فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ انتہائ قابل افسوس امر اور بدقسمتی کی بات ہے کہ آج بھی جب پاکستان ميں سياسی قيادت کو پرکھنے اور ان کی کارکردگی کو جانچنے کے ضمن ميں بحث ہوتی ہے تو لامحالہ اس کا رخ 80 کی دہائ کے انھی پرانے نعروں اور دليلوں کی جانب ہو جاتا ہے جو صرف کيچڑ اچھالنے کا کام ديتے ہيں ليکن اہم مسائل کے حوالے سے تعميری گفتگو کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہيں ہوتا۔
يہ سوچ کسی ايک سياست دان يا دھڑے تک محدود نہيں ہے۔ آپ پاکستان کی کئ سياسی جماعتوں کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں، وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليئے وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی تقدير کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔
يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے۔
کسی بھی سياسی يا مذہبی جماعت کے نمايندے کو امريکی پھٹو يا ايجنٹ قرار دينے کے ليے اگر صرف يہی معيار کافی ہے کہ امريکی عہديداران اور سفارت کاروں سے ان کے روابط اور ميل جول کے "ثبوت" فراہم کر ديے جائيں تو پھر ميں واضح کر دوں کہ ہم پاکستان ميں تمام سياسی اور مذہبی فريقين سے روابط کے ليے باضابطہ کوششيں کرتے ہيں۔
ليکن ہماری ان سفارتی کاوشوں کا مطلب ہرگز يہ نہيں ہے کہ ہم کسی فريق کو دوسرے پر ترجيح ديتے ہيں يا پاکستان ميں زبردستی کوئ مخصوص سياسی يا مذہبی سوچ مسلط کرنا چاہتے ہيں۔ چاہے وہ کسی مذہبی جماعت کی قيادت ہو يا کسی اہم سياسی جماعت کے قائدين، ہماری ہر ممکن سفارتی کوشش ہوتی ہے کہ گفتگو اور رابطے کا عمل جاری رہے تا کہ ايک دوسرے کے موقف کو بہتر طريقے سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ باہم دلچسپی کے معاملات کے بارے ميں جان کاری حاصل کی جا سکے۔
کچھ رائے دہندگان کے غلط تاثرات اور بعض سياست دانوں کی جانب سے دانستہ ابہام پيدا کرنے کی خواہش کے برعکس ان الزامات ميں بالکل کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت پاکستان کے حکومتی نظام ميں اپنی مرضی کے "پتلے" لگانے کی خواہش رکھتی ہے۔ اس ضمن ميں نا تو ہمارے پاس وسائل ہيں اور نا ہی ہماری ايسی کوئ خواہش ہے۔
پاکستان کی سياسی تاريخ کا ايک سرسری جائزہ بھی اس حقيقت کو آشکار کرتا ہے کہ پاکستان کے سياسی منظرنامے پر کسی ايک عنصر نے کبھی بھی فيصلہ کن کردار ادا نہيں کيا ہے۔ قريب تمام ہی اہم سياسی قوتيں وفاقی يا صوبائ سطح پر اقتدار کا حصہ رہی ہيں۔ اس ليے يہ ناممکن ہے کہ کسی ايک سياسی دھڑے يا قوت کے ذريعے پاکستان کے حکومتی نظام کو کنٹرول کيا جا سکے۔
حتمی تجزيے ميں کسی بھی ملک کی داخلہ پاليسی اس ملک کے منتخب حکمران بناتے ہيں۔ اسی بنياد پر ان کو اليکشن ميں ووٹ ملتے ہيں۔کسی "بيرونی ہاتھ" ميں اتنی طاقت نہيں ہوتی کہ وہ کسی ملک کے انتظامی معاملات کو اس ملک کے حکمرانوں کی مرضی کے برخلاف کنٹرول کرے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/