فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
اس کالم کے پس منظر ميں امريکی وزير خارجہ جان کيری کا ايک بيان پيش ہے جو انھوں نے جون 2013 ميں پاکستان ميں عام انتخابات کے فوری بعد خطے کے دورے کے دوران ديا تھا۔
"يہ پاک بھارت تعلقات ميں ايک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ دنيا بھر ميں عالمگيريت اور بڑھتے ہوئے روابط کے اس دور ميں بڑے پيمانے پر اس بات کا ادراک موجود ہے کہ دونوں ممالک – پاکستان اور بھارت معاشی روابط ميں وسعت کے ساتھ پرانی رکاوٹوں کو گرا کر اور تاريخ کا رخ تبديل کر کے کافی کچھ حاصل کر سکتے ہيں"۔
يہ کوئ ايک ہی بيان نہيں ہے۔ امريکہ کے اعلی ترين عہديداروں کی جانب سے ريکارڈ پر کئ سرکاری بيان موجود ہيں جن ميں ہماری اس خواہش کو واضح طور پر اجاگر کيا گيا ہے کہ ہم خطے کے اہم ترين فريقين اور اپنے قريب ترين شراکت داروں کے باہم تعلقات ميں بہتری چاہتے ہيں۔
اب اس سرکاری موقف کا امريکی سفارت خانے کے عہديداروں کی جانب سے بيان کردہ ان آراء سے موازنہ کريں جنھيں اس کالم ميں اجاگر کيا گيا ہے۔ اگر امريکی سفارت خانے کے عہديدار پاکستان اور بھارت کے درميان بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دے رہے تھے تو وہ محض امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی ترويج ہی کر رہے تھے۔ يہ دلچسپ امر ہے کہ کالم نگار نے کچھ اس قسم کا تاثر دينے کی کوشش کی ہے کہ جيسے امريکی عہديدار پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کسی خفيہ نظريے يا سوچ کو پروان چڑھانے کے خواہش مند تھے۔
ميں نے ماضی ميں بھی کئ بار يہ واضح کيا ہے کہ تعنيات کردہ سفارت کاروں کی يہ ذمہ داری اور فرائض ہوتے ہيں کہ وہ عام لوگوں کے نمايندوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے اہم افراد اور رائے عامہ سے منسلک لوگوں سے مستقل رابطے ميں رہتے ہيں۔ مختلف ميڈيا گروپس سے منسلک افراد دنيا بھر ميں سفارت کاروں سے روزمرہ کے معمولات ميں ملتے رہتے ہيں۔ ايسی کوئ سازش يا خفيہ ايجنڈہ نہيں ہے جسے ان عوامی سطح پر ہونے ملاقاتوں اور افراد سے براہراست رابطوں کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔
ميں يہ بھی باور کروانا چاہوں گا کہ امريکی سفارت کاروں اور حکومتی عہديداران کے ليے يہ کوئ غير معمولی امر نہيں ہے کہ وہ مختلف اين جی اوز، حکومتی اکابرين اور ميڈيا گروپس سے روابط کے ذريعے ايسے منصوبوں اور اقدامات کی ترويج، تشہير، حمايت اور يہاں تک کہ مالی مدد بھی کريں جو اس سرکاری امريکی موقف سے متعلق ہوں جنھيں عوامی سطح پر تسليم کيا جا چکا ہو۔ عرف عام ميں اس عمل کو "لابنگ" کہا جاتا ہے – نا کہ کسی خفيہ سوچ کی ترويج يا کٹھ پتليوں کی تخليق کے ليے کی جانے والی مکروہ کاوشيں۔
مذکورہ ملاقات جس کا کالم ميں حوالہ ديا گيا ہے، اس ميں لکھاری کو بھی دی جانے والی دعوت اور ان کے ديگر ساتھيوں کی طرح انھيں بھی "امريکی کوکيز" کی پيشکش اور اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کا موقع اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف نوعيت کی آراء اور سوچ جو ايک مجموعی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرے، لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اسے ايک ناقابل قبول سوچ کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu