حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی...

مشقِ شعر ۔۔ بلکہ ۔۔ مشقِ مصرع

۴
کہنے کو سر کے درد کی گولی بھی کھائی ہے
’’حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی‘‘
:atwitsend: :cow: :surprise: :wasntme:

مصرع ثانی روحیؔ کنجاہی کا ہے۔
 
لیجئے صاحب! ہم بھی ایک تجویز لاتے ہیں۔ ’’ظریفانہ‘‘ (بانگِ درا) میں علامہ اقبال کا یہ شعر

میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
بہت ہیں تیز اِس آری کے دندے٭

مفاعیلن مفاعیلن فعولن (مفاعیل)

اس میں سے کوئی ایک مصرع اٹھانا ہے، اور اُس سے پہلے یا بعد میں اپنا مصرع لگانا ہے۔ قافیہ کی پابندی کوئی نہیں۔
مناسب حد تک شوخی اور مزاح کا عنصر قائم رہے تو اچھی بات ہے۔ کیا خیال ہے؟ ہو جائے مشقِ ستم؟؟
سینئر دوستوں سے تضمین کی توقع بھی کچھ غلط نہیں ہو گی۔ اندازِ تضمین جیسا مناسب سمجھیں!

٭ پس نوشت: اس فقیر سے ایک سہو ہو گیا۔ اقبال کے شعر کا دوسرا مصرع یوں ہے:
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
 
آخری تدوین:
سنگِ نخستیں ہماری طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو سنگِ نخستیں پھینکتے ہیں
بجا ہر دو، پسندے ناپسندے
عجب طوفاں مچا ہے خود سری کا
خدا سے ہو گئے بیزار بندے
وہ جو دیتا ہے درسِ کور ذوقی
زباں اس کی نہ ہے نمکے نہ قندے
ہوا موزوں یہی کچھ فی البدیہہ
گلے اپنے پڑے ہیں اپنے پھندے
’’میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے‘‘​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
لیجئے صاحب! ہم بھی ایک تجویز لاتے ہیں۔ ’’ظریفانہ‘‘ (بانگِ درا) میں علامہ اقبال کا یہ شعر

میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
بہت ہیں تیز اِس آری کے دندے

مفاعیلن مفاعیلن فعولن (مفاعیل)

اس میں سے کوئی ایک مصرع اٹھانا ہے، اور اُس سے پہلے یا بعد میں اپنا مصرع لگانا ہے۔ قافیہ کی پابندی کوئی نہیں۔
مناسب حد تک شوخی اور مزاح کا عنصر قائم رہے تو اچھی بات ہے۔ کیا خیال ہے؟ ہو جائے مشقِ ستم؟؟
سینئر دوستوں سے تضمین کی توقع بھی کچھ غلط نہیں ہو گی۔ اندازِ تضمین جیسا مناسب سمجھیں!
پھنسے اپنے گلے میں ایسے پھندے
کہیں حق بات اگر ، ہوتے ہیں گندے

متاع کل سمجھ بیٹھے ہیں غم کو
الہی ! یہ ترے نادان بندے

اگر کچھ یاد ہو ، بس درد تیرا
کچھ ایسے کار الفت ! گاڑ دندے

مجھے اب درد سے بھی کھیلنا ہے
زمیں کوئی بتا ، مشق سخن دے

بھلا رکھا بھی کیا ہے شاعری میں
لگے ہو چھوڑ کر سب کام دھندے

"میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے "
 
آخری تدوین:
پھنسے اپنے گلے میں ایسے پھندے
کہیں حق بات اگر ، ہوتے ہیں گندے

متاع کل سمجھ بیٹھے ہیں غم کو
الہی ! یہ ترے نادان بندے

اگر کچھ یاد ہو ، بس درد تیرا
کچھ ایسے کار الفت ! گاڑ دندے

میں اپنے درد سے اب کھیلنا چاہوں
زمیں کوئی بتا ، مشق سخن دے

بھلا رکھا بھی کیا ہے شاعری میں
لگے ہو چھوڑ کر سب کام دھندے

"میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ
بہت ہیں تیز اس آری کے دندے"

ارے واہ! آپ نے تو پوری غزل کہہ دی اور اچھی کہہ دی۔ پسندیدہ تر آمد۔


آپس کی بات ہے، تضمین کچھ مختلف چیز نہیں ہوتی؟ :sneaky:
 
متاع کل سمجھ بیٹھے ہیں غم کو
الہی ! یہ ترے نادان بندے
کیا بات ہے، بی بی۔ اگر آپ کی عمر واقعی وہی ہے جو پروفائل میں لکھی ہے تو مجرا قبول فرمائیے۔ بڑے بڑوں کو نچا دیں گی آپ کچھ عرصے میں، انشاءاللہ۔ (y)
میں اپنے درد سے اب کھیلنا چاہوں
زمیں کوئی بتا ، مشق سخن دے
بس ذرا مصرعِ اولیٰ کی تقطیع دوبارہ کر لیجیے۔ مصرعِ ثانی کی تو بات ہی کیا ہے! :):):)
 
کیا بات ہے، بی بی۔ اگر آپ کی عمر واقعی وہی ہے جو پروفائل میں لکھی ہے تو مجرا قبول فرمائیے۔ بڑے بڑوں کو نچا دیں گی آپ کچھ عرصے میں، انشاءاللہ۔ (y)

بس ذرا مصرعِ اولیٰ کی تقطیع دوبارہ کر لیجیے۔ مصرعِ ثانی کی تو بات ہی کیا ہے! :):):)
شکریہ !
آخری رکن "فعولن" ہے جسے "فعولان" کرنے کی عام اجازت ہے ۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
میں اپنے در = مفاعیلن
د سے اب کھی = مفاعیلن
لنا چاہوں = فعولان
(ں تو وزن میں شمار ہوتا ہی نہیں ، و کا اسقاط کیا میں نے)
:)
یہی تو گڑبڑ ہے کہ "لنا" ہے "مفا" اور "چاہو" ہے "عیلن" فعولان یا مفاعیل کسی طور نہیں

عملِ تسبیغ سے جب آخری رکن میں ایک حرف کا اضافہ کیا جائے تو پھر آخری حرف میں اخفا کی اجازت نہیں
 
آخری تدوین:
میں اپنے درد سے اب کھیلنا چاہوں
زمیں کوئی بتا ، مشق سخن دے
بس ذرا مصرعِ اولیٰ کی تقطیع دوبارہ کر لیجیے۔ مصرعِ ثانی کی تو بات ہی کیا ہے! :):):)
آخری رکن "فعولن" ہے جسے "فعولان" کرنے کی عام اجازت ہے ۔ :)

دخل اندازی پر معذرت مگر، راحیل فاروق ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
میں اپنے در (مفاعیلن) د سے اب کھے (مفاعیلن) نا چاہوں (مفاعیلن)
بحرِ ہزج مسدس سالم
زمیں کوئی (مفاعیلن) بتا مشقے (مفاعیلن) سخن دے (فعولن)
بحرِ ہزج مسدس محذوف
میں نے نوٹ کیا تھا مگر خاموش رہا۔ توجہ فرمائیے گا۔
 
دخل اندازی پر معذرت مگر، راحیل فاروق ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
میں اپنے در (مفاعیلن) د سے اب کھے (مفاعیلن) نا چاہوں (مفاعیلن)
بحرِ ہزج مسدس سالم
زمیں کوئی (مفاعیلن) بتا مشقے (مفاعیلن) سخن دے (فعولن)
بحرِ ہزج مسدس محذوف
میں نے نوٹ کیا تھا مگر خاموش رہا۔ توجہ فرمائیے گا۔
سر ! حروف علت کے اسقاط کے اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر تینوں حروف علت میں سے کوئی حرف علت لفظ کے آخر میں آ رہا ہے تو باسانی اسقاط کیا جا سکتا ہے ۔
مثلاً ہم "نہیں" کو فعو بھی باندھ سکتے ہیں اور فع (متحرک العین) بھی ۔
اسی طرح "وضو" کو بھی فعو اور فع(متحرک العین) باندھا جاتا ہے ۔ :)
 
میں اپنے در = مفاعیلن
د سے اب کھی = مفاعیلن
لنا چاہوں = فعولان
(ں تو وزن میں شمار ہوتا ہی نہیں ، و کا اسقاط کیا میں نے)
:)

زیرِ نظر مصرعے میں واو کا اسقاط ذوقِ سلیم پر گراں گزرتا ہے۔ ۔ ابنِ رضا اور راحیل فاروق درست کہہ رہے ہیں۔
جناب مزمل شیخ بسمل کا مؤقف بھی یہی ہے کہ سالم اور محذوف ایک دوجے کے مقابل نہیں لائے جا سکتے۔

بہ این ہمہ شعر آپ کا ہے، اختیار بھی آپ کا ہے۔ خوش رہئے۔ مجھے یہی عرض کرنا تھا۔
 
Top