ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! قریباً دو ڈھائی سال پہلے وطنِ عزیز پاکستان میں مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصب کی ایک آگ سی بھڑک اٹھی تھی کہ جس میں بہت کچھ جل کر راکھ ہوگیا تھا ۔ اُسی پس منظر میں دکھے دل کے ساتھ یہ ایک نظم لکھی تھی جو بیاض میں دب کر رہ گئی۔ مذہبی نفرت اور تشدد کے تازہ واقعے پر یہ نظم یاد آئی تو اہلِ ذوق ِ بزم کی خدمت میں پیش کرر ہا ہوں کہ اس کا پیغام مثبت ہے ۔
شاید کہ کسی دل میں اتر جائے مری بات!
حرفِ گم
٭٭٭
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
مفسّرانِ نفاق پرور شمارِ سبحہ کے زیر و بم پر
سکھا رہے ہیں جو شرحِ کاذب کہ نغمگیں ہے
نصاب میں تو کہیں نہیں ہے!
کلاہِ شہرت سروں پہ رکھے ، قبائے حرص و ہوا سنبھالے
درونِ مکتب سیاستوں کی غلام گردش میں پلنے والے
عقیدتوں کے عجیب چہرے ، تفرّقوں کے نقاب ڈالے
مظاہروں میں سجے ہوئے ہیں
بزعمِ تقویٰ ہزاروں بازو مخاصمت کے نصاب تھامے
مثالِ خنجر اٹھے ہوئے ہیں ، مجادلے پر تُلے ہوئے ہیں
فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
اخوتوں کو عداوتوں سے بدل کے خلقِ خدا کو باہم
بنامِ مسلک لڑا رہے ہیں
فضائے شہرِ کرم شعاراں غبارِ نفرت سے بھر گئی ہے
صریرِ کلکِ خبر نگاراں صدائے وحشت سے ڈر گئی ہے
ہزاروں معصوم سرخمیدہ ، بدن دریدہ ، لہو بہ دیدہ
گناہِ لب بستگی کی اونچی صلیبِ غم پر کھنچے ہوئے ہیں
فصیلِ وحدت پہ جلنے والے چراغ سارے بجھے ہوئے ہیں
حواریانِ دمِ مسیحا
دیارِ خفتہ کے آستانوں میں حرفِ قُم کو تلاشتے ہیں
وہ حرفِ معجز جو سو گیا ہے ، جو شرحِ کاذب میں کھو گیا ہے
وہ حرفِ گم تو یہیں کہیں ہے ، وہ دھڑکنوں کے بہت قریں ہے
بیاضِ دل پر لکھا ہوا ہے ، سبھی کے اندر چھپا ہوا ہے
خدا کے بندو! یہ دل ٹٹولو ، یہ سینے اپنے ذرا تو کھولو!
منافرت کے صنم گرا کر ، عقیدتوں کی فصیل ڈھا کر
زباں سے بولو ، فضا میں گھولو وہ حرفِ وحدت جو بالیقیں ہے
وہ اسمِ اعظم جو دل نشیں ہے ، وہ جس کی حرمت میں جاگزیں ہے
ہر ایک جذبہ ، ہر ایک رشتہ کہ جس کے دم سے محبتیں ہیں
محبتیں جو اداس گم صم
تمہارے چہروں کو تک رہی ہیں ، نجانے کب سے سِسک رہی ہیں
خدا کے بندو! خموش لوگو! محبتوں کو زبان دے دو!
محبتوں کی زباں حسیں ہے !
جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے
***
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰
شاید کہ کسی دل میں اتر جائے مری بات!
حرفِ گم
٭٭٭
کہیں نہیں ہے کہیں نہیں ہے ، وہ حرفِ باطل کہیں نہیں ہے
سرِ ورق پر سجا کے جس کو ، پڑھائے جاتے ہیں فی زمانہ
دروسِ نفرت بنامِ مذہب ، کتاب میں تو کہیں نہیں ہے!
مفسّرانِ نفاق پرور شمارِ سبحہ کے زیر و بم پر
سکھا رہے ہیں جو شرحِ کاذب کہ نغمگیں ہے
نصاب میں تو کہیں نہیں ہے!
کلاہِ شہرت سروں پہ رکھے ، قبائے حرص و ہوا سنبھالے
درونِ مکتب سیاستوں کی غلام گردش میں پلنے والے
عقیدتوں کے عجیب چہرے ، تفرّقوں کے نقاب ڈالے
مظاہروں میں سجے ہوئے ہیں
بزعمِ تقویٰ ہزاروں بازو مخاصمت کے نصاب تھامے
مثالِ خنجر اٹھے ہوئے ہیں ، مجادلے پر تُلے ہوئے ہیں
فقیہ ِ نکتہ سرا کے فتوے ، خطیبِ شعلہ نوا کے لہجے
منافقت سے بھرے ہوئے ہیں ، منافرت میں رنگے ہوئے ہیں
اخوتوں کو عداوتوں سے بدل کے خلقِ خدا کو باہم
بنامِ مسلک لڑا رہے ہیں
فضائے شہرِ کرم شعاراں غبارِ نفرت سے بھر گئی ہے
صریرِ کلکِ خبر نگاراں صدائے وحشت سے ڈر گئی ہے
ہزاروں معصوم سرخمیدہ ، بدن دریدہ ، لہو بہ دیدہ
گناہِ لب بستگی کی اونچی صلیبِ غم پر کھنچے ہوئے ہیں
فصیلِ وحدت پہ جلنے والے چراغ سارے بجھے ہوئے ہیں
حواریانِ دمِ مسیحا
دیارِ خفتہ کے آستانوں میں حرفِ قُم کو تلاشتے ہیں
وہ حرفِ معجز جو سو گیا ہے ، جو شرحِ کاذب میں کھو گیا ہے
وہ حرفِ گم تو یہیں کہیں ہے ، وہ دھڑکنوں کے بہت قریں ہے
بیاضِ دل پر لکھا ہوا ہے ، سبھی کے اندر چھپا ہوا ہے
خدا کے بندو! یہ دل ٹٹولو ، یہ سینے اپنے ذرا تو کھولو!
منافرت کے صنم گرا کر ، عقیدتوں کی فصیل ڈھا کر
زباں سے بولو ، فضا میں گھولو وہ حرفِ وحدت جو بالیقیں ہے
وہ اسمِ اعظم جو دل نشیں ہے ، وہ جس کی حرمت میں جاگزیں ہے
ہر ایک جذبہ ، ہر ایک رشتہ کہ جس کے دم سے محبتیں ہیں
محبتیں جو اداس گم صم
تمہارے چہروں کو تک رہی ہیں ، نجانے کب سے سِسک رہی ہیں
خدا کے بندو! خموش لوگو! محبتوں کو زبان دے دو!
محبتوں کی زباں حسیں ہے !
جمالِ رب کی قسم ہے لوگو!
محبتوں میں زیاں نہیں ہے
***
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۰