فاخر رضا

محفلین
انیس رمضان المبارک، مسجد کوفہ، نماز فجر، حالت سجدہ، محراب مسجد سے ایک آواز بلند ہوتی ہے، فزت برب کعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا. اس دن دنیا کے شقی ترین شخص نے، دنیا کے متقی ترین شخص پر زہر سے بجھی تلوار سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں حضرت علی علیہ السلام زخمی ہوگئے. وہی علی جو کعبے میں پیدا ہوئے اور رسول اللہ کی گود میں پلے بڑھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی راہ میں نچھاور کردی، ان کی شہادت کے لئے بھی خدا نے اپنا ہی گھر چنا.
اپنی شہادت کے وقت بھی آپ لوگوں کی ہدایت سے غافل نہ ہوئے اور وصی رسول اور خلیفہ رسول ہونے کا حق ادا کیا. یہاں نہج البلاغہ میں موجود امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے نام آپ کی وصیت پیش کررہا ہوں. اس کی تشریح کے لئے کتابیں لکھی جاسکتی ہیں. انشاءاللہ پھر کبھی اس کی مختصر وضاحت پیش کروں گا
ملاحظہ فرمائیں

حضرت علیؑ کی وصیت

ضربت کے بعد حسنینؑ شریفین اور ان کے چاہنےوالوں کے نام حضرت علی علیہ السلامؑ کی وصیت:

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔

میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔

وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔

اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔

وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔

اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔

وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔

اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔

وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔

اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔

وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔

اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔

اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔

میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔

دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔

دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔

اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔

اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا۔

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔

اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔

وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔

تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔

دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔

اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔

أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔

دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔

اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”
اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔

دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
نہج البلاغہ، مکتوب:47۔
 

فاخر رضا

محفلین
اس
اس سے مراد بہن بھائیوں سے میل ملاپ ہے یا کچھ اور؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ اہل بیت بہت سے لوگوں سے بوجہ دین میل ملاپ نہ رکھتے تھے؟
اس سوال کا کیا مقصد ہے
یہ آپ نے کس طرح کی بات کی
اہل بیت کا ہر عمل ہمارے لئے حجت ہے، وہ رسول کریم سے اخلاق سیکھے ہوئے تھے. اگر کوئی مثال ہے تو بیان کیجئے بہت مہربانی ہوگی
 

سید رافع

محفلین
اس

اس سوال کا کیا مقصد ہے
یہ آپ نے کس طرح کی بات کی
اہل بیت کا ہر عمل ہمارے لئے حجت ہے، وہ رسول کریم سے اخلاق سیکھے ہوئے تھے. اگر کوئی مثال ہے تو بیان کیجئے بہت مہربانی ہوگی

دونوں سوالوں کا وہی مقصد ہے جو لکھا گیا۔ کوئی چھپا ہوا مقصد خدانخواستہ نہیں۔ میری اس موضوع پر معلومات نہ تھی سو پوچھ لیا۔
 

فاخر رضا

محفلین
اس سے مراد بہن بھائیوں سے میل ملاپ ہے یا کچھ اور؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ اہل بیت بہت سے لوگوں سے بوجہ دین میل ملاپ نہ رکھتے تھے؟
رسول اللہ اپنے کافر رشتے داروں کو کھانے پر بلاتے تھے
کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کرتے تھے
حضرت علی علیہ السلام یہودی کے باغ میں نوکری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ رزق حلال سے پالتے تھے
امام حسین علیہ السلام کے کئی واقعات ہیں جہاں آپ نے غیر مسلموں کی ہدایت کی اور یہ ان سے بات کئے بغیر ممکن نہیں تھا
 

سید رافع

محفلین
رسول اللہ اپنے کافر رشتے داروں کو کھانے پر بلاتے تھے
کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کرتے تھے
حضرت علی علیہ السلام یہودی کے باغ میں نوکری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ رزق حلال سے پالتے تھے
امام حسین علیہ السلام کے کئی واقعات ہیں جہاں آپ نے غیر مسلموں کی ہدایت کی اور یہ ان سے بات کئے بغیر ممکن نہیں تھا

جناب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراض رہنا تاوقت وصال قابل تسلیم بات معلوم ہوتی ہے؟
 

سید عمران

محفلین
اس سے مراد بہن بھائیوں سے میل ملاپ ہے یا کچھ اور؟ کیا یہ بات صحیح ہے کہ اہل بیت بہت سے لوگوں سے بوجہ دین میل ملاپ نہ رکھتے تھے؟
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے مراد صرف اہل بیت کا ایک دوسرے سے میل ملاپ ہے تو ایسا اس لیے نہیں ہے کہ جب حضرت علی خلیفہ بنے تو صرف اہل بیت کے خلیفہ نہیں تھے سارے مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔۔۔
پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کرلی اور ان کے حق میں اپنی خلافت کے حق سے دستبردار ہوگئے۔۔۔
صرف اس لیے کہ مسلمان آپس میں لڑائی جھگڑے اور خوں ریزی نہ کرنے لگیں۔۔۔
صحابہ کو سمجھنے کا معیار قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ ہیں، تاریخ کی کتابیں نہیں!!!
 

سید رافع

محفلین
اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس سے مراد صرف اہل بیت کا ایک دوسرے سے میل ملاپ ہے تو ایسا اس لیے نہیں ہے کہ جب حضرت علی خلیفہ بنے تو صرف اہل بیت کے خلیفہ نہیں تھے سارے مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔۔۔
پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کرلی اور ان کے حق میں اپنی خلافت کے حق سے دستبردار ہوگئے۔۔۔
صرف اس لیے کہ مسلمان آپس میں لڑائی جھگڑے اور خوں ریزی نہ کرنے لگیں۔۔۔
صحابہ کو سمجھنے کا معیار قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ ہیں، تاریخ کی کتابیں نہیں!!!

ایک صاحب نے بخاری و مسلم شریف سے اس دور کے تمام حالات کی احادیث ایک جگہ جمع کیں ہیں۔ میں اصل میں اہل بیت کے میل ملاقات کے طور طریقوں کو مثالوں کے ذریعے سے سمجھنا چاہ رہا تھا کہ کب کسی سے ملتے اور کب کس سے نہ ملتے۔ میری معلومات اس سلسلے میں ناقص ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
جناب بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراض رہنا تاوقت وصال قابل تسلیم بات معلوم ہوتی ہے؟
تاریخ کی جن کتابوں نے ان کی ناراضگی کا ذکر کیا، ان ہی کتابوں نے صلح کا ذکر بھی کیا ہے۔۔۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ معصوم صرف انبیاء ہوتے ہیں یا فرشتے۔۔۔
صحابہ معصوم نہیں ہیں لیکن مغفور ہیں، ان کی ہر قسم کی لغزشوں کی مغفرت کا اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رضی اللہ عنہم فرما کر کردیا۔ اس کے بعد کسی کو خدا پر اعتراض کرنے کا حق ہے نہ صحابہ کی کسی قسم کی کمی کو اچھالنے کا۔۔۔
اسی لیے صحابہ کی عظمت کو پرکھنے کا معیار تاریخ کی کتابیں نہیں قرآن اور احادیث ہیں۔۔۔
بجائے منفی پہلو کو دیکھنے کے اگر مثبت پہلو کو دیکھیں تو تمام رنجشیں مدھم پڑ سکتی ہیں۔۔۔
ان میں آپس میں رنجشیں ہوئیں یہ تو نوٹ کرلیا، لیکن رنجشیں ختم ہونے کے بعد کیا ہوا اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟؟؟
خرابی کو اگر دس فیصد مان لیں تو بھلائی کا حصہ پھر بھی نوے فیصد بنتا ہے۔۔۔
کیا تینوں خلفاء کرام کے ساتھ حضرت علی کے تعلقات نہایت خوشگوار نہیں رہے تھے، بلکہ وہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر فائز تھے، اور ان کے تمام اہم امور میں شریک کار رہتے تھے ، ان کی حیثیت حکومت کے مشیر کی تھی۔۔۔
اس دوران ان کے گھر کے مالی حالات بھی بہت بہتر ہوگئے تھے اور فقر و فاقے اور مالی تنگ دستی کا وہ دور ان کی زندگی میں پھر نظر نہیں آیا جو ابتدائی دور میں تھا۔۔۔
اس دوران آپ نے دیگر نکاح بھی فرمائے اور کثرت اولاد ہونے کے باوجود ان کی ضروریات پوری کرنے میں مالی تنگی کا شکار بھی نہیں ہوئے۔۔۔
جب انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہتا ہے تو ہنسنا بولنا، روٹھنا منانا زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔
اس میں سے ناخوشگوار واقعات کو لے لینا، پھر اس میں اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر نفرت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے مرچ مصالے لگانا، آگ بھڑکانا، ایک کو دوسرے سے متنفر کرنا ، یہ یقیناً خیر خواہوں اور مخلص لوگوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔۔۔
دس فیصد ناخوشگوار واقعات کے برعکس زندگی کا نوے فیصد حصہ جو انتہائی خوشگوار گزرا اس کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟؟؟
وہ ایک دوسرے سے پہلے بھی مل جل کر رہتے تھے اور ناگواری کے ایک مختصر عرصہ کے بعد بھی مل جل کررہے۔۔۔
خوشی غمی ہمیشہ زندگی کا حصہ رہے ہیں، چند باتوں کو زندگی کا روگ بنانا نہ انہوں نے خود سیکھا نہ آگے امت کو سکھایا۔۔۔
یہ ساری خرابیاں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کی ہیں۔۔۔
ہمارے بڑے آخرت میں ہماری ان برائیوں سے براءت کا اعلان کردیں گے!!!
 

فاخر رضا

محفلین
تاریخ کی جن کتابوں نے ان کی ناراضگی کا ذکر کیا، ان ہی کتابوں نے صلح کا ذکر بھی کیا ہے۔۔۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ معصوم صرف انبیاء ہوتے ہیں یا فرشتے۔۔۔
صحابہ معصوم نہیں ہیں لیکن مغفور ہیں، ان کی ہر قسم کی لغزشوں کی مغفرت کا اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رضی اللہ عنہم فرما کر کردیا۔ اس کے بعد کسی کو خدا پر اعتراض کرنے کا حق ہے نہ صحابہ کی کسی قسم کی کمی کو اچھالنے کا۔۔۔
اسی لیے صحابہ کی عظمت کو پرکھنے کا معیار تاریخ کی کتابیں نہیں قرآن اور احادیث ہیں۔۔۔
بجائے منفی پہلو کو دیکھنے کے اگر مثبت پہلو کو دیکھیں تو تمام رنجشیں مدھم پڑ سکتی ہیں۔۔۔
ان میں آپس میں رنجشیں ہوئیں یہ تو نوٹ کرلیا، لیکن رنجشیں ختم ہونے کے بعد کیا ہوا اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟؟؟
خرابی کو اگر دس فیصد مان لیں تو بھلائی کا حصہ پھر بھی نوے فیصد بنتا ہے۔۔۔
کیا تینوں خلفاء کرام کے ساتھ حضرت علی کے تعلقات نہایت خوشگوار نہیں رہے تھے، بلکہ وہ اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر فائز تھے، اور ان کے تمام اہم امور میں شریک کار رہتے تھے ، ان کی حیثیت حکومت کے مشیر کی تھی۔۔۔
اس دوران ان کے گھر کے مالی حالات بھی بہت بہتر ہوگئے تھے اور فقر و فاقے اور مالی تنگ دستی کا وہ دور ان کی زندگی میں پھر نظر نہیں آیا جو ابتدائی دور میں تھا۔۔۔
اس دوران آپ نے دیگر نکاح بھی فرمائے اور کثرت اولاد ہونے کے باوجود ان کی ضروریات پوری کرنے میں مالی تنگی کا شکار بھی نہیں ہوئے۔۔۔
جب انسان ایک دوسرے کے ساتھ رہتا ہے تو ہنسنا بولنا، روٹھنا منانا زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔
اس میں سے ناخوشگوار واقعات کو لے لینا، پھر اس میں اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر نفرت کے جذبات پیدا کرنے کے لیے مرچ مصالے لگانا، آگ بھڑکانا، ایک کو دوسرے سے متنفر کرنا ، یہ یقیناً خیر خواہوں اور مخلص لوگوں کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔۔۔
دس فیصد ناخوشگوار واقعات کے برعکس زندگی کا نوے فیصد حصہ جو انتہائی خوشگوار گزرا اس کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟؟؟
وہ ایک دوسرے سے پہلے بھی مل جل کر رہتے تھے اور ناگواری کے ایک مختصر عرصہ کے بعد بھی مل جل کررہے۔۔۔
خوشی غمی ہمیشہ زندگی کا حصہ رہے ہیں، چند باتوں کو زندگی کا روگ بنانا نہ انہوں نے خود سیکھا نہ آگے امت کو سکھایا۔۔۔
یہ ساری خرابیاں ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کی ہیں۔۔۔
ہمارے بڑے آخرت میں ہماری ان برائیوں سے براءت کا اعلان کردیں گے!!!
جو اچھے حصے کی بجائے صرف برے حصے کا ذکر کرتے ہیں ان کی نیت میں فتور ہے
 

فاخر رضا

محفلین
انیس رمضان المبارک، مسجد کوفہ، نماز فجر، حالت سجدہ، محراب مسجد سے ایک آواز بلند ہوتی ہے، فزت برب کعبہ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا. اس دن دنیا کے شقی ترین شخص نے، دنیا کے متقی ترین شخص پر زہر سے بجھی تلوار سے حملہ کیا، جس کے نتیجے میں حضرت علی علیہ السلام زخمی ہوگئے. وہی علی جو کعبے میں پیدا ہوئے اور رسول اللہ کی گود میں پلے بڑھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کی راہ میں نچھاور کردی، ان کی شہادت کے لئے بھی خدا نے اپنا ہی گھر چنا.
اپنی شہادت کے وقت بھی آپ لوگوں کی ہدایت سے غافل نہ ہوئے اور وصی رسول اور خلیفہ رسول ہونے کا حق ادا کیا. یہاں نہج البلاغہ میں موجود امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے نام آپ کی وصیت پیش کررہا ہوں. اس کی تشریح کے لئے کتابیں لکھی جاسکتی ہیں. انشاءاللہ پھر کبھی اس کی مختصر وضاحت پیش کروں گا
ملاحظہ فرمائیں

حضرت علیؑ کی وصیت

ضربت کے بعد حسنینؑ شریفین اور ان کے چاہنےوالوں کے نام حضرت علی علیہ السلامؑ کی وصیت:

اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔

میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔

وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔

اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔

وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔

اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔

وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔

اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔

وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔

اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔

وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔

اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔

اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔

میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افرادکواور جن لوگوں تک میرایہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔

وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔

اورباہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ:آپس کی کشیدگیوں کومٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔

دیکھو! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہناان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔

دیکھو! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔

اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔

نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔

اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا۔

فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔

کیونکہ اگریہ خالی چھوڑ دیا گیا توپھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔

وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔

اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔

وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔

تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔

دیکھو!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔

اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔

أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔

دیکھو! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔

اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”
اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔

دیکھو! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ: خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو۔
نہج البلاغہ، مکتوب:47۔
شب انیس رمضان المبارک، شب ضربت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ہے. ان کی وصیت
بازگشت
 

سید عمران

محفلین
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھناا ور ایک دوسرے کی اعانت کرناخبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔

یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہوگئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
آہ،آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نام تو بڑوں کا لیتے ہیں مگر کام اپنی مرضی کے کرتے ہیں۔۔۔
چاہے وہ ان کی تعلیمات کے صریح خلاف ہی کیوں نہ ہوں!!!
 

فاخر رضا

محفلین
آج پھر وہی رات ہے، وہی دل دہلادینے والی رات
وہی رات جب علی پکارے
رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا
آج رات گزر کر آنے والی صبح قیامت کی صبح ہے جب شقی ترین شخص نے امیرالمومنین کے فرق مبارک پر تلوار سے ضربت لگائی
 

سیما علی

لائبریرین
JTvtUZF.jpg

سلام مولائے کائینات پر کہ جنہیں شدّتِ عدل کی وجہ سے شہید کیا گیا !!
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ اقبال کے کچھ اشعار انکی کتاب اسرارِ خودی سے۔

مُسلمِ اوّل شہِ مرداں علی
عشق را سرمایۂ ایماں علی
پہلے مسلمان علی ع ہیں، مردوں کے سردار علی ہیں۔ عشق کیلیے ایمان کا سرمایہ علی ہیں۔

از ولائے دودمانش زندہ ام
در جہاں مثلِ گہر تابندہ ام
میں انکے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں، اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں۔

زمزم ار جوشد ز خاکِ من، ازوست
مے اگر ریزد ز تاکِ من، ازوست
اگر میری خاک سے زمزم ابلتے ہیں تو یہ انہی علی ہی سے ہے اور اگر میری انگور کی شاخ سے مے ٹپکتی ہے تو یہ انہی علی ہی سے ہے۔

از رُخِ اُو فال پیغمبر گرفت
ملّتِ حق از شکوہش فر گرفت
انکے چہرۂ مبارک سے پیغمبر ﷺفال لیا کرتے تھے، ملّتِ حق نے انکی شان و شوکت سے عزت حاصل کی۔

قوّتِ دینِ مُبیں فرمودہ اش
کائنات آئیں پذیر از دودہ اش
آپ (ص) نے علی (ع) کو روشن اور غالب دین کی قوت فرمایا، دنیا نے آپکے خاندان سے آئین اور قانون حاصل کیا۔

مُرسلِ حق کرد نامش بُو تراب
حق ید اللہ خواند در امّ الکتاب
اللہ کے سچے رسولﷺ نے آپ کو ابو تُراب کا نام (لقب) دیا، اللہ نے قرآن میں آپ کو ید اللہ (اللہ کا ہاتھ) قرار دیا۔

ہر کہ دانائے رموزِ زندگیست
سرّ اسمائے علی داند کہ چیست
ہر وہ کہ جو زندگی کے رموز جانتا ہے، جانتا ہے کہ علی کے ناموں کے اسرار کیا ہیں۔

شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد
ایں گِلِ تاریک را اکسیر کرد
اللہ کے شیر نے اس خاک کو تسخیر کیا اور اس تاریک مٹی کو اکسیر کر دیا۔

مرتضیٰ کز تیغِ او حق روشن است
بوتراب از فتح اقلیمِ تن است
مرتضیٰ کہ انکی تلوار سے حق روشن اور آشکار ہوا اور وہ بوتراب یعنی مٹی کے باپ ہیں کہ انہوں نے تن کی سلطنت کو فتح کیا۔

زیرِ پاش اینجا شکوہِ خیبر است
دستِ اُو آنجا قسیمِ کوثر است
اس جگہ یعنی اس دنیا میں خیبر کی شان و شکوت و شکوہ انکے پاؤں کے نیچے ہے اور اُس جہاں میں انکا ہاتھ آبِ کوثر تقسیم کرنے والا ہے۔

ذاتِ اُو دروازہٴ شہرِ علوم
زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
انکی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور انکے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔

(علامہ اقبال، اسرارِ خودی، در شرحِ اسرارِ اسمائے علی مرتضیٰ)

شب ہجرت (لیلۃ المبیت)
قریش نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو پیغمبرؐ ﷺنے اپنے اصحاب کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت علی علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :

میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے ۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔۔۔۔۔
شہادت ِ حضرت علی علیہ اسلام کے چند سبق آموز گوشے

ا۔ شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن:
وہ جس کی بہادری و شجاعت کے کارنامے سن کر آج بھی جبین ِباطل سے خجالت و شرمساری کا پسینہ ٹپکے، جسکی شجاعت کے آگے رستمان دہر کی زور آزمائی بازیچۂ اطفال دکھائی دے۔ جس کے قدموں کی آہٹ سے دل رزمگاہ دہل اٹھے۔ کوہ احد کا جلال وثبات جس کی ثابت قدمی کے سامنے ہیچ نظر آئے۔ وہ خیبر شکن جس نے ہزاروں انسانوں کے قلوب بھی مسخر کئے۔ جس نے بے لگام طاقت و قوت کو شجاعت کے زرّیں اصولوں سے آشنا کیا۔ جس کی تلوار دشمنان اسلام پر بجلی کی مانند کچھ اس انداز سے کوندھی کہ کفر و شرک کے خرمن خس و خاشاک کو خاکستر بناڈالا۔ مرحب و عنتر اور عمر ابن عبدود جیسے سورماؤں کو جس نے ریت پر بنی بے جان تصویروں کی مانند صفحہ ہستی سے مٹادیا بقول علامہ اقبال
”جسکے زور ِحق نواز سے قیصر و کسریٰ کے استبداد کاخاتمہ ہوا”۔ جس طرح حضرت موسیٰ نے دریائے نیل کو ضرب عصاء سے دو حصوں میں تقسیم کرکے دریا کے بیچوں بیچ اپنی قوم کی خاطر راہ سلامتی فراہم کی تھی اُسی طرح کفار قریش کے دریائے لشکر کو جنگ احد میں جس نے ذوالفقار کے وار سے دو نیم کیا اور اپنے آقا رسولۖخداﷺ کو نرغہ اعداء سے صحیح و سلامت باہر لایا۔ باطل ایوانوں میں پرچم ِاسلام بلند کرنا جسکے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ جس نے کل ِایمان کی تجسیم ہوکرجنگِ احزاب میں کل ِکفر کا سر قلم کیا۔فرمان ِ پیغمبرِصادق {ص} کے مطابق جس کی ضربت یوم الخندق جن و انس کی عبادت پر بھاری قرار پائی (مستدرک حاکم جلد ٣ صفحہ ٣٢)جس کے زور بازو کی بدولت دین اسلام نے اپنے سخت ترین مخالفوں کی ناک زمین پر رگڑ دی۔ جس کے سائے کی بھنک پاکر مغلوبیت اور ناکامی اپنا رُخ بدل دیتی تھی۔ ایسا غازی جسکے جلال کے آگے پیچھے فتح و ظفر ایک ادنیٰ باندی کی طرح دست بستہ کھڑی رہتی تھی… وہی شیرِ جبار حیدر ِکرار صاحب ِذوالفقار موت کی تمنا کرے، اپنے شجاعانہ کارناموں پر شہادت کو ترجیح دے۔ ۔
یاالہٰی ! یہ کیسا پر اسرار مجاہد ہے۔ جس کی ”تمنائے شہادت”، ”سمرہائے شجاعت” کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ جہاد میں نمایاں کارکردگی کے باوجود محزون اور فکر مند واپس لوٹتے۔ رسول مختارۖ اپنے جانباز کے چہرے پر خوشی کے آثار نہ پاکر خود بھی فکر میں ڈوب جاتے۔ ایک مرتبہ اپنے عزیز کی غمگینی دیکھ کر آپۖ سے رہا نہ گیا۔ پوچھا: اے علی! تیری جانفشانی ،بہادری،اوربیباکی کے سبب قلوب ِمومنین مسرتِ فتحمندی سے لبریز ہیں اور تمہارے چہرے پر غم کے آثار؟ علی علیہ السلام نے عرض کیا: میرے آقا! کیا میرے نصیب میں شہادت نہیں ہے؟ فرمایا ہاں اے علی علیہ السلام ”تجھے شہادت کا رتبہ ٔبلند نصیب ہوگا۔ پچھلے لوگوں میں شقی ترین شخص وہ گزرا ہے جس نے ناقہ صالح کی کوچین کاٹ دیں اور بعد والوں میں شقی ترین انسان تمہارا قاتل ہوگا۔(تاریخ خطیب بغدادی) حضرت علی مطمئن تو ہوگئے لیکن جام شہادت کی طلب روز بروز بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان کی انیسویں تاریخ کی رات کا آغاز ہوا جس کا پیغمبر صادق ۖ نے حضرت علی علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے حضرت علی علیہ السلام اس شب کو بار بار کلمات دہرارہے تھے ”خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہتا اور نہ مجھے غلط بتایا گیا ہے یہی وہ رات ہے جس کا مجھ سے وعدہ کیا گیا ہے”
خیبر شکن مولا علی نے شہادت کا عظیم مرتبہ پاکر ہی اطمینان کی سانس لی یعنی وہ اپنی مطلوبہ منزل پاگئے۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

ایام شہادت امیر المومنین امام زمانہ کو انکے جد کا پرسہ دیتے ھیں!!!!!!!!

نبؐی کے صدقے عنایت علؑی کی ملتی ہے..
نصیب والوں کو چاہت علیؑ کی ملتی ہے..

ہر اک ولی کو ولایت علیؑ کی ملتی ہے..
قلندروں کو امامت علیؑ کی ملتی ہے
 
Top