عوارضِ بشریہ اس لیے ہوتے تاکہ امت اپنی زندگیاں حضور ﷺ کی زندگی کے مطابق ڈھال سکے۔۔۔ اگر ان ساری چیزوں کا ظہور نہ ہوتا تو اِنسانوں کا حضور ﷺ کی زندگی کے ساتھ ربط نہ رہتا اور آقا علیہ السلام کی زندگی سے اَخذکرنے اور سبق لینے کا امکان نہ رہتا۔
ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی اور چار رکعتیں پڑھانے کے بجائے دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ صحابہ کرامl آپس میں بات کرنے لگے:
قَصُرَتِ الصَّلَاة.
(بخاری، الصحیح، 5: 2249، الرقم: 5704)
شاید نماز چھوٹی کر دی گئی ہے؟
مگر کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ آقا علیہ السلام سے پوچھتا کہ نماز پوری نہیں پڑھائی۔ ادب کے ساتھ سب خاموش تھے۔ ایک صحابی جن کو ذو الیدین کہتے تھے، وہ دیہات کے رہنے والے تھے، لہذا اپنی سادہ لوحی کے سبب انھوں نے سوال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور آگے بڑھے اور عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ!
أَنَسِیتَ أَمْ قَصُرَتِ؟
یار سول اللہ ﷺ! کیا آپ بھول گے ہیں یا نماز آدھی کر دی گئی ہے؟
آقا علیہ السلام نے صحابہ سے پوچھا:
أَکَمَا یَقُولُ ذُو الْیَدَیْن؟ فَقَالُوا نَعَم.
کیا اِسی طرح ہوا ہے جیسے ذوالیدین کہہ رہا ہے؟
صحابہ نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
لَمْ أَنْسَ وَ لَمْ تُقْصَرْ.
نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز چھوٹی کی گئی ہے۔
آقا علیہ السلام نے پھر دو رکعتیں بقایا پڑھائیں اور سجدہ سہو کیا۔
(بخاری، الصحیح، باب: من یکبرفی سجدۃ السهو، 1: 182، الرقم: 46
غور طلب بات یہ ہے کہ دو رکعتیں بھی پڑھائیں، سجدہ سہو بھی کیا مگر یہ بھی فرمایا کہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز چھوٹی ہوئی ہے۔
اِس کی وضاحت امام مالکؒ نے موطا میں ایک اور حدیث کے ذریعے دی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:
انی لأنسی أو أنسی لأسن.
(موطا مالک، 1: 100، الرقم: 225)
جب دیکھتے ہو کہ میں بھولا ہوں تو یاد رکھ لو کہ میں بھلایا گیا ہوں اور میں بھلایا اِس لیے جاتا ہوں تاکہ میرا ہر فعل تمہارے لیے سنت بن جائے۔
یعنی اگر میں اس طرح نہ کروں گا تو کل جب تم نماز میں بھولو گے تو کیا کرو گے؟ میں تمھیں اس امر پر تعلیم دینے کے لیے کہ اگر نماز میں بھول جاؤ تو کیا کرنا ہے؟ بھول کر سجدہ سہو کرکے دکھا رہا ہوں کہ اگر کوئی میرا اُمتی بھول جائے تو ایسے کرنا ہے۔ گویا آپ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ اگر بھول بھی ہوتی ہے تویہ سنت بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم ﷺ میں اگر بشری صفت کا ظہور ہوتا تھا تو اُمت کے لیے ہوتا تھا، آقا علیہ السلام اُس کے محتاج نہ تھے اور یہ آقا علیہ السلام کی کمزوری نہ تھی۔