دعوت پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ ہے یا اس نے اپنے کفریہ جذبے سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کی جان مال آبرو پر ہاتھ ڈالا ہے۔
ایک پادری سے مناظرہ
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ کا ذکر انشاء اللہ مفید رہے گا اور اس واقعے کا ذکر بھی صرف اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مذکورہ بالا شبہے کا ازالہ ہو جائے۔
تقریباً دو سال قبل بندہ کو اپنے بعض دوستوں کے واسطے سے ایک عیسائی پادری کی طرف سے ’’صراطِ مستقیم‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی دعوت ملی۔ انہی دوستوں سے معلوم ہوا کہ وہ پادری اسلام کے متعلق کافی معلومات رکھتا ہے اور اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ اب وہ مسلمانوں میں سے کسی سے گفتگو کا متمنی ہے۔
دعوت ملتے ہی بندہ اپنے چند رفقاء کے ہمراہ کراچی کے اس علاقے میں پہنچا جہاں یہ پادری اور دوسرے عیسائی لوگ مقیم تھے، وہاں پر عیسائیوں کا ایک گرجا تھا۔
اس محلے میں پہنچ کر پادری سے ملاقات ہوئی، اس نے ہمیں گرجے میں بیٹھ کر گفتگو کرنے کے لیے کہا اور دلیل یہ پیش کی کہ جب عیسائیوں کا وفد (بنی بخران) مدینہ منورہ پہنچا تو آپ کے نبی (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا تھا اس لیے ہم آپ کو اپنے گرجے میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
بندہ نے اس کی یہ فرمائش بڑی خوش دلی سے قبول کرلی اور دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اللہ رب العزت نے آج کفر کے گڑھ میں کلمہ توحید بلند کرنے کا موقع عطا فرمایا ہے۔
گرجے میں کافی عیسائی جمع ہوگئے۔ ہم مسلمان صرف پانچ یا چھ تھے۔ پادری نے ابتدائی گفتگو کے بعد مجھے کہا کہ آپ صراط مستقیم پر بات کریں اور ثابت کریں کہ صراط مستقیم اسلام ہے۔ اس سے قبل اس نے قرآن مجید کی ایک آیت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عیسائیت صراط مستقیم ہے۔
بہرحال یہاں اس مناظرے کی تفصیلات ذکر کرنا نہ ہی مقصود ہے اور نہ ہی (غالباً) مفید۔ خلاصہ یہ کہ بندہ نے تقریباً پون گھنٹے تک اسلام کی صداقت اور اس کے صراط مستقیم ہونے پر گفتگو کی جس کا عیسائیوں نے بہت ہی گہرا اثر لیا۔ (الحمد اللہ)
پادری اس صورت حال سے بہت ہی پریشان ہوا، اسے اپنی ناؤ اپنے ہی گھر میں ڈوبتی ہوئی نظر آئی تو اس نے بڑی عیاری سے پینترا بدلا اور کہا کہ آپ میرے ایک سوال کا جواب دیں اور یہ سوال مجھے ہمیشہ کھٹکتا ہے اور مجھے اس کا تسلی بخش جواب آج تک نہیں ملا۔ بندہ نے کہا کہ آپ سوال بتائیں۔ اس نے کہا کہ اسلام مذہب تو بہت اچھا ہے مگر بہت نازک ہے۔ تھوڑی تھوڑی بات پر خطرے میں پڑ جاتا ہے اور مسلمان جذبات میں مغلوب ہو کر بے قابو ہو جاتے ہیں۔ کوئی آپ کے قرآن کو جلادے یا غلاظت میں پھینک دے یا کوئی آپ کے نبی کو گالی دے دے تو مسلمان جذبات میں آجاتے ہیں۔ حالانکہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیا ہوتا ہے۔ جبکہ ہماری عیسائیت میں بڑی پختگی ہے۔ آپ ہماری بائبل کو اٹھا کر نالی میں ڈال دیں۔ ہمارے گرجا گھروں میں گندگی پھینک دیں وغیرہ وغیرہ، ہمیں بالکل غصہ نہیں آتا۔
پادری کے بظاہر اس معقول سوال کو سن کر عیسائیوں کی جان میں جان آئی اور وہ گردنیں اٹھا کر دیکھنے لگے کہ اب اتنی ناقابل تردید بات کا کیا جواب ہوسکتا ہے۔ بندہ نے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے تحقیقی جواب کی بجائے زود اثر الزامی جواب دینے کا عزم کیا، اس لیے کہ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اگر میں نے جواب دینے میں تردد کیا یا لمبی تقریر کی تو جاہلوں کا یہ مجمع بات نہیں سمجھے گا اور وہ خوش ہوں گے کہ ان کے پادری نے اسلام میں عیب تلاش کر لیا اور مسلمان اس کا جواب نہ دے سکے
بندہ نے پادری کی بات ختم ہوتے ہی کہا کہ پادری صاحب اگر کوئی گستاخ آدمی آپ کے گھر میں گھس کر آپ کے سامنے آپ کی بیوی سے دست درازی کرے یا دکان میں گھس کر آپ کا مال اٹھائے تو آپ صبر کریں گے ناں؟
پادری نے فوراً کہا ہرگز نہیں بلکہ میں اپنی بیوی اور مال کا دفاع کروں گا۔ بندہ نے کہا ہاں پادری صاحب چونکہ یہ بیوی آپ کی ہے اور مال آپ کا ہے۔ اس لیے آپ کو غیرت بھی آگئی اور غصہ بھی اور یہ بائبل تو آپ کے رب کی کتاب ہے اور یہ گرجا آپ کے رب کا گھر ہے (بقول آپ کے) اس لیے آپ کو غصہ نہیں آتا۔ آپ کا غصہ آپ کی ذات کے لیے اگر معقول ہے تو ہم مسلمانوں کا غصہ اپنے رب کی کتاب اور نبی کی عظمت کے لیے اس سے زیادہ معقول ہے۔ ہمارے ہاں دین اورشعائر دین کی قدر ہماری ذات سے زیادہ ہے۔ اس لیے ہمارا دین بھی محفوظ ہے اور ہماری کتاب بھی، ہم نے ماضی میں اپنے دین اور کتاب کی حفاظت کے لیے جانیں لڑا دیں، اپنے خون کے نذرانے پیش کیے مگر اپنے دین اور کتاب پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ جبکہ آپ لوگوں کے ہاں آپ کی ذات کی اہمیت دین و کتاب سے زیادہ ہے اس لیے نہ تو آپ کی کتاب محفوظ رہی اور نہ آپ کا دین۔ کیونکہ آپ کے بڑوں نے آپ کی طرح اپنی ذات کے تحفظ کے لیے تو اسلحہ اٹھایا، لڑائیاں کیں، لیکن اپنے دین اور کتاب کے تحفظ کو بالکل فراموش کر دیا۔ تو اگر تمہارا اپنی ذات کے لیے غصے میں آجانا برا نہیں ہے۔ تو ہمارا اپنے دین کے لیے اور اپنے رب کے لئے غصے میں آجانا کیوں برا ہوگا۔
الحمد للہ اس جواب نے اس کے شیطانی جال کے تار و پود بکھیر دیئے اور کافر نے حسب سابق اپنی گردن جھکالی۔
بہرحال مسلمانوں کا لڑنا، اسلحہ اٹھانا یہ سب اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہے جیسا کہ جناب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللّٰہ
ترجمہ : ’’جو لڑا اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو تو وہ اللہ کے راستے میں ہے۔‘‘
ایک لطیف نکتہ
جہاد کے ذریعہ سے غصے کے غلط استعمال کا طعنہ دینے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جہاد تو غصے کے غلط استعمال سے بچنے کا بہترین راستہ ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر انسان میں شہوت اور غضب کی طاقت موجود ہے اور جو انسان اپنی ان دو طاقتوں کو صحیح محل پر خرچ نہیں کرتا وہ ان قوتوں کے غلط استعمال کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ تو جس طرح انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نکاح کرکے اپنی قوت شہویہ کا صحیح استعمال کرے اسی طرح اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے دشمنوں سے قتال کرکے اپنی قوت غضبیہ کا صحیح استعمال کرے۔ تو جب اس کا سارا غصہ اللہ کے دشمنوں اورانسانیت کے مجرموں کے خلاف خرچ ہو جائے گا تو اس کے مزاج میں سوائے رحمت، عاطفت اورہمدردی کے کچھ نہ بچے گا اور یہ رحمت و محبت اسے معاشرے کا ایک اچھا انسان بنا دے گی۔
جبکہ اس کے برعکس اگر انسان کا غصہ ظالموں اور مجرموں کے خلاف استعمال نہ ہو تو غصے سے بھرا ہوا یہ انسان معاشرے میں تو درکنار اپنے گھر میں بھی ایک اچھا اورامن پسند انسان بن کر نہیں رہ سکے گا۔ غصے اور آگ سے بھرا ہوا یہ بگولہ کبھی کسی کو بھسم کرے گا کبھی کسی کو اور اس جیسے انسانوں کی وجہ سے نااتفاقیاں اور آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔
 

پیاسا

معطل
ماشاللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
واجدحسین صاحب آپ نے بہت اچھا لکھا [اسے جاری رکھیں]
کسی کی تنقید و طنز سے دل برداشتہ ہوے بغیر آپ اپنا فرض نبھاتے رہیں
جو بات اثر رکھتی ہے کبھی نہ کبھی دل میں اتر ہی جاتی ہے
جو آج نہیں سمجھ رہے انشاللہ کل وہ بھی مان جایں گے(اگر انھیں سچایی کی تلاش ہو یی تو)
دشمن ہمیں (مسلمانوں کو)مٹا دینا چاہتا ہے؛لیکن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک
۰یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
واسلام۰
 

پیاسا

معطل
بھائی مولانا اظہر مسعود تو ویسے ہی متنازہ شخصیت ہیں‌ جیش محمد کی وجہ سے لہذا ایسے اشخاص کی باتیں‌ مت بیاں‌کریں ورنہ لوگ فوراً ذاتیات پر اتر آہیں‌گے

گرو جی ؛آپ کس چیز کے گرو ہیں [اگر آپ حق اور باطل میں فرق نہیں کر سکتے تو]
مولانا اظہر مسعود تو متنازہ شخصیت ہیں‌ کافروں اور نادانوں کے لیے نہ کہ مسلمانوں کےلیے
کیا آپ جانتے ہیں انہوں نے کسی کا حق مارا ہو یا شریعت محمدی کے خلاف کبھی آواز اٹھایی ہو
جو کویی صہیح بات بتاتا ہے اسے تو نہ روکیں ؛خدارا
سنی سنایی باتوں پر عمل کرنا نادانوں کا شیوا ہے'
کسی کے خلاف سنی سنایی باتوں کو بیان کرنے سے پہلے ؛تصویر کا دوسرا رخ ضرور دیکھا کیجیے
[کیا آپ پر ابھی تک صہیح صورت حال واضح نہیں ہویی ؛آ پ دیکھ سکتے ہیں وطن عزیز کو روشن خیالی کے 'نعرے؛
کی بنیاد پر کس مقام تک پنچایا جا چکا ہے؛
دینی طبقون پر بنیاد پرستی اور دشت گردی کا لیبل لگا کر فاسفورس بمموں سے جلانا کہاں کی مردانگی ہے
انہیں ابو غریب جیل اور گوانتا ناموبے؛ہندستان کے کی جیلوں میں ؛اہنسا'کے نام نہادوں کے ٹھیکے داروں کے کا
پایا مشق بنانا کہاں کی بہادری ہے
کہاں تک سنیں گے کہاں تک سناوں؛
امید ہے آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکنے کی بھی کو شش کریں گے'
اللہ آپ کو اور ہم سب کو اپنی ایمان میں رکھے (آمین)
 

فرخ

محفلین
السلام و علیکم
واجد بھائی
بہت اچھا لکھا
جزاک اللہ خیراً وکثیراً

مجھے اکثر ایسے وقت پر ایک آئیت یاد آجاتی ہے
سُوۡرَةُ التّوبَة​
۞ إِنَّ ٱللَّهَ ٱشۡتَرَىٰ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ أَنفُسَهُمۡ وَأَمۡوَٲلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلۡجَنَّةَ‌ۚ يُقَ۔ٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقۡتُلُونَ وَيُقۡتَلُونَ‌ۖ وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّ۬ا فِى ٱلتَّوۡرَٮٰةِ وَٱلۡإِنجِيلِ وَٱلۡقُرۡءَانِ‌ۚ وَمَنۡ أَوۡفَىٰ بِعَهۡدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ‌ۚ فَٱسۡتَبۡشِرُواْ بِبَيۡعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعۡتُم بِهِۦ‌ۚ وَذَٲلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ (١١١)
ترجمہ: بے شک الله مسلمانوں سے ان کی جان اوران کا مال اس قیمت پر خرید لیے ہیں کہ ان کی جنت ہے الله کی راہ میں لڑتے ہیں پھر قتل کرتے ہیں اور قتل بھی کیے جاتے ہیں یہ توریت اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنااسے ضروری ہے اور الله سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو اور یہ بڑی کامیابی ہے (۱۱۱)
مترجمہ: احمد علی
بحوالہ: http://www.quranexplorer.com/Quran/Default.aspx
 

مغزل

محفلین
دوستو ۔۔ جہادی آیات و احادیث سے روگردانی کفر ہے

لیکن اللہ جانتا ہے ۔۔ جو جہاد کے نام پر فساد کررہے ہیں۔
انہیں ہم بھی جان چکے ہیں۔۔ اس لیئے ایسے مراسلات کا
کیا جواز۔

خوامخواہ شر پھیلانے سے باز رہیں۔ کہ اس موضوع پر کئی تھریڈ فربہ ہوچکے ہیں۔
شکریہ

فقط جہاد (بحقہِ کا قائل) اور نام نہاد جہاد (فساد) سے گریزاں۔
م۔م۔مغل
 

پیاسا

معطل
خوامخواہ شر پھیلانے سے آپ کا اشارہ کس بات کی طرف ہے؟

بھایی جو بات انہیں سمجھ نہیں آتی ۔ ۔ ۔ اسے ۔ ۔ شر۔ ۔ فساد؛ ؛ کے الفاظ سے ۔ ۔ ڈھانپے کی ۔ ۔ کوشش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ اگر کویی سمجھانے کے کوشش کرے تو۔ ۔ ۔ ہٹ درم۔ ۔ ۔ ؛ فسادی؛ ؛ ؛ جہادی ؛ ؛ ؛ شر پسند ؛ ؛ ؛ کے القاب دیے جاتے ہیں ؛ ۔ ۔ ۔ اور ہر موضوع پر دناغ کھپاتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن جہاں جہاد کی بات آے ۔ ۔ ۔ سر منہ لپیٹ لیتے ہیں (تھریڈ لاک کر دیتے ہیں)۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمام بھاییوں سے گزارش ہے ناراض ہونے کی بات نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اپنا نقطہ نظر واضع کرتے ہین ۔ ۔ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن ۔ ۔ جہاد کے موضوعات کو اکثر۔ ۔ ۔ ۔ فساد ۔ ۔ اور شر پسندی(نام نہاد)۔ ۔ ۔ کے الفاظ دے کر بند کر دیتے ہیں
 

جیا راؤ

محفلین
خوامخواہ شر پھیلانے سے باز رہیں۔ کہ اس موضوع پر کئی تھریڈ فربہ ہوچکے ہیں۔
شکریہ

مغل جی مجھے تو اس میں کہیں "شر" کا شائبہ تک محسوس نہ ہوا۔
جہاد سے متعلق آیات اور احادیث اور انکی تفاسیر ہی پیش کی گئیں ہیں جو ہم میٹرک اور انٹر کے اسلامیات کے سلیبس میں (انفال اور ہجرات) ہو بہو پڑھ چکے ہیں۔
ان سے شر کیونکر پھیل سکتا ہے !
 
میرے خیال میں اپنے سیاسی اور ذاتی مقصد کے لیئے کسی بھی جنگ کو جہاد کا نام دینا انتہائی غلط اور اسلامی اصولوں کے مطابق جہاد عین حق ہے ۔ البتہ جہاد میں بھی بے گناہوں کے قتل کی ممانعت آئی ہے ۔ اور جہاں فریق مخالف کلمہ پڑھ لے اس کے قتل پر بھی بہت دکھ و کرب کا اظہار کیا گیا ہے ۔ کسی مسلمان ملک میں حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف پر جنگ کا آغاز فساد ہی کہلائے گا ۔ خودکشی حرام ہے اور حرام کام سے جہاد بالکل ویسے ہی جیسے قحبہ خانے کی کمائی سے مسجد بنانا ۔ ہاں جو جہاد کرتے ہیں ان کی حمایت میں بولنا عین حق ہے ۔
 
میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ اسی سائیٹ پر سورۃ البقرہ آیت نمبر ایک سے لیکر اکیس تک مطالعہ فرمائیں ۔اگر کچھ سمجھ آجائے تو غور کیجئے گا
 
جہاد میں شمولیت کے لئے ضروری ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جائے اور اس اطاعت میں فوج میں شرکت۔ ایک منظم فوج کے باہر اختلافی بنیاد پر معصوم انسانوں کے قتل، خود کش حملے صرف اور صرف فساد ہیں۔

اسلام کے نام پر اپنے اختلافات کی بنیاد پر ایک مسلمان گروپ کا دوسرے مسلمان گروپ کو قتل کرنا کسی رحمت کی نشانی نہیں بلکہ ففساد اور بغاوت ہے ۔ یہ تو اپنی مظبوط ریاست کو اپنے ہی خنجر سے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top