ریحان احمد ریحانؔ
محفلین
شیخ جی بیٹھے ہوئے ہیں ایسے فرزانوں کے بیچ
جیسا دیوانہ کوئی بیٹھا ہو دیوانوں کے بیچ
مے کہاں کی، جام کس کا، کون ہے ساغر بکف
محتسب بیٹھے ہوئے ہیں اب تو میخانوں کے بیچ
تو کہ گل پیکر تھا تیرا جسم تھا عینِ بہار
تو بھلا کیوں رہتا ہم سے سوختہ جانوں کے بیچ
کوئی تو بولے کہ یہ دستِ ستم زنجیر ہو
کوئی تو دانا ہو یارب اتنے نادانوں کے بیچ
شہر میں آسودگی وحشت کا ہی اک نام ہے
اور یہ وحشت میسر تو ہے ویرانوں کے بیچ ؟
علم رسوا ہو رہا ہے کونچہ و بازار میں
جہل اب جلوہ فگن ہے آئینہ خانوں کے بیچ
شکریہ
آخری تدوین: