راحیل فاروق
محفلین
صاحبو، کوئی بھی معاشرتی نظام اس وقت تک استحکام کو نہیں پا سکتا جب تک اس میں ایک خاص قسم کا توازن نہ پیدا ہو جائے۔ اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ معاشرے کا بست و کشاد اس طرز پر ہوکہ ہر تکلیف کے مقابلے میں ایک راحت اور ہر شر کے برابر ایک خیر موجود ہو۔ برِ صغیر پاک و ہند کے کلاسیکی ازدواجی نظام میں یہ توازن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود رہا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ نئے زمانے نے جہاں ہمیں ہمارے ماضی کی بابت بہت سی مفید معلومات بہم پہنچائی ہیں وہاں کچھ پہلوؤں سے متعلق شدید غلط فہمیوں اور جہالت کو بھی جنم دیا ہے۔ اس مضمون میں ہم انھی اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہم چاہتے ہیں کہ بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک دو تصریحات ضرور کر دی جائیں۔ پہلی تو یہ کہ ہم جس معاشرے کی شادیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے اسے ہمارے خیال میں دیسی معاشرہ کہنا نہایت موزوں ہے۔ دیسی کی ترکیب معنوی لحاظ سے ان تمام مشترکہ رنگوں کو محیط ہے جو پاکستان سے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے نیپال تک کے معاشروں اور طرزِ حیات سے مخصوص ہیں۔ گردونِ دوں کی ستم ظریفی سے اس لفظ میں سے کچھ تفنن اور کچھ حقارت کی جھلک آنے لگی ہے لیکن اپنے مطلب کے لحاظ سے ہماری گفتگو کے لیے اس سے بہتر کوئی اور لفظ نہیں ہو سکتا۔لہٰذا آئندہ ہم اس پورے ثقافتی کینوس کو جو کئی ملکوں اور قومیتوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے اور ہماری اس بحث کا محور ہے، دیسی معاشرہ کہہ کر پکاریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دیسی نظامِ ازدواج اپنے مزاج اور فطرت میں اسلام کے ازدواجی نظام سے صریحاً مختلف ہے۔ اسلام میں شادی کا ادارہ اپنی اصل میں شاید مغرب کے موجودہ ازدواجی نظام سے زیادہ قریب ہے۔ اس معاملے پر مزید گفتگو پھر سہی، بالفعل ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیسی شادی کے تصور کو اسلام سے بھڑانا غیرمناسب ہو گا۔ بلکہ اگر مذہب کی روشنی میں دیکھنا ہی مقصود ہو تو ہماری شادیوں پر ہندو مت کے تناظر میں غور کرنا زیادہ مفید ہو گا۔
فی زمانہ اکثریت کا خیال ہے کہ دیسی معاشروں میں عورت کا بیاہ کے بعد شوہر کے گھر کو ہجرت کرنا ایک فقید المثال قربانی ہے جس کی مثال مرد پیش نہیں کر سکتا۔ ہم اس بات کے پہلے حصے سے بالکل متفق ہیں کہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جس طرح ایک گھر میں پیدائش سے جوانی تک کا وقت گزارنے کے بعد دوسرے گھر میں منتقل ہوتی ہیں وہ ایک بہت عظیم قربانی ہے۔ اور اس نوعیت کا کشٹ اٹھانا واقعی مردوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ باپ کے گھر کی روایات کی پاسداری میں بسر کرنے کے بعد ایک نئے گھر کی روایات کو از سرِ نو سیکھنا اور وہ بھی اس حال میں کہ اپنے عزیز ترین رشتوں کو وہ دور، بہت دور کہیں چھوڑ آئی ہوں، بہت معنیٰ رکھتا ہے۔ یعنی اول تو گھر والوں سے جدائی اور دوم نئے گھر کے طرزِ حیات سے بیگانگی اس تلوار کو دودھاری بنا دیتی ہیں جس پر یہ بیچاریاں چلنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن یہ خیال کہ مرد شادی کے معاملے میں بالکل غیرمکلف ہے، اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مرد اور عورت کی زندگیوں کے کچھ اور پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مرد کے بارے میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ جذباتی اور جسمانی دونوں لحاظ سے وہ عورت سے کہیں کم لچک رکھتا ہے۔ عورت جو دھچکے معمولی سمجھ کر برداشت کر لیتی ہے مردِ کے لیے تکلیفِ مالایطاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ طلاق وغیرہ کے اثرات عورت پر گو وقتی طور پر زیادہ شدید ہوتے ہیں مگر جلد زائل ہو جاتے ہیں۔ مرد گو بظاہر اس قسم کے واقعات کا کم اثر قبول کرتے ہیں لیکن یہ اثر طویل عرصے تک ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ جسمانی طور پر بھی اگرچہ مرد زیادہ طاقت ور ہے مگر لچک اور ڈھل جانے کی صلاحیت عورت میں زیادہ ہے۔ جسمانی لچک کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ بچے کو نو ماہ تک پیٹ میں اٹھائے پھرنے کا تصور ہی مردوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ بظاہر ایک ٹھوس اور بے لچک زندگانی کے لیے پیدا کیے گئے اس مرد کو، جسے شاید بلاوجہ صنفِ کرخت نہیں کہا جاتا، جب زندگی کی اونچ نیچ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ عورت کی طرح ڈھلتا سنبھلتا نہیں، بلکہ بالکل ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے۔
دیسی معاشروں میں ایک نئی نویلی دلہن جب اپنے ماں باپ کا گھر تیاگ کر لڑکے کے گھر کی مالکن بنتی ہے تو عام طور پر یہ تجربہ لڑکے کے لیے خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ ماں کے پکوانوں کے عادی نوجوان کو جب شدید بھوک کے عالم میں ایک بالکل مختلف اور اجنبی ذائقے کا سامنا ہوتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے۔ بیوی بہتر پکائے تو بھی عادت اور معمول سے ہٹ کر کھانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ماں جس طرح تیار کر کے دفتر بھیجتی تھی بیوی ان تکلفات سے واقف نہیں۔ ماں سے جو باتیں کر کے گھنٹوں مزا لیتے رہتے تھے، بیوی ان پر ہونقوں کی طرح منہ کھول کے تکنے لگتی ہے۔ پہلے مرضی سے جاگنے سونے والا بانکا اب خود پر ایک نادیدہ سا بوجھ محسوس کرتا ہے جب دن بھر کی تھکی ماندی بیوی رات کے دس بجے ہی بستر پر دراز ہو جاتی ہے۔انا اور احساسَ مردانگی کا کشتہ مرد مانے یا نہ مانے مگر سگریٹ پینے سے لے کر اونچا بولنے تک کی عادتوں پر زندگی میں پہلی مرتبہ اندر ہی اندر شرمندگی اور خجالت کا احساس ہوتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے والے یاروں کے یار کو جب گھر پر منہ بسورتی بیوی کا خیال آتا ہے تو ضمیر کے کچوکے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔ گھر اگر اکٹھا ہو تو بیوی اور ماں اور بہنوں کے درمیان جنم لینے والی کشمکش بھی مرد کے اعصاب کو کچلنے لگتی ہے۔ بیوی تو خیر ایک نئے گھر میں آتی ہے مگر اس بھاگوان کے آنے سے مرد اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی کی بابل سے مہاجرت اس کے لیے جس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے اس سے زیادہ نہیں تو تقریباً اتنی ہی مشکل مرد کو بھی ایک نئے طرزِ حیات کے مطابق ڈھلنے میں اٹھانی پڑتی ہے۔ اور یہی نہیں، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!
لڑکی تو ایک گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر میں آن بیٹھی، لڑکے کے لیے بات صرف اتنی سی نہیں۔ اب وہ ایک نئے گھر، نئے خاندان کا مالک بن گیا ہے۔ اس گھر کا چولہا جلنے سے لے کر تحفظ تک ہر چیز کا ذمہ دار وہ ہے۔ اسے پیسا کمانا ہے، معاشرے میں اپنے اور اپنی بیوی کے مقام کی فکر کرنی ہے، بچوں اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے، اپنے گھر پر نگران رہنا ہے، بیوی بچوں کے اخلاق و کردار کی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور ان کے اقوال سے لے کر افعال تک ہر بات کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ معاشرہ اس کے گھر سے متعلق کسی کجی، کسی خامی کے بارے میں اس کی بیوی سے سوال نہیں کرے گا۔ ہر چیز کے بارے میں اسی کو مسئول ٹھہرایا جائے گا۔ وہی بتائے گا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
صاحبو، ذمہ داری کا یہ بوجھ اتنا گراں ہے کہ بڑے بڑے دلیروں کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ گھر میں آنے والی ایک نازک سی، گل اندام سی لڑکی اچھے بھلے دبنگ مرد کو ہیجڑا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ سینہ تان کے چلنے والا گبھرو سر اٹھانے کی عیاشی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں اور سماج اس قیامت پر مرد کو رونے تک نہیں دیتا۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ لوگ بے فکرے اور من موجی نوجوانوں کے والدین کو ان کی شادی کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کبھی سوچا، کیوں؟ کیونکہ شادی مرد کے لیے وہ زنجیر ہے جسے پہن کر وہ کبھی خیر نہیں منا سکتا۔ پہنے رہے تو بھی، اتار پھینکے تو بھی!
ہماری شادیوں کی ایک اور بات نہایت معنیٰ خیز ہے۔ دیسی معاشرہ شادی کے بعد عورت کو اس نوعیت اور درجے کی آزادی عطا کرتا ہے جو شادی سے پہلے مرد کو نصیب تھی جبکہ مرد اس قسم کی عیاشیوں سے کافی حد تک محروم کر دیا جاتا ہے۔ کنواری جو کچھ نہیں کر سکتی وہ شادی شدہ عورت دھڑلے سے کرتی ہے اور معاشرہ بھی یہ کہہ کر رعایت دیتا ہے کہ اب یہ شادی شدہ ہے۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر زبان درازی تک جو رعایات منکوحات کو حاصل ہیں کنواریاں ان پر رشک ہی کر سکتی ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ کے بقول پھول جیسی گڑیائیں شادی کے بعد چڑیلیں بن جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مردوں کا معاملہ، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اس کے برعکس ہے۔ کنواروں کی بہت سی حرکات پر انھیں استثنا حاصل ہے۔ کوئی بات نہیں، بچے ہیں۔ لیکن یہی بچے شادی کے بعد ان خوش فعلیوں کی حسرت دل میں لیے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور سماج شیر کی نظر سے ان کی نگرانی کرتا ہے کہ مبادا وہ کوئی کنوار پنا دکھا پائیں!
امید ہے بات کافی حد تک واضح ہو گئی ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیسی شادیاں جہاں عورت سے کئی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہیں وہیں مرد پر بھی برابر کا بوجھ ڈالتی ہیں۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے روایتی معاشرے میں عورت کے حقوق سے اعتنا نہیں کیا جاتا، انھیں دیسی عائلی نظام کو ذرا گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کی حق تلفی خاص خاص حالات میں ایک بدیہی حقیقت ہے لیکن ہماری اوپر کی گفتگو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دیسی نظامِ معاشرت فی نفسہ نہایت متوازن ہے اور کم از کم اس کی اقدار کو کسی خاص شخص یا گروہ کی شقاوت کے باعث موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ہم چاہتے ہیں کہ بات کو آگے بڑھانے سے قبل ایک دو تصریحات ضرور کر دی جائیں۔ پہلی تو یہ کہ ہم جس معاشرے کی شادیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے اسے ہمارے خیال میں دیسی معاشرہ کہنا نہایت موزوں ہے۔ دیسی کی ترکیب معنوی لحاظ سے ان تمام مشترکہ رنگوں کو محیط ہے جو پاکستان سے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے نیپال تک کے معاشروں اور طرزِ حیات سے مخصوص ہیں۔ گردونِ دوں کی ستم ظریفی سے اس لفظ میں سے کچھ تفنن اور کچھ حقارت کی جھلک آنے لگی ہے لیکن اپنے مطلب کے لحاظ سے ہماری گفتگو کے لیے اس سے بہتر کوئی اور لفظ نہیں ہو سکتا۔لہٰذا آئندہ ہم اس پورے ثقافتی کینوس کو جو کئی ملکوں اور قومیتوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے اور ہماری اس بحث کا محور ہے، دیسی معاشرہ کہہ کر پکاریں گے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دیسی نظامِ ازدواج اپنے مزاج اور فطرت میں اسلام کے ازدواجی نظام سے صریحاً مختلف ہے۔ اسلام میں شادی کا ادارہ اپنی اصل میں شاید مغرب کے موجودہ ازدواجی نظام سے زیادہ قریب ہے۔ اس معاملے پر مزید گفتگو پھر سہی، بالفعل ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیسی شادی کے تصور کو اسلام سے بھڑانا غیرمناسب ہو گا۔ بلکہ اگر مذہب کی روشنی میں دیکھنا ہی مقصود ہو تو ہماری شادیوں پر ہندو مت کے تناظر میں غور کرنا زیادہ مفید ہو گا۔
فی زمانہ اکثریت کا خیال ہے کہ دیسی معاشروں میں عورت کا بیاہ کے بعد شوہر کے گھر کو ہجرت کرنا ایک فقید المثال قربانی ہے جس کی مثال مرد پیش نہیں کر سکتا۔ ہم اس بات کے پہلے حصے سے بالکل متفق ہیں کہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں جس طرح ایک گھر میں پیدائش سے جوانی تک کا وقت گزارنے کے بعد دوسرے گھر میں منتقل ہوتی ہیں وہ ایک بہت عظیم قربانی ہے۔ اور اس نوعیت کا کشٹ اٹھانا واقعی مردوں کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ باپ کے گھر کی روایات کی پاسداری میں بسر کرنے کے بعد ایک نئے گھر کی روایات کو از سرِ نو سیکھنا اور وہ بھی اس حال میں کہ اپنے عزیز ترین رشتوں کو وہ دور، بہت دور کہیں چھوڑ آئی ہوں، بہت معنیٰ رکھتا ہے۔ یعنی اول تو گھر والوں سے جدائی اور دوم نئے گھر کے طرزِ حیات سے بیگانگی اس تلوار کو دودھاری بنا دیتی ہیں جس پر یہ بیچاریاں چلنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن یہ خیال کہ مرد شادی کے معاملے میں بالکل غیرمکلف ہے، اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مرد اور عورت کی زندگیوں کے کچھ اور پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مرد کے بارے میں یہ حقیقت مسلم ہے کہ جذباتی اور جسمانی دونوں لحاظ سے وہ عورت سے کہیں کم لچک رکھتا ہے۔ عورت جو دھچکے معمولی سمجھ کر برداشت کر لیتی ہے مردِ کے لیے تکلیفِ مالایطاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ طلاق وغیرہ کے اثرات عورت پر گو وقتی طور پر زیادہ شدید ہوتے ہیں مگر جلد زائل ہو جاتے ہیں۔ مرد گو بظاہر اس قسم کے واقعات کا کم اثر قبول کرتے ہیں لیکن یہ اثر طویل عرصے تک ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ جسمانی طور پر بھی اگرچہ مرد زیادہ طاقت ور ہے مگر لچک اور ڈھل جانے کی صلاحیت عورت میں زیادہ ہے۔ جسمانی لچک کی واضح ترین مثال یہ ہے کہ بچے کو نو ماہ تک پیٹ میں اٹھائے پھرنے کا تصور ہی مردوں کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ بظاہر ایک ٹھوس اور بے لچک زندگانی کے لیے پیدا کیے گئے اس مرد کو، جسے شاید بلاوجہ صنفِ کرخت نہیں کہا جاتا، جب زندگی کی اونچ نیچ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ عورت کی طرح ڈھلتا سنبھلتا نہیں، بلکہ بالکل ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے۔
دیسی معاشروں میں ایک نئی نویلی دلہن جب اپنے ماں باپ کا گھر تیاگ کر لڑکے کے گھر کی مالکن بنتی ہے تو عام طور پر یہ تجربہ لڑکے کے لیے خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ ماں کے پکوانوں کے عادی نوجوان کو جب شدید بھوک کے عالم میں ایک بالکل مختلف اور اجنبی ذائقے کا سامنا ہوتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے۔ بیوی بہتر پکائے تو بھی عادت اور معمول سے ہٹ کر کھانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ماں جس طرح تیار کر کے دفتر بھیجتی تھی بیوی ان تکلفات سے واقف نہیں۔ ماں سے جو باتیں کر کے گھنٹوں مزا لیتے رہتے تھے، بیوی ان پر ہونقوں کی طرح منہ کھول کے تکنے لگتی ہے۔ پہلے مرضی سے جاگنے سونے والا بانکا اب خود پر ایک نادیدہ سا بوجھ محسوس کرتا ہے جب دن بھر کی تھکی ماندی بیوی رات کے دس بجے ہی بستر پر دراز ہو جاتی ہے۔انا اور احساسَ مردانگی کا کشتہ مرد مانے یا نہ مانے مگر سگریٹ پینے سے لے کر اونچا بولنے تک کی عادتوں پر زندگی میں پہلی مرتبہ اندر ہی اندر شرمندگی اور خجالت کا احساس ہوتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے والے یاروں کے یار کو جب گھر پر منہ بسورتی بیوی کا خیال آتا ہے تو ضمیر کے کچوکے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں۔ گھر اگر اکٹھا ہو تو بیوی اور ماں اور بہنوں کے درمیان جنم لینے والی کشمکش بھی مرد کے اعصاب کو کچلنے لگتی ہے۔ بیوی تو خیر ایک نئے گھر میں آتی ہے مگر اس بھاگوان کے آنے سے مرد اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی کی بابل سے مہاجرت اس کے لیے جس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے اس سے زیادہ نہیں تو تقریباً اتنی ہی مشکل مرد کو بھی ایک نئے طرزِ حیات کے مطابق ڈھلنے میں اٹھانی پڑتی ہے۔ اور یہی نہیں، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!
لڑکی تو ایک گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر میں آن بیٹھی، لڑکے کے لیے بات صرف اتنی سی نہیں۔ اب وہ ایک نئے گھر، نئے خاندان کا مالک بن گیا ہے۔ اس گھر کا چولہا جلنے سے لے کر تحفظ تک ہر چیز کا ذمہ دار وہ ہے۔ اسے پیسا کمانا ہے، معاشرے میں اپنے اور اپنی بیوی کے مقام کی فکر کرنی ہے، بچوں اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے، اپنے گھر پر نگران رہنا ہے، بیوی بچوں کے اخلاق و کردار کی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور ان کے اقوال سے لے کر افعال تک ہر بات کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ معاشرہ اس کے گھر سے متعلق کسی کجی، کسی خامی کے بارے میں اس کی بیوی سے سوال نہیں کرے گا۔ ہر چیز کے بارے میں اسی کو مسئول ٹھہرایا جائے گا۔ وہی بتائے گا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
صاحبو، ذمہ داری کا یہ بوجھ اتنا گراں ہے کہ بڑے بڑے دلیروں کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ گھر میں آنے والی ایک نازک سی، گل اندام سی لڑکی اچھے بھلے دبنگ مرد کو ہیجڑا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ سینہ تان کے چلنے والا گبھرو سر اٹھانے کی عیاشی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں اور سماج اس قیامت پر مرد کو رونے تک نہیں دیتا۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ لوگ بے فکرے اور من موجی نوجوانوں کے والدین کو ان کی شادی کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کبھی سوچا، کیوں؟ کیونکہ شادی مرد کے لیے وہ زنجیر ہے جسے پہن کر وہ کبھی خیر نہیں منا سکتا۔ پہنے رہے تو بھی، اتار پھینکے تو بھی!
ہماری شادیوں کی ایک اور بات نہایت معنیٰ خیز ہے۔ دیسی معاشرہ شادی کے بعد عورت کو اس نوعیت اور درجے کی آزادی عطا کرتا ہے جو شادی سے پہلے مرد کو نصیب تھی جبکہ مرد اس قسم کی عیاشیوں سے کافی حد تک محروم کر دیا جاتا ہے۔ کنواری جو کچھ نہیں کر سکتی وہ شادی شدہ عورت دھڑلے سے کرتی ہے اور معاشرہ بھی یہ کہہ کر رعایت دیتا ہے کہ اب یہ شادی شدہ ہے۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر زبان درازی تک جو رعایات منکوحات کو حاصل ہیں کنواریاں ان پر رشک ہی کر سکتی ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ کے بقول پھول جیسی گڑیائیں شادی کے بعد چڑیلیں بن جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مردوں کا معاملہ، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اس کے برعکس ہے۔ کنواروں کی بہت سی حرکات پر انھیں استثنا حاصل ہے۔ کوئی بات نہیں، بچے ہیں۔ لیکن یہی بچے شادی کے بعد ان خوش فعلیوں کی حسرت دل میں لیے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور سماج شیر کی نظر سے ان کی نگرانی کرتا ہے کہ مبادا وہ کوئی کنوار پنا دکھا پائیں!
امید ہے بات کافی حد تک واضح ہو گئی ہو گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دیسی شادیاں جہاں عورت سے کئی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہیں وہیں مرد پر بھی برابر کا بوجھ ڈالتی ہیں۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے روایتی معاشرے میں عورت کے حقوق سے اعتنا نہیں کیا جاتا، انھیں دیسی عائلی نظام کو ذرا گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عورت کی حق تلفی خاص خاص حالات میں ایک بدیہی حقیقت ہے لیکن ہماری اوپر کی گفتگو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دیسی نظامِ معاشرت فی نفسہ نہایت متوازن ہے اور کم از کم اس کی اقدار کو کسی خاص شخص یا گروہ کی شقاوت کے باعث موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
آخری تدوین: