واجدحسین
معطل
جہاد رحمت یا فساد؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تقریظ
امام المجاہدین حضرت اقدس مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہیدرحمہ اﷲ
سرور جو حق و باطل کے کارزار میں ہے
تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء و علی الہ و اصحابہ الا صفیاء اما بعد۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں انس و جن کو فقط اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
[ARABIC]وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورۂ ذاریات:56)
اور پھر ان کو بندگی کے طور طریقے بتلانے کے لئے دو سلسلے جاری فرمائے۔ ایک سلسلہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کی بعثت کا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد ہے:
[ARABIC]وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورہ الانبیاء:25)
اور دوسرا سلسلہ انزال کتب کا۔ جس کے ذریعے سے ہدایت اور بندگی کے احکام بتائے گئے۔ ہدایت کے یہ دونوں ذریعے قیامت تک کے لیے باقی رہیں گے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی اور آخری کتاب کو نازل کیا۔ اب نہ اس کے بعد کوئی پیغمبر آئے گا اور نہ کوئی کتاب نازل ہو گی۔
[ARABIC]مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَی ٍ عَلِیْمَا۔ [/ARABIC](سورہ الاحزاب:40)
حدیث میں ارشاد ہے:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسّکتم بھما کتاب اللہ وسنتی۔
یعنی اللہ کی کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے جو کتابیں نازل کی تھیں ان کی تعلیم و تفسیر بھی انبیاء علیہم السلام کے ذمہ تھی جن پر وہ کتابیں نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنے اقوال و اعمال کے ذریعے سے اس کی احکام کے تشریح کرتے تھے اور ہر ممکن اور جائز طریقے سے امت کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دیتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابوں کا نزول اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت تھی جس پر دنیا و آخرت کی کامیابی کا مدار تھا اور ہے جیسا کہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ مختلف اوقات میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بندوں کو ان کے حقیقی مولا اور مالک کی اطاعت فرمانبرداری اور بندگی کی دعوت دیں اور اس کی نافرمانی سے بچائیں۔ فرمانبرداروں اور ماننے والوں کو جنت اور ابدی کامیابی و کامرانی کی خوش خبریاں سنائیں اور نا فرمانوں اور نہ ماننے والوں کو جہنم و عذاب سے ڈرائیں۔
بندوں میں جو خوش نصیب اور سعید تھے انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی قدر کی اور دنیا کی آلائشوں اور خواہشات سے کنارہ کشی کر کے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے دامن کو مضبوطی سے تھاما اور اپنے اعمال و افعال اور حرکت اور سکون کو انبیاء علیہم السلام کے اشاروں کا تابع کر دیا اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے حوالے کیا جیسا کہ مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور جو بے وقوف بد نصیب اور بدبخت تھے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر نہیں کی اور دین پر عمل پیرا ہونا ان کے لیے شاق تھا اور حیوانات و چوپایوں کی طرح بے مہار زندگی گزارنا ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرا۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو عار و ذلت جانا اور خواہشات نفسانی و شیطان کی اطاعت کو عزت سمجھا۔
جس طرح مشفق مہربان ماں باپ اپنی نالائق اور نافرمان اولاد کی اصلاح و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے ہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شفقت و اہتمام کے ساتھ حضرت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے اپنے مشفقانہ اور مخلصانہ مواعظ اور نصائح سے امت کے ان نافرمان اور نالائق افراد کی تفہیم و اصلاح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسے حضرت نوح کا ارشاد اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے۔
[ARABIC]قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّنَھَاراًo فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآءِ یْٓ اِلَّافِرَاراًo وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَھُمْ جَعَلُوْآ اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْ اثِیَابَھُمْ وَ اَصَرُّ وْا وَا سْتَکْبَرُو اسْتِکْبَاراًo [/ARABIC]
(سورہ نوح :5،6،7)
جب انبیا علیہم الصلوٰۃ نصیحت کرتے کرتے تھک گئے اور ان سرکشوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر عذاب نازل فرمایا اور مخلصین و مومنین کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور منکرین کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا، کسی کو غرق کیا کسی کو زمین میں دھنسایا اور کسی پر آسمان سے پتھر برسائے، کسی پر زلزلہ بھیجا۔ کسی پر تیز ہوا مسلط کر کے ہلاک کیا اور کسی کو خنزیر و بندر بنایا۔ یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کے مختلف مظاہر تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل عذاب دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالی کے عذاب کا ظہور ہمیشہ کسی حجاب اور واسطے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو بھی اپنے دشمنوں کی ہلاکت کا حکم دیتے ہیں، وہ بے چون و چرا اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے جب دریا کو غرق کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو غرق کر دیتا ہے۔ جب زمین کو دھنسانے کا حکم دیتا ہے تو وہ دھنسادیتی ہے۔ جب ہواؤں کو پارہ پارہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ تعمیل کرتی ہے۔ اگر فرشتوں کو حکم ہوتا ہے تو وہ زمین کو اٹھا کر الٹا کر دیتے ہیں اور سرکشوں اور دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔
زمین میں جب سے سر کشی و بغاوت کا سلسلہ جاری ہے اسی وقت سے باغیوں کی سزا کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے، البتہ اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں یہ کشمکش جاری ہے اور جاری رہے گی بقول اقبال مرحوم۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
کسی ذی شعور سے بھی یہ مخفی نہیں ہے کہ عذاب و ہلاکت کا یہ سلسلہ عین حکمت اور مصلحت ہے پس جس طرح فرشتوں، ہواؤں، دریاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی ہلاکت عین مصلحت اور حکمت ہے جس پر بدبخت اور مجنون کے سوا کوئی معترض نہیں ہو سکتا۔ بعینہ اس طرح انبیا علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے متبعین اور ماننے والوں کے ہاتھوں کفار اور مکذبین و منکرین کی ہلاکت (بذریعہ جہاد) عین حکمت اور مصلحت ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے زمین و مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ کیونکہ جہاد و قتال میں بھی اللہ تعالی کے فرمانبردار بندے تو بطور آلہ کے استعمال ہوتے ہیں۔ اصل عذاب دینے والے اور قتل کرانے والے تو اللہ تعالی ہی ہوتے ہیں۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
قَاتِلُوْ ھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُم۔ (التوبہ آیت 14)
ترجمہ : ’’ان کافروں سے جہاد و قتال کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دیں گے۔‘‘
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ بندوں کے ہاتھوں جہاد و قتال کے ذریعے سے جو عذاب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو دیا جاتا ہے وہ حقیقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے بندے اس عذاب کے لیے صرف واسطہ ہوتے ہیں جس طرح قتل اور مار پیٹ عذاب وغیرہ کبھی فاعل سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے اور کبھی بندوق تلوار یا تیر و تفنگ کے واسطے سے اسی طرح عذاب الٰہی کا ظہور کبھی بلاواسطہ ہوتا ہے اور کبھی انسانوں اور فرشتوں یا دوسری مخلوق کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ارشاد ہے۔
وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال:17)
آپ نے نہیں پھینکی (کنکریاں) جب پھینکی اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھینکی۔ یعنی آپ صرف واسطہ تھے فعل اللہ تعالیٰ کا تھا۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہے:
[ARABIC]وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یّصِۡیبَکُمُ اﷲ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا۔[/ARABIC](سورہ توبہ:52)
یعنی ہم منتظر ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی تم کو براہ راست اپنی طرف سے عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں کے ذریعے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ جہاد و قتال کے ذریعے سے کفار کو جو عذاب دیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے بندوں کے ہاتھ اس میں بندوق و تلوار کی طرح صرف واسطہ ہوتے ہیں۔ سورہ الانفال میں اسی بات کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ۔ (الانفال:17)
یعنی ان کفار کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی نے انہیں قتل کیا۔ اب ان آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو جہاد کو فساد و ہلاکت اور بربادی سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے اس قول کی زد خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس پر پڑتی ہے لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے افعال کو (چاہے وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ) فساد کہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے بلکہ میرے ناقص خیال میں تو یہ آتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی پس و پیش کے توبہ کر کے احتیاطاً تجدید ایمان و نکاح کرنا چاہیے۔
کیونکہ آیات سے معلوم ہوا ہے کہ جہاد میں قتل و قتال اللہ تعالیٰ ہی کراتے ہیں بندہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے واسطہ اور آلہ ہوتا ہے۔ کماقیل۔
فانت حسام الملک واللہ ضارب
وانت لواء الدین واللہ عاقد
آج کے اس نام نہاد مہذب دور میں بھی بلا استثناء دنیا کے تمام ممالک میں حکومت و سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور تمام دساتیر عالم میں اس کی سزا موت ہے اور اس کو کوئی فساد و بربادی ملک سے تعبیر نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو عین حکمت و مصلحت اور حکومت و سلطنت اور ملک کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دشمن اور باغی ہوتے ہیں ان کے ساتھ قتال و تعارض کو فساد کہتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور دین حق کی حفاظت کے حاسے سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔
وہ لوگ جو یورپ زدہ اور مغربی علوم سے مرعوب تھے جیسے سرسید اور ان کے اتباع انہوں نے بھی یکسر جہاد کا انکار نہیں کیا اور نہ اس کو شرو فساد قرار دیا البتہ اقدامی جہاد کا انکار کیا۔ اگرچہ دین میں اقدامی اور دفاعی دونوں طرح کے جہاد ثابت ہیں لیکن آج اگر پوری دنیا پر آپ نظر ڈالیں تو اقدامی جہاد کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی اسے قائم و جاری فرمائے آمین آج کل تو مسلمان مجبور و مقہور ہیں چاہے وہ افغانستان و فلسطین ہو یا کشمیر و برما اور بوسنیا ہو اب تو جہاں بھی مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں صرف اپنی حفاظت کے لیے ہیں جو لوگ اس کو بھی فساد قرار دیتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کس قسم کے مسلمان ہیں اور وہ ہمیں کس رہبانیت و عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شروفتن سے ہمیں محفوظ رکھے۔ (آمین)
قتال فی سبیل اللہ دین کے اعلاء کا واحد ذریعہ ہے جس کے ہم سب مامور ہیں اگر قتال و جہاد کے علاوہ دین کے اعلاء و حفاظت کا اور کوئی ذریعہ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار فرماتے اور صحابہ اس کے مطابق عمل کرتے لیکن جب خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا حکم دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس کو اختیار کیا اور تاقیامت اس کو باقی رکھنے اور رہنے کا حکم اور مژدہ سنایا یہاں تک کہ اس دنیا کے آخری اور سب سے بڑے فتنے دجال کا قلع قمع بھی جہاد ہی کے ذریعے سے ہو گا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ عین حکمت و مصلحت کا ہے کیونکہ اللہ تعالی شرو فساد کو پسند نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالی کے نیک بندے فساد میں حصہ لیتے ہیں اس لیے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو شر و فساد سمجھنا اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اولیاء امت و صلحاء اسلام کو فسادی قرار دینا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص دعوی اسلام و ایمان کے ساتھ اس قسم کی بات کا تصور بھی کر سکتا ہے۔
بندہ نے اخی فی اللہ محبی و محبوبی حضرت مولانا محمد مسعود اظہر صاحب دامت برکاتھم کا رسالہ ’’جہاد رحمت یا فساد‘‘ اول سے آخر تک دیکھا۔ ماشاء اللہ الحمد للہ انہوں نے بہت فاضلانہ اور مجہتدانہ طرز سے اس شُبہے کا ازالہ کیا ہے۔
بندہ مولانا موصوف کے کمالات و اخلاص اور دینی درد کا پہلے سے معتقد تھا لیکن اس رسالے کے دیکھنے سے اس میں دو چند وسہ چند اضافہ ہوا۔ اللھم کثر فینا امثالہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل صحت و جوانی میں برکت عطا فرمائے اور ان کی اس تحریر کو امت کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
نظام الدین شامزی 7 ربیع الثانی 1413ھ
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تقریظ
امام المجاہدین حضرت اقدس مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہیدرحمہ اﷲ
سرور جو حق و باطل کے کارزار میں ہے
تو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہئے
الحمد للہ و کفی والصلوۃ والسلام علی سید الرسل و خاتم الانبیاء و علی الہ و اصحابہ الا صفیاء اما بعد۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں انس و جن کو فقط اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
[ARABIC]وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورۂ ذاریات:56)
اور پھر ان کو بندگی کے طور طریقے بتلانے کے لئے دو سلسلے جاری فرمائے۔ ایک سلسلہ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کی بعثت کا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کی توحید و عبادت کی دعوت دیتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد ہے:
[ARABIC]وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّانُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۔[/ARABIC](سورہ الانبیاء:25)
اور دوسرا سلسلہ انزال کتب کا۔ جس کے ذریعے سے ہدایت اور بندگی کے احکام بتائے گئے۔ ہدایت کے یہ دونوں ذریعے قیامت تک کے لیے باقی رہیں گے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فداہ ابی و امی اور آخری کتاب کو نازل کیا۔ اب نہ اس کے بعد کوئی پیغمبر آئے گا اور نہ کوئی کتاب نازل ہو گی۔
[ARABIC]مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اﷲِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّنَ وَ کَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَی ٍ عَلِیْمَا۔ [/ARABIC](سورہ الاحزاب:40)
حدیث میں ارشاد ہے:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسّکتم بھما کتاب اللہ وسنتی۔
یعنی اللہ کی کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے جو کتابیں نازل کی تھیں ان کی تعلیم و تفسیر بھی انبیاء علیہم السلام کے ذمہ تھی جن پر وہ کتابیں نازل ہوتی تھیں۔ چنانچہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنے اقوال و اعمال کے ذریعے سے اس کی احکام کے تشریح کرتے تھے اور ہر ممکن اور جائز طریقے سے امت کو اللہ تعالیٰ کی دعوت دیتے تھے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابوں کا نزول اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی بعثت مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و نعمت تھی جس پر دنیا و آخرت کی کامیابی کا مدار تھا اور ہے جیسا کہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے اس سلسلے کا آغاز فرمایا کہ مختلف اوقات میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام بندوں کو ان کے حقیقی مولا اور مالک کی اطاعت فرمانبرداری اور بندگی کی دعوت دیں اور اس کی نافرمانی سے بچائیں۔ فرمانبرداروں اور ماننے والوں کو جنت اور ابدی کامیابی و کامرانی کی خوش خبریاں سنائیں اور نا فرمانوں اور نہ ماننے والوں کو جہنم و عذاب سے ڈرائیں۔
بندوں میں جو خوش نصیب اور سعید تھے انہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی قدر کی اور دنیا کی آلائشوں اور خواہشات سے کنارہ کشی کر کے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے دامن کو مضبوطی سے تھاما اور اپنے اعمال و افعال اور حرکت اور سکون کو انبیاء علیہم السلام کے اشاروں کا تابع کر دیا اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے حوالے کیا جیسا کہ مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور جو بے وقوف بد نصیب اور بدبخت تھے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر نہیں کی اور دین پر عمل پیرا ہونا ان کے لیے شاق تھا اور حیوانات و چوپایوں کی طرح بے مہار زندگی گزارنا ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرا۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو عار و ذلت جانا اور خواہشات نفسانی و شیطان کی اطاعت کو عزت سمجھا۔
جس طرح مشفق مہربان ماں باپ اپنی نالائق اور نافرمان اولاد کی اصلاح و تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دیتے ہیں ہر طرح سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ شفقت و اہتمام کے ساتھ حضرت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے اپنے مشفقانہ اور مخلصانہ مواعظ اور نصائح سے امت کے ان نافرمان اور نالائق افراد کی تفہیم و اصلاح میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسے حضرت نوح کا ارشاد اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے۔
[ARABIC]قَالَ رَبِّ اِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلاً وَّنَھَاراًo فَلَمْ یَزِدْھُمْ دُعَآءِ یْٓ اِلَّافِرَاراًo وَاِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَلَھُمْ جَعَلُوْآ اَصَابِعَھُمْ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْ اثِیَابَھُمْ وَ اَصَرُّ وْا وَا سْتَکْبَرُو اسْتِکْبَاراًo [/ARABIC]
(سورہ نوح :5،6،7)
جب انبیا علیہم الصلوٰۃ نصیحت کرتے کرتے تھک گئے اور ان سرکشوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر عذاب نازل فرمایا اور مخلصین و مومنین کو اس عذاب سے محفوظ رکھا اور منکرین کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیا، کسی کو غرق کیا کسی کو زمین میں دھنسایا اور کسی پر آسمان سے پتھر برسائے، کسی پر زلزلہ بھیجا۔ کسی پر تیز ہوا مسلط کر کے ہلاک کیا اور کسی کو خنزیر و بندر بنایا۔ یہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کے مختلف مظاہر تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل عذاب دینے والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے لیکن اللہ تعالی کے عذاب کا ظہور ہمیشہ کسی حجاب اور واسطے سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو بھی اپنے دشمنوں کی ہلاکت کا حکم دیتے ہیں، وہ بے چون و چرا اللہ تبارک و تعالی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے جب دریا کو غرق کرنے کا حکم دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو غرق کر دیتا ہے۔ جب زمین کو دھنسانے کا حکم دیتا ہے تو وہ دھنسادیتی ہے۔ جب ہواؤں کو پارہ پارہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ تعمیل کرتی ہے۔ اگر فرشتوں کو حکم ہوتا ہے تو وہ زمین کو اٹھا کر الٹا کر دیتے ہیں اور سرکشوں اور دشمنوں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔
زمین میں جب سے سر کشی و بغاوت کا سلسلہ جاری ہے اسی وقت سے باغیوں کی سزا کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہے، البتہ اس کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں یہ کشمکش جاری ہے اور جاری رہے گی بقول اقبال مرحوم۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
کسی ذی شعور سے بھی یہ مخفی نہیں ہے کہ عذاب و ہلاکت کا یہ سلسلہ عین حکمت اور مصلحت ہے پس جس طرح فرشتوں، ہواؤں، دریاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی ہلاکت عین مصلحت اور حکمت ہے جس پر بدبخت اور مجنون کے سوا کوئی معترض نہیں ہو سکتا۔ بعینہ اس طرح انبیا علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے متبعین اور ماننے والوں کے ہاتھوں کفار اور مکذبین و منکرین کی ہلاکت (بذریعہ جہاد) عین حکمت اور مصلحت ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے زمین و مخلوق کے لیے رحمت ہے۔ کیونکہ جہاد و قتال میں بھی اللہ تعالی کے فرمانبردار بندے تو بطور آلہ کے استعمال ہوتے ہیں۔ اصل عذاب دینے والے اور قتل کرانے والے تو اللہ تعالی ہی ہوتے ہیں۔
چنانچہ ارشاد فرمایا:
قَاتِلُوْ ھُمْ یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُم۔ (التوبہ آیت 14)
ترجمہ : ’’ان کافروں سے جہاد و قتال کرو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دیں گے۔‘‘
اس آیت سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ بندوں کے ہاتھوں جہاد و قتال کے ذریعے سے جو عذاب اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کو دیا جاتا ہے وہ حقیقت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے بندے اس عذاب کے لیے صرف واسطہ ہوتے ہیں جس طرح قتل اور مار پیٹ عذاب وغیرہ کبھی فاعل سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے اور کبھی بندوق تلوار یا تیر و تفنگ کے واسطے سے اسی طرح عذاب الٰہی کا ظہور کبھی بلاواسطہ ہوتا ہے اور کبھی انسانوں اور فرشتوں یا دوسری مخلوق کے واسطے سے ہوتا ہے۔ ارشاد ہے۔
وَمَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی (الانفال:17)
آپ نے نہیں پھینکی (کنکریاں) جب پھینکی اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھینکی۔ یعنی آپ صرف واسطہ تھے فعل اللہ تعالیٰ کا تھا۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہے:
[ARABIC]وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ اَنْ یّصِۡیبَکُمُ اﷲ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِہٖٓ اَوْبِاَیْدِیْنَا۔[/ARABIC](سورہ توبہ:52)
یعنی ہم منتظر ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی تم کو براہ راست اپنی طرف سے عذاب دے یا ہمارے ہاتھوں کے ذریعے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ جہاد و قتال کے ذریعے سے کفار کو جو عذاب دیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے بندوں کے ہاتھ اس میں بندوق و تلوار کی طرح صرف واسطہ ہوتے ہیں۔ سورہ الانفال میں اسی بات کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ
فَلَمْ تَقْتُلُوْھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ۔ (الانفال:17)
یعنی ان کفار کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی نے انہیں قتل کیا۔ اب ان آیات کی روشنی میں ان لوگوں کو سوچنا چاہیے جو جہاد کو فساد و ہلاکت اور بربادی سے تعبیر کرتے ہیں کہ ان کے اس قول کی زد خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اقدس پر پڑتی ہے لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ کے افعال کو (چاہے وہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ) فساد کہتے ہیں یا یہ سوچ رکھتے ہیں انہیں اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے بلکہ میرے ناقص خیال میں تو یہ آتا ہے کہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی پس و پیش کے توبہ کر کے احتیاطاً تجدید ایمان و نکاح کرنا چاہیے۔
کیونکہ آیات سے معلوم ہوا ہے کہ جہاد میں قتل و قتال اللہ تعالیٰ ہی کراتے ہیں بندہ تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے واسطہ اور آلہ ہوتا ہے۔ کماقیل۔
فانت حسام الملک واللہ ضارب
وانت لواء الدین واللہ عاقد
آج کے اس نام نہاد مہذب دور میں بھی بلا استثناء دنیا کے تمام ممالک میں حکومت و سلطنت کے خلاف بغاوت کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور تمام دساتیر عالم میں اس کی سزا موت ہے اور اس کو کوئی فساد و بربادی ملک سے تعبیر نہیں کرتا ہے بلکہ اس کو عین حکمت و مصلحت اور حکومت و سلطنت اور ملک کی حفاظت کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن جو لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دشمن اور باغی ہوتے ہیں ان کے ساتھ قتال و تعارض کو فساد کہتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور دین حق کی حفاظت کے حاسے سے یکسر محروم ہو چکے ہیں۔
وہ لوگ جو یورپ زدہ اور مغربی علوم سے مرعوب تھے جیسے سرسید اور ان کے اتباع انہوں نے بھی یکسر جہاد کا انکار نہیں کیا اور نہ اس کو شرو فساد قرار دیا البتہ اقدامی جہاد کا انکار کیا۔ اگرچہ دین میں اقدامی اور دفاعی دونوں طرح کے جہاد ثابت ہیں لیکن آج اگر پوری دنیا پر آپ نظر ڈالیں تو اقدامی جہاد کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی اسے قائم و جاری فرمائے آمین آج کل تو مسلمان مجبور و مقہور ہیں چاہے وہ افغانستان و فلسطین ہو یا کشمیر و برما اور بوسنیا ہو اب تو جہاں بھی مسلمانوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں صرف اپنی حفاظت کے لیے ہیں جو لوگ اس کو بھی فساد قرار دیتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ کس قسم کے مسلمان ہیں اور وہ ہمیں کس رہبانیت و عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے شروفتن سے ہمیں محفوظ رکھے۔ (آمین)
قتال فی سبیل اللہ دین کے اعلاء کا واحد ذریعہ ہے جس کے ہم سب مامور ہیں اگر قتال و جہاد کے علاوہ دین کے اعلاء و حفاظت کا اور کوئی ذریعہ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اختیار فرماتے اور صحابہ اس کے مطابق عمل کرتے لیکن جب خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا حکم دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اس کو اختیار کیا اور تاقیامت اس کو باقی رکھنے اور رہنے کا حکم اور مژدہ سنایا یہاں تک کہ اس دنیا کے آخری اور سب سے بڑے فتنے دجال کا قلع قمع بھی جہاد ہی کے ذریعے سے ہو گا تو معلوم ہوا کہ یہ راستہ عین حکمت و مصلحت کا ہے کیونکہ اللہ تعالی شرو فساد کو پسند نہیں کرتے اور نہ اللہ تعالی کے نیک بندے فساد میں حصہ لیتے ہیں اس لیے جہاد و قتال فی سبیل اللہ کو شر و فساد سمجھنا اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اولیاء امت و صلحاء اسلام کو فسادی قرار دینا ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص دعوی اسلام و ایمان کے ساتھ اس قسم کی بات کا تصور بھی کر سکتا ہے۔
بندہ نے اخی فی اللہ محبی و محبوبی حضرت مولانا محمد مسعود اظہر صاحب دامت برکاتھم کا رسالہ ’’جہاد رحمت یا فساد‘‘ اول سے آخر تک دیکھا۔ ماشاء اللہ الحمد للہ انہوں نے بہت فاضلانہ اور مجہتدانہ طرز سے اس شُبہے کا ازالہ کیا ہے۔
بندہ مولانا موصوف کے کمالات و اخلاص اور دینی درد کا پہلے سے معتقد تھا لیکن اس رسالے کے دیکھنے سے اس میں دو چند وسہ چند اضافہ ہوا۔ اللھم کثر فینا امثالہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و فضل صحت و جوانی میں برکت عطا فرمائے اور ان کی اس تحریر کو امت کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے۔ (آمین)
نظام الدین شامزی 7 ربیع الثانی 1413ھ
جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔