جاسمن
لائبریرین
بہت خوب! آپ نے اب تک بہت ہی اچھے انداز میں اپنا موقف بیان کیا ہے۔ اب بھی آپ اچھا بول رہے ہیں لیکن بھائی متفق پھر بھی نہیں ہوں۔
1:اُسے موٹےہونے کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ میاں نے دوسری شادی کر لی۔ اور پہلی بیوی کو فون پہ اپنی اور اپنی نئی بیوی کی باتیں سنا کے ٹارچر کرتا۔ خاتون نے شادی نہیں کی۔
2:پھپو کی بیٹی سے منگنی کے بعد باہر جا کے منگنی توڑ کے باہر ہی شادی رچا لی۔ کچھ سالوں بعد شادی ٹوٹی اور پھر سے پھپو کی بیٹی سے نکاح۔۔۔پھر یہ کہہ کر نکاح توڑنا کہ پہلی بیوی نہیں مان رہی۔۔۔۔وہ لڑکی میری دوست ہے۔ اردو میں ایم اے۔ بہت نفیس خیالات کی مالک۔۔۔بہت دکھی۔ شادی نہیں کی۔
3:میرے گر ایک طالبہ کی پھپو کو موٹاپے کی وجہ سے طلاق۔ دو بچوں کے ساتھ بھائی کے گھر۔۔۔مجھے کئی بار کسی روزگار کے لئے کہا۔ بہت دکھی۔
4:میری بہنوں کی طرح ۔۔۔شادی کے پندرہ دن بعد معلوم ہؤا کہ شوہر نشے کے ٹیکے لگاتا ہے۔ سسرال والے علاج کے لئے تیار نہیں۔۔۔کوئی سدھار نہیں۔۔طلاق
5:ایک کولیگ سے ایک بہت اچھی پوسٹ پہ کام کرنے والے مرد نے مھبت کی شادی کی۔ ایک بیٹے بعد طلاق دے کے دوسری شادی۔ خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ۔
6: بڑے بڑے بچوں کی ماں کو طلاق اور دوسری شادی۔ خاتون حیران پریشان۔
یہ اور ایسی بہت بہت مثالیں صرف میرے ارد گرد کی ہیں۔اور میں نے اِن خواتین کو اِسی دیسی معاشرے کے تھپیڑے کھاتے دیکھا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں طلاق شدہ خاتوں ایک کٹی پتنگ ہے میرے بھائی۔ ابھی تین دن پہلے میری اسی بہن نے جو خوفناک نقشہ اپنی زندگی کا کھینچا ہے میرے سامنے تو میں لرز گئی ہوں۔ "باجی!طلاق یافتہ عورت کسی بھی عمر کے بچے،بابے سے بات ہی کر لے تو افسانہ۔ کہانی اور سمجھتے ہیں کہ بس یہ آسان شکار ہے۔
نہیں۔میں نہیں مان سکتی۔ مغربی معاشرے کی بات اور ہے۔ ہمارے دیسی معاشرے میں عورت کو جو سہنا پڑتا ہے مرد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کم سے کم اذیت ایک غیر مرد کا لائٹ مارنا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اپنے قریبی رشتوں سے ہونے لگتا ہے۔ بہنوئی وغیرہ تک سے۔۔۔نعوذ با اللہ۔
اچھا۔ معاشی ذمہ داری مرد اُٹھاتا ہے۔۔۔ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں کی کثیر تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے۔گھروں میں کڑھائیاں،سلائی،رلی بنانا،پنکھے،چنگیریں اور اسی طرح کے دیگر کام۔ خفیہ معاشی جدوجہد علیحدہ ہے۔ ایسے بہت کام جو بازار سے کرائے جاتے تو بہت پیسہ لگتا وہ عورت اپنے ہاتھوں سے کر کے پیسے بچاتی ہے۔ اور اب آپ شہر تو شہر گاؤں میں ذرا سے پڑھے لکھے لڑکے کا انٹرویو لیں۔۔اُسے اُستانی چاہیے۔ مجھے تو اِس طرح کے اتنے کیسز نظر آتے ہیں۔ ہر لڑکا جابین لڑکی چاہتا ہے۔ دونوں مل کے گھر چلائیں۔ یہ جس غیرت کی آپ بات کر رہے ہیں یہ مصنوعی غیرت ہے صاحب۔ ۔
اِن تحقیقات کی بات نہ کریں۔میرے پاس اس وقت نہ کسی ایسی تحقیق کا حوالہ ہے نہ ہی میں کوئی اعداد و شمار دے سکتی ہوں فی الوقت۔ لیکن۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ آپ کو خیال ہو کہ ان تحقیقات کا محور مغربی معاشرہ ہے۔ وہاں کی معاشرتی حرکیات اور یہاں کے معاملات میں بعد المشرقین ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نکتہ یہ ہے کہ یہ تحقیقیں زیادہ تر نفسیاتی نوعیت کی ہیں اور فطری انسانی رویوں کی کھوج میں کی گئی ہیں۔ یہ رویے تقریباً عالمگیر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ غیر جانب داری اور بے تعصبی سے جائزہ لیں تو ان کا اطلاق اتنی ہی خوبی سے ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے جتنا کہیں اور۔
واقعہ یہ ہے کہ اس مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ شروع میں مشاہدات اور تجربات کے زیرِ اثر پیدا ہوئے تھے۔ بعد کو وقتاً فوقتاً ایسی اصولی، سائنسی اور ٹھوس باتیں نظر سے گزرتی رہیں جنھوں نے ان خیالات کی کافی حد تک تصدیق کی۔ کاہلی نے مزید وقت فراہم کیا۔ یہاں تک کہ ایک عرصے کے بعد میں نے یہ افکار آپ کے سامنے موجودہ اور پختہ تر صورت میں رکھے۔
1:اُسے موٹےہونے کی وجہ سے طلاق ہوئی۔ میاں نے دوسری شادی کر لی۔ اور پہلی بیوی کو فون پہ اپنی اور اپنی نئی بیوی کی باتیں سنا کے ٹارچر کرتا۔ خاتون نے شادی نہیں کی۔
2:پھپو کی بیٹی سے منگنی کے بعد باہر جا کے منگنی توڑ کے باہر ہی شادی رچا لی۔ کچھ سالوں بعد شادی ٹوٹی اور پھر سے پھپو کی بیٹی سے نکاح۔۔۔پھر یہ کہہ کر نکاح توڑنا کہ پہلی بیوی نہیں مان رہی۔۔۔۔وہ لڑکی میری دوست ہے۔ اردو میں ایم اے۔ بہت نفیس خیالات کی مالک۔۔۔بہت دکھی۔ شادی نہیں کی۔
3:میرے گر ایک طالبہ کی پھپو کو موٹاپے کی وجہ سے طلاق۔ دو بچوں کے ساتھ بھائی کے گھر۔۔۔مجھے کئی بار کسی روزگار کے لئے کہا۔ بہت دکھی۔
4:میری بہنوں کی طرح ۔۔۔شادی کے پندرہ دن بعد معلوم ہؤا کہ شوہر نشے کے ٹیکے لگاتا ہے۔ سسرال والے علاج کے لئے تیار نہیں۔۔۔کوئی سدھار نہیں۔۔طلاق
5:ایک کولیگ سے ایک بہت اچھی پوسٹ پہ کام کرنے والے مرد نے مھبت کی شادی کی۔ ایک بیٹے بعد طلاق دے کے دوسری شادی۔ خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ۔
6: بڑے بڑے بچوں کی ماں کو طلاق اور دوسری شادی۔ خاتون حیران پریشان۔
یہ اور ایسی بہت بہت مثالیں صرف میرے ارد گرد کی ہیں۔اور میں نے اِن خواتین کو اِسی دیسی معاشرے کے تھپیڑے کھاتے دیکھا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں طلاق شدہ خاتوں ایک کٹی پتنگ ہے میرے بھائی۔ ابھی تین دن پہلے میری اسی بہن نے جو خوفناک نقشہ اپنی زندگی کا کھینچا ہے میرے سامنے تو میں لرز گئی ہوں۔ "باجی!طلاق یافتہ عورت کسی بھی عمر کے بچے،بابے سے بات ہی کر لے تو افسانہ۔ کہانی اور سمجھتے ہیں کہ بس یہ آسان شکار ہے۔
نہیں۔میں نہیں مان سکتی۔ مغربی معاشرے کی بات اور ہے۔ ہمارے دیسی معاشرے میں عورت کو جو سہنا پڑتا ہے مرد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ کم سے کم اذیت ایک غیر مرد کا لائٹ مارنا ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اپنے قریبی رشتوں سے ہونے لگتا ہے۔ بہنوئی وغیرہ تک سے۔۔۔نعوذ با اللہ۔
ہا!کون سا نظام؟ مرد کا بنایا ہؤا معاشرہ۔ ایک ایسا معاشرہ جو نہ مکمل طور پہ کسی مزہب کے زیرِ اثر ہے نہ کسی قانون کے۔اگر معاشی ذمہ داری مرد پہ ڈالی ہے اس معاشرے نے تو اُس غیرت مند مرد کے پاس اپنی بیوی کے لئے ایک گلاس،ایک پلیٹ،ایک چارپائی تک نہیں ہے۔ ہر ایک چیز بیوی اپنے ساتھ اپنے لئے بھی لاتی ہے اور اُس کے لئے بھی۔ اور مزید اس کے گھر والوں کے لئے بھی۔ واہ یہ تو بہت اچھا نظام ہے بھائی۔ مرد اپنے فائدے کی ساری چیزیں لے لیتا ہے۔ جہیز معاشرے کی رسم ہے۔ مہر شرعی ہونا چاہیے۔جہاں تک نظام کا تعلق ہے، وہ یہ ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالتا۔ اس کی مثالیں ان لوگوں کے ہاں دیکھی جا سکتی ہیں جو ہماری کلاسیکی اقدار کا پاس کرتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ خواتین سے کام کروانے یا ان کی کمائی پر پلنے والے مرد بے غیرت اور دیوث سمجھے جاتے ہیں۔ دیسی سماج کی یہ قدر شاید ہی دنیا کے کسی اور معاشرے میں ملے۔
اچھا۔ معاشی ذمہ داری مرد اُٹھاتا ہے۔۔۔ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں کی کثیر تعداد کھیتوں میں کام کرتی ہے۔گھروں میں کڑھائیاں،سلائی،رلی بنانا،پنکھے،چنگیریں اور اسی طرح کے دیگر کام۔ خفیہ معاشی جدوجہد علیحدہ ہے۔ ایسے بہت کام جو بازار سے کرائے جاتے تو بہت پیسہ لگتا وہ عورت اپنے ہاتھوں سے کر کے پیسے بچاتی ہے۔ اور اب آپ شہر تو شہر گاؤں میں ذرا سے پڑھے لکھے لڑکے کا انٹرویو لیں۔۔اُسے اُستانی چاہیے۔ مجھے تو اِس طرح کے اتنے کیسز نظر آتے ہیں۔ ہر لڑکا جابین لڑکی چاہتا ہے۔ دونوں مل کے گھر چلائیں۔ یہ جس غیرت کی آپ بات کر رہے ہیں یہ مصنوعی غیرت ہے صاحب۔ ۔
ایسا مانا جا سکتا ہے۔ لیکن مشقِ ستم عورت زیادہ بنتی ہے۔ جھاڑ پھونک کے لئے اُسے ہی لے جایا جاتا ہے۔ نقص اسی میں ہوتا ہے۔دائیاں اسی پہ تجربات کرتی ہیں۔اس سادگی پہ کون نہ مر جائے، اے خدا!آپ کا خیال ہے یہ طعنے صرف بیوی کو ملتے ہیں؟ یہاں تک تو یہ بات درست ہے کہ عورتوں سے عموماً صرف بیوی ہی کو ملتے ہیں لیکن دنیا میں مرد بھی تو بستے ہیں۔ وہ بھی شوہر کی ناک میں دم کیے بغیر دم نہیں لیتے، اللہ کی قسم!
مردوں کے لیے اولاد کا نہ ہونا کم و بیش عدم مردانگی کے ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ گھر میں بیٹھنے والی عورت اس بے کسی اور تمسخر کا اندازہ تک نہیں کر سکتی جو روزانہ آٹھ دس آدمیوں سے نیم استہزائیہ، نیم ہمدردانہ مشورے سن کر شوہر پر پڑتا ہے۔
شاید اسی لیے مرد دوسری شادی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن اتنا تو آپ کو اندازہ ہو گا ہی کہ معاشرے کی ہمدردیوں کا پلہ اس کے بعد غیرمشروط طور پر اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کس طرف جھک جاتا ہے؟
ایسا اکثر ہوتا ہے۔انفرادی معاملات ایسے ہو سکتے ہیں
نظامِ معاشرت کون بنا رہا ہے؟ افراد۔ یہ مذہبی معاشرہ تو ہے نہیں۔ یہ تو چوں چون کا مربہ ہے۔ مرد نے اپنے فائدے کی ہر بات مختلف معاشروں اور مزہب سے لے کے ملا جلا لی ہے۔ہا!غور کرنے کی بات یہ ہے کہ میں نے نظامِ معاشرت پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر افراد اس کی اقدار کو پائمال کرتے ہیں تو اس سے نظام کی حرمت پر فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی مسلمان گھٹیا اور نیچ حرکات کرے اور اس کی بنا پر خود اسلام کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جائے!