جیو ٹی وی چینل کو بند کریں ، وزارت دفاع کی درخواست

میں کسی صحافی یا سیاستدان کو بھی غدار نہیں سمجھتا میرے لئے اکثریت محب وطن ہیں۔ کوئی ان میں سے بھی غداری کر سکتا ہے لیکن بغیر کسی ثبوت کے محض اختلاف رائے کی بنیاد پر ان کو غدار قرار دینا ظلم عظیم ہے۔
میری ذاتی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے کہ بلوچستان اور مشرف کے مسئلے پر مسلسل لکھنے اور پروگرام کرنے کی وجہ سے کچھ مشتعل افسران نے حامد پر یہ حملہ کرایا ہو۔
اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کسی تیسری قوت نے فوج اور حامد کے اختلافات سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ کام کیا ہو۔ یہ کوئی بیرونی ایجنسی بھی ہو سکتی ہے یا ایم کیو ایم بھی ۔ ایم کیو ایم کا مشرف سے عشق بالکل چھپا ہوا نہیں ہے۔ :)
 
’آزادی اظہار کو خطرہ مگر جیو نے انتہا کر رکھی تھی‘
انسانی حقوق کی علمبردار اور معروف وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ وزارت دفاع کی جانب سے جیو نیوز کی نشریات کو بند کرنے سے متعلق درخواست ملک میں آزادی اظہار کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’مجھے اس بات پر بہت تشویش ہے کہ ہم نے میڈیا کو آزاد کرانے کے لیے جو جد وجہد کی وہ اب بالکل ہی پیچھے چلی گئی ہے۔‘
مجھے اس بات پر بہت تفتیش ہے کہ آج ہم نے جس جددجہد کے ساتھ آزاد میڈیا مانگا تھا اس کے لیے ہماری جدوجہد مکمل نہیں ہوئی مگر اب وہ بالکل ہی پیچھے چلی گئی ہے۔جیو گروپ نے بھی حدیں پار کی ہوئی تھیں۔ اس گروپ نے بے شرمی سے لوگوں کو تذلیل کرنا انھیں تکلیف دینا شروع کیا ہوا تھا۔"
معروف وکیل نے کہا کہ لوگوں کو میڈیا سے یہ شکایت تھی کہ بِلاوجہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا اور متعدد افراد مسئلے کی وجہ بیمار ہو چکے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا ’میں بہت شدت سے اس بات کی مذمت کرتی ہوں کہ کسی بھی چینل کو بند کر دیا جائےتو یہ انتہائی اقدام ہے کیونکہ اس سے آزادیِ صحافت کو بہت ٹھیس پہنچے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ جیو گروپ نے ’حب الوطنی اور ملکی مفاد‘ کے بارے جو بحث چھیڑ رکھی تھی اور اس کے پروگراموں کے کچھ شرکا نے ’حب الوطنی کی فیکٹری کھول رکھی تھی، پھر ردِ عمل تو ہونا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جیو گروپ کو ایک حد تک لائن ڈرا کرنی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان میں کوئی بھی شخص کسی کو بھی حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ نہیں دے سکتا۔ ‘
انھوں نے کہا کہ جس سطح پر جیو کے خلاف پروپیگینڈہ ہوا ہے وہ بھی قابلِ براشت نہیں ہے
 

ساجد

محفلین
بار بار آپ معزز جرنیل کا لفظ استعمال کر رہے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ حامد میر جیسے غدار کے ساتھ شریف خاندان جیسے بے غیرت حکمران تو ہنس بول سکتے ہیں کہ دونوں کے مفادات ہی دوسرے ملکوں سے وابستہ ہیں، مگر کسی فوجی سے یہ توقع نہ رکھیئے گا کہ وہ بھونکنے والے کتے کو روٹی بھی ڈالنے جائے گا۔ کیا کروں، بار بار بھول جاتا ہوں کہ آپ سیاست دانوں اور میڈیا کے حامی ہیں چاہے وہ جو کچھ بھی کر لیں، آپ کو دکھائی نہیں دینا
قیصرانی بھائی ، یہ آپ ہی لکھ رہے ہیں کیا ؟ :)
 

ساجد

محفلین
شاید آپ کو یاد نہیں کہ بقول آپکے غدار حامد میر سے آپ کے پسندیدہ حکمران پرویز مشرف نے لائیو پروگرام میں جیو پر حملہ کے بعد معافی مانگی تھی۔
میں کسی کا بھی غیر مشروط حمایتی نہیں۔ کسی کو مقدس گائے کا درجہ دینے کا قائل نہیں چاہے وہ میڈیا ہو یا کوئی جرنیل۔
مجھے کسی بھی جرنیل کے متکبرانہ رویے پر سخت اعتراض ہے۔
پورے ملک کی اسمبلیوں نے حامد میر کے حق میں قراردادیں پاس کی ہیں کیا یہ سب منافق اور غدار کے حمایتی ہیں؟کیا صرف جرنیل ہی محب وطن ہیں؟
لئیق بھائی ، کسی اہم فرد پر قاتلانہ حملے پر قرارداد پیش کرنا تو کوئی نئی بات نہیں اور ان قرار دادوں کا مقصد کسی کو مجرم ٹھہرانا نہیں ہوتا ۔ ان پیش کردہ قرار دادوں میں بھی فوج کو میر پر حملے کا ذمہ دار نہیں کہا گیا ۔
 
x6853_72487289.jpg.pagespeed.ic.iMRzFBreVa.jpg
 
لئیق بھائی ، کسی اہم فرد پر قاتلانہ حملے پر قرارداد پیش کرنا تو کوئی نئی بات نہیں اور ان قرار دادوں کا مقصد کسی کو مجرم ٹھہرانا نہیں ہوتا ۔ ان پیش کردہ قرار دادوں میں بھی فوج کو میر پر حملے کا ذمہ دار نہیں کہا گیا ۔
لیکن ان قراردادوں سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ حامد میر غدار نہیں ہے۔ :)
میری مراد یہی تھی۔ ان قراردادوں کے حوالے سے
 
میری رائے میں:
جیو چینل ، حامد میر اور آئی ایس آئی چیف کے معاملے میں کیا ہونا چاہئے؟
1- چونکہ آئی ایس آئی واقعتاً ایک حساس قومی سلامتی کا ادارہ ہے اور اسکا سربراہ بھی محتاط رویے کا متقاضی ہے اس لئے جیو کو حامد میر پر حملے کے بعد اس کے پہلے سے بتائے گئے اندیشوں کے باوجود محتاط رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے حامد میر کے اندیشوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممکنہ حملہ آوروں، مثلاً طالبان، ایم کیوایم اور سی آئی اے اور را کے ملوث ہونے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے تھا صرف ایک جرنیل کے ملوث ہونے کا امکانات پر ہی سارا زور نہیں دینا چاہئے تھا۔
اب کیا ہونا چاہئے؟
1-اس غیر محتاط رویے کی بنا پر پیمرا کو جیو پر جرمانہ کرنا چاہئے آئیندہ کی وارننگ کے ساتھ۔
2- آئی ایس آئی چیف کو ان الزامات کی بنا پر شفاف تحقیقات کے لئے لمبی رخصت لیکر عدالتی کمیشن سے پورا تعاون کرنا چاہئے۔ میری دعا ہے کہ چیف اور دوسرے افسران ان تحقیقات میں بے گنا ثابت ہوں۔ اور شفاف تحقیقات میں اصل مجرم پکڑے جائیں۔
کیا ہونے کا امکان ہے؟
1-
عدالتی کمیشن کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلے گا۔
2- جیو پر پابندی لگنے کا 80 فیصد امکان ہے یا جیو والے جرنیل سے معافی تلافی کر کے جان چھڑا نے کی کوشش کریں گے۔ (ویسے جیو نے شہید بننے کی تو کل سے کاروائی شروع کر دی ہے :) )
 

محمداحمد

لائبریرین
میری رائے میں:
جیو چینل ، حامد میر اور آئی ایس آئی چیف کے معاملے میں کیا ہونا چاہئے؟
1- چونکہ آئی ایس آئی واقعتاً ایک حساس قومی سلامتی کا ادارہ ہے اور اسکا سربراہ بھی محتاط رویے کا متقاضی ہے اس لئے جیو کو حامد میر پر حملے کے بعد اس کے پہلے سے بتائے گئے اندیشوں کے باوجود محتاط رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے حامد میر کے اندیشوں کے ساتھ ساتھ دیگر ممکنہ حملہ آوروں، مثلاً طالبان، ایم کیوایم اور سی آئی اے اور را کے ملوث ہونے کے امکانات کا بھی جائزہ لینا چاہئے تھا صرف ایک جرنیل کے ملوث ہونے کا امکانات پر ہی سارا زور نہیں دینا چاہئے تھا۔

اتنے بے احتیاط تو جیو والے بھی نہیں ہیں کہ جتنے آپ ہیں۔

ایم کیو ایم اگر کچھ بدنام ہے تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ اُسے طالبان، سی آئی اے اور را کی صف میں کھڑا کر دیں۔
 
اتنے بے احتیاط تو جیو والے بھی نہیں ہیں کہ جتنے آپ ہیں۔

ایم کیو ایم اگر کچھ بدنام ہے تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ اُسے طالبان، سی آئی اے اور را کی صف میں کھڑا کر دیں۔
معذرت مقصد انکو طالبان، سی آئی اے اور را کی صف میں کھڑا کرنا نہیں تھا بلکہ حامد میر کے مخالفوں کی صف میں کھڑا کرنا تھا :)
وضاحت قبول کرنے کی امید کی ساتھ گزارش کی ہے :)
 

زیک

مسافر
اس میں مثال ترکی کی دوں گا کہ اگر سیاست دان سچے دل سے فوج کو ایک طرف کرنا چاہیں تو یہ کام بے حد مشکل سہی، لیکن ناممکن نہیں ہے :)
ترکی کے درجنوں جرنیلوں پر غداری کا مقدمہ یاد ہے آپکو؟ کیا پاکستان کو اسکی تقلید کرنی چاہیئے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
ترکی کے درجنوں جرنیلوں پر غداری کا مقدمہ یاد ہے آپکو؟ کیا پاکستان کو اسکی تقلید کرنی چاہیئے؟
جی بالکل یاد ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نظام میں ہی خرابی ہے اور اس کو میجر سرجری کے بغیر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ہے تو کیا برائی ہے؟
 
ترکی کے درجنوں جرنیلوں پر غداری کا مقدمہ یاد ہے آپکو؟ کیا پاکستان کو اسکی تقلید کرنی چاہیئے؟
لیکن ترکی میں جرنیلوں کو قابو کرنے سے پہلے عوامی نمائیندوں نے اپنی کارکردگی سے جمہوریت کو مضبوط کیا۔ پاکستان میں بھی جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوگی جب جمہوریت کے ثمرات عوام کو ملیں گے۔ اگر عوام کو جمہوریت کے نتیجے میں کرپشن ملتی رہی تو عوام لامحالہ فوج کی طرف دیکھیں گے اس امید پر کہ شاید فوجی کرپشن سے نجات دلائیں۔
 

Fawad -

محفلین


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس کالم کے پس منظر ميں امريکی وزير خارجہ جان کيری کا ايک بيان پيش ہے جو انھوں نے جون 2013 ميں پاکستان ميں عام انتخابات کے فوری بعد خطے کے دورے کے دوران ديا تھا۔

"يہ پاک بھارت تعلقات ميں ايک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ دنيا بھر ميں عالمگيريت اور بڑھتے ہوئے روابط کے اس دور ميں بڑے پيمانے پر اس بات کا ادراک موجود ہے کہ دونوں ممالک – پاکستان اور بھارت معاشی روابط ميں وسعت کے ساتھ پرانی رکاوٹوں کو گرا کر اور تاريخ کا رخ تبديل کر کے کافی کچھ حاصل کر سکتے ہيں"۔

يہ کوئ ايک ہی بيان نہيں ہے۔ امريکہ کے اعلی ترين عہديداروں کی جانب سے ريکارڈ پر کئ سرکاری بيان موجود ہيں جن ميں ہماری اس خواہش کو واضح طور پر اجاگر کيا گيا ہے کہ ہم خطے کے اہم ترين فريقين اور اپنے قريب ترين شراکت داروں کے باہم تعلقات ميں بہتری چاہتے ہيں۔

اب اس سرکاری موقف کا امريکی سفارت خانے کے عہديداروں کی جانب سے بيان کردہ ان آراء سے موازنہ کريں جنھيں اس کالم ميں اجاگر کيا گيا ہے۔ اگر امريکی سفارت خانے کے عہديدار پاکستان اور بھارت کے درميان بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دے رہے تھے تو وہ محض امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی ترويج ہی کر رہے تھے۔ يہ دلچسپ امر ہے کہ کالم نگار نے کچھ اس قسم کا تاثر دينے کی کوشش کی ہے کہ جيسے امريکی عہديدار پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کسی خفيہ نظريے يا سوچ کو پروان چڑھانے کے خواہش مند تھے۔

ميں نے ماضی ميں بھی کئ بار يہ واضح کيا ہے کہ تعنيات کردہ سفارت کاروں کی يہ ذمہ داری اور فرائض ہوتے ہيں کہ وہ عام لوگوں کے نمايندوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے اہم افراد اور رائے عامہ سے منسلک لوگوں سے مستقل رابطے ميں رہتے ہيں۔ مختلف ميڈيا گروپس سے منسلک افراد دنيا بھر ميں سفارت کاروں سے روزمرہ کے معمولات ميں ملتے رہتے ہيں۔ ايسی کوئ سازش يا خفيہ ايجنڈہ نہيں ہے جسے ان عوامی سطح پر ہونے ملاقاتوں اور افراد سے براہراست رابطوں کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔

ميں يہ بھی باور کروانا چاہوں گا کہ امريکی سفارت کاروں اور حکومتی عہديداران کے ليے يہ کوئ غير معمولی امر نہيں ہے کہ وہ مختلف اين جی اوز، حکومتی اکابرين اور ميڈيا گروپس سے روابط کے ذريعے ايسے منصوبوں اور اقدامات کی ترويج، تشہير، حمايت اور يہاں تک کہ مالی مدد بھی کريں جو اس سرکاری امريکی موقف سے متعلق ہوں جنھيں عوامی سطح پر تسليم کيا جا چکا ہو۔ عرف عام ميں اس عمل کو "لابنگ" کہا جاتا ہے – نا کہ کسی خفيہ سوچ کی ترويج يا کٹھ پتليوں کی تخليق کے ليے کی جانے والی مکروہ کاوشيں۔

مذکورہ ملاقات جس کا کالم ميں حوالہ ديا گيا ہے، اس ميں لکھاری کو بھی دی جانے والی دعوت اور ان کے ديگر ساتھيوں کی طرح انھيں بھی "امريکی کوکيز" کی پيشکش اور اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کا موقع اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف نوعيت کی آراء اور سوچ جو ايک مجموعی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرے، لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اسے ايک ناقابل قبول سوچ کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top