بہت عمدہ تجزیہ کیا ہے راحیل بھائی۔
اگر دوسرے معاشرتی عوامل جن کی بنا پر معاشرے میں عدم انصاف جنم لیتا ہے، ان سے صرفِ نظر کیا جائے تو یہی صوتِ حال بنتی ہے۔
اس موضوع کو جس طرح آپ نے صراطِ مستقیم سے ہٹنے سے بچایا ہے، بلاشبہ یہ بھی ایک ہنر ہے، جو کم از کم میں تو نہیں کر سکتا۔
اگر اس موضوع پر لکھنا چاہتا تو رستے میں اتنے موڑ پڑتے ہیں کہ آسانی سے کسی بھی وقت موضوع کی پٹری سے اتر جاتا۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
مرد مصنفین نے دیسی معاشرہ میں شادی شدہ مرد کی مظلومیت پہ کم لکھا ہے۔ یہ ہم پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں کہ اتنے تردد سے،اتنی کاوش سے کسی مرد قلم کار نے مرد کی مشکلات کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا ہو۔ بہت محنت سے نکات نکالے ہیں۔ زبردست۔ زبردست۔
اس تحریر پہ جیسا کہ اُوپر کئی محفلین نے کہا ۔۔۔مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ مجھے بھی اختلاف ہے۔
طلاق وغیرہ کے اثرات عورت پر گو وقتی طور پر زیادہ شدید ہوتے ہیں مگر جلد زائل ہو جاتے ہیں۔ مرد گو بظاہر اس قسم کے واقعات کا کم اثر قبول کرتے ہیں لیکن یہ اثر طویل عرصے تک ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔
ہمارے مشاہدے کچھ مختلف کہانی سُناتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ بیوی کی موت مرد کے لئے کُہنی کی چوٹ ہوتی ہے۔ لگتی بہت زور سے ہے لیکن جلد ہی درد تھم جاتا ہے۔ اسی طرح طلاق کے بعد مرد کے لئے شادی کرنا اُس کے اپنے لئے بھی آسان اور معاشرے کی طرف سے بھی اُس کے لئے آسانی ہے۔بچے بھی زیادہ تر عورت کے پاس ہوتے ہیں۔ اور عورت کے لئے ہر صورت میں شادی کرنا مشکل ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کثیر تعداد شادی نہیں کرتی/یا نہیں کر پاتی۔طلاق کا زیادہ بوجھ عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ معاشرے کی لعن طعن زیادہ اُسی کے حِصے میں آتی ہے۔ اُس کے لئے خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کی یادوں کو بھُلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ دوسری شادی کا تصور ہی اُس کے لئے آگ کا دریا پار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ میکے والے بھی اُس کے لئے اجنبی ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی اُس کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہوتی ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی اُس کی حیثیت بہت کمزور ہوتی ہے۔اگر دوسری شادی ہو جائے تو دوسرا مرد پہلے شوہر کے حوالے سے طنز و طعنے دینا کبھی نہیں بھولتا۔ عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ پچھلے مرد کو کسی بھی صورت میں یاد کر سکے؟یاد رکھ سکے۔ اُسے بہت چوکنا(کانشیش) رہنا پرتا ہے اِس حوالے سے۔اگر بچے بھی ہوں تو وہ شٹل کاک بن جاتی ہے۔ اُس کی کشمکش اِس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اِسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

زندگی کی اونچ نیچ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ عورت کی طرح ڈھلتا سنبھلتا نہیں، بلکہ بالکل ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ زندگی کی اونچ نیچ کے نتیجے میں عورت فوری طور پہ تو لگتا ہے کہ کبھی نہیں سنبھل سکے گی لیکن وہ نہ صرف سمبھلتی ہے بلکہ بہت مضبوط بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ وہ ٹوٹتی پھوٹتی نہیں۔۔۔یہ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ٹوٹتی ہے لیکن اِسی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ اپنے اُوپر مضبوطی کا ایک خول چڑھائے رکھتی ہے۔ اور مرد۔۔۔شاید کچھ مرد ٹوٹ پھؤٹ کا شکار ہوتے ہوں۔۔یا پھر کچھ خاص قسم کے حالات سے اُن کے ساتھ ایسا ہوتا ہو۔۔۔جیسا کہ معاشی میدان میں کسی بری ناکامی کا سامنا وغیرہ۔ لیکن عام سی باتیں ان کے لئے فوری تکلیف کا باعث تو ہو سکتی ہیں لیکن دیرپا تکلیف نہیں رہ پاتی۔

دیسی معاشروں میں ایک نئی نویلی دلہن جب اپنے ماں باپ کا گھر تیاگ کر لڑکے کے گھر کی مالکن بنتی ہے تو عام طور پر یہ تجربہ لڑکے کے لیے خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے
لوجی۔ یہاں تو کسی کے گھر مہمان چلے جائیں تو بہت اجنبیت اور اُوپرے پن کا احساس رہتا ہے کجا ایک نئے گھر میں ایک نئی زندگی کی شروعات۔ نئے طریقے،نئی قدریں،۔۔۔۔پتہ نہیں کیسے ہوں،پتہ نہیں کیا ہو۔۔۔خدشات،خدشات۔۔۔اور مالکن کی بھی خوب کہی۔۔۔کبھی سُنیں میاں اور سسرال کی باتیں۔۔"۔تمہارے گھر(میکے) سے یہ چیز آئی ہے۔ وغیرہ۔"ہمارے گھر میں یہ نہیں چلے گا۔میں اپنے گھر میں یہ برداشت نہیں کروں گا۔۔۔وغیرہ"عورت کا کون سا گھر ہے؟ یہ ابھی طے نہیں ہؤا۔ کیا کبھی طے ہو سکے گا؟


ماں کے پکوانوں کے عادی نوجوان کو جب شدید بھوک کے عالم میں ایک بالکل مختلف اور اجنبی ذائقے کا سامنا ہوتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے۔ بیوی بہتر پکائے تو بھی عادت اور معمول سے ہٹ کر کھانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ماں جس طرح تیار کر کے دفتر بھیجتی تھی بیوی ان تکلفات سے واقف نہیں۔ ماں سے جو باتیں کر کے گھنٹوں مزا لیتے رہتے تھے، بیوی ان پر ہونقوں کی طرح منہ کھول کے تکنے لگتی ہے
"ہمارے یہاں اس طرح سے نہیں کھانا بنتا۔ تمہیں چاہیے کہ پوچھ لیا کرو۔ ارے میرا بیٹا یہ کبھی نہیں کھائے گا۔ یہ تم ہی کھاؤ۔ ہاہاہا۔طنز۔طعنے۔ "کبھی ایسا کھایا ہو تو۔۔۔"مرد کو تو نئے تجربات اچھے لگتے ہیں۔اگر اُسے کھانے میں کوئی مسلۂ ہو تو وہ کون سا خاموش رہتا ہے۔ "تمہیں کچھ پکانا بھی آتا ہے؟ نجاجے ماں نے کیا سکھا کر بھیجا ہے؟" ماں کے حوالے سے یہ طعنے اُسے اکثر اور تقریباََ ہر ایک سے سننے کو ملتے ہیں۔


پہلے مرضی سے جاگنے سونے والا بانکا اب خود پر ایک نادیدہ سا بوجھ محسوس کرتا ہے جب دن بھر کی تھکی ماندی بیوی رات کے دس بجے ہی بستر پر دراز ہو جاتی ہے۔انا اور احساسَ مردانگی کا کشتہ مرد مانے یا نہ مانے مگر سگریٹ پینے سے لے کر اونچا بولنے تک کی عادتوں پر زندگی میں پہلی مرتبہ اندر ہی اندر شرمندگی اور خجالت کا احساس ہوتا ہے
یہ احساس شاید ایک فی صد مردوں کو ہوتا ہو۔ یا پھر آپ دیسی معاشرے میں کسی اور معاشرے کو ملا رہے ہیں۔ دیسی معاشرے میں مرد کو ایسی شرمندگی نہیں ہوتی۔ یہاں عورت مرد کا انتظار کرتی ہے۔ اور مرد کو باہر بہت کام ہوتے ہیں۔آخر وہ مرد ہے،عورت کو کیا پتہ۔

دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے والے یاروں کے یار کو جب گھر پر منہ بسورتی بیوی کا خیال آتا ہے تو ضمیر کے کچوکے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں
ہاہاہا۔آپوپر والا جواب

گھر اگر اکٹھا ہو تو بیوی اور ماں اور بہنوں کے درمیان جنم لینے والی کشمکش بھی مرد کے اعصاب کو کچلنے لگتی ہے
مرد کا بہت کم وقت گھر میں گذرتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اِس کشمکش سے مرد بھی متاثر ہوتا ہے لیکن زیادہ جھیلنا عورت کو پڑتا ہے۔ نشانہ وہی ہوتی ہے۔ چوٹیں اُسے لگتی ہیں۔

بیوی تو خیر ایک نئے گھر میں آتی ہے مگر اس بھاگوان کے آنے سے مرد اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے۔
وہی بات کہ جو پہلے کہی کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ بہت طویل عرصے بعد بچے بڑے ہو جائیں تو کچھ نہ کچھ حکومت عورت کے حصے میں اتی ہے۔

لڑکی کی بابل سے مہاجرت اس کے لیے جس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے اس سے زیادہ نہیں تو تقریباً اتنی ہی مشکل مرد کو بھی ایک نئے طرزِ حیات کے مطابق ڈھلنے میں اٹھانی پڑتی ہے
یہ بات بھی پہلے ہو چکی۔

لڑکی تو ایک گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر میں آن بیٹھی، لڑکے کے لیے بات صرف اتنی سی نہیں۔ اب وہ ایک نئے گھر، نئے خاندان کا مالک بن گیا ہے۔ اس گھر کا چولہا جلنے سے لے کر تحفظ تک ہر چیز کا ذمہ دار وہ ہے۔ اسے پیسا کمانا ہے، معاشرے میں اپنے اور اپنی بیوی کے مقام کی فکر کرنی ہے
یہ صحیح ہے کہ مرد پہ معاشی دباؤ ہوتا ہے اور اس حوالے سے اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ لیکن دیسی معاشرے میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کھیتوں اور گھر میں معاشی دوڑ میں بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ عورت کے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں آتا۔ وہ صرف کام کی مشین ہے۔ فجر سے پہلے اُٹھنا،جانوروں کو چارہ وغیرہ دینا،دودھ دہونا،جھاڑو،ناشتہ،بچے،کھیتوں پہ جانا یا گھر میں کوئی مشقت کرنا۔ مہمان داری۔ کھانا پکانا۔سسرال داری۔ شوہر کی خاطر داری۔ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

بچوں اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے، اپنے گھر پر نگران رہنا ہے، بیوی بچوں کے اخلاق و کردار کی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور ان کے اقوال سے لے کر افعال تک ہر بات کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ معاشرہ اس کے گھر سے متعلق کسی کجی، کسی خامی کے بارے میں اس کی بیوی سے سوال نہیں کرے گا۔ ہر چیز کے بارے میں اسی کو مسئول ٹھہرایا جائے گا۔ وہی بتائے گا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
ہم نے تو بچوں کی بُری عادات پہ عورت کو قصوروار گردانتے سُنا ہے۔کوئی کارنامہ کریں تو آخر بچے کس کے ہیں!

۔ ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں
یہ کسی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں
ویسے ہم نے یہی سنا ہے۔ ماں اور بہنیں کہتی ہیں۔
"ہلے چھوٹا اے۔""ہولے ہولے آپے عقل آجائے گی۔"
اور لڑکی میکے سے بڑی ہو کے آتی ہے۔ اپسے عقل نہ ہونے کے اور لوٹھا کی لوٹھا ہونے کے طعنے ہم وقت ملتے ہیں۔
دھڑکے عورت کو زیادہ ہوتے ہیں۔ اُسے سب سے برا دھڑکا تو یہ بے یقینی ہے کہ کیا وہ ہمیشہ یہیں رکھی جا سکے گی؟؟؟
اُسے چھوڑ تو نہیں دیا جائے گا؟؟؟
اس دھڑکے سے وہ کبھی بھی جان نہیں چھڑا سکتی۔اپسے اپنے آپ کو بھی اس حالت میں رکھنا پڑتا ہے کہ شوہر کو اچھی لگتی رہے۔(شوہر بھانویں کِڈا ای کوجا ہووے)۔کھانے میں دیر نہ ہو جائے۔ نہیں تو۔۔۔
صبح اُتھنے میں دیر نہ ہو جائے نہیں تو۔۔۔
سالن میں نمک،مرچ کم زیادہ نہ ہو جائیں نہیں تو۔۔۔
بچوں کے کپڑے صحیح ہوں۔۔۔خود کا حُلیہ ٹھیک ہو۔۔۔
مہمانداری ٹھیک ہو۔۔
نندوں ،نندوئیوں کو کھلانا پلانا،دینا دلانا،،،،
نندوں کے بچوں کو۔۔۔
دھڑکے دھڑکے دھڑکے
دوسری عورت کا ہمیشہ والا دھڑکا
کیا کیا گنوائیں؟؟؟
 

جاسمن

لائبریرین
جہیز نہ لانے،کم لانے،برات کو ایسا کھانا کیوں۔۔۔۔ساس،نندوں وغیرہ کو پہناونیاں ایسی کیوں؟؟؟
تیرے ماں پیاں نے بس ایہو ای دتا سی؟
اس پہ تو جلانے کے کتنے واقعات ہیں۔
ایک آگ وہ ہے جو شوہر اپنی ماں بہنوں کے ساتھ مل کے یا اکیلے لگاتا ہے۔۔۔اور ایک آگ جو پہلے روز سے دلہن کے دل میں لگا دی جاتی ہے۔ گھونگھٹ کی اوٹ میں ایسے ایسے جُملے اُسے سننے کو ملتے ہیں،جو دل چھید کے رکھ دیتے ہیں۔
کیا مرد کو بری،بُری بنانے کے طعنے اسی طرح ملتے ہیں؟
کیا حق مہر کم رکھنے پہ ایسے طعنے ملتے ہیں؟
کیا بیویاں اپنے شوہروں کے دل دکھاتے رویوں پہ اُنہیں آگ لگاتی ہیں؟
کیا مردوں کو بیویوں سے مار پڑتی ہے؟
 

جاسمن

لائبریرین
دیسی معاشرے میں بچے نہ ہونے پہ مرد کی نسبت عورت کو طعنے ملتے ہیں۔ سوال عورت سے پوچھے جاتے ہیں۔ شادی کو ایک مہینہ نہیں گُزرتا کہ یہ سوال اُس کے لئے سوالیہ پرچہ جات میں سرِ فہرست ہوتا ہے۔ اور اِن تکلیف دہ سوالوں کے ساتھ ساتھ گھر والے اُسے مزید تکلیف دہ تجربات کا شکار بناتے ہیں۔ دم درود۔جھاڑ پھونک۔۔۔دائیاں۔۔۔
جسمانی اور ذہنی۔۔۔تکلیفیں ہی تکلیفیں۔ شرم و حیا کی پُتلی۔۔کیا کیا سہتی ہے!!!اور یہ شرم اُسے اپنے احساسات کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اور اسے اپنی تقدیر اور رواج سمجھ کے وہ خاموشی کی بکل مارے رکھتی ہے۔
دل کا دُکھنا کیسا تکلیف دہ ہوتا ہے۔
دل کا ٹوٹنا زندگی میں کتنی تھکن لاتا ہے۔
اُس کی لا ابالی زندگی کا دور تو بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ والدین اپنی عزت کی قسم اُس کے سر پہ چُنّی آتے ہی دینے لگتے ہیں۔ ابھی تو کیکلی کھیلنے کے دن تھے کہ ذمہ داریاں کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ باتیں،تجربے،مشاہدے۔۔۔۔ٹُک ٹُک دیکھتی ہے۔کوئی اُسے بھی کہتا ہے کہ ابھی چھوٹی ہے کوئی نہ کر لے گی کچھ عرصہ بعد۔۔۔
 
دیسی معاشرے میں بچے نہ ہونے پہ مرد کی نسبت عورت کو طعنے ملتے ہیں۔ سوال عورت سے پوچھے جاتے ہیں۔ شادی کو ایک مہینہ نہیں گُزرتا کہ یہ سوال اُس کے لئے سوالیہ پرچہ جات میں سرِ فہرست ہوتا ہے۔ اور اِن تکلیف دہ سوالوں کے ساتھ ساتھ گھر والے اُسے مزید تکلیف دہ تجربات کا شکار بناتے ہیں۔ دم درود۔جھاڑ پھونک۔۔۔دائیاں۔۔۔
جسمانی اور ذہنی۔۔۔تکلیفیں ہی تکلیفیں۔ شرم و حیا کی پُتلی۔۔کیا کیا سہتی ہے!!!اور یہ شرم اُسے اپنے احساسات کو بیان کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اور اسے اپنی تقدیر اور رواج سمجھ کے وہ خاموشی کی بکل مارے رکھتی ہے۔
دل کا دُکھنا کیسا تکلیف دہ ہوتا ہے۔
دل کا ٹوٹنا زندگی میں کتنی تھکن لاتا ہے۔
اُس کی لا ابالی زندگی کا دور تو بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ والدین اپنی عزت کی قسم اُس کے سر پہ چُنّی آتے ہی دینے لگتے ہیں۔ ابھی تو کیکلی کھیلنے کے دن تھے کہ ذمہ داریاں کے ساتھ ساتھ تکلیف دہ باتیں،تجربے،مشاہدے۔۔۔۔ٹُک ٹُک دیکھتی ہے۔کوئی اُسے بھی کہتا ہے کہ ابھی چھوٹی ہے کوئی نہ کر لے گی کچھ عرصہ بعد۔۔۔
بہترین تبصرہ اور 90٪ تو حقیقت کے قریب نہیں بلکہ حقیقت کے اوپر کھڑا ہے۔۔۔ ! ویری ویل ڈن دِی دِی!
 

جاسمن

لائبریرین
معاشی جدوجہد کے تناظر میں دیکھیں تو ایک ہی کام یا پھر معاشی محاذ پہ مختلف کام کر کے آنے والے دونوں میں سے ایک لمبا لمبا لیٹ جاتا ہے اور دوسرا (جو ایک ان تھک جانور ہے) آتے ہی ان گنت کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات تو واش روم جانے کی فطری حاجت تک دباتی ہیں خواتین۔ پانی پینا یاد نہیں رہتا۔ ابھی کھانا بنانا ہے۔ بچے سکول سے آگئے ہیں یا آنے والے ہیں۔ سسر کا پرہیزی کھانا۔ شام کو نند نے آنا ہے۔ اپنی طبیعت بھی خراب ہے تو ہؤا کرے۔
مرد آرام کرنے کے بعد سکون سے کھانا کھاتا ہے۔ گپ شپ۔ تنقید۔ بیوی سے توجہ۔۔۔
 

نمرہ

محفلین
عورت کا کون سا گھر ہے؟ یہ ابھی طے نہیں ہؤا۔ کیا کبھی طے ہو سکے گا؟
اس کا سیدھا سا جواب تو مجھے یہ لگتا ہے کہ عورت کا گھر صرف وہی ہو سکتا ہے جواس نے خود اپنے پیسے سے خریدا ہو۔ باقی سب باتیں ا دھر ادھر کی کہانیاں ہیں۔
 
جاسمن صاحبہ کی ساری ہی باتوں سے متفق ہوں۔
گو مرد بهی کچھ کم نہیں ہوتےلیکن گهروں کے اندر عورت کو ان سب باتوں کا سامنا اکثر اپنی جیسی عورتوں سے ہی ہوتا ہے۔

اور اگر میں غلط نہیں ہوں تو اس میں سب سے بڑا کمال عورت کی زبان یا بدزبانی اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
صاحبو، ذمہ داری کا یہ بوجھ اتنا گراں ہے کہ بڑے بڑے دلیروں کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ گھر میں آنے والی ایک نازک سی، گل اندام سی لڑکی اچھے بھلے دبنگ مرد کو ہیجڑا بنا کر رکھ دیتی ہے۔ سینہ تان کے چلنے والا گبھرو سر اٹھانے کی عیاشی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں اور سماج اس قیامت پر مرد کو رونے تک نہیں دیتا۔ آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ لوگ بے فکرے اور من موجی نوجوانوں کے والدین کو ان کی شادی کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کبھی سوچا، کیوں؟ کیونکہ شادی مرد کے لیے وہ زنجیر ہے جسے پہن کر وہ کبھی خیر نہیں منا سکتا۔ پہنے رہے تو بھی، اتار پھینکے تو بھی!
ہماری شادیوں کی ایک اور بات نہایت معنیٰ خیز ہے۔ دیسی معاشرہ شادی کے بعد عورت کو اس نوعیت اور درجے کی آزادی عطا کرتا ہے جو شادی سے پہلے مرد کو نصیب تھی جبکہ مرد اس قسم کی عیاشیوں سے کافی حد تک محروم کر دیا جاتا ہے۔ کنواری جو کچھ نہیں کر سکتی وہ شادی شدہ عورت دھڑلے سے کرتی ہے اور معاشرہ بھی یہ کہہ کر رعایت دیتا ہے کہ اب یہ شادی شدہ ہے۔ پہننے اوڑھنے سے لے کر زبان درازی تک جو رعایات منکوحات کو حاصل ہیں کنواریاں ان پر رشک ہی کر سکتی ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ کے بقول پھول جیسی گڑیائیں شادی کے بعد چڑیلیں بن جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ مردوں کا معاملہ، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اس کے برعکس ہے۔ کنواروں کی بہت سی حرکات پر انھیں استثنا حاصل ہے۔ کوئی بات نہیں، بچے ہیں۔ لیکن یہی بچے شادی کے بعد ان خوش فعلیوں کی حسرت دل میں لیے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور سماج شیر کی نظر سے ان کی نگرانی کرتا ہے کہ مبادا وہ کوئی کنوار پنا دکھا پائیں!
میرے محترم بھائی
درج بالا اقتباس میں آپ کا انداز بیان مجھے تو پر مزاح محسوس بھی ہوا اور بلا شک میں ہنسا بھی ۔
اس لیے مزاح کی مہک کو ذکر کیا ۔
بہت دعائیں ۔
ورنہ اس تحریر میں کوئی ایسا قصد نہ تھا!
 
ہمارے مشاہدے کچھ مختلف کہانی سُناتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ بیوی کی موت مرد کے لئے کُہنی کی چوٹ ہوتی ہے۔ لگتی بہت زور سے ہے لیکن جلد ہی درد تھم جاتا ہے۔ اسی طرح طلاق کے بعد مرد کے لئے شادی کرنا اُس کے اپنے لئے بھی آسان اور معاشرے کی طرف سے بھی اُس کے لئے آسانی ہے۔بچے بھی زیادہ تر عورت کے پاس ہوتے ہیں۔ اور عورت کے لئے ہر صورت میں شادی کرنا مشکل ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کثیر تعداد شادی نہیں کرتی/یا نہیں کر پاتی۔طلاق کا زیادہ بوجھ عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ معاشرے کی لعن طعن زیادہ اُسی کے حِصے میں آتی ہے۔ اُس کے لئے خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کی یادوں کو بھُلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ دوسری شادی کا تصور ہی اُس کے لئے آگ کا دریا پار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ میکے والے بھی اُس کے لئے اجنبی ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی اُس کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہوتی ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی اُس کی حیثیت بہت کمزور ہوتی ہے۔اگر دوسری شادی ہو جائے تو دوسرا مرد پہلے شوہر کے حوالے سے طنز و طعنے دینا کبھی نہیں بھولتا۔ عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ پچھلے مرد کو کسی بھی صورت میں یاد کر سکے؟یاد رکھ سکے۔ اُسے بہت چوکنا(کانشیش) رہنا پرتا ہے اِس حوالے سے۔اگر بچے بھی ہوں تو وہ شٹل کاک بن جاتی ہے۔ اُس کی کشمکش اِس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اِسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
آپی یہی تاثر تو زائل کرنا مقصود تھا۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
چند دلچسپ تحقیقات شاید میرے موقف کی تائید کر سکیں۔
  1. ترکِ تعلق کے مردوں پر اثرات : سائیکالوجی ٹوڈے
  2. خانگی مسائل کے حل میں خواتین کا کردار : نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ
  3. مردوں کی بیویوں سے اثر پذیری : سائیک سنٹرل
ہو سکتا ہے کہ آپ کو خیال ہو کہ ان تحقیقات کا محور مغربی معاشرہ ہے۔ وہاں کی معاشرتی حرکیات اور یہاں کے معاملات میں بعد المشرقین ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ یہ تحقیقیں زیادہ تر نفسیاتی نوعیت کی ہیں اور فطری انسانی رویوں کی کھوج میں کی گئی ہیں۔ یہ رویے تقریباً عالمگیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ غیر جانب داری اور بے تعصبی سے جائزہ لیں تو ان کا اطلاق اتنی ہی خوبی سے ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے جتنا کہیں اور۔
واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ شروع میں مشاہدات اور تجربات کے زیرِ اثر پیدا ہوئے تھے۔ بعد کو وقتاً فوقتاً ایسی اصولی، سائنسی اور ٹھوس باتیں نظر سے گزرتی رہیں جنھوں نے ان خیالات کی کافی حد تک تصدیق کی۔ کاہلی نے مزید وقت فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ایک عرصے کے بعد میں نے یہ افکار آپ کے سامنے موجودہ اور پختہ تر صورت میں رکھے۔
یہ صحیح ہے کہ مرد پہ معاشی دباؤ ہوتا ہے اور اس حوالے سے اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ لیکن دیسی معاشرے میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کھیتوں اور گھر میں معاشی دوڑ میں بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ عورت کے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں آتا۔ وہ صرف کام کی مشین ہے۔ فجر سے پہلے اُٹھنا،جانوروں کو چارہ وغیرہ دینا،دودھ دہونا،جھاڑو،ناشتہ،بچے،کھیتوں پہ جانا یا گھر میں کوئی مشقت کرنا۔ مہمان داری۔ کھانا پکانا۔سسرال داری۔ شوہر کی خاطر داری۔ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔
جہاں تک نظام کا تعلق ہے، وہ یہ ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالتا۔ اس کی مثالیں ان لوگوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہیں جو ہماری کلاسیکی اقدار کا پاس کرتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خواتین سے کام کروانے یا ان کی کمائی پر پلنے والے مرد بے غیرت اور دیوث سمجھے جاتے ہیں۔ دیسی سماج کی یہ قدر شاید ہی دنیا کے کسی اور معاشرے میں ملے۔
دیسی معاشرے میں بچے نہ ہونے پہ مرد کی نسبت عورت کو طعنے ملتے ہیں۔ سوال عورت سے پوچھے جاتے ہیں۔ شادی کو ایک مہینہ نہیں گُزرتا کہ یہ سوال اُس کے لئے سوالیہ پرچہ جات میں سرِ فہرست ہوتا ہے۔ اور اِن تکلیف دہ سوالوں کے ساتھ ساتھ گھر والے اُسے مزید تکلیف دہ تجربات کا شکار بناتے ہیں۔ دم درود۔جھاڑ پھونک۔۔۔دائیاں۔۔۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، اے خدا!​
آپ کا خیال ہے یہ طعنے صرف بیوی کو ملتے ہیں؟ یہاں تک تو یہ بات درست ہے کہ عورتوں سے عموماً صرف بیوی ہی کو ملتے ہیں لیکن دنیا میں مرد بھی تو بستے ہیں۔ وہ بھی شوہر کی ناک میں دم کیے بغیر دم نہیں لیتے، اللہ کی قسم!
مردوں کے لیے اولاد کا نہ ہونا کم و بیش عدم مردانگی کے ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھنے والی عورت اس بے کسی اور تمسخر کا اندازہ تک نہیں کر سکتی جو روزانہ آٹھ دس آدمیوں سے نیم استہزائیہ، نیم ہمدردانہ مشورے سن کر شوہر پر پڑتا ہے۔
شاید اسی لیے مرد دوسری شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن اتنا تو آپ کو اندازہ ہو گا ہی کہ معاشرے کی ہمدردیوں کا پلہ اس کے بعد غیرمشروط طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کس طرف جھک جاتا ہے؟
"ہمارے یہاں اس طرح سے نہیں کھانا بنتا۔ تمہیں چاہیے کہ پوچھ لیا کرو۔ ارے میرا بیٹا یہ کبھی نہیں کھائے گا۔ یہ تم ہی کھاؤ۔ ہاہاہا۔طنز۔طعنے۔ "کبھی ایسا کھایا ہو تو۔۔۔"مرد کو تو نئے تجربات اچھے لگتے ہیں۔اگر اُسے کھانے میں کوئی مسلۂ ہو تو وہ کون سا خاموش رہتا ہے۔ "تمہیں کچھ پکانا بھی آتا ہے؟ نجاجے ماں نے کیا سکھا کر بھیجا ہے؟" ماں کے حوالے سے یہ طعنے اُسے اکثر اور تقریباََ ہر ایک سے سننے کو ملتے ہیں۔
انفرادی معاملات ایسے ہو سکتے ہیں۔ یہ استثنا میں نے مضمون کے آخر میں پیش کر دیا تھا۔
عورت کی حق تلفی خاص خاص حالات میں ایک بدیہی حقیقت ہے لیکن ہماری اوپر کی گفتگو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دیسی نظامِ معاشرت فی نفسہ نہایت متوازن ہے اور کم از کم اس کی اقدار کو کسی خاص شخص یا گروہ کی شقاوت کے باعث موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
آپی، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ میں نے نظامِ معاشرت پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر افراد اس کی اقدار کو پائمال کرتے ہیں تو اس سے نظام کی حرمت پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی مسلمان گھٹیا اور نیچ حرکات کرے اور اس کی بنا پر خود اسلام کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے!
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
برِ صغیر پاک و ہند کے کلاسیکی ازدواجی نظام میں یہ توازن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود رہا ہے۔

مگر میں کسی اور معاشرے کی بات کر رہا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کو خیال ہو کہ ان تحقیقات کا محور مغربی معاشرہ ہے۔
کافی کنفیوز کر دیا ہے آپ نے۔ پہلے ایسا لگا جیسے آپ دیسی معاشرے کی بات کر رہے ہیں۔ پھر آپ نے خود ہی اس سے انکار کیا اور اپنے مضمون کو تخیلاتی بہتر ماضی کے نسٹالجیا سے جوڑ دیا۔ اور آخر میں تحقیق پیش کی WEIRD (Western Educated Industrialized Rich Democratic) معاشرے کی۔
 
کافی کنفیوز کر دیا ہے آپ نے۔ پہلے ایسا لگا جیسے آپ دیسی معاشرے کی بات کر رہے ہیں۔ پھر آپ نے خود ہی اس سے انکار کیا اور اپنے مضمون کو تخیلاتی بہتر ماضی کے نسٹالجیا سے جوڑ دیا۔ اور آخر میں تحقیق پیش کی WEIRD (Western Educated Industrialized Rich Democratic) معاشرے کی۔
زیک بھائی، دیسی معاشرے کی کلاسیک روایات کی بات میں کر رہا تھا اور کر رہا ہوں۔ اس سے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ناسٹیلجیا کا جہاں تک سوال ہے تو وہ اس لیے متعلق ہے کہ موجودہ معاشرہ زیرِ بحث روایات پر پوری طرح قائم نہیں۔ ان روایات کے زوال کے ساتھ ان کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں انھیں دور کرنے ہی کی کوشش تھی۔
جہاں میں نے یہ کہا ہے کہ
مگر میں کسی اور معاشرے کی بات کر رہا تھا۔
وہیں نیچے دیا گیا اقتباس دے کر واضح کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ میں کس معاشرے کا ذکر کر رہا ہوں۔
برِ صغیر پاک و ہند کے کلاسیکی ازدواجی نظام میں یہ توازن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود رہا ہے۔
میں شاید یہ بات پوری طرح واضح نہیں کر سکا، مگر میری مراد اس ازدواجی نظام سے تھی جو اب دیہاتوں میں بھی خال خال نظر آتا ہے۔
موجود پاکستانی معاشرے اور بالخصوص شہری اور قصباتی طرزِ حیات میں تو خیر سے اسلامی، ہندوستانی اور مغربی نظاموں کی وہ کھچڑی تیار ہو گئی ہے جس کا درحقیقت ان تینوں میں سے کسی سے بھی تعلق نہیں۔
تحقیق کی بابت میں واضح کر چکا ہوں کہ
نکتہ یہ ہے کہ یہ تحقیقیں زیادہ تر نفسیاتی نوعیت کی ہیں اور فطری انسانی رویوں کی کھوج میں کی گئی ہیں۔ یہ رویے تقریباً عالمگیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ غیر جانب داری اور بے تعصبی سے جائزہ لیں تو ان کا اطلاق اتنی ہی خوبی سے ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے جتنا کہیں اور۔
یہ صرف اور صرف اس نکتے کی تائید میں پیش کی گئی تھی کہ مرد کم از کم عورت جتنا حساس ضرور ہوتا ہے۔ دیسی معاشرتی نظام سے ان تحقیقات کا تعلق اگر میں نے کہیں جوڑا ہے تو یہ میری غلط فہمی ہے یا آپ کی۔ مجبوری یہ ہے کہ ایسا تحقیقی کام ہمارے ہاں نہیں ہوتا اس لیے مغرب کا سہارا لینا ناگزیر ہے۔ ورنہ میں آپ کو اس دبدھا میں پڑنے ہی نہ دیتا۔:)
 
Top