مرد مصنفین نے دیسی معاشرہ میں شادی شدہ مرد کی مظلومیت پہ کم لکھا ہے۔ یہ ہم پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہیں کہ اتنے تردد سے،اتنی کاوش سے کسی مرد قلم کار نے مرد کی مشکلات کو اس قدر تفصیل سے بیان کیا ہو۔ بہت محنت سے نکات نکالے ہیں۔ زبردست۔ زبردست۔
اس تحریر پہ جیسا کہ اُوپر کئی محفلین نے کہا ۔۔۔مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ مجھے بھی اختلاف ہے۔
طلاق وغیرہ کے اثرات عورت پر گو وقتی طور پر زیادہ شدید ہوتے ہیں مگر جلد زائل ہو جاتے ہیں۔ مرد گو بظاہر اس قسم کے واقعات کا کم اثر قبول کرتے ہیں لیکن یہ اثر طویل عرصے تک ان کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔
ہمارے مشاہدے کچھ مختلف کہانی سُناتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ بیوی کی موت مرد کے لئے کُہنی کی چوٹ ہوتی ہے۔ لگتی بہت زور سے ہے لیکن جلد ہی درد تھم جاتا ہے۔ اسی طرح طلاق کے بعد مرد کے لئے شادی کرنا اُس کے اپنے لئے بھی آسان اور معاشرے کی طرف سے بھی اُس کے لئے آسانی ہے۔بچے بھی زیادہ تر عورت کے پاس ہوتے ہیں۔ اور عورت کے لئے ہر صورت میں شادی کرنا مشکل ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ طلاق یافتہ اور بیوہ عورتوں کی کثیر تعداد شادی نہیں کرتی/یا نہیں کر پاتی۔طلاق کا زیادہ بوجھ عورت کو سہنا پڑتا ہے۔ معاشرے کی لعن طعن زیادہ اُسی کے حِصے میں آتی ہے۔ اُس کے لئے خوشگوار اور ناخوشگوار دونوں طرح کی یادوں کو بھُلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ دوسری شادی کا تصور ہی اُس کے لئے آگ کا دریا پار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ میکے والے بھی اُس کے لئے اجنبی ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہاں بھی اُس کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی ہوتی ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی اُس کی حیثیت بہت کمزور ہوتی ہے۔اگر دوسری شادی ہو جائے تو دوسرا مرد پہلے شوہر کے حوالے سے طنز و طعنے دینا کبھی نہیں بھولتا۔ عورت کو یہ حق نہیں کہ وہ پچھلے مرد کو کسی بھی صورت میں یاد کر سکے؟یاد رکھ سکے۔ اُسے بہت چوکنا(کانشیش) رہنا پرتا ہے اِس حوالے سے۔اگر بچے بھی ہوں تو وہ شٹل کاک بن جاتی ہے۔ اُس کی کشمکش اِس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اِسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
زندگی کی اونچ نیچ کا سامنا ہوتا ہے تو وہ عورت کی طرح ڈھلتا سنبھلتا نہیں، بلکہ بالکل ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا ہے۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ زندگی کی اونچ نیچ کے نتیجے میں عورت فوری طور پہ تو لگتا ہے کہ کبھی نہیں سنبھل سکے گی لیکن وہ نہ صرف سمبھلتی ہے بلکہ بہت مضبوط بھی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ وہ ٹوٹتی پھوٹتی نہیں۔۔۔یہ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ ٹوٹتی ہے لیکن اِسی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ اپنے اُوپر مضبوطی کا ایک خول چڑھائے رکھتی ہے۔ اور مرد۔۔۔شاید کچھ مرد ٹوٹ پھؤٹ کا شکار ہوتے ہوں۔۔یا پھر کچھ خاص قسم کے حالات سے اُن کے ساتھ ایسا ہوتا ہو۔۔۔جیسا کہ معاشی میدان میں کسی بری ناکامی کا سامنا وغیرہ۔ لیکن عام سی باتیں ان کے لئے فوری تکلیف کا باعث تو ہو سکتی ہیں لیکن دیرپا تکلیف نہیں رہ پاتی۔
دیسی معاشروں میں ایک نئی نویلی دلہن جب اپنے ماں باپ کا گھر تیاگ کر لڑکے کے گھر کی مالکن بنتی ہے تو عام طور پر یہ تجربہ لڑکے کے لیے خاصا تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے
لوجی۔ یہاں تو کسی کے گھر مہمان چلے جائیں تو بہت اجنبیت اور اُوپرے پن کا احساس رہتا ہے کجا ایک نئے گھر میں ایک نئی زندگی کی شروعات۔ نئے طریقے،نئی قدریں،۔۔۔۔پتہ نہیں کیسے ہوں،پتہ نہیں کیا ہو۔۔۔خدشات،خدشات۔۔۔اور مالکن کی بھی خوب کہی۔۔۔کبھی سُنیں میاں اور سسرال کی باتیں۔۔"۔تمہارے گھر(میکے) سے یہ چیز آئی ہے۔ وغیرہ۔"ہمارے گھر میں یہ نہیں چلے گا۔میں اپنے گھر میں یہ برداشت نہیں کروں گا۔۔۔وغیرہ"عورت کا کون سا گھر ہے؟ یہ ابھی طے نہیں ہؤا۔ کیا کبھی طے ہو سکے گا؟
ماں کے پکوانوں کے عادی نوجوان کو جب شدید بھوک کے عالم میں ایک بالکل مختلف اور اجنبی ذائقے کا سامنا ہوتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے۔ بیوی بہتر پکائے تو بھی عادت اور معمول سے ہٹ کر کھانا دشوار ہو جاتا ہے۔ ماں جس طرح تیار کر کے دفتر بھیجتی تھی بیوی ان تکلفات سے واقف نہیں۔ ماں سے جو باتیں کر کے گھنٹوں مزا لیتے رہتے تھے، بیوی ان پر ہونقوں کی طرح منہ کھول کے تکنے لگتی ہے
"ہمارے یہاں اس طرح سے نہیں کھانا بنتا۔ تمہیں چاہیے کہ پوچھ لیا کرو۔ ارے میرا بیٹا یہ کبھی نہیں کھائے گا۔ یہ تم ہی کھاؤ۔ ہاہاہا۔طنز۔طعنے۔ "کبھی ایسا کھایا ہو تو۔۔۔"مرد کو تو نئے تجربات اچھے لگتے ہیں۔اگر اُسے کھانے میں کوئی مسلۂ ہو تو وہ کون سا خاموش رہتا ہے۔ "تمہیں کچھ پکانا بھی آتا ہے؟ نجاجے ماں نے کیا سکھا کر بھیجا ہے؟" ماں کے حوالے سے یہ طعنے اُسے اکثر اور تقریباََ ہر ایک سے سننے کو ملتے ہیں۔
پہلے مرضی سے جاگنے سونے والا بانکا اب خود پر ایک نادیدہ سا بوجھ محسوس کرتا ہے جب دن بھر کی تھکی ماندی بیوی رات کے دس بجے ہی بستر پر دراز ہو جاتی ہے۔انا اور احساسَ مردانگی کا کشتہ مرد مانے یا نہ مانے مگر سگریٹ پینے سے لے کر اونچا بولنے تک کی عادتوں پر زندگی میں پہلی مرتبہ اندر ہی اندر شرمندگی اور خجالت کا احساس ہوتا ہے
یہ احساس شاید ایک فی صد مردوں کو ہوتا ہو۔ یا پھر آپ دیسی معاشرے میں کسی اور معاشرے کو ملا رہے ہیں۔ دیسی معاشرے میں مرد کو ایسی شرمندگی نہیں ہوتی۔ یہاں عورت مرد کا انتظار کرتی ہے۔ اور مرد کو باہر بہت کام ہوتے ہیں۔آخر وہ مرد ہے،عورت کو کیا پتہ۔
دوستوں کے ساتھ راتیں گزارنے والے یاروں کے یار کو جب گھر پر منہ بسورتی بیوی کا خیال آتا ہے تو ضمیر کے کچوکے ناقابلِ برداشت ہو جاتے ہیں
ہاہاہا۔آپوپر والا جواب
گھر اگر اکٹھا ہو تو بیوی اور ماں اور بہنوں کے درمیان جنم لینے والی کشمکش بھی مرد کے اعصاب کو کچلنے لگتی ہے
مرد کا بہت کم وقت گھر میں گذرتا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اِس کشمکش سے مرد بھی متاثر ہوتا ہے لیکن زیادہ جھیلنا عورت کو پڑتا ہے۔ نشانہ وہی ہوتی ہے۔ چوٹیں اُسے لگتی ہیں۔
بیوی تو خیر ایک نئے گھر میں آتی ہے مگر اس بھاگوان کے آنے سے مرد اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو کر رہ جاتا ہے۔
وہی بات کہ جو پہلے کہی کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ بہت طویل عرصے بعد بچے بڑے ہو جائیں تو کچھ نہ کچھ حکومت عورت کے حصے میں اتی ہے۔
لڑکی کی بابل سے مہاجرت اس کے لیے جس قدر تکلیف دہ ہوتی ہے اس سے زیادہ نہیں تو تقریباً اتنی ہی مشکل مرد کو بھی ایک نئے طرزِ حیات کے مطابق ڈھلنے میں اٹھانی پڑتی ہے
یہ بات بھی پہلے ہو چکی۔
لڑکی تو ایک گھر سے اٹھ کر دوسرے گھر میں آن بیٹھی، لڑکے کے لیے بات صرف اتنی سی نہیں۔ اب وہ ایک نئے گھر، نئے خاندان کا مالک بن گیا ہے۔ اس گھر کا چولہا جلنے سے لے کر تحفظ تک ہر چیز کا ذمہ دار وہ ہے۔ اسے پیسا کمانا ہے، معاشرے میں اپنے اور اپنی بیوی کے مقام کی فکر کرنی ہے
یہ صحیح ہے کہ مرد پہ معاشی دباؤ ہوتا ہے اور اس حوالے سے اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ لیکن دیسی معاشرے میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کھیتوں اور گھر میں معاشی دوڑ میں بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ عورت کے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں آتا۔ وہ صرف کام کی مشین ہے۔ فجر سے پہلے اُٹھنا،جانوروں کو چارہ وغیرہ دینا،دودھ دہونا،جھاڑو،ناشتہ،بچے،کھیتوں پہ جانا یا گھر میں کوئی مشقت کرنا۔ مہمان داری۔ کھانا پکانا۔سسرال داری۔ شوہر کی خاطر داری۔ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔
بچوں اور بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے، اپنے گھر پر نگران رہنا ہے، بیوی بچوں کے اخلاق و کردار کی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور ان کے اقوال سے لے کر افعال تک ہر بات کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ معاشرہ اس کے گھر سے متعلق کسی کجی، کسی خامی کے بارے میں اس کی بیوی سے سوال نہیں کرے گا۔ ہر چیز کے بارے میں اسی کو مسئول ٹھہرایا جائے گا۔ وہی بتائے گا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟
ہم نے تو بچوں کی بُری عادات پہ عورت کو قصوروار گردانتے سُنا ہے۔کوئی کارنامہ کریں تو آخر بچے کس کے ہیں!
۔ ایک احساسِ ذمہ داری، ایک نادیدہ سا دھڑکا، ایک گھرانے کی ذمہ داری، ہونی انہونی کی پریشانیاں اس کی بے فکریوں اور بانکپن کو لٹا کر سرِ بازار ذبح کر دیتی ہیں
یہ کسی حد تک تسلیم کیا جا سکتا ہے۔