بے ساختہ ہنسی آ گئی گو کہ شعر واقعی سنجیدہ نوعیت کا ہے پر اس شعر میں کچھ ایسا ویسا ضرور ہے۔ابھی تو ترک تعلق کی وباء پھیلی ہے
پھر محبت سے بھی انکار کیا جائے گا
اپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے
گھر کے باہر , تیرے گلزار سے , ڈر لگتا ھے
فاصلے بن گئے , تکمیلِ محبت , کا سبّب
وصلِ جانآں سے , رُخِ یار سے , ڈر لگتا ھے
اُسکی یادوں سے ھی تسکینِ تصور کر لوں
اب مجھے , محفلِ دلدار سے , ڈر لگتا ھے
سارے تبدیل ہوئے , مہر و وفا کے دستور
چاہنے والوں کے , اب پیار سے ڈر لگتا ھے
خوشبٔووں, لذّتوں, رنگوں میں خوف پنہاں ھے
برّگ سے , پھول سے, اشجار سے ڈر لگتا ھے
تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب
لیکن اب , قربتِ بیمار سے , ڈر لگتا ھے
جنکی آمد کو سمجھتے تھے خدا کی رحمت
ایسے مہمانوں کے , آثار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو لگتا ھے, میرا ہاتھ بھی اپنا نہ رہا
اس لئے , ہاتھ کی تلوار , سے ڈر لگتا ھے
تن کےکپڑے بھی عدّو, پیر کے جُوتے دشمن
سر پہ پہنے ہوئی , دَستار سے ڈر لگتا ھے
جو گلے مل لے میری جان کا دشمن ٹھہرے
اب , ہر اک , یارِ وفادار سے , ڈر لگتا ھے
ایک نادِیدہ سی ہستِی نے جھنجوڑا ایسے
خلق کو , گنبد و مِینار , سے ڈر لگتا ھے
بن کے یاجوج , ماجوج نمودار ہوا , چاروں اور
اِس کی اسی, رفتار سے, ڈر لگتا ھے
عین ممکن ھے یہاں سب ہوں کورونا آلود
شہر کے. کُوچہ و باز٘ار سے ڈر لگتا ھے
خوف آتا ھے ٹی وی چینل دیکھ کر
ہر رسالے سے , ہر اخبار سے , ڈر لگتا ھے
اب تو اپنوں سے مصافحہ بھی پُرخطر ھے جناب
یوں نہیں ھےکہ فقَط اغیّار سے, ڈر لگتا ھے
بےحد کمالہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں، شام کے ڈھلتے ڈھلتے
اب غمِ زیست سے گھبرا کے کہاں جائیں گئے
عمر گزری ہے اسی آگ میں جلتے جلتے
رات کے بعد سحر ہو گی مگر کس کے لیے
ہم ہی شاید نہ رہیں رات کے ڈھلتے ڈھلتے
٭٭٭
سلیم احمد
جاسمن !!!!عجب سی دل میں ہے کَسک
کہ اب کے روزِ عید پر
نہ دوستوں کی محفلیں
نہ دِلبروں سے مجلسیں
مِٹھائیاں نہ خُورمے
نہ قہقے نہ رَتجگے
کہ حُکم ہے غَنیم کا
اطاعتِ وَبا کرو
دُبک کے اپنے گھر رہو
نہ اَب کے تم گَلے ملو
سلام دور سے کرو
نئِی یہ رِیت پڑ گئی
کہ دستِ یار مَس نہ ہو
مِلاپ میں لَمس نہ ہو
جہاں پہ ہو وہیں رہو
ذرا بھی ٹَس سے مَس نہ ہو
سبھی طبیب شہر کے
سبھی خطیب شہر کے
تمام امیر شہر کے
بَجُز غریب شہر کے
ہیں مُتّفِق بِلا فَصل
کہ نا گُزیر ہو گیا
معاشرے میں فاصلہ
کلام میں بھی فاصلہ
سلام میں بھی فاصلہ
دِل و نظر کے بَین بَین
گُداز میں بھی فاصلہ
سِتم ظَریفی دیکھیے
کہ مفتیانِ شہر نے بھی
کہہ دیا ہے بَرمَلا
کہ اِن دنوں میں ہے رَوا
نماز میں بھی فاصلہ
خُدائےِ ہر بُلند و پَست
قسم تیری خدائی کی
جلالِ کبریائی کی
کہ ہم میں ہے کہاں سَکت
بَجُز تیری نیاز کے
کہ اس بَلا سے بچ سکیں
ہے واسطہ تُجھے تیری
کریمئیِ صِفات کا
وسیلہِ کرم تُجھے
تیرے حبیبِ پاکﷺ کا
مُصیبتیں جہان کی
بزورِ کُن تُو ٹال دے
تُو اپنے بندگان کو
وَبا کے اِس وبال سے
نکال کر امان دے
زمیں کو پھر سے
اِذنِ رقصِ زندگی کا دان دے
جناب وارث صاحب!!پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم کرو، ہوا سو ہوا
سودا
نے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ع ۔ گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
(غالب)
تابش میاں!!!!!یہ جو سناٹا ہے سارے شہر میں
کیا نیا جنجال ہے پوچھو خبر
جون ایلیا
کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحمپہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم کرو، ہوا سو ہوا
سودا