پیاسا
معطل
جہاد سے منہ پھیرنے والوں کا انجام
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِہمْ وَہمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہمُ اللّہ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاہمْ إِنَّ اللّہ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَ۔كِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ ﴿243﴾
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿244﴾
ترجمعہ:کیا نہ دیکھا تو نے جو نکلے اپنے گھروں سے،موت کے ڈر سے اور وہ ہزاروں تھے پھر فرمایا ان کو اللہ نے کہ مر جاو، پھر ان کو زندہ کر دیا ۔بے شک اللہ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے(البقرہ۔۔۔آیت 243)
ترجمعہ:اور لڑو اللہ کی راہ میں ، اور جان لو کہ اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔(آیت۔۔۔44)
خلاصہ:موت کا ایک وقت مقرر ہے اسے کوئی حیلہ کوئی بہانہ نہیں ٹال سکتا۔اوپر والے واقعے میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں کچھ لوگ جہاد سے اس لیئے بھاگے کہ کہیں اس میں ان کی جان نہ چلی جائے ،لیکن اللہ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اس لیئے اس نے ان بھاگنے والوں کو موت دے دی ، لیکن پھر ان کے نبی کی دعا پر انہیں زندہ کر دیا تا کہ وہ اپنے گناہ سے توبہ کریں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن کچھ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ، بلکہ اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی بجائے اپنی جانوں کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
اگلی آ یت میں فرمایا : اور لڑو اللہ کی راہ میں ، اور جان لو کہ اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔۔۔یعنی پہلے پچھلا واقعہ مسلمانوں کو بتایا کہ تم سے پہلے لوگ بھی جہاد سے منہ پھیر کر اور ڈر کر (اس بات سے کہ کہیں جہاد میں موت نہ آجائے)بھاگے تھے لیکن اللہ نے انہیں پھر بھی موت دی۔۔۔کیونکہ موت جہاد میں نہیں ،بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیئے مسلمانوں تم موت کے ڈر سے جہاد سے منہ مت پھیرنا ۔۔۔اور جو کچھ بھی تم کرتے اللہ اسے خوب دیکھتا اور سنتا ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اتنی جنگوں میں لڑا کہ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار،،تیر اور نیزے کا زخم نہ ہو ۔۔اور فرماتے ہیں۔۔میں نے بڑی خواہش اور کوشش کی کہ اللہ مجھے شہادت کی موت دے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی اور آج میں اپنے بستر پر مر رہا ہوں۔۔۔۔اس سے ثابت ہتا ہے کہ اگر موت میدان جہاد میں ہوتی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو موت وہیں ملتی لیکن موت تو اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے چاہے گھر میں بستر پر موت دے دے اور جسے چاہے میدان جہاد سے تیروں،تلواروں،گولیوں اور بموں کی بارش سے بچا لائے ۔۔۔۔سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے اور وہ حکمت والا بصیرت والا ہے۔۔
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِہمْ وَہمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَہمُ اللّہ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاہمْ إِنَّ اللّہ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَ۔كِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَشْكُرُونَ ﴿243﴾
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّہ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿244﴾
ترجمعہ:کیا نہ دیکھا تو نے جو نکلے اپنے گھروں سے،موت کے ڈر سے اور وہ ہزاروں تھے پھر فرمایا ان کو اللہ نے کہ مر جاو، پھر ان کو زندہ کر دیا ۔بے شک اللہ فضل کرنے والا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے(البقرہ۔۔۔آیت 243)
ترجمعہ:اور لڑو اللہ کی راہ میں ، اور جان لو کہ اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔(آیت۔۔۔44)
خلاصہ:موت کا ایک وقت مقرر ہے اسے کوئی حیلہ کوئی بہانہ نہیں ٹال سکتا۔اوپر والے واقعے میں بتایا گیا ہے کہ ماضی میں کچھ لوگ جہاد سے اس لیئے بھاگے کہ کہیں اس میں ان کی جان نہ چلی جائے ،لیکن اللہ تو دلوں کے بھید بھی جانتا ہے اس لیئے اس نے ان بھاگنے والوں کو موت دے دی ، لیکن پھر ان کے نبی کی دعا پر انہیں زندہ کر دیا تا کہ وہ اپنے گناہ سے توبہ کریں۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن کچھ لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ، بلکہ اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی بجائے اپنی جانوں کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔
اگلی آ یت میں فرمایا : اور لڑو اللہ کی راہ میں ، اور جان لو کہ اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔۔۔یعنی پہلے پچھلا واقعہ مسلمانوں کو بتایا کہ تم سے پہلے لوگ بھی جہاد سے منہ پھیر کر اور ڈر کر (اس بات سے کہ کہیں جہاد میں موت نہ آجائے)بھاگے تھے لیکن اللہ نے انہیں پھر بھی موت دی۔۔۔کیونکہ موت جہاد میں نہیں ،بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیئے مسلمانوں تم موت کے ڈر سے جہاد سے منہ مت پھیرنا ۔۔۔اور جو کچھ بھی تم کرتے اللہ اسے خوب دیکھتا اور سنتا ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اتنی جنگوں میں لڑا کہ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں تلوار،،تیر اور نیزے کا زخم نہ ہو ۔۔اور فرماتے ہیں۔۔میں نے بڑی خواہش اور کوشش کی کہ اللہ مجھے شہادت کی موت دے لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی اور آج میں اپنے بستر پر مر رہا ہوں۔۔۔۔اس سے ثابت ہتا ہے کہ اگر موت میدان جہاد میں ہوتی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو موت وہیں ملتی لیکن موت تو اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جسے چاہے گھر میں بستر پر موت دے دے اور جسے چاہے میدان جہاد سے تیروں،تلواروں،گولیوں اور بموں کی بارش سے بچا لائے ۔۔۔۔سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے اور وہ حکمت والا بصیرت والا ہے۔۔