جیولین تھرو کی فزکس ۔ حمیر یوسف

فرخ منظور

لائبریرین
جیولین تھرو کی فزکس
آج کل جو پاکستان میں میڈیا سینسیشن اور سب سے بڑی خوشی کی بات ہے وہ اور کچھ نہیں ہمارے پیارے ارشد ندیم صاحب ہیں۔ ارشد ندیم نے اولمپک گیمز میں جیولین تھرو مقابلے میں 118 سال کی تاریخ میں سب سے لمبی تھرو پھینک کر ایک ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اور پاکستان کو اب تک حالیہ اولمپک گیمز میں واحد سونے کا تمغہ دلانے کا باعث بنے جو بحیثیت پاکستانی ہم سب لوگوں کےلیے ایک بے حد خوشی کا مقام ہے۔ واضح رہے پاکستان سونے کا تمغہ اولمپک میں کئی دفعہ جیتا ہے، لیکن وہ تمغے ہاکی ٹیم مقابلوں میں پوری پاکستانی ٹیم کو ملے ہیں۔ اس سے پہلے انفرادی مقابلوں میں آج تک پاکستان کوئی سونے کا تمغہ نہیں ملا۔ ٹریک اینڈ فلیڈ انفرادی مقابلوں میں بہرحال یہ پاکستانی اسپورٹس کی تاریخ کا پہلا اولمپک گولڈ میڈل ہے۔ ارشد صاحب واقعی اس معاملےمیں پاکستان کا فخر ہے، جسکے لیے وہ یقینا بہت شکریہ کے مستحق ہیں

چلیں اب تھوڑی جیولین تھرو سے جڑی فزکس کی بات کرتےہیں اور پوسٹ کے آخر میں تھوڑی اس اسپورٹس سے متعلق کچھ ہسٹری بھی بتاتا ہوں۔جیولین تھرو ، دراصل ایک پروجیکٹائل موشن کی مثال ہے۔اور اس اسپورٹس میں اپنے نیزے (جیولین) کو زیادہ سے زیادہ دور تک پھینکنا ہوتا ہے۔ یہ دور پھینکنا دراصل ایک افقی میدانی رینج کہلاتی ہے، جو کہ کسی بھی پروجیکٹائل (یہاں پروجیکٹائل سے مراد ادھر ہم جیولین یا نیزا لے سکتے ہیں) طے کرتا ہے جب وہ اپنے تھرو کرنےکے مقام سے وہ زمین تک ٹکراتا ہے۔
پروجیکٹائل کی زیادہ سے زیادہ افقی رینج کا فارمولا ہے۔
R(max) =(V₀²/g)Sin(2θ₀)
یہاں پر R(max) سےمراد ، زیادہ سے زیادہ میدانی رینج ہے۔ V₀سے مراد ابتدائی ولاسٹی ہے جو جیولیون تھرور ، نیزہ پھینکنے میں استعمال کرتا ہے۔ g سے مراد گریوٹی (ثقلی اسراع) کی قیمت ہے ، جو فکس ہوتی ہے اور آخر میں جیولیون تھرو پھینکنےکا ابتدائی اینگل θ₀، جو تھرو پھینکتےہوئے نیزہ باز کے ہاتھ سے بننا چاہئے۔ اب اگر اس مساوات کو دیکھیں، تو ہمیں اگر اپنے نیزے کی زیادہ سے زیادہ maximum افقی قیمت چاہئے ، یعنی R(max) چاہئے تو ہمیں دو فیکٹرز کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ایک V₀اور دوسرا θ₀ کی قیمت، جوکہ ₄₅⁰ ہے کیونکہ یہ فارمولے کے مطابق 2 سے ملٹی پلائی ہوتی ہے اور ہمیں Sin90⁰ حاصل ہوتا ہے، جسکی قیمت sin ٹرگنومیٹرک نسبت میں سب سے زیادہ یعنی 1 ہوتی ہے۔ یعنی نیزے کا لانچ اینگل یقینی طور پر 45 ڈگری کا ہونا چاہئے ، جس سے وہ زیادہ سے زیادہ افقی میدانی رینج حاصل کرسکے۔ اسطرح اگر ہم ان دو فیکٹرز اور کچھ مزید فیکٹرز جنکی آگے پوسٹ میں بات ہوگی، ان پر دھیان دیں تو ہم اپنے نیزے کو لمبے فاصلے پر پھینک سکتے ہیں۔

نیزہ پھینکتے ہوئے، اسپورٹس مین کا انسانی کندھا ایک کیٹپلٹ یعنی مجنیق کی طرح کا کام کرتا ہے۔ جیولیون کو آگے پھینکنے کے لیے بازو کے پیچھے ہٹنے سے پہلے، ہاتھ کے پٹھے اور کنڈرا پھیلتے ہیں، لچکدار توانائی کا ذخیرہ کرتے ہیں، اور مناسب اینگل ، ولاسٹی اور ٹائم پر اگر وہ اپنا نیزہ پھینکے تو یہ بہت دور تک جاگرے گا ۔ یہ چابک مارنےکی کارروائی کی طرح سے بہت زیادہ طاقت پیدا کرتی ہے – زیادہ ولاسٹی حاصل کرنے میں نیزہ باز کو بہت دور سےبھاگتے ہوئے، ایک جست لگاکر پھینکنا ہوتا ہے جس سے اسکے بہت سےٹانگوں بڑے پٹھے زیادہ سے زیادہ چھلانگ یا سائیکل سپرنٹ کے زریعے پیدا کر سکتے ہیں اس سے 10 گنا زیادہ پھر وہ تیز نیزے کو پھینک سکتا ہے۔نیزے پھینکنے کا یہ عمل ایک لمبے رن اپ کے ساتھ شروع ہوتا ہے، ایک اہم مرحلہ ہوتا ہےجہاں ہاتھ کی حرکی توانائی تیار ہوتی ہے کہ نیزاپھینکنے میں صرف ہو۔ یہ ایک سادہ سپرنٹ یا دوڑ نہیں ہوتی ہے۔ہر کھلاڑی کو اپنی پرفیکٹ رفتار تلاش کرنی چاہیے۔ تاکہ تھرو کرنے کے لیے کافی توانائی پیدا کرنے کے لیے اس اسپرنٹ کو تیز کرنا ہوگا،لیکن اس اسپرنٹ یا دوڑ کو ایک کنٹرول انداز میں ہونا چاہئے تاکہ مخصوص طریقے سے نیزا پھینکنے کے عمل کو مکمل کیا جائے۔

جیسے ہی وہ نیزا پھینکنے کے قریب پہنچتاہے، ایتھلیٹس اپنے جسم کو کوائلڈ اسپرنگس کی سی کیفیت میں بدل دیتے ہیں۔ وہ ایک طرف اپنی باڈی کو مڑتے ہوئے اور قدموں کےکراس اوور کے اقدامات انجام دیتے ہوئے، انہوں نے اپنے اسٹانس کو ایک تیز رفتار ہاتھ کی گردش کے لیے ترتیب دینا ہوتا ہے جو تھرو کرنے کےلیے اضافی توانائی ڈالتا ہے۔بازو کی یہ پوزیشننگ بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ نیزا پھینکنے میں استعمال ہونے والے بازو کے پٹھے نسبتاً چھوٹے سائز کےہوتے ہیں، ٹانگ کے پٹھوں کی طرح بڑے سائز کے نہیں ہوتے۔ پھر بھی ہاتھ و بازو کی مخصوص حرکت کے زریعے وہ متعین توانائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جیولین کی حتمی پرواز کی توانائی کی اکثریت رن اپ اور ہاتھ کی گردش سے آتی ہے، اسی طرح اسکی ابتدائی ولاسٹی بڑھتی ہے۔ارشد ندیم کا جو فائنل فاصلہ تھا، 92.9 میٹرز، اس تھرو کی اگر ابتدائی ولاسٹی نکالی جائے، تو وہ قریبا 30 میٹر فی سیکنڈ یا 108 کلومیٹر فی گھنٹے کی اسپیڈ بنتی ہے۔

نیزے پھینکنے کااگلا مرحلہ وہ ہے جہاں طبیعیات جسمانی طاقت کی جگہ لے لیتی ہے۔ جیسے ہی پھینکنے والا اپنی اگلی ٹانگ کو زمین میں مارتا ہے، تیزی سے آگے کی رفتار کو بریک لگاتا ہے، وہ بیک وقت تھرو کی سمت کی طرف اپنا ہاتھ گھومتا ہے۔اب یہ وہ جگہ ہے جہاں تھرموڈینامکس کا پہلا قانون – توانائی کا کنزرویشن – عمل میں آتا ہے۔ ایتھیلیٹس کے قدموں کوبریک لگتے ہی رن اپ سے توانائی ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بجائے، اس کا زیادہ تر حصہ جسم کے اس واحد حصے میں منتقل ہوتا ہے جو ابھی بھی حرکت کرنے کے لیے آزاد ہے یعنی نیزاپھینکنے والا بازو۔یعنی اب ہمارے جسم کی تمام توانائی ، ہمارے بازو میں منتقل ہوجاتی ہے۔ لیکن اب نیزا پھینکنا ہی آدھی جنگ نہیں ہے۔ ایک بار جب نیزا ہوائی رخ اختیار کرتا ہے، نیزے کی اڑان ایروڈینامکس کا عملی مظہر بن جاتی ہے۔

کسی گیند پھینکنے کے برعکس، نیزے کے لیے بہترین لانچ زاویہ درسی کتاب میں بتایا جانے ایک قطعی 45 ڈگری ہونا چاہئے ۔ نیزے پھینکنے سے پہلے ہوائی جہاز کے بازو کی طرح لفٹ پیدا کرنے کی اس کی صلاحیت کی بدولت، جیولین پھینکنے والا اپنی تیز رفتاری اور ہوا کی رفتار کے لحاظ سے، عام طور پر 32 اور 38 ڈگری کے درمیان، ایک لانچ اینگل کا ہدف بنا سکتے ہیں، جس میں نیزا دور بھی جاسکتا ہے، وہ منحصر کرے گا کہ ہوا کی اسپیڈ کیا چل رہی ہے۔ پھینکنےکے وقت نیزےکی حالت بھی اتنی ہی زیادہ اہم ہے۔ پھینکنے والوں کا مقصد نیزےکے لمبے محور کو اس کی پرواز کے راستے کے ساتھ سیدھا کرنا ہے، جسے اکثر "ٹپ کے ذریعے" پھینکنے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ ہوا کی مزاحمت کو کم کرتا ہے اور پروجیکٹائل کی پرواز کے مثالی حالات کو قائم کرتا ہے۔

لیکن اس پورے پراسس کی پیچیدگی وہیں ختم نہیں ہوتی۔ چونکہ ایک تھرو کے دوران کوئی بھی جسم گھومتا ہے، اس لیے نیزے میں بھی گھماؤ آتا ہے۔ یہ اسے پرواز میں مستحکم کرنے میں مدد کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک گولی یا امریکی فٹ بال (رگبی) اپنے محور پر گھومتا ہے۔اگر نیزے کو 45° کے زاویہ سے افقی سطح پر ہوا میں پھینکا جائے تو زمین پر زیادہ سے زیادہ افقی رینج کے طور پر ناپا جائے ، اور یہ زیادہ سے زیادہ فاصلے پر گرتا ہے۔اسکے نوکیلے سرے کی طرف کشش ثقل کے مرکز کو جھکانا چاہیے۔نیزے کی رفتاراور اسکا راستہ ایک پیرابولک طرز کی ہوگی۔ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے کےلیے نیزے کی ایک مخصوص بناوٹ بھی ہونا چاہئے، جو اولمپک کمیٹی کی ریکمنڈیشن کے تحت بنائے جاتے ہیں۔

افقی فاصلے کو زیادہ سے زیادہ طے کرنے کے لیے، ہاتھ کو سب سے پہلے 45 ڈگری کے زاویے سے گزرنا ہوگا ۔ پھر وہ بازو کی قوت آتی ہے، جو بھاگتے ہوئے جسم سے حاصل ہوتی ہے، جسے آپ نے تبدیل کیا ، وہ نیزے کی ابتدائی رفتار کے طور پر بدل جاتی ہے۔ دوڑنے کی رفتار بھی ابتدائی رفتار میں شامل ہو جاتی ہے ،اس رفتار کے علاوہ جو وہ نیزے پھینک کر ہاتھ کی طاقت سے اسکو جوڑتا ہے۔ زیادہ سےزیادہ ولاسٹی حاصل کرنے کے لیے ان دونوں فیکٹرز کا زیادہ سے زیادہ ہونا ضروری ہے، اگر زاویہ بڑھتا ہے یا گھٹتا ہے، تو طے شدہ افقی فاصلہ زیادہ سے زیادہ سے کم ہوگا۔ اس کے علاوہ کھلاڑی کو دوڑ کی حتمی بارڈر لائن کراس نہیں کرنی چاہیے جس کے لیے بہت اچھی پریکٹس کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ آبجیکٹ یعنی نیزا ایک لمبوتری شکل کا ہوتا ہے، اس لیے کشش ثقل کا مرکز بہرحال نیزے کی اسٹک کو پیرابولک راستے پر ٹینجینٹل بنائے گا، جس سے وہ اس مخصوص راستے کو اختیار کرلیتا ہے، جب زیادہ سے زیادہ وہ افقی میدان کو چھو جائے۔

پہلے زمانے میں جیولین تھرو یعنی نیزہ بازی سپاہی جنگوں میں حصّہ لینے اور شکاری جنگلوں میں جانوروں کا شکار کرنے کے لیے سیکھتے تھے۔جیولین تھرو کا پہلا مقابلہ 708 قبل مسیح میں یونان میں ہونے والے اولمپکس میں ہوا تھا۔ قدیم اولمپک کھیلوں کے مقام اولمپیا کی حالت کئی جنگوں اور قدرتی آفات کے آنے کے بعد بعد بگڑ گئی اور پھر تقریباََ 394 عیسوی میں رومی شہنشاہ تھیوڈوسیئس اوّل نے اولپکس کے انعقاد کو باضابطہ طور پر غیر قانونی قرار دے دیا۔اولمپکس کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد جیلین تھرو کے مقابلے ہونا بھی بند ہوگئے۔

پھر کئی صدیوں بعد 1700 کی دہائی کے آخر میں ان مقابلوں کا دوبارہ انعقاد ہونے لگا اور دو مختلف انداز میں جیولین تھرو کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، پہلے طریقے میں مقابلہ جیتنے کے لیے بتائے گئے ہدف پر اور دوسرے طریقے میں سب سے زیادہ دور جیولین پھینکنا ہوتا تھا۔بعد ازاں، ان دونوں طریقوں میں سے دوسرا والا طریقہ زیادہ مقبول ہوگیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں رمیز راجہ نے کہا، ’ جیولین تھرو مقابلوں میں اولمپک ریکارڈ بنانے والے ارشد ندیم کی تھرو کتنی طویل تھی، اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو اس کا اندازہ ہوسکے۔رمیز راجہ نے کہا کہ ایک فٹبال گراؤنڈ کی لمبائی 91.4 میٹر (299فٹ) ہوتی ہے جبکہ کہ ارشد ندیم نے 92.97 میٹر(304فٹ) کی تھرو پھینکی۔ رمیز راجہ کی شیئر کی گئی معلومات کے مطابق ارشد ندیم نے فٹبال گراؤنڈ کی لمبائی سے 1.57 میٹر (قریبا 5فٹ) زیادہ لمبی تھرو پھینکی۔جیولیون اسپورٹس کی تاریخ کی سب سے لمبی تھرو چیکوسلاواکیہ کے جان زیلنزی نے 1996 میں ایک ایتھلیٹس کے باہمی مقابلوں میں پھینکی جو 98.48 میٹرز کے فاصلے پر گری۔ یہ فاصلہ تاحال برقرار ہے۔ اولمپکس کے علاوہ عالمی مقابلوں میں ارشد کا رینک ساتواں ہے، لیکن اولمپکس میں سب سے لمبی تھرو پھینکنے کا اعزا ز صرف ارشد ندیم صاحب کے پاس ہی ہے، جو کہ 92.9 میٹرز کا ہے۔

تحریر و تحقیق
حمیر یوسف
 
کسی گیند پھینکنے کے برعکس، نیزے کے لیے بہترین لانچ زاویہ درسی کتاب میں بتایا جانے ایک قطعی 45 ڈگری ہونا چاہئے ۔ نیزے پھینکنے سے پہلے ہوائی جہاز کے بازو کی طرح لفٹ پیدا کرنے کی اس کی صلاحیت کی بدولت، جیولین پھینکنے والا اپنی تیز رفتاری اور ہوا کی رفتار کے لحاظ سے، عام طور پر 32 اور 38 ڈگری کے درمیان، ایک لانچ اینگل کا ہدف بنا سکتے ہیں، جس میں نیزا دور بھی جاسکتا ہے
یہاں مصنف غالباً کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ گیند کے برعکس نیزے کا لانچ اینگل 45 نہیں بلکہ 32 سے 38 کے درمیان ہے لیکن انھوں نے عجیب کھچڑی پکا دی ہے.
لیکن اس پورے پراسس کی پیچیدگی وہیں ختم نہیں ہوتی۔ چونکہ ایک تھرو کے دوران کوئی بھی جسم گھومتا ہے، اس لیے نیزے میں بھی گھماؤ آتا ہے۔ یہ اسے پرواز میں مستحکم کرنے میں مدد کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک گولی یا امریکی فٹ بال (رگبی) اپنے محور پر گھومتا ہے۔اگر نیزے کو 45° کے زاویہ سے افقی سطح پر ہوا میں پھینکا جائے تو زمین پر زیادہ سے زیادہ افقی رینج کے طور پر ناپا جائے ، اور یہ زیادہ سے زیادہ فاصلے پر گرتا ہے
یہ بھی عجیب کھچڑی ہے. افقی رینج ناپنے سے فاصلہ کیسے بڑھے گا؟ اور افقی رینج سے کیا مراد ہے؟ پروجیکٹائل کی بیشترین اونچائی؟ اس کا تو فاصلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں. اسے بڑھانے کے لیے لانچ اینگل بھی 90 کے آس پاس ہونا چاہیے.

اس سے پہلے مصنف کہہ چکے ہیں کہ air drag کی وجہ سے اینگل 45 کے بجائے 32 سے 38 ہو تو بہتر رینج ملتی ہے لیکن یہاں وہ پھر 45 کی بات کر رہے ہیں.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس آرٹیکل میں شاید نیزےکے مرکز ثقل اور دستی گرفت کی پوزیشن کو نظر انداز کیا گیا ہے جو کہ اہم فزیکل پہلو ہو سکتا ہے ۔ یہ جیولن نیزہ یقینا ہیڈ ٹو ٹیل یکساں اسپیسسفک گریوٹی نہیں رکھتا ہو گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
چونکہ میں سائنس کا طالب علم نہیں اسی لیے یہ مضمون یہاں پوسٹ کیا کہ شاید اس مضمون میں غلطیوں کی نشان دہی ہو سکے۔
 

علی وقار

محفلین
بطور ایک کھلاڑی ندیم کو جیولین پھینکنے کے زاویے، ہوا کی رفتار وغیرہ کا اندازہ ضرور ہوتا ہو گا۔ اردو میں ایسے مضامین دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، غلطیاں اپنی جگہ۔
 

الشفاء

لائبریرین
بطور ایک کھلاڑی ندیم کو جیولین پھینکنے کے زاویے، ہوا کی رفتار وغیرہ کا اندازہ ضرور ہوتا ہو گا۔ اردو میں ایسے مضامین دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، غلطیاں اپنی جگہ۔
تسی فیر اردو دی گل چھیڑ دتی، اُتلے مراسلے نئیں پڑھے۔۔۔ :)
ٹیگ: نظامی صاحب۔۔۔
 
Top