جہل اب جلوہ فگن ہے آئینہ خانوں کے بیچ


شیخ جی بیٹھے ہوئے ہیں ایسے فرزانوں کے بیچ
جیسا دیوانہ کوئی بیٹھا ہو دیوانوں کے بیچ

مے کہاں کی، جام کس کا، کون ہے ساغر بکف
محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ

تو کہ گل پیکر تھا تیرا جسم تھا عینِ بہار
تو بھلا کیوں رہتا ہم سے سوختہ جانوں کے بیچ

کوئی تو بولے کہ یہ دستِ ستم زنجیر ہو
کوئی تو دانا ہو یارب اتنے نادانوں کے بیچ

شہر میں آسودگی وحشت کا ہی اک نام ہے
اور یہ وحشت میسر تو ہے ویرانوں کے بیچ ؟

علم رسوا ہو رہا ہے کونچہ و بازار میں
جہل اب جلوہ فگن ہے آئینہ خانوں کے بیچ

شکریہ
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم ریحان بھائی!

شیخ جی بیٹھے ہوئے ہیں ایسے فرزانوں کے بیچ
جیسے دیوانہ کوئی بیٹھا ہو دیوانوں کے بیچ

ٹھیک ہے۔

مے کہاں کی جام کس کا کون تھا ساغر بکف
محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ

پہلا مصرع بہت کمزور ہے مطلب برآوری کے لیے۔پھر سے سوچیں کوئی پھڑکتا ہوا مصرع۔جیسے:

جام و مینا رند و ساقی سب کہاں روپوش ہیں

محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ

یا حسن_مطلع بنا دیں شعر کو :

بیٹھ کر رویا کریں اب ٹوٹے پیمانوں کے بیچ

محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ

تو کہ گل پیکر تھا تیرا جسم تھا عینِ بہار
تو بھلا کیوں رہتا ہم سے سوختہ جانوں کے بیچ

پہلا مصرع کچھ تبدیل کر دیں:

تو کہ گل پیکر تری ہستی ہے سرتاپا بہار
کام کیا آخر ترا ہم سوختہ جانوں کے بیچ


کوئی تو بولے کہ یہ دستِ ستم زنجیر ہو
کوئی تو دانا ہو یارب اتنے نادانوں کے بیچ

دست ستم زنجیر ہونا گرفتاری کے معنوں میں میرا نہیں خیال کہ مناسب ہے۔

شہر میں آسودگی وحشت کا ہی اک نام ہے
اور یہ وحشت میسر تو ہے ویرانوں کے بیچ

ماشاء اللہ۔بہت خوب ۔

علم رسوا ہو رہا ہے کوچہ و بازار میں
جہل اب جلوہ فگن ہے آئینہ خانوں کے بیچ

یہ بھی ٹھیک ہے۔ گو "آئینہ خانوں" قافیے کی رعایت سے کوئی خاص بات نہیں کی گئی۔

طالب دعا
 
Top