سید رافع
محفلین
یہ اقبال کے بارے میں پہلی بات ہم نے پڑھی ہے جو آدھی انگریزی میں ہے۔
اور وہ بھی اردو محفل میں۔
اقبال کے داڑھی عمامہ ہوتا تو پوری بات عربی میں کرتا۔
یہ اقبال کے بارے میں پہلی بات ہم نے پڑھی ہے جو آدھی انگریزی میں ہے۔
اور وہ بھی اردو محفل میں۔
اب اس کی وجہ بھی بتاتے جائیے، ہمارے تو سر سے اوپر چلی گئی
پاکستان کے لیے افغا نستان اور عراق ترجیح، اقبال کے کلام کوبطور آئیڈیل پیش کرنے سے بنے۔ دن رات لوگوں کے سامنے اقبال کو ایک عظیم مفکر ، ہیرو اور مصور پاکستان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو ان سے کہہ رہا ہے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے! نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر۔ اقبال نے صبر کرتے مسلمانوں کو سویا ہوا مسلمان تصور کیا ۔ مسلمان ہمیشہ سے بے حد بیدار اور محتاط قوم ہے۔ لیکن ان کے ذہنوں میں شکوہ جواب شکوہ کا پروپگینڈہ ایک کہانی کے طور پر گھولا گیا جبکہ انکے شکم سودی نظام سے حاصل ہو نے والی کمائی سے بھرے ہو ئے تھے۔ یوں روحانیت سے خالی بھولے بھالے مسلمانوں کے ہا تھوں تقسیم ہند کا عظیم سانحہ ہوا۔
اقبال کی فکر نے اسلام کو اسی طرح کا نقصان پہنچایا جس طرح کہ معاشرے کی روحانی سطح بلند کرنے میں جلدی نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے پہنچایا۔ تیمیہؒ، اقبال اور مودودی کے قویٰ مضبوط تھے اور عقل کی فراوانی تھی لیکن وہ اتنی ہی قوت کی عقل ِباطن سے محروم تھے۔ اسلام کا لطیف نظام محض سر کی عقل سے سمجھ نہیں آسکتا۔مثلاًنماز روزہ سے افضل ہے لیکن حیض کے بعد روزوں کی قضا ہے لیکن نماز کی قضا نہیں۔اسی ضمن میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور خوارج کے درمیان مناظرہ بھی دلیل صحیح ہونے لیکن مراد غلط ہونے کی واضح مثال ہے۔
اب جبکہ حرم شریف پر صبر کیے مسلمانوں کو برطانوی سرکردگی میں قتل کرا دیا جائے اور وہاں تیمیہ کے فلسفے سے متاثرہ لوگوں کا قبضہ ہو جائے اور برصغیر میں تقسیم سے قبل اور بعد اقبال کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے تو نہ چاہتے ہوئے بھی پروپگینڈے کے ذریعے وہ اذیت و مشقت بھرا کام مسلمانوں کے سر ڈالا جائے گا جو رسول اور آل رسول ﷺ کے کرنے کے کام ہیں اور وہ وقت آنے پر خودبخود سرانجام پا جائیں گے۔ ایسے میں عرب سے سید قطب اور اخوان المسلمون ہی ابھریں گے کیونکہ وہاں پروپگینڈے سے صبر کرتے مسلمانوں کو پہلے ہی ختم کیا جاچکا ہے جو علم کے وارثین تھے اور یہاں پاک و ہند میں مودودی کا ہی طوطی بولے گا کہ اقبال سوئے ہوئے مسلمانوں کو سکھا رہے ہیں نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری۔
اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا۔ یورپی ممالک میں بسنے والے سیکولر مسلمان اور لبرل یورپین اسکالرز اقبال کے شاہین کے پروپگینڈےکا راز فاش کریں تاکہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
آپ کا مراسلہ تو بتاتا ہے کہ آپ دین کی رمز سمجھنے میں ناکام رہے ہیںاس پوری لڑی میں میں نے جواب دیا ہے۔ مختصرا
کافی بے سروپا تحریر ہے۔
اپنی مرضی کے معروضات پیش کرکے ، من مانے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔
مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے۔
السلام علیکم
آپ کا مراسلہ تو بتاتا ہے کہ آپ دین کی رمز سمجھنے میں ناکام رہے ہیں
متحدہ ہندوستان سے ابھرنے والے علماء و مفکرین جن میں سر سید، شبلی، حالی اقبال وغیرہ اور بہت سے دوسرے شامل ہیں اس زمانے کے ہندوستان کے پڑھے لکھے گھرانوں سے آئے تھے اور اس دور کے انٹلیکچویل سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس کے برعکس موجودہ پاکستانی سوچ میں سطحی و جذباتی عنصر کا بہت بڑا دخل ہے۔ اقبال اور دیگر مفکرین کی آراء سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن موجودہ افکار کو کا اچار بھی نہیں ڈالا جاسکتا جہاں نفسیات میں روحانیت اور عملیات کو گھسیٹا جاتا ہے، فلسفے میں صوفی ازم کو اور علم فلکیات میں علمِ نجوم کو۔ ہم ترقی معکوس کی منزلیں اتر رہے ہیں۔
ہم ترقی معکوس کی منزلیں اتر رہے ہیں۔
موجودہ افکار کو کا اچار
لیکن موجودہ افکار کو کا اچار بھی نہیں ڈالا جاسکتا جہاں نفسیات میں روحانیت اور عملیات کو گھسیٹا جاتا ہے، فلسفے میں صوفی ازم کو اور علم فلکیات میں علمِ نجوم کو۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئیبھائی علم ایک نقطہ ہے۔ مطلب علم تو رب زدنی علما ہے یہ علم کی شاخیں وغیرہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ کمزور ذہن کے لوگوں اور زنگ آلود قلوب کے لیے تھوڑا تھوڑا علم دیا جاتا ہے کہ سہار لیں اور معاش، مستی اور گھربار کے شغل میں مصروف رہیں۔
اس کا کچھ مطلب نکلتا ہے۔بھائی علم ایک نقطہ ہے
بس سارے مدعے کا حاصل یہی ’’کو، کا‘‘ کا اچار ہے!!!آپ موجودہ افکار کو اچار کہنا چاہ رہے ہیں یا موجودہ افکار کا اچار کہنا چاہتے ہیں!
جی ہاں نکلتا ہے۔۔۔اس کا کچھ مطلب نکلتا ہے۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جی ہاں نکلتا ہے۔۔۔
اس کا مطلب ہے علم ایک نقطہ ہے جو آج کل لقطہ ہے!!!
بس سارے مدعے کا حاصل یہی ’’کو، کا‘‘ کا اچار ہے!!!
اور اسے حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسول نے چین جانے سے بھی منع نہیں کیا۔چلیں آپکی تالیف قلب کے لیے یوں بیان کر دیتا ہوں کہ علم الاسماء، علم تعبیر الرویا، علم لدنی وغیرہ وغیرہ علم کی شاخیں خود اللہ نے بیان فرمائیں۔
ویسے آپ نے سر کے اچار کو لغو کہہ کر ناانصافی کی ہے!!!لغو بات ہوئی!