جاسمن

لائبریرین
بہت خوب! آپ نے اب تک بہت ہی اچھے انداز میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔ اب بھی آپ اچھا بول رہے ہیں لیکن بھائی متفق پھر بھی نہیں ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو خیال ہو کہ ان تحقیقات کا محور مغربی معاشرہ ہے۔ وہاں کی معاشرتی حرکیات اور یہاں کے معاملات میں بعد المشرقین ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ یہ تحقیقیں زیادہ تر نفسیاتی نوعیت کی ہیں اور فطری انسانی رویوں کی کھوج میں کی گئی ہیں۔ یہ رویے تقریباً عالمگیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ غیر جانب داری اور بے تعصبی سے جائزہ لیں تو ان کا اطلاق اتنی ہی خوبی سے ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے جتنا کہیں اور۔
واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ شروع میں مشاہدات اور تجربات کے زیرِ اثر پیدا ہوئے تھے۔ بعد کو وقتاً فوقتاً ایسی اصولی، سائنسی اور ٹھوس باتیں نظر سے گزرتی رہیں جنھوں نے ان خیالات کی کافی حد تک تصدیق کی۔ کاہلی نے مزید وقت فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ایک عرصے کے بعد میں نے یہ افکار آپ کے سامنے موجودہ اور پختہ تر صورت میں رکھے۔
اِن تحقیقات کی بات نہ کریں۔میرے پاس اس وقت نہ کسی ایسی تحقیق کا حوالہ ہے نہ ہی میں کوئی اعداد و شمار دے سکتی ہوں فی الوقت۔ لیکن۔۔۔۔
1:اُسے موٹےہونے کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ میاں نے دوسری شادی کر لی۔ اور پہلی بیوی کو فون پہ اپنی اور اپنی نئی بیوی کی باتیں سنا کے ٹارچر کرتا۔ خاتون نے شادی نہیں کی۔
2:پھپو کی بیٹی سے منگنی کے بعد باہر جا کے منگنی توڑ کے باہر ہی شادی رچا لی۔ کچھ سالوں بعد شادی ٹوٹی اور پھر سے پھپو کی بیٹی سے نکاح۔۔۔پھر یہ کہہ کر نکاح توڑنا کہ پہلی بیوی نہیں مان رہی۔۔۔۔وہ لڑکی میری دوست ہے۔ اردو میں ایم اے۔ بہت نفیس خیالات کی مالک۔۔۔بہت دکھی۔ شادی نہیں کی۔
3:میرے گر ایک طالبہ کی پھپو کو موٹاپے کی وجہ سے طلاق۔ دو بچوں کے ساتھ بھائی کے گھر۔۔۔مجھے کئی بار کسی روزگار کے لئے کہا۔ بہت دکھی۔
4:میری بہنوں کی طرح ۔۔۔شادی کے پندرہ دن بعد معلوم ہؤا کہ شوہر نشے کے ٹیکے لگاتا ہے۔ سسرال والے علاج کے لئے تیار نہیں۔۔۔کوئی سدھار نہیں۔۔طلاق
5:ایک کولیگ سے ایک بہت اچھی پوسٹ پہ کام کرنے والے مرد نے مھبت کی شادی کی۔ ایک بیٹے بعد طلاق دے کے دوسری شادی۔ خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ۔
6: بڑے بڑے بچوں کی ماں کو طلاق اور دوسری شادی۔ خاتون حیران پریشان۔
یہ اور ایسی بہت بہت مثالیں صرف میرے ارد گرد کی ہیں۔اور میں نے اِن خواتین کو اِسی دیسی معاشرے کے تھپیڑے کھاتے دیکھا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں طلاق شدہ خاتوں ایک کٹی پتنگ ہے میرے بھائی۔ ابھی تین دن پہلے میری اسی بہن نے جو خوفناک نقشہ اپنی زندگی کا کھینچا ہے میرے سامنے تو میں لرز گئی ہوں۔ "باجی!طلاق یافتہ عورت کسی بھی عمر کے بچے،بابے سے بات ہی کر لے تو افسانہ۔ کہانی اور سمجھتے ہیں کہ بس یہ آسان شکار ہے۔
نہیں۔میں نہیں مان سکتی۔ مغربی معاشرے کی بات اور ہے۔ ہمارے دیسی معاشرے میں عورت کو جو سہنا پڑتا ہے مرد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کم سے کم اذیت ایک غیر مرد کا لائٹ مارنا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اپنے قریبی رشتوں سے ہونے لگتا ہے۔ بہنوئی وغیرہ تک سے۔۔۔نعوذ با اللہ۔

جہاں تک نظام کا تعلق ہے، وہ یہ ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالتا۔ اس کی مثالیں ان لوگوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہیں جو ہماری کلاسیکی اقدار کا پاس کرتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خواتین سے کام کروانے یا ان کی کمائی پر پلنے والے مرد بے غیرت اور دیوث سمجھے جاتے ہیں۔ دیسی سماج کی یہ قدر شاید ہی دنیا کے کسی اور معاشرے میں ملے۔
ہا!کون سا نظام؟ مرد کا بنایا ہؤا معاشرہ۔ ایک ایسا معاشرہ جو نہ مکمل طور پہ کسی مزہب کے زیرِ اثر ہے نہ کسی قانون کے۔اگر معاشی ذمہ داری مرد پہ ڈالی ہے اس معاشرے نے تو اُس غیرت مند مرد کے پاس اپنی بیوی کے لئے ایک گلاس،ایک پلیٹ،ایک چارپائی تک نہیں ہے۔ ہر ایک چیز بیوی اپنے ساتھ اپنے لئے بھی لاتی ہے اور اُس کے لئے بھی۔ اور مزید اس کے گھر والوں کے لئے بھی۔ واہ یہ تو بہت اچھا نظام ہے بھائی۔ مرد اپنے فائدے کی ساری چیزیں لے لیتا ہے۔ جہیز معاشرے کی رسم ہے۔ مہر شرعی ہونا چاہیے۔
اچھا۔ معاشی ذمہ داری مرد اُٹھاتا ہے۔۔۔ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں کی کثیر تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے۔گھروں میں کڑھائیاں،سلائی،رلی بنانا،پنکھے،چنگیریں اور اسی طرح کے دیگر کام۔ خفیہ معاشی جدوجہد علیحدہ ہے۔ ایسے بہت کام جو بازار سے کرائے جاتے تو بہت پیسہ لگتا وہ عورت اپنے ہاتھوں سے کر کے پیسے بچاتی ہے۔ اور اب آپ شہر تو شہر گاؤں میں ذرا سے پڑھے لکھے لڑکے کا انٹرویو لیں۔۔اُسے اُستانی چاہیے۔ مجھے تو اِس طرح کے اتنے کیسز نظر آتے ہیں۔ ہر لڑکا جابین لڑکی چاہتا ہے۔ دونوں مل کے گھر چلائیں۔ یہ جس غیرت کی آپ بات کر رہے ہیں یہ مصنوعی غیرت ہے صاحب۔ ۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، اے خدا!​
آپ کا خیال ہے یہ طعنے صرف بیوی کو ملتے ہیں؟ یہاں تک تو یہ بات درست ہے کہ عورتوں سے عموماً صرف بیوی ہی کو ملتے ہیں لیکن دنیا میں مرد بھی تو بستے ہیں۔ وہ بھی شوہر کی ناک میں دم کیے بغیر دم نہیں لیتے، اللہ کی قسم!
مردوں کے لیے اولاد کا نہ ہونا کم و بیش عدم مردانگی کے ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھنے والی عورت اس بے کسی اور تمسخر کا اندازہ تک نہیں کر سکتی جو روزانہ آٹھ دس آدمیوں سے نیم استہزائیہ، نیم ہمدردانہ مشورے سن کر شوہر پر پڑتا ہے۔
شاید اسی لیے مرد دوسری شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن اتنا تو آپ کو اندازہ ہو گا ہی کہ معاشرے کی ہمدردیوں کا پلہ اس کے بعد غیرمشروط طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کس طرف جھک جاتا ہے؟
ایسا مانا جا سکتا ہے۔ لیکن مشقِ ستم عورت زیادہ بنتی ہے۔ جھاڑ پھونک کے لئے اُسے ہی لے جایا جاتا ہے۔ نقص اسی میں ہوتا ہے۔دائیاں اسی پہ تجربات کرتی ہیں۔

انفرادی معاملات ایسے ہو سکتے ہیں
ایسا اکثر ہوتا ہے۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ میں نے نظامِ معاشرت پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر افراد اس کی اقدار کو پائمال کرتے ہیں تو اس سے نظام کی حرمت پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی مسلمان گھٹیا اور نیچ حرکات کرے اور اس کی بنا پر خود اسلام کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے!
نظامِ معاشرت کون بنا رہا ہے؟ افراد۔ یہ مذہبی معاشرہ تو ہے نہیں۔ یہ تو چوں چون کا مربہ ہے۔ مرد نے اپنے فائدے کی ہر بات مختلف معاشروں اور مزہب سے لے کے ملا جلا لی ہے۔ہا!
 

زیک

مسافر
مغربی تحقیق اس معاملے میں بالکل لاگو نہیں ہوتی کہ مغربی معاشرہ شادی اور میاں بیوی کے تعلق میں برِ صغیر کے کلاسیکی یا ماڈرن معاشرے سے انتہائی مختلف ہے۔

راحیل نے کلاسیکی معاشرے کی اس انداز میں بات کی ہے کہ وہ حقیقی کی بجائے تخیل کی پیداوار لگتا ہے۔ اسے عرف عام میں نسٹالجیا کہتے ہیں جس میں ماضی گلابی چشموں سے دیکھا جاتا ہے۔

دیسی معاشرہ کلاسیکی ہو یا ماڈرن اس میں کم ہی دلہن کو اقرار و انکار کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہی مضمون کی عمارت کو گرانے کے لئے کافی ہے۔
 

محمدظہیر

محفلین
بہت اہم موضوع پر لکھا ہے اور اپنی بات پہنچانے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں.
لوگ بے فکرے اور من موجی نوجوانوں کے والدین کو ان کی شادی کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کبھی سوچا، کیوں؟ کیونکہ شادی مرد کے لیے وہ زنجیر ہے جسے پہن کر وہ کبھی خیر نہیں منا سکتا۔ پہنے رہے تو بھی، اتار پھینکے تو بھی!
مجھ جیسے کنواروں کے لیے لمحہء فکریہ!
 

یاز

محفلین
معاشرہ کوئی بھی ہو، اس میں مرد و زن کی حالتِ زار کے تقابلی جائزے یا ان کے ممکنہ ذمہ داروں کے ضمن میں طویل مباحثہ جات ہو سکتے ہیں۔ دونوں اطراف کے کچھ نکات ضرور قابلِ غور ہوں گے۔ تاہم میں صرف ہمارے معاشرے کے تناظر میں مختصر سی بات کرنا چاہوں گا۔
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی بدبختی ہماری منافقت ہے۔ یہ ہمارے اندر تک رچ بس گئی ہے۔ آپ اپنے گردوپیش میں نظر دوڑائیں، آپ کو منافقت کے سوا شاید ہی کچھ نظر آئے۔ جن امور پہ ابھی تک اس لڑی میں بحث ہوئی ہے، یہ سب بھی اسی منافقت کا شاخسانہ ہیں۔ چند مثالوں سے بات واضح کرنا چاہوں گا۔
۔۔ آپ کو شاید ہی کوئی گھر ایسا ملے جو اپنی بہو کو وہی مقام دینے پہ تیار ہو، جو وہ اپنی بیٹی کے لئے اس کے سسرال میں بنیادی حق کے طور پہ چاہتا ہے۔
۔۔ بہو ڈھونڈتے وقت ہر کسی کو پی ایچ ڈی، ماسٹرز یا ڈاکٹر انجینئر سے کم بہو منظور نہیں، لیکن آ جانے کے بعد اس سے کام "ماسی سکینہ" سے کم بھی منظور نہیں۔
۔۔ زیادہ تر خاندانوں میں شادیاں طے کرتے وقت تمام عوامل مدِ نظر رکھے جائیں گے سوائے لڑکے لڑکی کی پسند یا جوڑ کی مناسبت کے۔
۔۔دعووں کی حد تک ہر شخص یا ہر گھر آپ کو ولیٔ کامل کے مقام پہ فائز محسوس ہو گا۔ ہم نے اپنی بہو یا اپنے داماد یا اپنے سسرال کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، ہم نے تو بہو کو بیٹیوں سے بڑھ کر لاڈ پیار دیا ہے، وغیرہ جیسی باتیں آپ کو اٹھتے بیٹھتے سننے کو ملیں گی۔
وغیرہ وغیرہ
۔۔ اور منافقت کی سب سے شاندار مثال جو آجکل لطیفے کے طور پہ سوشل میڈیا پہ گھوم رہی ہے، لیکن ہے بالکل سچ کہ "دنیا بھر میں لوگ شادی پہ خوشیاں مناتے ہیں، ہمارے ہاں ایسے موقعے پہ لوگ روٹھی پھوپھیاں مناتے ہیں"۔

میری سب احباب سے استدعا ہے کہ اپنے گردوپیش میں بکھری اس منافقت کو پہچانیں اور اس کو ختم کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں۔
 
آخری تدوین:
Top