بہت ہی منفرد اور حقائق سے قریب تر تحریر ہے ۔ اندازِ فکر وہی ہے جو حقائق کو سامنے رکھ کر وجود میں آتا ہے ۔ ہم مطالعہِ پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے زیرِاثر لکھی جانے والی تحاریر اورکتابیں ایک طرف رکھیں تو پاکستان کے قیام کے حقائق کچھ اور ہی نظر آئیں گے ۔ پاکستان کا قیام حادثاتی نہ سہی مگر ایک بین القوامی انقلاب کے تسلسل میں ضرور وجود میں آیا ۔ اس حقیقت کو جاننےکے لیئے تاریخ کی ان کتابوں سے جو اجرت لیکر لکھیں گئیں ۔ ان سے استفادہ کرنے کے بجائے پاکستان اور ہندوستان کے اس وقت کے زیرک سیاستدانوں کی کتابوں اور تحاریر کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقائق کچھ اور ہی ہیں ۔ نہ صرف پاکستان بننے سے پہلے بلکہ بعد میں کس طرح حقائق مسخ کیئے گئے ۔ قوم کو کوئی اور ہی تاریخ پڑھائی گئی ۔ پاکستان تو بن گیا بعد میں ہم نے کیا کیا ۔ فوراَ پاکستان بننے کے بعد کس نے قبائلیوں کو کشمیر میں داخل کیا ،اور لوٹ مار کی مثال قائم کی کہ راجہ کو انڈیا سے مدد لینے پڑ گئی ۔ ہم نے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی ماری ۔ اور آج کشمیر کا واویلا مچاتے ہیں ۔ 1965 میں کون کہتا ہے کہ انڈیا نے پہلے حملہ کیا تھا ۔ سب سے پہلے اپنی فوجیں خود ہی سرحد کے اس پار پہنچائیں ۔کارگل میں کیا ہوا ۔۔۔۔۔ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ قائداعظم آخری وقت تک کوشش میں تھے کہ ہندوستان تقسیم نہ ہو ۔ مگر نہرو کی ہٹ دھرمی نے ایسا ہونے نہیں دیا ۔ اس میٹنگ کے بعد قائداعظم جیسے آدمی کے آنکھوں میں آنسو تھے کہ " نہرو نے کوئی راستہ نہیں چھوڑا " ۔۔۔۔۔۔ دوسری جنگ ِعظیم کے بعد دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا ۔ گریٹ برطانیہ سکڑ رہا تھا ۔ جہاں پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا وہیں بے تحاشہ ملک بھی اپنا جھنڈا بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ اس وقت کی مشہور مذہبی جماعت پاکستان کے قیام کے وقت تو ساتھ نہیں تھی ۔ اور پاکستان کو اسلام کے نام ضم کردیا گیا ۔ مولانا آزاد جیسے جید عالم اور سیاستدان اس تقسیم کے ساتھ نہیں تھے ۔
میں اس تحریر اور اندازِ فکر پر @محمدامین کو سیلوٹ کرتا ہوں ۔ اور مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے ملک کےنوجوان حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ جب تک ہم حقائق نہیں جانیں گے یقین مانیئے پاکستان کی حالت کبھی سدھر نہیں سکتی کہ ایک چین ری سائیکل کے جو 1939 سے چلا آرہا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے موجودہ حکمران ہیں ۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ یہ کیا چال چل رہے ہیں ۔ اور 65 سالوں سے کیا چالیں چلیں جاتیں رہیں ہیں ۔
میں اس تحریر اور اندازِ فکر پر @محمدامین کو سیلوٹ کرتا ہوں ۔ اور مجھے خوشی ہوتی ہے کہ میرے ملک کےنوجوان حقائق کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ جب تک ہم حقائق نہیں جانیں گے یقین مانیئے پاکستان کی حالت کبھی سدھر نہیں سکتی کہ ایک چین ری سائیکل کے جو 1939 سے چلا آرہا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے موجودہ حکمران ہیں ۔ ذرا غور سے دیکھئے کہ یہ کیا چال چل رہے ہیں ۔ اور 65 سالوں سے کیا چالیں چلیں جاتیں رہیں ہیں ۔